مرورِ زمانہ کے ساتھ ساتھ کثیر رجال ِ کاراور علمائے صدق نے مسلمانوں کے’ فرزندان ‘کی جانب سے جھگڑوں سے لبریز اِن پے در پے حملوں کا خوب مقابلہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگیاں اسلام کی نصرت کے لیے خرچ کر دیں اور دعوت ، مکالمہ ، تنقیداور ملحدوں کے شبہات کا لبادہ چاک کرنے کے ذریعے اِن ’فرزندان ِ مسلمین ‘ کی جانب سے اِس الحادی گھٹا کے خاتمہ کے لیے اپنے اوقات ِ کارنذر کررہے ہیں۔
دورِ حاضر میں الحادی فتنہ سےبچاؤ کیلئے مجوزہ حکمت ِ عملی:
پہلا قاعدہ :اسلام کے اصولوں پر یقین کو تقویت دینے کے چند وسائل:
۱۔ اللہ عز وجل کی کائناتی آیات اورنشانیوں پر تفکر کی عبادت کااحیاء اور فروغ:اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتاب میں اس بات کی خوب وضاحت ہے کہ تفکر اور بڑے بڑے حقائق کے ادراک کے مابین بڑاگہرا تعلق اور ربط ہے۔ عبادالرحما ن کی نشانیوں کے متعلق فرمان باری تعالی ہے : ’’جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی پہلوؤں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پرودگار تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔تو پاک ہے ۔پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے ۔‘‘(آل عمران3: 191)
عبادت ِ تفکر کے احیاء کے چند وسائل:وڈیو اور قابل ِ مطالعہ ایسے مواد کی نشر و اشاعت جو تفکر و تأمل کے میدان کی ضروریات پوری کر سکے۔
اس میدان میں لکھی گئی مباحث یا وڈیو مواد میں سب سے اچھی تصدیر پر مقابلہ جات کی داغ بیل۔
۲۔ مخصوص کتب پر بالاہتمام توجہ:ایسی کتب کو خصوصی توجہ دی جائے جن میں اصولِ اسلام کی صحت
کے دلائل کو بیان کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اس میدان میں قدیم و جدیددور کے علماء نے کتب تحریر فرمائی ہیں ۔ ہمیں متقدمین میں بہتیرے علماء کرام ملتے ہیں جنہوں نے ’’اعجاز القرآن ‘‘ کی بابت لکھا۔ مثلاً خطابی ؒ، رمانی ؒ،باقلانیؒ ،جرجانیؒ وغیرہ ۔ البتہ اس حوالے سے دور ِ حاضر کی کچھ کتب یہ ہیں:
کتاب النبأ العظیم اور کتاب مدخل الیٰ القرآن الکریم از محمد عبد اللہ دراز
کتاب براھین وأدلّۃ ایمانیۃ از عبد الرحمن حسن حبنکۃ المیدانی
کتاب نبوّۃ محمد ﷺ (من الشک الیٰ الیقین) از فاضل السامرانی
کتاب الأ دلّۃ العقلیۃ النقلیۃ علیٰ أصول الاعتقاداز سعود العریفی
کتاب کامل الصورۃ از أحمد یوسف السید
۳۔ دعوت ، تعلیم اور عمل میں قلوب کی عبادت کا اہتمام:
بلا شبہ سیدناابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام اللہ عز وجل
کی جانب انابت کرنے ،اسی پر توکل کرنے اور اسی کے سامنے خشوع کرنے والے تھے۔ لہذا جب قوم اللہ تبارک و تعالیٰ کی بابت آپ علیہ السلام سے جھگڑی ‘ آپ ؑ نے قوم سے کہا:
’’ آپ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حالانکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتلایاہے ‘‘(الانعام ۶:۸۰ )
۴
۔
نومسلموں کے قصوں کی نشر و اشاعت:ا
س میں کچھ شک نہیں کہ ایمانی راحت کے حصول میں اِن قصوں کی بے حد تاثیر ہے ۔ خصوصا اس وقت جب آپ ان نومسلموںکی خصوصیات کے تنوع اور علاقوں کے فرق کو بغور دیکھتے ہیں ۔
دوسرا قاعدہ :ن
اقدانہ عقل کی افزائش: اعتراضات وشکوک و شبہات کی منطقی و عقلی جانچ پرکھ کو رواج دینا
۔
تیسرا قاعدہ :
شرعی اصولوں کا استحکام :عقیدہ ، فقہ ، اصول فقہ ، اصطلاحات ِ حدیث ، زبان اور علوم ِ قرآن وغیرہ وغیرہ ایسے سب شرعی علوم کی تعلیم سے یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے ۔
چوتھا قاعدہ
:استدلال ، معرفت اور موقفات کے لیے مصادر (Sources)کی حد بندی اور تعین
پانچواں قاعدہ
: شبہات پربات چیت کے لیے ماہرانہ صلاحیت سے عاری (Non-specialist)لوگوں سے احتیاط
چھٹا قاعدہ
: ردّ ِ شبہات کی محتاط تعلیم:شبہات اور اشکالات کی تردید میں لکھی گئی کتب کی چند شروط کے تحت محتاط تعلیم دینی چاہیے ۔ یہ شروط ہیں:
1
۔یہ کہ شبہات تازہ اور عام پھیلے ہوئے ہوں اوریہ کتب سر عام پیش آمدہ خطرات کی متعلق ہوں ۔
2
۔یہ کہ کتب کا اسلوب ِ نگارش کچھ اس طرح ہوکہ شبہہ کو بیان کرنے میں وہ مجمل ہو۔ لیکن شبہہ کی تردید میں وہ تفصیلی گفتگو کرے۔ کیونکہ بعض لکھاری شبہہ کو پیش کرنے میں تفصیل برتتے ہیں اور اس شبہہ کے حوالہ جات اور اصولوں تک کا ذکر کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ اسلوب خصوصی لوگوں کے لیے مناسب ہے ۔ لیکن ہم سرِ دست عمومی طبقہ کی حفاظت اور بچاؤ کی بابت گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان عمومی لوگوں کو تفصیل در تفصیل کے ساتھ شبہات پڑھوانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔
3
۔یہ کہ شبہہ کی تردید محکم اور مضبوط ہو۔ جو ماہرانہ صلاحیتوں کے حامل لوگوں سے ہی ملنا ‘ متوقع ہوتی ہے ۔ حالیہ شبہات کی تردید کے میدان میں کچھ مناسب کتب درج ذیل ہیں جن کو شبہات سے تحفظ کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے :
کتاب السنّۃ و مکانتھا فی التشریع الاسلامی از مصطفی السباعی
کتاب کامل الصورۃ (دونوں جزء)
ساتواں قاعدہ
:فکری اور پراثرہونے کے اعتبار سے مفید اجتماعی پروگرامز کی حوصلہ افزائی اورتقویت
آٹھواں قاعدہ
:دعا اور آہ و زاری (۶)
نواں قاعدہ
:د عوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت:باطل شبہات و اشکالات کی تردید میں لکھی گئی کتب اور عقیدہ کی کتب کی طباعت اور سٹیلائٹ چینلز پر علمی پروگرامز کی تقویت کے ضمن میں دعوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت خصوصی توجہ کا مرکز رہے ۔ یہ کتب اور پروگرامز عظمت ِ الٰہی کے حامل ہوں اور محاسن ِ اسلام اور توحید ِ ربوبیت پر خصوصی روشنی ڈالیں ۔
دسواں قاعدہ : شبہات کی تردیدکی باقاعدہ تعلیم اور ٹریننگ :شبہات کی تردید اور اللہ کے دین کے دفاع پر اپنے نوجوانوں کی خصوصی ٹریننگ اور مشق کرائی جائے ۔ یہ چیز نوجوانوں کو عقیدہ کی صحیح کتب کی تعلیم دے کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔ جولوگ لازمی کتب کی خریدی نہیں کر سکتے ‘ کتب کی فراہمی کی خاطر ان کے لیے لائبریریوں کے قیام کو عمل میں لایاجائے ۔
گیارھواں قاعدہ:علمائے امت کی خصوصی ذمہ داری :اہل علم اور علمائے امت نوجوان بچوں اور بچیوں کو ہولناک خطرات سے متنبہ کریں ۔ دنیا کے زوال اور دنیا پر عدم ِ انحصار کی یاد دہانی اصحاب ِ تربیت کا شغل ہونا چاہیے ۔ یہاں تک وہ اپنا کردار ادا کردیں اور توحید و ایمان کا پیغام پہنچادیں۔ (۷)
٭شبہات میں گھر جانے کے بعد بچاؤکے قواعد
1۔پہلا قاعدہ :ناقدانہ سوچ و فکر کا استعمال اور معلومات و افکار کو بروئے کار لانے میں علمی ثقاہت و پختگی:یہ ضروری ہے کہ کسی قابل ِ نظر اور لائق ِ مناقشہ قیمتی معلومات کو استعمال میں نہ لایا جائے ۔ جب تک کہ اس میں علمی توثیق کا ادنیٰ ترین درجہ میسر نہ آجائے ۔
2۔
دوسرا قاعدہ :ماہرانہ صلاحیتوں کے حاملین سے سوال اور استفادہ
3تیسرا قاعدہ :مشکل مسئلہ کی تردید کے بارے میں سابقہ کاموں اور جہود کی جانب مراجعت
4چوتھا قاعدہ :متشابہ کو محکم پر پیش کرنا :بلاشبہ محکم و متشابہ کا مسئلہ قرآن فہمی کے اہم منہجی امور میں سے ہے ۔ یہی مسئلہ راسخین فی العلم اور بھٹکنے والوں کے مابین فرق کرنے والا ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرما چکے ہیں : ’’وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ‘‘ (آل عمران ۳: ۷)
امام ابن کثیر ؒ اس آیت کے معنی کا خلاصہ قیمتی اورواضح کلام میں یوں پیش کرتے ہیں : ’’ اللہ عز وجل نے قرآن کریم کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ {اٰ یٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ}ہے ۔ یعنی اپنی دلالت میں ایسے واضح دلائل کہ کسی ایک شخص کو ان کی بابت التباس نہیں ۔ اسی قرآن کی کچھ دیگر آیات ہیں جن کی دلالت کی بابت کثیر یا چند لوگوںکو کچھ اشتباہ ہوجاتا ہے ۔ جس شخص نے قرآن کے متشابہ حصہ کو واضح حصہ کی جانب پیش کردیا اوراپنے ہاں قرآن کے محکم کو متشابہ پر حاکم بنا دیا ‘ وہ ہدایت پا گیا ۔ جس نے برعکس کیا تو وہ برعکس نتیجہ پائے گا ۔ اسی لیے اللہ عز وجل نے { ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ} کے لفظ ارشاد فرمائے ہیں ۔ یعنی یہ قرآن کا اصل ہیں جن کی جانب اشتباہ کے وقت رجوع کیا جائے۔ {وَاُخَرُ مُتَشٰبِھٰتٌ}یعنی ایسی آیات جن کی دلالت اور مفہوم محکم کی موافقت کا احتمال رکھتی ہیں ۔ البتہ کبھی کبھی یہ آیات اپنے الفاظ اور ترکیب کی حیثیت سے کسی دوسری شے کا احتمال رکھتی ہیں لیکن مراد کے حیثیت سے یہ قطعا کسی دوسری شے کا احتمال نہیں رکھتی ہیں ۔ ‘‘
مثلاً : ایک عیسائی آکر کہتاہے : تمہارا قرآن کریم متعدد معبودوں کی خبر دیتا ہے ۔ جس کی دلیل اللہ عز وجل کا یہ فرمان ہے : اِ نَّا نَحْنُ نَزَّ لْنَا الذِّ کْرَ وَ اِ نَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ’’ ہم نے ہی اس قرآن کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں‘‘( النحل:۹)
اس آیت میں وجۂ دلالت یہ الفاظ و کلمات ہیں : اِنَّا (ہم) ،نَحْنُ (ہم )، نَا (ہم ) اور حَافِظُوْنَ میں جمع کی واؤ۔ یہ سب کلمات جمع پر دلالت کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ سب ضمائر (Pronouns)جیسے جمع کا مفہوم دیتی ہیں ‘ ویسے ہی یہ تعظیم کامفہوم دیتی ہیں ۔ جیساکہ بادشاہ اپنے بارے میں تعظیم کے طور پر جمع کے کلمات بولتے ہیں ۔ لیکن جب ہم قرآن کریم میں محکم اور بیّن حکم کو دیکھتے ہیں تو وہ توحید ہے ۔ فرمان ِ خداوندی ہے :
’’ اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز آجائو کہ تمہارے لئے بہتری ہے،اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے (النساء:171)
آپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک(ہی) ہے‘‘(الاخلاص : ۱)
متشابہہ کو محکم واضح آیات پر پیش کرنے سے جھگڑا اور فساد باطل ہو گیا ۔
5
پانچواں قاعدہ
:ایسے شبہہ سے توقف جس کا جواب جانا پہچانااور معروف نہ ہو۔
6
چھٹا قاعدہ
:لادینی فکر یا جسے جھوٹ کے طور پر قرآنی فکر وغیرہ کا نام دیاجاتا ہے ‘ اس کی جانب منتقلی کے منفی نتائج سے آگہی اور واقفیت
7
ساتواں قاعدہ
: شبہات اور وسوسات سے نمٹنے میں فرق:بلاشبہ وسوسات ‘ شبہات سے قدرے مختلف ہوتے ہیں ۔ شبہات کا جواب حاصل کرلینے سے شبہات کا علاج ہوجاتاہے ۔جب جواب محکم اور مضبوط ہو‘ تو شبہات زائل اور نابود ہو جاتے ہیں ۔ البتہ وسوسات کا حل جواب میں نہیں ہوتا ہے ۔ یہ جواب سے ختم نہیں ہوتے ۔اگرچہ سو مرتبہ جواب کا تکرار کر لیا جائے ۔ ان کا حل فقط یہ ہے کہ ان سے اعراض کرکے رہا جائے ۔
شبہہ کے علامات میں سے ایک علامت یہ ہے کہ شبہہ کامنبع و مصدر اکثر و بیشتر محدود ہوتا ہے ۔ یاتو کوئی وڈیوکلپ ہوتا ہے یا کتاب یا کوئی دوست وغیرہ ۔ جبکہ وسوسات میں اصول یہ ہے کہ یہ انسانی خیالات کے ذریعے آتے ہیں ۔ جن کو انسان اپنے اندر محسوس کرتاہے ۔ اکثر و بیشتر اوقات ِ عباد ت میں آتے ہیں ۔
شبہات میں مبتلا لوگوں سے مکالمہ کے قواعد
—
پہلاقاعدہ
–مکالمہ سے قبل مقابل مکالمہ کرنے والے کے مذہب کا استیعاب اور اس کے میسر آڈیوزووڈیوزمواد کا جائزہ
—
دوسرا قاعدہ
–مکالمہ میں مشترکہ نکتہ پر اتفاق
—
تیسرا قاعدہ
–محل ِ نزاع نکتہ کی لکھت
بعض مباحثوں میں مکالمہ کرنے والوں کو کچھ وقت کے بعد جا کر ادراک ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے نکتہ پر بات کرتے رہے جس پر وہ متفق تھے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہے ۔ انٹرنیٹ کے بیشتر نیٹ ورکس پریہ بہتیرا ہوتا ہے کہ دلی کینہ کے باعث فضا بے حد پراگندا رہتی ہے ۔ لہذا دونوں مکالمہ کرنے والوں کے لیے یہ نہایت اچھا ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی بات بحسن وخوبی سمجھیں، محل ِ نزاع نکتہ کو متعین کریں اور واضح ہدف کی جانب گامزن رہیں ۔
—
چوتھا قاعدہ
–فریق مخالف کے کلام میں خوب دقت ِ نظری اور ناقدانہ جائزہ نیز کلام میں درج اشکالات کی گہری خبرگیری
—
پانچواں قاعدہ
–صرف دفاع پر ہی اکتفاء نہ کیاجائے ۔
—
چھٹاقاعدہ-
-باطل مقدمات کو تسلیم نہ کیا جائے۔باطل مقدمات یا مبادیات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ فریق ِ مخالف بہت جلد آپ پر باطل نتائج لازم ٹھہرا لے گا ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم باطل مقدمات کو ابتداء سے ہی قبول نہ کریں ۔ اس طرح سے دراصل آپ نے صاحب ِ شبہہ کا راستہ ہی اُدھیڑاور اُکھیڑ دیا ہے ۔ مثلاًبعض ملحدین بحث و مباحثے میں ( آ پ کو پھانسنے کے لیے )سیڑھی چڑھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں : ہر موجود شے کا کوئی نہ کوئی مُوجِد (بنانے والا ) ہوتا ہے ۔ کیا ایسانہیں ہے؟ اگر آپ کہہ دیتے ہیں : ہاں ، کیوں نہیں ، ایسے ہی ہے ۔ تو وہ آپ سے کہے گا : اللہ موجود ہے لہذا اس کا موجد کون ہے ؟ حالانکہ اس بابت درست طریقہ یہ ہے کہ آپ بنیادی طور پر قاعدہ اور مقدمہ کو تسلیم نہ کریں ۔ کیونکہ یہ مقدمہ درست ہی نہیں ہے ۔ صحیح مقدمہ اس بابت یوں ہے : ہر حادث (فنا ہونے والی شے ) کا کوئی نہ کوئی محدث(بانی)ہے ۔ البتہ اللہ عز وجل حادث نہیں ہے ۔ لہذا اللہ عز وجل کے احداث ، خلق اور ایجاد کا سوال ہی ختم ہوگیا ۔
—
ساتواں قاعدہ
— اگر آپ دعویدار ہیں تو دلیل آپ کے ذمہ ہے ۔ اور اگر کہیں سے نقل کرکے پیش کررہے ہیں ‘ تو اس نقل کی صحت کی ذمہ داری آپ پر ہے ۔
—
آٹھواں قاعدہ –
-نصوص شرعی سے اخذ شدہ استدلال کی خبر داری اور متعلقہ باب کی جمیع نصوص کے احاطہ کی ضرورت پر ہوشمندی
حواشی و حوالہ جات:
(1)دیکھیے : ملاذ الملحدین و اللادینیین العرب از عادل قلقیلی
(ایڈریس:http://rsif.me/of375)
(2)دیکھیے الالحاد فی العالم العربی : لما ذا تخلی البعض عن الدین ؟ (قسم المتابعۃ الاعلامیۃ ۔ بی بی سی )از أحمد نور
(3)دیکھیے الالحاد (اسبابہ، طبائعہ ، مفاسدہ ، اسباب ظھورہ ، علاجہ ) از محمد الخضر حسین
(4)دیکھیے الالحاد (اسبابہ و علاجہ)از ابو سعید الجزائری
(5)دیکھیے الالحاد (اسبابہ، طبائعہ ، مفاسدہ ، اسباب ظھورہ ، علاجہ ) از محمد الخضر حسین
(6)دیکھیے : باسغات از أحمدالسید
(7)دیکھیے : منظمات عالمیۃ تنشر الالحاد بیننا از قاری عبد الباسط
عربی تحریر :ایمان بنت ابراہیم الرشید ترجمہ : محمد عدنان