٭عقل پر مبنی اجتماعی نظم ڈاگمیٹک نہیں ہوتا
جب ان باتوں کا جواب نہیں بنتا تو عقل پرست و سیکولر لوگ ایک نئے قسم کا داؤ پیچ کھیلتے ہیں اور وہ یہ کہ ‘مذہبی عقیدہ چونکہ معین،غیر متبدل وآفاقی ہونے کا مدعی ہوتا ہے لٰہذا یہ اپنے ماننے والوں میں ڈاگمیٹک (متشدد) رویے کو فروغ دیتا ہے جو بالآخر نزاع وجنگ وجدل کی کیفیت اختیار جاتا ہے، لٰہذا ضروری ہے کہ ہم اجتماعی نظم مذہبی عقیدے کی بجائے عقل پر استوار کریں کیونکہ عقلی نظریات مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتے’۔ اگر واقعی اسی بنیاد پر یہ لوگ مذہب کو رد کرتے ہیں تو لازم ہے کہ فوراً سے قبل عقلی تراشیدہ نطریات (بشمول غالب لبرل سیکولرازم) کو بھی رد کردیں کیونکہ عقلی نظریات بھی انتہائی متشدد اور کنزرویٹو ہوتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آزادی کی نیلم پری کے پرستار اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں کہ ‘ پوری انسانیت’ کو’اس مقدس خیروسچ’ سے بہراور کرائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اشتراکیت کا چمپئن روس ہو یا ہیومن رائٹس کاداعی امریکہ،ہر ایک ‘انسانیت کی بھلائی’ کےنام پر (in the name of people) اپنے نظریات کے فروغ کے لیے لازماً’علم جہاد’ بلند کرتاہے۔ ان عقلی تراشیدہ نظریات کی تین سوسالہ تاریخ بتاتی ہے کہ عقل کے نام پر جتنے انسانوں کا قتل عام کیاگیا،جس منظم طریقے سے پوری پوری اقوام کی نسل کشی کردی گئی ، جس استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لیکر پورے پورے براعظم ہڑپ کرلیے گئے، جس طرح خود اپنی تراشیدہ اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں اس کی نظیر پوری انسانی تاریخ مل کر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آخر یہ ڈاگمیٹزم نہیں تو اور کیا ہے؟
پھر یہ ڈاگمیٹزم کوئی اتفاقی امر یا کسی انسانی اخلاقی کمزوری کا اظہار نہیں بلکہ اس کی خالص علمی بنیادیں موجود ہیں۔ درحقیقت عقل کا نعرہ لگانے والا خود کو’عقل کے جبر’ کا شکار پاتاہے۔ ‘عقل کے ہر مخصوص تصور’ پر یقین رکھنے کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس مخصوص تصور پر ‘یقین نہیں رکھتے’ خود بخود ‘غیرعقلی’ (irrational) ٹھہرتے ہیں ، یعنی وہ ‘ دائرہ عقل سے باہر’ اور عقل کے دشمن قرار پاتےہیں، اور چونکہ اس فریم ورک میں ‘انسانیت (civilization) ‘فروغ عقلیت کے مخصوص تصور کا ہم معنی ہوتا ہے لٰہذا ‘عقل کےدشمن’ ، ‘انسانیت کے دشمن’ قرار پاتے ہیں (چنانچہ یہی وجہ ہے کہ عقل کے نام لیوا انتہائی ڈاگمیٹک اور کنزرویٹو ہوتے ہیں، اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ہیں)۔ مثلاً جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبرل سیکولرز کے نزدیک وہ غیر عقلی،جاہل اور وحشی لوگ ہیں۔ اسی طرح جولوگ مادی طبقاتی کشمکش کے قائل نہیں اشتراکی سیکولروں کےنزدیک وہ عقل کے دشمن ہیں وغیرہ۔ ہر ‘عقلی نظریہ’ ایک مخصوص انفرادی و اجتماعی رویے کو فروغ دیتا ہے اور دنیا کاکوئی نظریہ ‘عقلی’ (civilized) اور غیر عقلی (barbaric) رویے کو کبھی مساوی اقداری حیثیت نہیں دیتا۔ ‘عقل’ تقاضا کرتی ہے کہ ‘غیرعقلی’ کو مغلوب کرکے چھوڑا جائے کیونکہ وہ تو ہے ہی غیر عقلی، اس کے غالب وجود کا کیا مطلب، ایسا غالب وجود تو ‘عقل اور انسانیت’ کےلیے خطرہ ہے ، لہٰذا ‘تحفظ عقل’ کے لیے ‘غیرعقلی’ کی مغلوبیت ناگزیر ہے۔ جب تک ‘غیر’ کا غالب وجود باقی ہے ، ‘عقل’ کو خطرہ لاحق رہتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے ریڈانڈینز کا قتل عام اسی بنیاد پر روا رکھا کہ ( جان لاک اور جیفرسن کے الفاظ میں ) یہ ہیومن نہیں بھینسے اور بھیڑیے ہیں۔ اسی طرح آج امریکہ مجاہدین اور اس کے حواریوں کو نان ہیومن سمجھ کر مارتا ہے۔
یہ دلیل دیتے وقت عقل پرست پس پردہ یہ جھانسا دینے کی کوشش کرتے ہیں گویا دنیا میں عقل کا کوئی ایک ہی تصور ہے جس پر ساری دنیا ایمان رکھتی ہے لٰہذا اس کی بنیاد پر کوئی اختلاف نہیں ہوگا، ظاہر بات ہے یہ توصرف ایک سفید جھوٹ ہے کیونکہ اس دنیا میں عقل کے اتنے ہی تصورات ممکن ہیں جتنی انسانی عقلیں موجود ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئی آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصور عقلیت کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کی جاسکتی ہے لٰہذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازماً کشاکش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئی حل ممکن نہیں ۔ گویا یہاں ‘الجھادماض الی یوم القیامۃ’ (جہاد تو روز قیامت تک جاری رہے گا) والی کیفیت برپارہتی ہے۔
٭عقل پر مبنی نظام رفع اختلاف کا بہتر انتظام ہے۔
اس ضمن میں عقل پرست اور سیکولر لوگ ایک دوسری قسم کی توجیہ بھی پیش کرتے ہیں ، وہ یہ کہ ‘چونکہ عقلی تراشیدہ نظام تجربات کی روشنی میں متبدل ہوتے ہیں لٰہذا یہ رفع نزاع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتےہیں’۔ مگر یہ محض لفاظی ہے کیونکہ اگر امر واقعی ایسا ہی ہے تو تین سوسال میں ان کےآپسی اختلافات کیوں رفع نہ ہوگئے؟ کیا یہ سیکولر لوگ دوسوسال قبل’دریافت ہونے والے’ ہیومن رائٹس سے دستبردار ہونے کےلیے تیار ہیں؟ دستبردار ہونا تو درکنار ان ہیومن رائٹس کے حوالے سے ان کی ڈاگمیٹزم کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اگرچہ آج ان کے اکابرین فلاسفہ خود مانتے ہیں کہ ہیومن رائٹس اور جمہوریت وغیرہ کسی شے کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ پیش کرنا ممکن نہیں البتہ یہ ہمیں جمالیاتی طور پر اچھے لگتے ہیں لٰہذا جاری وساری رہنا چاہیے۔ مثلاً مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی چارلس ٹیلر (Charles Taylor) کہتا ہے کہ آزادی ،مساوات و ترقی کا فروغ ہماری لبرل معاشرت کے ارتقاء کی تاریخ ہے لٰہذا ، ان کا فروغ ہماری شناخت کے ہم معنی ہے۔ ہو کہتا ہے کہ ان اقدار سے میرا لگاؤ ایسا ہی ہے جیسے کلاسیکی موسیقی، آرٹ،ادب اور رقص سے لگاؤ ہے۔ یہ لگاؤ ہی ٹیلر کو ٹیلر بناتےہیں اور ان اقدار سےغداری اپنی تاریخ اور تہذیب سے غداری ہے۔ رارٹی (Rorty) کہتا ہے کہ اگرچہ میں آزادی کی کوئی آفاقی عقلی توجیہ نہیں دے سکتا البتہ یہ مجھے جمالیاتی سطح پر اچھی لگتی ہے۔ تو جناب’اصول’ (مابعد الطبیعیاتی ایمان) تو آپ کےیہاں بھی نہیں بدلتے تو پھر فوقیت کی وجہ جواز کیا رہی؟
پھر معاملہ اتنا ہی نہیں جتنا اوپر بیان کیا گیا بلکہ یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ اہل اسلام کے پاس کوئی ‘ ایسی بنیاد’ (قرآن و سنت) تو موجود ہے جس کے آگے وہ سب سرنگوں ہونے کےلیے تیار ہیں، جس کی بات ثابت ومتحقق ہوجانے کےبعد اس کے آگے کوئی لب کشائی کی اور ‘ اپنی رائے دینے’ کی جرات بھی نہیں کرتا(یہی وجہ ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ قطعی الدلات ہونے کی بنا پر متفق علیہ ہے جب کہ دوسرا حصہ مجتہد فیہ امور پر مبنی ہونے کی وجہ سے اختلافات کا دائرہ رہا ہے۔) اس کے مقابلے میں ان عقل پرستوں کے پاس تو ‘ سرے سے رفع نزاع کی کوئی بنیاد ہے ہی نہیں’۔ ہم پھر کہے دیتے ہیں ‘سرے سے کوئی بنیاد ہے ہی نہیں’۔ یہاں عقلی لم ٹٹول ہے اور بس، اور چونکہ عقلی تصورات بے شمار ہیں نیز ان میں تمیز وترجیح کا پیمانہ ناممکن ہے، لہٰذا یہاں تمام تر اختلافات ابدی ہیں کہ یہاں کچھ بھی قطعی طور پر طے کرنا ممکن نہیں۔ ‘وقت اورمطلب’ پڑنے پر یہ لوگ خود اپنی گھڑی ہوئی ہر بات اور اصول کو اپنے ہی پیروں تلے روند کر آگے بڑھ جانے میں کوئی مضائقہ محسوس نہیں کرتے کہ آج ‘ ان کی عقل میں ارتقاء ہوگیا’۔ اور چونکہ یہ اپنے نفس کے سوا کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہوتے(اور نفس بھی وہ جو شہوت وغضب سے مغلوب ہے) لہٰذا یہ خود کو ہر اخلاقی خلاف ورزی کے لیےمعاف کردینے میں حق بجانب سمجھتے ہیں۔(رارٹی کہتا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم نے ریڈانڈینز کا قتل عام کیا لیکن چونکہ ہم خودمختار ہیں اور کسی کو جوابدہ نہیں لہٰذا یہ ہمارا حق ہے کہ خود کو معاف کردیں۔)
درحقیقت ہر نظام زندگی میں اپنے داخلی اختلافات کو سمونے اور حل کرنے کی ایک حد تک لچک اور صلاحیت موجود ہوتی ہے، اور اسلامی تاریخ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں بے شمار کلامی،فقہی و صوفی گروہ وسلسلے اپنے اپنے طرز پر کام کرتے رہے اور آج بھی کرتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں خلافت اسلامیہ میں ذمی بھی اسلام کے عطاکردہ حقوق کے تحت موج سے زندگی گزارتے رہے ہیں(یہی وجہ ہے کہ اندلس میں خلافت اسلامی کےسقوط کے بعد ذمیوں نے پوری دنیا چھوڑ کر خلافت عثمانیہ کے زیرسایہ رہنے کوترجیح دی)۔ یقیناً اسلام کی قائم کردہ ایمپائر میں بھر رحمت اور وسیع الظرفی موجود ہے، لیکن اسلام اس وسیع الظرفی کو کسی خارجی پیمانے (مثلاً میومن رائٹس) پر نہیں قرآن وسنت پر تول کر پرکھتاہے۔ اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ ‘پھر یہ اسلامی گروہ آپس میں لڑتے ہوئے کیوں پائے جاتے ہیں’ تو اس کا جواب ‘فی الحال ایک پختہ(mature) اسلامی خلافت (ایسی ریاست جو رسول اللہؐ کی سیاسی نیابت سرانجام دے) کا وجود نہ ہونا ہے’۔ جب ریاستی نظم نہ ہوتو انفرادیت ومعاشرت دونوں انتشار کا شکار ہونے لگتی ہیں، خلیفہ کو انہی معنی میں ظل اللہ کہاجاتا ہےکہ وہ تمام دینی کام کو سمودیتا ہے نیز انتشار پھیلانے والی قوتوں کو ریگولیٹ کرتاہے۔ اگر آج لبرل سیکولر سرمایہ دارانہ ریاست لبرل معاشرتی ومعاشی تنظیم (سول سوسائٹی ومارکیٹ) کی پشت پناہی اور ریگولیشن سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ زمین بوس ہوجائے، مثلاً اگر یہ ڈاکٹری ، وکالت، تعلیم،بینکوں،کمپنیوں وغیرہ پر نظر نہ رکھے تو آپ دیکھ لیں گے کہ کس طرح ڈاکٹر،وکیل،سکول کالج ویونیورسٹیاں نیز مالیاتی ادارے عوام کا مال لوٹتے ہیں نیز کس طرح یہ کرپشن کا شکار اور باہمی طور پر دست وگریبان ہوتے ہیں ( ان کے نظارے تو آئے دن ہم اس قدر سخت ریگولیشن کے باوجود بھی دیکھتے رہتےہیں)۔ پس جب پختہ اسلامی خلافت قائم ہوجائے گی تو یہ چھوٹے چھوٹے گروہ خود بخودڈسپلن اور سیدھے (align) ہوجائیں گے۔
جاری ہے