سیکولرزم کے داعی طبقے کی طرف یہ سوالات مختلف انداز میں اٹھائے جاتے ہیں کہ مذہبی طبقہ واضح کرے کہ
•آیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے یا نہیں ؟
•یا یہ کہ کیا اسلام کی رو سے قومی ریاست جائز ہے یا نہیں ؟
•آیا قومی ریاست کا کوئی مذہب ہوتا ہے یا نہیں؟
دلیل ڈاٹ پی کے میں شائع شدہ 20 مارچ 2017ء کے مفتی منیب الرحمٰن صاحب کے مضمون میں غامدی صاحب کے پوچھے گئے انہی سوالات کا ذکر موجود ہے۔
منیب الرحمان صاحب لکھتے ہیں:” علامہ غامدی نے چند سوالات اٹھائے ہیں: پہلا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان ایک قومی ریاست ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ 14اگست 1947ء سے پہلے روئے زمین پر نہ پاکستان کے نام سے کوئی ملک تھا اور نہ پاکستانی کے نام سے کوئی قوم تھی تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ ملک اِس قوم نے بنایا۔ ویت نام شمالی اور جنوبی کے نام سے تقسیم ہوا اور دوبارہ اسی نام سے ایک ملک بن گیا، یہی صورتِ حال شمالی اور جنوبی یمن، مغربی ومشرقی جرمنی کی ہے، اور اگر کل شمالی و جنوبی کوریا مل جاتے ہیں، تو ملک کا نام کوریا ہی رہے گا۔ الغرض منقسم ہوں تب بھی وہی نام اور مل جائیں تو بھی وہی نام، یعنی ویت نام، جرمنی، یمن اور کوریا وغیرہ، کیونکہ ان ممالک اور اقوام کا پہلے سے تاریخی وجود تھا۔ پاکستان اگر تاریخی اعتبار سے ہمیشہ سے ایک ملک اور پاکستانی ایک قوم ہوتے، تو مشرقی پاکستان علیحدگی کے باوجود مشرقی پاکستان ہی رہتا، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ سو آج کسی کو پسند ہو یا ناپسند، ہند کی تقسیم کا مطالبہ مسلمانوں نے جداگانہ مسلم قومیت کی بنیاد پر کیا تھا، اگرچہ آج کل بعض دانشوراُسے متنازعہ بنا رہے ہیں۔ اس لیے یہ حقیقت تھی یا فریب، بہرصورت نعرہ تو یہی لگایا گیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا: ’’لا اِلٰہ الا اللہ‘‘ اور آج بھی مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت کشمیر کے رہنماؤں کو ہم نے ٹیلی ویژن پر بارہا یہ نعرہ لگاتے ہوئے سنا ہے: پاکستان سے رشتہ کیا، لا الٰہ الا اللہ۔
ان کا دوسرا سوال یہ تھا: پاکستان اگر قومی ریاست ہے، تو کیا قومی ریاست اسلام کی رُو سے جائز ہے؟ ہمارا جواب یہ ہے کہ تحریک آزادی کی آدرش اور ہمارے دستوری میثاق کی رُو سے پاکستان ایک اسلامی جمہوری ریاست ہے اور اس حقیقت کا انکار دستورِ پاکستان کے انکار کے مترادف ہے۔ ہم سے مشابہت رکھنے والی ایک نظریاتی ریاست دنیا کے نقشے پر اسرائیل ہے اوراس کی پارلیمنٹ کا نام Knesset ہے، جس کے معنی ہیں: ’’عبادت گاہ یا کنیسہ‘‘۔ اسرائیل میں مذہبی سیاسی جماعتیں بھی ہیں اور حال ہی میں ایک سیاسی جماعت نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل میں عبرانی شریعت یعنی تورات کا قانون نافذ کیا جائے، اس پر امریکہ اور پورے یورپ میں کہیں بھی شور برپا نہیں ہوا کہ یہ دقیانوسیت ہے، قدامت پسندی ہے اور مذہبی انتہاپسندی ہے۔ اگر علامہ جاوید غامدی دستورِ پاکستان کا مطالعہ فرمائیں، تو اس میں ریاست کو قرآن و سنت کے مطابق قانون سازی کا پابند کیا گیا ہے۔ پس اگر کوئی سیاسی جماعت جمہوری طریقے سے نفاذِ اسلام یا نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرتی ہے تو یہ دستور پاکستان کا تقاضا ہے۔ ہاں! اس کے لیے مسلح جدوجہد کرنا یا ماورائے دستور کوئی طریقۂ کار اختیار کرنا، دستور کے خلاف ہے، اور ہم اس کے حق میں نہیں ہیں۔”
یہ دراصل سوالات سے زیادہ سوال پوچھنے والے کے عقیدے یا ذہنی کیفیت کی غمازی کرتے ہیں۔
ان سوالات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ سوال پوچھنے والے نے یہ طے کیا ہوا کہ قومی ریاست نام کا جو پیکیج مغرب سے ملا ہوا ہے اس کو جوں کا توں قبول کرنا ہے۔ سوال پوچھنے والے نے “پاکستانی قوم” کو بعینہ دوسری مغربی اقوام کے معنی میں سمجھا ہوا ہے یا اسے لگتا ہے کہ اجتماعیت کا جو تصور مغربی فکر سے ملا ہوا اس سے انحراف ایک بدعت ہے۔ سوال پوچھنے والا اس بات پر مصر ہے کہ تحریک پاکستان کی پوری تاریخ میں جس طرح “دو قوموں” کی وضاحت کی گئی تھی اس وضاحت سے اپنا اور پوری قوم کا رابطہ کاٹ دیا جائے۔
یہاں پر دراصل سوال کرنے والا یہ سوچتا ہے کہ ریاست وہ ابدی بدیہی حقیقت ہے جسے صرف دریافت کیا جاسکتا ہے۔ وہ یہ سمجھنے پر ذہنی طور پر تیار نہیں ہے کہ پاکستانی ریاست “تشکیل دی گئی” ہے۔ جو چیز تشکیل دی گئی ہے وہ خود اپنے میں ایک الگ شناخت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یورپ کی علمی فیکٹری میں بنائے ہوئے کسی سانچے میں اس کو ڈھال دیا جائے۔ ہمارا سانچہ خود ہماری روایات اور تاریخی تناظر میں تشکیل دیا گیا ہے۔ بھلے آپ کو یہاں پر دینِ پورپ کی سنت سے کتنا ہی انحراف لگے، اس بدعت کے تو ہم مرتکب ہوئے ہیں اور اسی پر قائم رہیں گے۔ تعجب ہے کہ اٹھارویں صدی کے یورپ کے اپنے مخصوص سیاسی ماحول میں ڈھلی ہوئی ایک اصطلاح ہمارے نابغوں کے لئے اتنی اہم ہوگئی کہ انہیں برصغیر کی مسلم شناخت کو منوانے کے اس عظیم ترین واقعے کو بھی اسی اصطلاح میں ڈھالنا اتنا اہم لگ رہا ہے! سیدھی سی بات ہے کہ جب ایک ریاست ہی اسلام کے نام پر بنی ہے تو لازمی طور پر اس ریاست کا ایک مذہب ہوگا اور وہ وہی مذہب ہوگا جس کے نام پر یہ بنی ہے۔
اب اگر کسی نابغے کے نزدیک جس اجتماعی اکائی کا کوئی مذہب ہوگا وہ “قومی ریاست” کی تعریف میں نہیں آتا تو اسے اس بات کا اختیار ہے کہ وہ اسے قومی ریاست نہ مانے۔ پاکستان کو قومی ریاست منوانا کونسا ہماری ترجیحات میں ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انجمن اقوام متحدہ کے ذریعے عالمی سیاسی نظام کی وجہ سے ہم پر جو شناختوں اور اصطلاحات کا جبر مسلط کیا گیا تھا یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہم قومی ریاست بھی کہلاتے ہیں اور مذہبی بھی کہلاتے ہیں۔ ان جابرانہ اصطلاحات کو استعمال کر کے ہم پر “وَعَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ” کا ہتھیار آزمایا نہ جائے۔ دراصل یہ سوالات پوچھ کر سوال کرنے والے اپنے آپ کو اقوام مغرب کے مبلغ اور فکری نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انگریزی میں اس قسم کی نمائندگی کرنے والے کے لئے سادہ سی اصطلاح ہے جسے “ایجنٹ” کہتے ہیں۔ واضح ہو کہ یہ ایجنٹی کسی حقارت کے لیے یا بدنیتی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لئے ہے کہ مرعوبیت کی وجہ سے علمی نمائندگی کی جو کیفیت طاری ہے اس کی تشریح کے لئے یہی لفظ مناسب ہے۔
اگر قومی ریاست کا مذہبی ہونا منظور نہیں ہے تو پھر اقوام عالم کے علم گزیدوں سے پوچھ کر آئیں کہ ہمارے پاس “قومی ریاست” کے بجائے کسی اور نام کے ساتھ ایک اجتماعی اکائی کے طور پر رہنے کی کیا گنجائش ہے۔ چونکہ مذہبی شناخت کو مٹانے کی اب تک کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، اس لئے سوچ کر کوئی بھلا سا نام رکھ دیں۔ ویسے خالص علمی سطح پر سعودی عرب، بھارت، جنوبی افریقہ بلکہ امریکہ جیسی ریاستوں کو بھی قومی ریاست کے آئیڈیا میں فٹ کرانا کافی مشکل کام ہے۔ جب پوری دنیا کے لئے ان ممالک کی شناخت غیر متعلقہ (Irrelevant) ہو کر رہ گئی ہے تو پھر آپ اپنی اصطلاحاتی دھونس لے کر ہم پر کیوں طبع آزمائی کر رہے ہیں؟
خلاصہ کلام یہ ہے، پاکستان کو “اسلامی” ماننے اور منوانے پر ہم مصر ہیں اور ہم اپنا یہ مؤقف تو چھوڑیں گے نہیں۔ پاکستان کو “قومی ریاست” کی تشریح میں فٹ کرانا آپ کےلیے اہم ہو تو ہو۔ اگر آپ کی مذکورہ شناخت (قومی ریاست) اور پاکستانی کی حقیقی شناخت (اسلامی) میں کوئی تناقض ہے تو پھر آپ قومی ریاست کے کانسپٹ میں ترمیم کردیں یا کوئی نئی اصطلاح لے آئیں۔ صرف آپ کے مسلط کردہ تشخص کو satisfy کرنے کے لئے ہم پاکستان کی اصل شناخت جو کہ اسلامی ہے کو کیوں ترک کریں؟
استفادہ تحریر: ذیشان وڑائچ