سیکولر لوگوں کا مذہب پر اعتراض ھے کہ مذہب کے نتیجے میں نزاع و افتراق پیدا ھوتا ھے،
لہذا اسے ترک کرکے عقلی بنیادوں پر معاشرت و ریاست تعمیر کی جانی چاھئے۔ مگر سیکولرازم کی تین سو سال تاریخ ثابت کرتی ھے کہ عقل کے نام پر تراشیدہ نظریات کی آڑ میں جتنے انسانوں کا قتل کیا گیا،جس طرح پوری پوری اقوام کی نسل کشی کی گئی، جس قدر استحصال اور لوٹ کھسوٹ سے کام لیاگیا، جس طرح اخلاقی اقدار کی دھجیاں بکھیری گئیں پوری انسانی تاریخ اسکی نظیر پیش کرنے سے قاصر ھے۔آخر سیکولر لوگوں کے اس رویے کی علمی بنیاد کیا ھے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس رویے کی توجیہہ بیان کرنے کیلئے یہ عامیانہ خیال (بلکہ سیکولر لوگوں کی طرف سے عذر) پیش کردیا جاتا ھے کہ اس رویے کی وجہ خود سیکولر یا عقل پرستانہ علمیت میں نہیں بلکہ انسانی کمزوریوں میں پنہاں ھے، یعنی دنیا کا کوئ بھی انسان ذاتی مفادت یا کسی دوسری وجہ کی بنا پر جذبات سے مغلوب ہرکر ایسا کرسکتا ھے۔
درحقیقت یہ مسئلہ اس عذر سے بہت زیادہ گھمبیر ھے اور اس وحشیانہ رویے کی علمی بنیادیں بہت گہری ہیں جس کا ھمارے ان دیسی سیکولر اور عقل پرستوں کو ادراک نھیں۔ بات یہ ھے کہ مذھب کو رد کرکے جب یہ لوگ عقل کے نام پر آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں تو ان میں اس بات پر کوئ اتفاق نہیں ھوپاتا کہ ‘انسان آزاد کیسے ہوتا ھے’، اور اس اختلاف کے بنا پر یہ مختلت فرقوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ بعینہہ مذہبی پیروکار کی طرح آزادی کے ہر نظریے پر ایمان لانے والا اسے اپنی اخلاقی ذمہ داری محسوس کرتا ھے کہ پوری انسانیت کو اس سچ سے روشناس کراۓ کیونکہ جب تک THE OTHERS کا وجود ھے اسکے آفاقی سچ کو خطرہ لاحق ھے۔لہذا اشترکیت کا چمپئین روس ھو یا ہیومن رائٹس کا داعی امریکہ یا پھر نسل پرست جرمنی، ہر ایک ‘انسانیت کی بھلائ’ کے نام پر (In the name of people) اپنے نظریئے کے فروغ کیلیے لازما ‘علم جہاد’ بلند کرتا ہے۔
درحقیقت ‘عقل’ کا نعرہ لگانے والا خود کو ‘عقل کے جبر’ کا شکار پاتا ھے۔ ‘عقل کے ہر مخصوص تصور’ پر یقین کے نتیجے میں وہ تمام لوگ جو اس تصور پر یقین نہیں رکھتے خود بخود ‘غیر عقلی’ irrational بن جاتے ہیں، یعنی ‘عقل کے دائرے سے باہر’ نکل جاتے ہیں (مثلا جو لوگ ہیومن رائٹس پر ایمان نہیں لاتے لبزلز کے نزدیک وہ غیر عقلی، جاہل اور وحشی لوگ ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ یہی وجہ ھے کہ عقل کا نام لیوا انتہائ ڈاگمیٹک اور کنزرویٹو ھوتے ھیں اور اپنے علاوہ ہر کسی کو جاہل اور بے وقوف سمجھتے ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دنیا کا کوئ نظریہ ‘عقلی’ (civilized) اور ‘غیر عقلی’ (barbaric) رویے کو مساوی معاشرتی و ریاستی حیثیت نہیں دیتا۔ ‘عقل’ اس سے یہ اخلاقی تقاضا کرتی ھے کہ ‘غیرعقلی’ کو مغلوب کردیا جاۓ کیونکہ وہ تو ھے ہی غیر عقلی، اسکے غالب وجود کا کیا مطلب، ایسا وجود تو ‘عقل’ اور ‘انسانیت’ کیلیے خطرہ ھے، لہذا ‘تحفظ عقل’ کیلیے ‘غیر عقلی’ کو مغلوب ہونا ہی پڑے گا، this is inevitable۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یورپی اقوام نے ریڈ انڈین کا قتل عام اسی بنیاد پر کیا کہ یہ انسان نہیں بھینسے (جان لاک کے الفاظ) اور بھیڑئیے (جیفرسن کے الفاظ) ہیں۔ اسی طرح آج امریکہ مجاہدین کو نان ہیومن سمجھ کر مارتا ھے اور انکے قتل کو ہیومن رائٹس کی خلاف ورزی نہیں سمجھتا کہ ہیومن رائٹس تو ہیومن کے ہوتے ہیں۔ اب چونکہ عقل کا کوئ معروضی و آفاقی تصور ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کسی مخصوص تصور عقلیت کی کوئ آفاقی عقلی توجیہہ پیش کی جاسکتی ھے لہذا عقلیت کے مختلف و متضاد تصورات ہمیشہ اور لازما کشا کش کا شکار رہتے ہیں اور عقل کے فریم ورک میں اس نزاع کا کوئ حل موجود و ممکن نہیں، گویا یہاں ‘الجہاد ماد الی یوم القیامہ’ والی کیفیت برپا رہتی ھے۔
اب رہ گیا یہ سوال کہ ‘سیکولر لوگوں کا جہاد’ اس قدر وحشیانہ اور استحصالی کیوں ھوتا ھے؟ اسکی وجہ بالکل واضح ھے، مذہب پر ایمان لانے والے معاشرے کتنے ہی کرپٹ کیوں نہ ھوجائیں اتنی بربریت برپا نہیں کرسکتے جتنی کہ عقل پرست، جسکی علمی بنیاد یہ ھے کہ مذہبی شخص بہر حال خود کو کسی کے آگے (خدا وغیرہ) جوابدہ سمجھتا ھے، یہ تصور ایک فرد میں کتنا ہی دھندلا جاۓ مگر نا ممکن ہے کہ پوری معاشرت و ریاست اسکو خیر آباد کہہ دے۔ لہذا یہ تصور انسان کی بربریت برپا کرنے کی صلاحیت پر ایک داخلی چیک لگاۓ رکھتا ھے، اسکے مقابلے میں عقل پرست سواۓ اپنے نفس (اور بالا دست قانون جو کہ وہ خود ہوتا ہے) کے علاوہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ھوتا،اپنے تراشیدہ اخلاقیات کی ہر خلاف ورزی پر وہ خود کو معاف کرسکتا ھے۔ چنانچہ مشہور پوسٹ ماڈرن فلسفی رارٹی Rorty کہتا ھے کہ یقینا ہم نے ریڈ انڈینز پر ظلم کئے اور ہمیں اسپر افسوس ہے مگر چونکہ ہم خود مختار ہیں لہذا ہمیں حق ھے کہ ہم خود کو معاف کردیں (چنانچہ امریکہ ہیومن رائٹس کی تمام تر خلاف ورزیوں کے بعد خود کو معاف کردیتا ھے اور ہم ہیں کہ یہاں اسے ان حقوق کی دھائ دے رھے ھوتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔یہی وہ علمی بنیاد ھے جسکی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ جدید الحادی تہذیب سے قبل کسی انسانی تہذیب نے اس منظم طور پر نہ تو کبھی انسانی نسل کشی کی اور نہ ہی براعظموں کے براعظم لوٹ لئے اور نہ ہی ایسے مہلک ہتھیار بنانے کا سوچا (اور نہ ہی ایسا کرنے والے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا) جسکے ذریعے لاکھوں انسانوں کو indiscriminately آنا فانا لقمہ اجل بنایا جاسکے۔
ڈاکٹر زاہد مغل