قراردادِمقاصد، اقلیتیں اور غامدی صاحب

اصحابِ مورد کا کہنا ہے:

یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، انہوں نے اس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور ان میں بسنے والے غیرمسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت (Protected minority) کی ہے اور ریاست کے اصل مالکوں سے وہ اگر کسی حق کا مطالبہ کرسکتے ہیں تو اسی حیثیت سے کرسکتے ہیں۔(’’اسلام اور ریاست:: ایک جوابی بیانیہ‘‘۔ روزنامہ جنگ 22 جنوری 2015۔http://goo.gl/0yWPD0 )

یعنی پہلے تو آپ اپنے اوپر ’’قومی ریاست‘‘ کو فرض کریں گے جبکہ اللہ نے یہ آپ پر فرض نہیں کی (جبھی تو قراردادِ مقاصد پر معترض ہیں کہ اس نے اسلام کو یہ حاکمانہ حیثیت دے کر ’نیشن سٹیٹ‘ کا فارمیٹ خراب کر دیا ہے)۔ پھر قومی ریاست کے ان معیاروں کی رو سے اس بات کو حرام ٹھہرا دیں گے کہ یہ مملکت دین اسلام کی پابند ہو۔ اور اس کے بعد ایسی آوازوں کو گردن زدنی قرار دینے چل دیں گے جو یہاں اسلام کو دستوری حیثیت دے رکھنے کی بات کرتی ہیں اور جن کو دبانا عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈا پر سرفہرست ہے۔

ریاست کا دینِ اسلام پر ہونا، ان اصحاب کی نظر میں ناجائز ہے! کسی خطے کے اندر آپ 98 فیصد مسلم اکثریت کیوں نہ ہوں آپ کی ’’ریاست‘‘ کی بلا سے آسمان سے نازل شدہ دینِ حق کیا ہوتا ہے! اتنی بڑی مسلم جماعت پر بھی یہی فرض ہے کہ اپنے عقائد یا طرز معاشرت کو اپنا ذاتی مسئلہ ہی رکھے؛ جبکہ ریاستی عمل یہاں بسنے والے سب مذہبی و غیر مذہبی گروہوں کے مابین سانجھا ہو.. اسلام کےلیے کوئی جگہ رہتی ہے تو وہ صرف یہ کہ: شرعِ اسلام ہر پانچ سال بعد لوگوں کے ’ووٹ‘ اور اس میں چلنے والی ’جوڑتوڑ‘ کے رحم و کرم پر ہو۔ ۔ اس بات کا پختہ و پائیدار بندوبست کر دینا کہ اسلام ہی یہاں کا آئین ہو خواہ کوئی آئے یا کوئی جائے، اِس نقطۂ نظر سے شریعت کی خلاف ورزی ہے! ریاست اور آئین کو ہاتھ بھی لگانے کا اسلام کو حق نہیں؛ جو قسمت آزمائی کرنی ہے بس حکومت کی سطح پر کرے! اپنا کل سہارا ووٹ پر رکھے اور ایڈہاک حیثیت میں رہے! حالانکہ خود اِن کو معلوم ہے اِس ٹوٹے ’کشکول‘ میں کیا پڑنے والا ہے! ہاں ہاتھ کی چیز کا چلا جانا یقینی ہے! کون نہیں جانتا، اِس قوم کی زندگی سے اسلام کو مکمل طور پر رخصت کردینے کا یہ ایک تیر بہدف نسخہ ہے۔

سبھی کو معلوم ہے، حالیہ عالمی جھٹکوں میں جس طرح اس ملک کے بچ رہنے ایسا معجزہ یہاں کسی بروقت شروع کر لیے گئے ایٹمی پروگرام کا مرہونِ منت ہے (ورنہ اب تک خدانخواستہ سب کچھ چلا جاتا) عین اسی طرح یہاں اسلام کا بہت کچھ بچا رہ گیا تو وہ اس لیے کہ یہاں کوئی قراردادِمقاصد خاصے بھلے وقتوں میں پاس کر لی گئی تھی۔ ورنہ پچھلے کئی عشروں سے یہاں جو خاک اڑنا شروع ہوئی ہے، دوسری جانب یہاں کی تہذیبی تشکیل کے معاملہ میں ’ڈو مور‘ do more کے جو نوٹس ’اُدھر‘ سے دھڑادھڑ آنے لگے ہیں، جبکہ ملک کا سب کچھ کرائے پر اٹھا دینے والی جو ’جمہوری حکومتیں‘ اب ایک عرصے سے آپ کو میسر آئی اور ہر چیز کو ’ڈالر‘ میں تولتی رہی ہیں وہ کسی کی نظر سے اوجھل نہیں ہے، کوئی انجان ہی بنا رہنے پر مُصر ہے تو اور بات۔ ہم کہتے ہیں یہاں کے ریاستی عمل میں ’’قراردادِمقاصد‘‘ ایسے کچھ تالے نہ لگے ہوتے، تو جمہوریت کے یہ چالیس چور یہاں آپ کا کیسا صفایا کر چکے ہوتے، ایک ادنیٰ نظر کا مالک آدمی بھی اس کا بخوبی اندازہ رکھتا ہے۔ آپ کو چاہئے ان لوگوں کےلیے صبح شام دعائے خیر کریں جو قراردادِمقاصد ایسا ایک آئینی اقدام آپ کی قوم کےلیے بروقت کر گئے۔ معلوم نہیں ’’ریاست‘‘ کی سطح پر اسلام کا پتہ صاف کرکے یہ لوگ یہاں کونسے مقاصد پورے کرنا چاہ رہے ہیں۔ سبحان اللہ! ’’ریاست‘‘ اور ’’آئین‘‘ سے اسلام کی چھٹی؛ جو امید لگانی ہے اس بات سے لگاؤ کہ الیکشن کی تلچھٹ یہاں کیا چیز اوپر لے کر آتی ہے؛ اس کے جھاگ سے اگر تمہارے لیے اسلام کی حکمرانی بھی نکل آتی ہے تو تمہاری قسمت؛ کون کہتا ہے ہم اسلام پر مہربان نہیں!

سبھی کو معلوم ہے اکثر تھرڈ ورلڈ ملکوں میں ’الیکشن‘ ایک مہذب ورادات کا نام ہے۔ این جی اوز، ملٹی نیشنلز، میڈیا، بینکرز، انٹرسٹ گروپس، تہذیبی ساخت کرنے والی لابیاں اس عمل کو اپنی مرضی کی جہت دینے میں یہاں کیسی کیسی سرگرمیاں نہیں دکھاتیں اور کیسی کیسی اثرانگیزی نہیں رکھتیں؛ آپ تجاہلِ عارفانہ سے کام لینا چاہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے! جبکہ آئینِ اسلام آپ کے ہاں مسلسل ان اشیاء کے رحم و کرم پر رہے گا! ریاستی عمل دینِ اسلام کا پابند نہیں؛ خواہ اس فتویٰ کی مدد سے ایک قادیانی آپ کا ’اولی الامر‘ کیوں نہ بن جائے! (حامد کمال الدین )

یعنی سوچنا یہ ہے کہ اس قرارداد مقاصد کو “ہٹا کر” آخر یہ حضرات “کون سا خیر” برآمد کرنا چاہتے ہیں؟ کبھی یہ غور کیجئے کہ اگر یہ رکاوٹ ہے تو کس کے خلاف؟ ہیومنسٹ سٹیٹ سٹرکچر کے یا اسلام کے؟ چنانچہ بات نہایت واضح ہے کہ دنیا ویسی نہیں جیسے ہمارے یہ ارباب علم فرض کرتے ہیں. اگر تو یوں ہوتا کہ دنیا میں واقعی لوگ “کھلے طور پر” اس معاملہ میں آزاد ہوتے کہ بغیر کسی بیرونی مداخلت، بغیر کسی علمی ڈسکورس کے جبر نیز بغیر کسی استعماری قوت کی موجودگی کے اپنی اپنی مرضی سے اپنے اپنے نظریات کے مطابق اپنی اپنی اجتماعی زندگیوں کے فیصلے کر رہے ہوتے، گویا یہ سب ایک دوسرے سے کٹے ہوئے الگ الگ جزیروں پر بس رہے ہوتے، تو شاید مسلمانوں سے یہ مطالبہ بھی کسی معنی میں معنی خیز ہوتا کہ آخر تم ان سب آزاد لوگوں پر کیوں اپنا تصور خیر بالا دست کرنا چاہتے ہو؟ تم بس ان کے درمیان بس جاؤ اور جو تمہاری بات مان لے گا، وہاں تمہاری مرضی چلے گی اور بس. آخر یہ جھگڑا کس سے اور کیوں؟

سر دست تو معاملہ یہ ہے کہ دنیا پر “لوگوں کی رائے” کے نام پر “ایک مخصوص تاریخ و علمیت سے برآمد ہونے والے جبر” کو نافذ کرنے کا پورا پورا بندوبست موجود ہے. اگر دنیا کے کسی خطہ میں چند کمزور غلطی سے بھی اس جبر کے خلاف اجتماعی رائے کا اظہار کر لیں تو اسے تلپٹ کرنے کا بھی پورا پورا انتظام موجود ہے؛ مگر اس سب کے باوجود مسلمانوں سے یہ شکوہ کہ “آخر جو تم چاہتے ہو وہ کیوں ہو” کا کیا معنی؟ یہ جو حاضر موجود ہے یہ عالمگیر فتنہ ہے، اور در حقیقت اس معاملہ میں کوئی چوائس ہے ہی نہیں کہ یا تو اسکی بالادستی قبول کر کے اس کے تحت ” صاغرون” ہو کر رہنا قبول کر لیا جائے یا پھر اس کے ساتھ کشمکش جاری رکھی جائے یہاں تک کہ “دین اللہ کے لیے” ہو جائے. مولانا مودودی (رح) نے کیا خوب کہا تھا کہ” دنیا والوں کے دین” کے معاملہ میں در حقیقت کوئی چوائس ہوتی ہی نہیں، یہاں اگر مسلمان آگے بڑھ کر مداخلت نہیں کریں گے تو ایسا نہیں ہو گا کہ دنیا خلا میں معلق ہو کر کسی نیوٹرل مقام پر جا کھڑی ہو گی جہاں جو جو چاہے گا ہوتا رہے گا، بلکہ جو باطل ہے، وہ آگے بڑھ کر زمام اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر رہے گا. جنھیں لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہے وہ حاضر و موجود کی نوعیت کو سمجھے ہی نہیں. پس آپ اگر ان سیکولروں، عالمی لابیوں اور استعماری قوتوں کو “ریاست کے معاملہ” میں پیچھے ہٹا لیں تو پھر ان سے “نیوٹرل” رہنے کا پختہ عہد و پیمان لے لیں تو شاید ہم بھی “ریاست کے معاملہ” میں پیچھے ہٹنے کو تیار ہو جائیں. دشمن کی فوجیں سرحد پر حملہ کے لیے تیار دکھائی دے رہی ہوں اور کوئی ہمیں اس بنا پر دستے ہٹا لینے کی صلاح دے رہا ہو کہ ” اس سے تمہارے سرحدی علاقے کے لوگوں کو نفسیاتی گرہ محسوس ہو رہی ہو گی” تو ایسی صلاح آخر کس عقلمند کو قابل قبول ہو گی؟

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب “اقلیتوں کے مساوی حقوق کی مجروحیت” کی دہائی پر یہاں کچھ “مذہبی بیانئے ” دینے والے بھی یہ کہیں گے کہ اپنے یہاں کے سکولوں کے نصاب سے ان باتوں کو حذف کرنا بھی “شرعاً لازم” کہ “اس کائنات کا خالق خدا ہے”،” انسان کی ہدایت کے لیے خدا نے پیغمبر بھیجے “. کیوں جی کیا ہمارے ہاں ملحد نہیں بستے کیا؟ تو کیا عالمی معاہدوں کی رو سے وہ بھی اس ملک کے برابر کے حصہ دار نہیں؟ آخر مسلمانوں کو حق ہی کیا ہے کہ اپنے ایسے مذہبی نظریات ان کے بچوں پر مسلط کر کے ان کی ذہن سازی کریں؟

چنانچہ آئین کی چند اسلامی شقوں سے علماء نے یہ کامیابی حاصل کی ہے کہ ملک میں سیکولرائیزیشن کا عمل سست روی کا شکار ہے اور یہ شقیں اس کی راہ میں کیسے کیسے روڑے اٹکاتی ہیں، یہ کوئی کسی دیسی لبرل سے پوچھے. مگر چند ارباب علم “اقلیتوں کے حقوق” ( وہ اقلیتیں جنھیں اس ملک میں بہترین سکول و کالج چلانے، یہاں کے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے، یہاں کے اداروں میں نوکریاں کرنے اور عدالت عظمی کے جج بننے جیسے کھلے حقوق و مواقع میسر ہیں) کے غم میں اس بند ہو ہٹانے کے درپے ہیں. بعض اوقات ایک جگہ کھڑے رہنے بلکہ مخالف کی آگے بڑھنے کی رفتار کو کم کرنے کے لیے بھی بے پناہ قوت و محنت درکار ہوتی ہے جس کا اندازہ صرف اس وقت ہوتا ہے جب وہ قوت و محنت بھی ضائع کر دی جائے. قرارداد مقاصد سے حاصل ہونے والے عملی فوائد کو اس تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ یہ کھلے کفر کے آگے بند باندھے نیز ملک میں سیکولرائیزیشن کی رفتار کو سست رکھنے میں کلیدی کردار رکھتی ہے

. پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ علماء کرام نے بڑی محنت سے اس نظام کو چلانے والوں کے ارادوں کو قرآن و سنت کے کلے سے باندھنے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل اور شریعت بینچ جیسی جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، جدید ارباب علم انھیں اپنی نقطہ شناسیوں میں بہا لے جانا چاہتے ہیں. جبکہ علماء کی اس جمہوری جدوجہد سے نالاں ملک کے ایک مسلح طبقہ کی شکایت ہی یہ ہے کہ اس نظام کے اندر اسلامیت تلاش کرنے کا جو راستہ آپ نے تلاش کیا ہے، یہ ذرا دور جا کر ختم ہو جاتا ہے. گویا ملک کے اس ناراض طبقہ کو واپس لانے کے لیے علماء اب تک جو جواب دیتے آئے ہیں، یہ جدید ارباب علم “اقلیتوں کی ذہنی تسکین بحال کرنے کے لیے” ان شقوں کو آئین سے ختم کر کے علماء کو ان ناراض طبقوں کے سامنے بالکل ہی لاجواب کر دینا چاہتے ہیں اور اس کے بعد یہ امید رکھتے ہیں کہ ملک سے ریاست کے خلاف شدت پسندانہ رویہ ختم ہو جائے گا. یہ بھی کہا جا رہا ہے “آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی” کی شق اس لیے ضروری نہیں کہ جب پارلیمنٹ میں اکثریت مسلمانوں کی ہو گی تو قرآن و سنت کی بالادستی گویا ان کے عقیدے کا لازمی حصہ ہو گا اور وہ جو بھی قانون “باہمی مشورے ” سے بنائیں اسے “عملی طور” پر قبول کر لینا چاہیے. اگر کوئی گروہ سمجھتا ہے کہ وہ قانون قرآن و سنت کی غلط تشریح ہے تو وہ چاہے تو اس سے اختلاف کرے اور رائے عامہ کو ہموار کرے. الغرض اس قسم کی کسی شو کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رائے عامہ کو عدالت عظمی میں چیلنج کرنے کا کوئی فائدہ نہیں.

گویا ہمارے یہ احباب اب الطاف حسین، نواز شریف، عمران خان اور زرداری جیسوں کے مشوروں سے بنے والی تشریح اسلام کو امت سے “فائنل اتھارٹی” منوا لینا چاہتے ہیں، وہ بھی ایسی جسے قرآن و سنت کی بنیاد پر کسی قانونی فورم پر چیلنج بھی نہ کیا جا سکتا ہو. ( ویسے خود نواز شریف و عمران خان بھی اس تجویز کو سن کر چونک اٹھیں کہ یہ تو ہم پر ایسا بار لادا کا رہا ہے جس کی ہم نے کبھی تمنا بھی نہ کی).

ایسا ہی ہے تو پھر آئین نامی ہر شے ہو کو ختم کر دینا چاہیے کہ اس کی بھی کیا ضرورت؟ اور ہمارے ارباب علم ایسی ہی کوئی چیز عاصمہ جہانگیر یا اعتزاز احسن جیسوں سے آئین میں لکھے “بنیادی انسانی حقوق” کے متعلق منوا کر دکھائیں. کیا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ انسان نہیں کہ وہ انسانی حقوق متعین کرنے کے لیے “انسانی حقوق” نامی کسی مسودہ کے محتاج ہوں گے؟ جب یہ لوگ اعتراض کریں تو ان کا منہ بھی اس دلیل سے بند کرا کر دیکھیں کہ “جاؤ ان انسانی حقوق کے متعلق عوامی رائے ہموار کیجئے”. پھر آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا.


قرارداد مقاصد کا بند اور ہیومن اسٹیٹ:


کئی ایک پہلوؤں سے ہم خود اس قراردادِمقاصد پر ملاحظات رکھتے ہیں۔ اور شاید اسے پاس کروانے والے بھی ایسے کئی ملاحظات اس پر رکھتے ہوں۔ مگر کچھ دیے ہوئے حالات میں بعض بنیادی باتوں پر اس قوم کا شیرازہ مجتمع رکھنے کےلیے اس کا فائدہ مند رہنا اظہر من الشمس ہے؛ ورنہ نجانے یہاں آپ کا کیاکچھ بہہ چکا ہوتا۔ یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جا سکتی ہے کہ عملاً اسلام لانے میں گو اس کی کوئی خاص افادیت نہیں رہی کہ یہ مسئلہ ’’ریاست‘‘ کا نہیں ’حکومت‘ کا رہ گیا تھا (ہمیں ریاست اور حکومت کا فرق سمجھانے والے توجہ فرمائیں!!!) البتہ اس ملک کے اندر کھلے کفر کا راستہ روکنے میں بےشمار پہلوؤں سے یہ چیز ایک ناقابل عبور بند کا کام دیتی رہی ہے۔

البتہ اس بند کو توڑ کر یہاں جس ہیومن اسٹ سٹیٹ(humanist state) کا راستہ صاف ہو رہا ہے اور جس کے اندر __ ریاستی عمل میں کسی اکثریتی ٹولے کے مذہب کو کسی اقلیتی ٹولے کے مذہب یا نظریات پر حاوی ہونے کا حق (بظاہر) نہیں ہوتا __ وہاں صورتحال یہ ہوتی ہے، کہ سکولوں کے نصاب میں اگر آپ کو صرف اتنی سی بات ڈالنی ہو کہ ’’یہ کائنات کسی علیم اور خبیر ہستی کی تخلیق ہے‘‘ (Intelligent Design theory) تو اعتراضات کا تانتا بندھ جاتا ہے: جناب اس ملک میں ملحد بھی بستے ہیں؛ تعلیمی نصابوں کو ’مذہب‘ کے حق میں جانبدار نہیں ہونا چاہئے؛ ملک سب کا ہے!

کلاس میں ٹیچر اگر خدا کے وجود کو ثابت کہنے کا ’جرم‘ کر بیٹھا ہے تو شکایات کے دفتر کھل جاتے ہیں ’’ہم کسی مذہب وذہب کو نہیں مانتے ، تمہیں ہمارے بچوں کی ذہن سازی کا حق کس نے دیا ہے؛

ہم سب یہاں ٹیکس دیتے ہیں اور سب کے ٹیکس سے یہ سکول چل رہے ہیں؛ یہاں کوئی اپنے مذہب کے ساتھ ہم پر اثراندازی influence کیسے کر سکتا ہے؟

ہمیں معلوم ہے ریسرچ پیپروں اور سیمیناروں میں زندگی بسر کرنے والے کچھ حضرات اِس کا ’آسان حل‘ یہ بتائیں گے کہ یہاں ہر مذہب کےلیے جداگانہ نظامِ تعلیم جاری کر ڈالا جائے۔ (جو ہمارے علم کی حد تک، دنیا کے کسی ملک میں نہیں ہے!) لیکن ہم ان سے کہیں گے، خدا را برسرزمین رہ کر کچھ ارشاد فرمائیے۔ یہاں آئین میں ایسے تقاضوں کے ہوتے ہوئے کہ اس قوم کے بچوں کو قرآن اور قرآن کی زبان سے روشناس کرایا جائے گا، یہاں کے مسلمان بچوں اور نوجوانوں کو ابھی آپ کونسا اسلامی نظامِ تعلیم دے سکے ہیں جو آپ اس کو ’’ہیومن اسٹ‘‘ سٹیٹ بنا دینے کے بعد یکلخت کہیں سے لے آئیں گے؟ شریعت کے حق میں آئینی انتظام یہاں کے کارندوں کے کچھ اصولی فرائض تو کم از کم متعین کرتا ہے؛ اس کے بعد تو کھلا جنگل ہے۔

ہمیں رٹوایا جانے والا یہ جملہ کہ ’ریاست کسی مذہب پر نہیں ہونی چاہئے‘، عنقریب جو صورت دھار لینے والا ہے وہ آپکے ابلاغ اور تعلیم تک کا گلا گھونٹ کر رہے گی۔ اس کا طبعی اختتام لامحالہ یہ ہے: یعنی اجتماعی شعبوں میں’’غیبیات‘‘ کے موضوع پر ہی ایک مکمل غیرجانبداری۔

آپ جانتے ہیں غیبیات کے معاملہ میں ’’لا اَدریت‘‘ یا ’’غیرجانبداری‘‘ بذاتِ خود ایک دین ہے؛ بلکہ پورے ماڈرن یورپ کی بنا ہی اسی پر کھڑی ہے۔ پس وہ تو اپنے دین پر ہوئے۔ ریاستی اور سرکاری عمل کو ’مذہب‘ سے الگ تھلگ رکھتے ہوئے وہ تو ریاست کو پورا پورا اپنے عقیدے پر کھڑا کریں گے۔ واقعتاً اُن کی تو ’’الجماعۃ‘‘ ہی اسی دین پر استوار ہے: یعنی ملحد اور مومن دونوں کا ایک ’مشترک سرزمین‘ common ground پر آجانا۔ پس آپ کے ایک ایک شعبے پر ضروری ہو جاتا ہے کہ وجودِ خداوندی کےمنکروں کو ’ایڈجسٹ‘ کریں؛ رسالت، آخرت، سب کچھ باہر۔ ’مذہب‘ آپ کا ذاتی مسئلہ ہوگا؛ ’سرکاری زمین‘ صرف ’’مشترکات‘‘ کےلیے مختص ہوگی۔ یعنی ریاستی عمل میں خودبخود آپ اُس دین پر آگئے جس میں نہ یہ کہنے کی گنجائش کہ رسالت ہے اور نہ یہ کہنے کی گنجائش کہ رسالت نہیں ہے۔

ہم کہتے ہیں یہ بجائےخود ایک دین ہےجس کی بنیاد ’’انسان کی مرکزیت‘‘ ہے، یعنیhumanism۔ اس کی رُو سے جو چیز انسانوں کے مابین ’’مشترک‘‘ ہوگی ’’اجتماعیت‘‘ صرف اسی پر استوار ہوگی: نہ ملحدوں کو یہ حق کہ وہ اپنی سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیمی نصابوں میں یہ لکھیں کہ آخرت نہیں ہے اور نہ مومنوں کو یہ حق کہ وہ اپنی سیاسی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تعلیمی نصابوں میں یہ درج کر دیں کہ آخرت ہے۔ لیکن ظاہر ہے آپ کے بچوں کو لازماً کوئی نہ کوئی ’میٹافزیک‘ دی جانی ہے؛ خواہ وہ کسی ’’علیم و حکیم‘‘ پر ایمان ہو خواہ وہ کسی ’’الل ٹپ‘‘ پر ایمان ہو یا کسی ’’لااَدریت‘‘ پر ایمان ہو۔ ’’ایمان‘‘ وہ بہرحال ہوگا؛ یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کائنات کے سرچشمہ کی بابت آپ کی کوئی بھی رائے نہ ہو۔ کائنات جو سامنے نظر آتی ہے اس کی origin کی بابت ’’کچھ بھی نہ کہنا‘‘ بذاتِ خود ایک رائے اور ایک مذہب ہے۔ ماڈرنزم سب اسی مذہب پر کھڑا ہے۔ لیکن یہ لوگ ہم پر اپنا یہ نظریہ ٹھونس کر کہ یہ تو کوئی مذہب نہیں (بالجبر) اس کو ہمارے لیے ’’کامن گراؤنڈ‘‘ ڈیکلیئر کر دیتے ہیں۔ (ہم کہتے ہیں یہاں کوئی ’کامن گراؤنڈ‘ ہے ہی نہیں۔ جو بھی گراؤنڈ ہے وہ کسی ’’مذہب‘‘ کی ہے؛ اور لامحالہ آپ کو کسی مذہب پر ہونا ہے؛ بلکہ آپ ایک مذہب پر ہیں؛ صرف ہمیں ہمارے مذہب پر ہونے سے روک رہے ہیں)۔

پس یورپ اپنے مذہب پر ریاست قائم کرے، یہ حق ہے۔ وہ ہمیں اپنے اس مذہب پر ریاست قائم کرنے کا پابند رکھے، ہمارے جدت پسندوں کے نزیک یہ برحق ہے۔ البتہ ہم اپنے مذہب پر اپنی ریاست قائم کریں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ، منتخب نمائندوں اور دوتہائی اکثریت سے کریں، یہ غلط اور سراسر باطل ہے!

انجامِ کار؛ اِس فلسفہ پر چلتے ہوئے… ’ریاست کسی مذہب کی نہیں‘ ہونے کےلیے ضروری ہوگا کہ صرف قوانین نہیں آپ کے ایک ایک قومی شعبے سے ’’خالق‘‘، ’’تخلیق‘‘، ’’رسالت‘‘، ’’آخرت‘‘ ایسی سب اشیاء باہر کردی جائیں؛ اور نونہالوں کو تعلیم دیتے ہوئے ’’میٹافزیک‘‘ میں ہی صرف وہ بات رہنے دی جائے جس پر خدا کے انکاری طبقے تک معترض نہ ہو سکتے ہوں۔جہنمی ملتیں اگر آپ سے اس سطح تک راضی ہوں تو ہم مانیں گے یہ ایک ماڈرن سٹیٹ ہے!

استفادہ تحریر :’ ریاست پر کسی مذہب کا حق نہ ہونا’حامد کمال الدین ، ‘متبادل بیانیہ اصل بیانیے کی روشنی میں’ زاہد مغل