مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان

عالم اسلام میں آئیں تو سب کشمکش آج اس پر ہے، اور ہوگی، کہ ہم اپنی اُسی ملت پر اصرار کریں جو چودہ سو سال سے ہماری نظریاتی تشکیل کرتی آئی؛ اور اُن کے دیے ہوئے اِس نئے تصورِ ملت کو اپنے لیے قبول نہ کریں۔ ’اپنی ملت کو قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کرنے‘ کا اپنا وہ کھلم کھلا اعلان نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کے عملی اطلاقات کی طرف پورے اعتماد، جرأت، اور بےپروائی سے بڑھیں اور اسی کی بنیاد پر یہاں اپنی اجتماعی زندگی کی بلند و بالا تعمیرات اٹھائیں، خواہ اسلام کی اِس (مِلّی) حیثیت کو ناپید کروانے کے خواہشمند جہان میں ہماری اس سرگرمی کو کتنا ہی ناپسند کریں. ہاں یہ ایک بڑا میدانِ جنگ ہے جو دو نظریوں کے مابین ابھی مزید سجے گا، عالمی طور پر بھی اور کسی حد تک مقامی طور پر بھی۔ بقیہ مضمون میں اب ہم اس پر کچھ بات کریں گے۔


لوگوں کا خیال ہے کہ ’’نیشن‘‘ (ملت) کےلیے صحیح حوالہ تجویز کرنے پر دنیائے اسلام نے اتباعِ مغرب کا طوق برضا و رغبت پہن لیا ہے، اور یہ کہ عالمِ اسلام میں یہ معاملہ حتمی طور پر سرے لگ چکا مگر یہ ان کی خام خیالی ہے۔ ایک بڑی خلقت یہاں اپنے ملک سے محبت کرتی ہے۔ بہ برحق ہے۔ اپنی سب جبلِّی وابستگیوں (مانند قوم، نسل، زبان اور اقلیم وغیرہ) کو اس ملک پر ہم ہزار بار قربان کرتے ہیں، بلکہ جتنا ہم اپنے ملک کو چاہتے ہیں اتنا کوئی قوم اپنے ملک کو چاہ ہی نہیں سکتی، کیونکہ اُن کی چاہت کا کُل حوالہ یہی دنیا کی فانی محبتیں ہیں جبکہ ہماری محبت کا حوالہ اِس دنیاو ما فیہا سے بڑا۔ (ایک ایسی چیز جو خدا و آخرت پر ایمان نہ رکھنے والی قوم کو کبھی عطا نہیں ہو سکتی)۔ مگر یہ خلقتِ حق اپنےاِس لازوال رشتے کو جو نام اور حوالہ دیتی ہے وہ بھی قابل غور ہے۔ یہ ان تمام حوالوں سے منفرد ہے جو مغرب کی چربہ قوموں کے ہاں چلتا ہے، اور یہ ہے لاالٰہ الا اللہ۔

بےشک آپ چند (لبرل) لوگ اس لڑی کو جو پٹھان، پنجابی، سندھی اور بلوچی کو ایک وحدت میں پروتی ہے، کوئی بھی حوالہ دیں، حتیٰ کہ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ اِس ملک کو بناتے وقت چند لوگوں کا حوالہ لا الٰہ الا اللہ کے ماسوا کوئی چیز رہا تھا، اور بےشک وہ چند لوگ یہاں ڈھیروں اختیارات کے مالک بھی چلے آئے ہوں یہاں تک کہ تعلیم و ابلاغ کی بہت سی تاریں آج بھی انہی کی ہلائی ہلتی ہوں. اس کے باوجود ایک خلقتِ عظیم اِس ملک کو بنانے سے لے کر آج تک اس کی روح لاالٰہ الا اللہ میں دیکھتی ہے۔ یہاں کے ایک فرد کو دوسرے سے اور یہاں کی ایک نسلی یا لسانی یا اقلیمی اکائی کو دوسری سے جوڑنے کا حوالہ وہ لا الٰہ الا اللہ کے سوا کسی چیز میں نہیں پاتی۔ اور اسی لاالٰہ الا اللہ پر ان کے اعتقاد کو پختہ کرانے میں اس لڑی کے پختہ سے پختہ تر ہونے کا راز چھپا ہے۔ یہاں کی مختلف اجناس کو ایک ’’نیشن‘‘ ٹھہرا دینے والی چیز اس خلقت کی نظر میں سوائے اِن کے دین کے کچھ نہیں ہے۔ خود یہ دین اِن کو ایک ہونے اور ایک رہنے کا حکم دیتا ہے اور اِن کا ٹکڑیوں میں بٹا ہونے کو اِن پر شیطان کا وار چل جانے سے تعبیر کرتا ہے۔ پس یہاں کی رنگارنگ اجناس کی اِس باہمی محبت، مودت اور وابستگی کا حوالہ یہاں بدستور ’’خدا اور رسولؐ‘‘ رہتا ہے اور یہی اِس قوم کو متحد اور اٹوٹ اکائی بنا رکھنے والے عناصر میں مضبوط ترین۔ اِس کے سوا بہت کچھ ہو گا مگر سب اِس ایک حوالہ کے بعد اور اِس کے تابع۔

’جدید انسان‘ کے نقطۂ نگاہ سے ظاہر ہے یہ ایک بڑا خلطِ مبحث ہے، بلکہ تڑپ اٹھنے کی بات! اس کے نزدیک ’’نیشن‘‘ نام ہے ایک ایسی انسانی اجتماعی اکائی کا جو اپنا کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے تو بالکل نہ لے (جبکہ ’نسل‘، ’لسان‘ اور ’اقلیم‘ سے وہ پہلے ہی نہیں لے سکتی، کیونکہ ’’نیشن‘‘ اس کی نظر میں ان وابستگیوں سے بلند تر ایک چیز ہے، جیساکہ پیچھے گزر چکا۔ پھر وہ اپنا حوالہ کس چیز سے لے؟ ’مادی مفادات کا حصول ممکن بنا رکھنے والی ایک جداگانہ اکائی‘ کے سوا اس کا کیا جواب ہو سکتا ہے؟ کہ جس کی محبت اور اپنائیت ownership میں ہندو، مسلمان، پارسی، عیسائی، سکھ، یہودی اور ملحد یکساں رہیں اور یہاں اپنی تعداد و نفوذ سے قطعی بےلحاظ، خالص قومی جذبے و اجتماعی اسپرٹ سے ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے قدم سے قدم ملا دل سے دل جوڑ چلتے جائیں اور ایک دوسرے پر فدا ہونے کی اعلیٰ سے اعلیٰ داستانیں رقم کریں)۔ یعنی ایک چیز کےلیے ان کو جینا اور مرنا تو ہے، اور جہان میں اسی کو اپنا اجتماعی وجود اور تشخص بھی ٹھہرانا ہے، لیکن اس کا کوئی تعلق ہرگز ہرگز آسمان سے نہیں جوڑنا (نیز کسی جبلِّی رشتے سے بھی نہیں جوڑنا، جوکہ اِس ماڈرن نیشنلزم کی تشخیص میں نہایت نوٹ کرنے کی چیز ہے، اور جس پر کچھ گفتگو پیچھے ہو چکی)۔


یہ جتھہ بندی جدید انسان (اور خود ہمارے اسلامی جدت پسند) کے نزدیک فرض تو ہے اور اس پر اپنی ذات، برادری، نسل، لسان اور علاقے سمیت اپنے عزیز سے عزیز رشتے کو قربان کر دینا یہاں بسنے والے انسانوں پر واجب (بلکہ اَوجبُ الواجبات)۔ لیکن ایسی کسی الفت اور یگانگت کا قوی ترین حوالہ خدا اور رسولؐ کو مانا گیا ہو اور اس ’’پاکستان‘‘ کا مطلب کیا لاالٰہ الااللہ کا وِرد ان کے یہاں تھمنے کا نام نہ لیتا ہو؟ یہ اگر کسی بات کی دلیل ہے تو وہ یہ کہ ’عجم ہنوز نہ داند رموزِ نیشنلزم‘! اتنا پڑھا سکھا لینا گویا اِس قوم پر بےاثر ہی رہا، یہ برابر اپنے اجتماعی رشتوں میں ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ کے ماسوا حوالے گھسیٹ لاتی ہے (جنہیں یہ ’دھرتی‘ اور ’مادہ‘ پر مقدم جاننے کا پاپ بھی کثرت سے کرتی ہے۔ یوں عالمی معیاروں کے ساتھ ساتھ یہاں کے اسلامی جدت پسندوں کےلیے باعثِ آزار چلی آتی ہے)! اِس کو اتنا پڑھا سکھا لیا کہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو یہ اپنے اِس ’مقدس‘ رشتے سے یکسر باہر کر دے اور محض ایک مادی دائرے کو ہی اپنی اجتماعی زندگی کی کُل کائنات جانے اور اسی پر فدا ہو ہو کر بےحال ہو… مگر یہ ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو چھوڑ کر ’ملت‘ میں گم ہونے پر آتی ہی نہیں! ’’خدا اور رسولؐ‘‘ کو اپنی اجتماعی زندگی میں ایک نہایت ’پرائیویٹ مسئلہ‘ ٹھہرا دینے پر یہ ابھی تک آمادہ نہیں! اندازہ کر لیجئے، دو سو سال کی شبانہ روز تعلیم، اور تاحال یہ پسماندگی اور ہٹ دھرمی! کتنا اور پڑھایا جائے اِس کو اور کس دن کی آس رکھی جائے!

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جدید انسان ’’نیشن‘‘ والے اِس مسئلہ پر کوئی حوالہ ’مذہب‘ سے نہ لینے میں کم از کم کسی تضاد کا شکار نہیں ہے۔ البتہ ہمارا اسلامی جدت پسند ’’نیشن‘‘ کے اِس تصور پر جسے مذہب سے کوئی حوالہ نہیں لینا، احادیث میں وارد ’’الجماعۃ‘‘ کا اطلاق کرنا نہیں بھولتا! غرض پاکستان سے محبت میں ایک کثیر خلقت یہاں جو بنیاد رکھتی ہے وہ اپنی نہاد میں ملت کے اُس تصور پر کھڑی ہے جو اِس کے دین اور اِس کی تاریخ سے چلا آتا ہے اور جوکہ مغرب کے دیے ہوئے اصولِ اجتماع کے ساتھ ایک جوہری تصادم رکھتا ہے۔ ہاں اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ مناسب اسلامی تعلیم نہ ہونے کے باعث، نیز خارجی تعلیمی اثرات کے تحت، اِس معاملہ کی تفصیلات میں یہ اپنی اشیاء کو مغرب کی اشیاء کے ساتھ کہیں کہیں گڈمڈ بھی کر بیٹھی ہے۔ نتیجتاً اسلام اور نیشنلزم کا کچھ خلط بعض نیک طبقوں کے یہاں نظر آ جانا مستبعَد نہیں۔ مگر یہ کچھ جزئیات یا تعبیرات کی حد تک ہو سکتا ہے۔ بنیاد خاصی سلامت ہے۔ یہاں کا کوئی بھی نمازی اللہ کا شکر ہے ایسا نہیں جو نری دھرتی پر مرتا ہو۔ وہ اِن وادیوں اور کہساروں کو اور اِن دریاؤں سے سیراب ہونے والے کھیتوں اور کھلیانوں کو پہلے اپنی نماز اور سجدہ گاہ سے جوڑتا ہےاور یہاں گونجتی اذانوں اور بلند ہوتی تکبیرات پر فدا ہوتا ہے اور پھر اِس ’’اسلام کے دیس‘‘ کو ہر میلی آنکھ سے تحفظ دلانے کے لیے بےچین ہوتا اور اس مقصد کی خاطر اپنا جان مال اور جگرگوشے پیش کر دینے نیز اِس کی تعمیر و ترقی کےلیے سرگرم ہونے کو اپنے حق میں باعثِ سعادت جانتا ہے۔ بتائیے اس میں نیشنلزم کہاں ہے؟ کچھ مسائل آئے ہوں گے تفصیلات یا تطبیقات میں۔ ان اشیاء کی تنقیح اب جتنی بھی ضروری ہو، مگر میرے نزدیک یہ وقت ہے کہ اُس اصولی بنیاد ہی کو پختہ کرایا جائےجو دو سو سال کا ’تعلیمی تیزاب‘ سہہ لینے کے بعد بھی اذہان سے محو نہ ہو سکی (گو ایک حد تک متاثر ہوئی ہے) مگر اب تو اِس پر کلہاڑے برسائے جانے لگے ہیں۔ ۔۔

ہمارا کُل سامنا encounter (تو)یہاں کے لبرل بیانیہ سے ہے۔ تاہم دو ’مذہبی‘ رجحانات ایسے ہیں جو ہمارے اسلامی مواقف کو یا تو تفریط اور یا پھر اِفراط کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ یوں عملاً ہمارا راستہ بند کر دیتے اور نادانستہ ہمارے مدمقابل کا راستہ وسیع اور آسان کر دیتے ہیں۔

1) پہلا گروہ ہمیں آگے بڑھانا چاہتا ہے مگر مغرب کے راستے میں۔ یہ ہمارے ریاست کےلیے ’اسلامی‘ کا لفظ ہی بول دینے پر چیخ اٹھتا اور یہاں کی قراردادِ مقاصد تک کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہے۔ نیشن اور اجتماع کے تصور کو دین سے برآمد کرنے پر ہی بنیاد سے معترض ہے۔ (حق تو یہ ہے کہ اعتراضات کے معاملہ میں یہ طبقہ ہمارے دورِسلف و صحابہؓ تک پیچھے جاتا اور پورے دین کی ایک نئی تعبیر دینے کےلیے کوشاں ہے)۔ سقوطِ بنگال کو یہاں پائے جانے والے دو قومی نظریے کے بطلان پر ایک قوی دلیل یا اس کی ناکامی و بےبسی پر ایک حوصلہ شکن مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اصولِ اجتماع کے موضوع پر اس کے کھڑے کیے ہوئے کچھ اشکالات ، جو تاحال ہمارے زیربحث نہیں آئے، ان پر ابھی ہمیں کچھ بات کرنی ہے۔

2) دوسری جانب ایک گروہ ’خلافت‘ وغیرہ کے زیرعنوان ہمیں کچھ ایسے راستوں پر چلانے میں دلچسپی رکھتا ہے جو دنیا میں کہیں موجود ہی نہیں ہیں اور ایک غیر معینہ مدت تک ان کا نشان ملنا بھی مشکل ہے۔ خلافت سر آنکھوں پر۔ لیکن پچھلے کئی عشروں پر محیط بند کمروں کی محنت سے اس طبقہ نے یہ موضوع کچھ ایسا الجھا دیا ہے کہ ہمارے مخلص و باصلاحیت نوجوانوں کی بڑی تعداد ایک حسین یوٹوپیا میں بسنے لگی ہے۔ یہ طبقہ ’’امکان‘‘ اور ’’مثالیت‘‘ کو بری طرح خلط کرتا ہے۔ جب بھی ہم یہاں کے پنجابی، بلوچی، سندھی اور پختونی کے رشتے کو خالص اسلام اور لاالٰہ الا اللہ پر کھڑا کرنے کی بات کرتے ہیں، اور جوکہ اندریں حالات ہمارے لیے امکان کا ایک حقیقی دائرہ اور محنت کا ایک باقاعدہ میدان فراہم کرتا ہے، یہ نیک طبقہ فوراً معترض ہوتا ہے کہ مراکش کا صوبہ طنجہ اور فلپائن کا جزیرہ منڈاناؤ ساتھ کیوں نہیں! اس کے خیال میں ان ناممکنات اور ممکنات کا اکٹھا ذکر نہ کرنا ہی ’’نیشنلزم‘‘ ہے! یہی نہیں بلکہ اس کی اٹھائی ہوئی الجھنوں نے ہمارے مدمقابل فریق کو ہمارے کیس پر طعن کے کچھ تُند و تیز فقرے بھی عطا کر دیے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ہم پنجابی اور بلوچی کے مابین رشتۂ لا الٰہ الا اللہ کی بات کرتے ہیں یہاں کا لبرل بھی ہمیں یہاں سے نکال کر ’مراکش‘ اور ’انڈونیشیا‘ کی طرف بھیج دینے کی کوشش کرتا ہے۔


پہلا رجحان تفریط تو دوسرا اِفراط۔ اپنے اِن دونوں قابل احترام طبقوں کے ساتھ بھی اِس موقع پر ہمارا کوئی بحث کرنا نہیں بنتا۔ بس جس حد تک یہ دونوں ہمارے فریقِ مقابل کا راستہ آسان کرتے ہیں اس حد تک اِن کا رد کرنا ہماری مجبوری ہے۔

استفادہ تحریر : مسجدوں اور اذانوں کا پاکستان از حامد کمال الدین۔ مکمل تحریر کے لیے لنک دیکھیے: https://goo.gl/vlDQdI