لائقِ احترام جناب زاہد مغل نے اپنی ایک پوسٹ میں المورد سے وابستہ کسی محترم بھائی کا ایک بیان نقل کیا، جس میں وہ دستورِ پاکستان کی اساس ’’قراردادِ مقاصد‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر بھارت کے دستور میں بھی عین اِسی مضمون کی کوئی ’قراردادِ مقاصد‘ ہوتی کہ وہاں کا دستور وہ ہوگا جو ’’وشنو‘‘ کا فرمایا ہے اور ’’وشنو‘‘ کے فرمان کے خلاف ملک میں کوئی قانون نہ بنایا جائے گا……. تو بھلا کیا ہوتا! اس سے بعد کی خالی جگہ گویا قاری کو پُر کرنی ہے کہ ’پس ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا اپنے ملک میں یہ دستور بنانا کہ نبی آخر الزمانﷺ کی لائی ہوئی شریعت ہمارے یہاں کا وہ بالاترین قانون ہو گا جس کے معارض کوئی قانون صادر نہ کیا جا سکے گا یا ریاست کے کچھ بااختیارترین عہدے نبی آخرالزمانﷺ کی شریعت ماننے والوں کےلیے مخصوص رہیں گے، کتنی بڑی زیادتی اور غیراخلاقی بات ہے‘! ایسا کر لینے کے بعد گویا ہم مسلمانوں کے لینے کے پیمانے اور ہوئے اور دینے کے اور؛ تاوقتیکہ ہم اسلام کی یہ دستوری حیثیت ختم کر کے اس گناہ سے نکل نہیں آتے جس کا ارتکاب ہم نے اجتماعی طور پر قراردادِ مقاصد کی صورت میں کر لیا ہوا ہے!
اس سے ہٹ کر بھی، المورد کے حضرات بڑی دیر سے یہی نکتہ پیش فرماتے آ رہے ہیں کہ اسلام کو اپنے یہاں کا بالاترین دستور بنانا اس لیے غلط ہے کہ کسی دوسری جگہ پر ہندو کو یہ حق ہو جائے گا کہ وہ ہندومت کو اپنے ملک کا دستور بنائے اور کسی تیسری جگہ پر عیسائی کو یہ حق کہ عیسائیت کو اپنے ملک کا اعلیٰ قانون بنا دے اور چوتھی جگہ پر ایک یہودی کو۔ المورد کے نزدیک گویا یہ اس بات کی ’قطعی‘ دلیل ہوئی کہ اسلام کی مذکورہ دستوری حیثیت مسلم سرزمینوں کے اندر کالعدم ٹھہرا دی جائے اور کاروبارِ سلطنت ایک سراسر سیکولر فارمیٹ پر استوار کروا دیا جائے۔ (گو مسلم سیاستدان اُخروی جوابدہی کو سامنے رکھتے ہوئے اس سیکولر سیٹ اپ کے اندر بھی انفرادی طور پر ’سیکولر‘ نہ ہوں بلکہ اپنی اس انفرادی حیثیت میں اور اپنی جمہوری پوزیشن کا سہارا لے کر وہاں حتی الوسع خدا کی شریعت نافذ کرتے چلے جائیں! یہ ایک الگ لطیفہ ہے اور وشنو کے ماننے والے بھی اپنی انفرادی حیثیت میں اور اپنی جمہوری پوزیشن کا سہارا لے کر اگر وشنو کی شریعت نافذ کرنے لگے، اور جوکہ شاید وہ کر بھی رہے ہیں، تو المورد کے بھائی ہمیں اس سے آگے کس قولِ جدید پر لے کر جائیں گے، یہ موضوع کسی اور وقت کےلیے اٹھا رکھتے ہیں اور فی الحال ان کی اسی ’دلیل‘ کا جائزہ لیتے ہیں جو اوپر ذکر ہوئی)۔یہ حضرات اپنے فریق مخالف (مؤیدینِ قراردادِ مقاصد/ کلاسیکل اسلام کے ماننے والے یہاں کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء) کو ایک ایسی ’دلیل‘ سے باندھنے کی کوشش فرما رہے ہیں جو ان کے ہاں سرے سے دلیل ہی نہیں ہے۔ جبکہ اصول یہ ہے کہ مخالف کو آپ اس دلیل سے لاجواب کریں جسے وہ بھی دلیل مانتا ہو۔
فریقِ مخالف (جمہور علمائے مسلمین) دراصل سیکولرزم کو بھی، جہاں یہ شرعِ اسلام کے خلاف کوئی قانون صادر کرے، ویسا ہی ایک خلافِ حق ضابطہ مانتا ہے جیسا ’وشنو‘ کی شریعت سے ماخوذ کسی قانونی ضابطے کو (اگر سرے سے وشنو کی کوئی شریعت ہو)۔ خلافِ حق ہونے کے معاملہ میں، اصولاً دونوں کا ایک ہی سٹیٹس ہے۔ کیونکہ انسانی معاملات کو چلانے کےلیے اور انسانوں کے مابین عند النزاع حَکَم ٹھہرنے کےلیے ’’ حق‘‘ ہمارے نزدیک صرف نبی آخر الزمانﷺ کی شریعت ہے اور اس سے متصادم ہر چیز ’’خلافِ حق‘‘، خواہ اس کا مصدر انسان ہو یا کوئی مافوق الفطری ہستی۔ ہاں ’’خلافِ حق‘‘ اشیاء میں کوئی چیز زیادہ قابل اجتناب ہو اور کوئی چیز کم، تو وہ الگ بات ہے اور ایسی کسی بحث کی پوری گنجائش ہے۔
اس لحاظ سے، جہاں شرعِ اسلام کی اقامت ممکن نہیں اور چناؤ ہی وہاں ایک ’’سیکولر ریاست‘‘ اور ’’ہندو ریاست‘‘ کے مابین ہو۔ وہاں ہم ایک سیکولر سیٹ اپ کو ایک خالص ہندو سیٹ اپ پر ترجیح دے لیں، تو یہ ایک بالکل اور معاملہ ہے۔ ہمارے علماء وہاں سیکولر ریاست کو ترجیح دیں گے تو ’’اھون الشرّین‘‘ (دو شرّوں میں سے کمتر) کو اختیار کرنے کے باب سے، نہ کہ ’باطل‘ کے مقابلے پر ’حق‘ کو اختیار کرنے کے باب سے۔ اور یہ ایک بہت بنیادی فرق ہے جو ہمارے کلاسیکل علماء کے موقف کے حوالے سے لازماً نوٹ ہونا چاہئے۔ پس ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کا ریفرنس ہمارے علماء کے نزدیک صرف ایک ہے اور وہ ہے ’’اسلام‘‘ اور ’’ماسوا اسلام‘‘ کے مابین۔ فَمَاذَا بَعدَ الحَقِّ اِلَّا الضَّلال۔ البتہ سیکولرزم (جہاں شریعتِ خاتم المرسلینﷺ کو بجائےخود بالاتر اتھارٹی نہ ٹھہرا رکھا گیا ہو) اور ہندو ریاست کے مابین موازنہ ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کے مابین موازنہ نہیں ہے بلکہ ’’کمتر شر‘‘ اور ’’برتر شر‘‘ کے مابین ہے یا ہو سکتا ہے۔ یہ ہے جمہور علمائے اسلام کی پوزیشن۔
المورد کے محترم بھائی کی دی ہوئی اس ’دلیل‘ کے پیچھے لاشعور میں گویا جو موازنہ ’’سیکولر ریاست‘‘ اور ’’ہندو ریاست‘‘ کے مابین بیٹھا ہوا ہے وہ ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کا موازنہ ہے! اس ذہنی پراسیس سے گزرے بغیر آپ اس کو ’دلیل‘ کے طور پر پیش کر کے اپنے اردگرد فاتحانہ نظروں سے دیکھنے کی کوشش فرما ہی نہیں سکتے۔ جبکہ جمہور علماء اس پہلے نکتے پر ہی آپ کے ساتھ نہیں؛ جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی۔ چنانچہ ہمارے اس بھائی نے پہلے اس بات کو ایک مسلّمہ جانا کہ ’’سیکولر ریاست‘‘ اور ’’ہندو ریاست‘‘ کے مابین جو موازنہ ہے وہ سراسر ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کا موازنہ ہے (نہ کہ ’’کمتر برائی‘‘ اور ’’برتر برائی‘‘ کا)۔ پھر جب یہ اتنی ’قطعی‘ اور ’آپ سے آپ ثابت‘ ایک دلیل ٹھہر گئی تو اس ذہنی پراسیس نے اگلے مرحلے میں یہ ہمت کی کہ ’’ہندو ریاست‘‘ کا لفظ ہٹا کر اس کی جگہ ’’اسلامی ریاست‘‘ کا لفظ رکھ دیا جبکہ اپنی باقی ایکویشن ویسے کی ویسے رہنے دی۔ یعنی وہ موازنہ جو ’’سیکولر ریاست‘‘ اور ’’ہندو ریاست‘‘ کے مابین ’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ کا موازنہ تھا… وہ ’’سیکولر ریاست‘‘ اور ’’اسلامی ریاست‘‘ کے مابین بھی جوں کا توں رہا! اور یہ ہوئی دلیل بالائے دلیل!
میرے محترم بھائیو! ہمیں دلیل دو اللہ کی کتاب سے، اس کے رسولﷺ کی سنت سے (سنت کے اس مفہوم کے تحت جو ہمارے لیے بائنڈنگ ہے اور جوکہ صحابہ تا فقہاء ہمارے ہاں چودہ سو سال سے چلا آتا ہے) اور ہمارے فقہاء کے علمی قواعد اور دساتیر سے۔ رہ گیا باطل ہونے کے معاملہ میں ’’اسلامی ریاست‘‘ کو ’’ہندو ریاست‘‘ پر قیاس کروانا، جس سے پہلے شرابِ ہیومن ازم کی بھاری خوراکیں لی ہونا ضروری ہو، تو یہ اگر آپ کے نزدیک کوئی برہان ہے تو اسے اپنے مابین متداول رکھیے۔ ہمارے اصولِ فقہ کے ادلہ معروف ہیں؛ اور ہمیں آپ انہی سے پابند کیجئے۔
تحریر :تم نے اسلام کو دستور بنایا تو وہ اپنے کفر کو دستور بنا لیں گے، حامد کمال الدین، سہ ماہی ایقاظ