غیرسیاسی اسلام – ایک غریب اصطلاح

بہت وقت گذر گیا۔ میٹرک کی سند پر تاریخ دیکھی جاسکتی ہے لیکن تاریخ لکھنا ایسا ضروری بھی نہیں۔ نوّے کی دہائی کے نصف آخر کا کوئی سال تھا اور خاکسار گلگت پبلک سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم۔ دیگر سکولوں کی طرح اس نادر درسگاہ میں بھی زمانے کے دستور کے مطابق نمبر حاصل کرنے کیلئے خلاصے رٹنے اور رٹائے جانے کا چلن عام تھا۔ دستور کے پابند، اور لوگوں کی طرح چنانچہ ہم بھی رہے۔


“گُڈ بائے مسٹر چِپس” کے نام سے انگریزی کے مضمون میں ایک ناول شامل نصاب تھا۔ کہانی کی سمجھ تو خیر آجاتی تھی لیکن امتحانی جواب نامے کے اندر معیاری اور چست جملوں کے ساتھ اسکو دوبارہ درج کرنے کیلئے صرف کہانی کو سمجھ لینا یقیناً ناکافی ہے۔ انگریزی سے یوں بھی سبھی ڈراتے تھے، سو انگریزی کے مضمون میں خلاصہ رٹنے کے حوالے سے خصوصی اہتمام ہوتا تھا۔


گُڈ بائے مسٹر چپس کا خلاصہ رٹتے ہوئے مسٹر چپس کی شخصیت کے بارے میں ایک جملہ جو تمہید میں ہی آتا تھا، اب بھی یاد ہے۔


His personality was an odd combination of strange contradictions.

کہ “انکی شخصیت”عجیب تضادات کا ایک غریب مجموعہ تھی”۔

وقت گذرنے کیساتھ ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ناگذیر ہوتا ہے۔ مسٹر چِپس کی شخصیت کی طرح کی عجیب وغریب باہم متضاد اصطلاحات کیلئے یادداشت پر اب زور دیا جائے تو ایک طویل فہرست تیار ہوسکتی ہے۔

“غیر سیاسی اسلام” ایسی ہی ایک متضاد اصطلاح ہے۔

ہر نظام کو اسکی اپنی متعین کردہ تعریفات اور مفاہیم کے پس منظر میں ہی سمجھنا چاہئے۔ جدید علمیات پر مغربی اثرات کے عالمگیر غلبے کی وجہ سے ہمارے ہاں بھی سیاست کی عمومی طور پر یونانی اور پھر یورپی تعریفات کو معیاری تسلیم کرنے کا رجحان مقبول ہے۔ افلاطون نے سیاسیات یا “حکومت” کی کیا تعریف کی یا روسو کی جمہوری سیاست سے کیا مراد ہے، جدید قاری کے پاس “سیاست” کے حوالے سے سچائی کے بڑے معیارات آج یہی ہیں۔ افلاطون کی خیالی ریاست سے سبھی واقف ہیں۔ ‘روسو، اٹھارویں صدی کے فرانسیسی فلسفی تھے۔ انکے سیاسی فلسفہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انقلاب فرانس انہی کی تحریروں کا نتیجہ تھا۔ جدید تصور حکومت یا مغربی جمہوریت کے فلسفہ کے پیچھے بھی ان کی فکر کا وافر حصہ ہے۔


مصنف کو یہ دعوی ہرگز نہیں کہ یونانی اور مغربی فلاسفہ کی رائے سیاست کی تعریف اور دائرہ کار متعین کرنے کے حوالے سے غلط ہے یا اسلام بطور مجموعی نظام کے جس طرح کی سیاست متعارف کرواتا ہے وہ ان فلاسفہ کی رائے سے بالکل مختلف ہے۔ سماج کا بنیادی ڈھانچہ اس حد تک تو ہر جگہ پر ایک ہی ہوتا ہے کہ انسانوں پر ہی مشتمل ہوتا ہے اور انسان ملتے جلتے ہوتے ہیں، تاہم یہ گذارش ضرور ہے کہ فکری سطح پر ہم لوگوں کو زیادہ غرض اس پہلو سے ہونا چاہئے کہ ہمارے اپنے نظام میں سیاسیات کا دائرہ اثر کیا ہے۔ جس دین کے مکمل ضابطہ حیات ہونے کا دعوی ایمان کا لازمی تقاضا ہے، اس کے حوالے سے سیاست کے مفہوم کی تفصیل فراہم کرنے کی کتنی صلاحیت اپنے اندر پاتے ہیں یا خود اس دعوی پر کتنا یقین رکھتے ہیں۔

تہذیب سے مراد اگر کسی قوم کا مجموعی مزاج اور اسکے عملی اظہار کی مختلف صورتیں لیا جائے تو غالب نظریات تہذیب کے حوالے سے تین بڑے فیصلے کرتی ہے۔ حق اور باطل کا تعین۔ خیر اور شر کی نشاندہی، اور حسن و قبح کا فیصلہ۔

سادہ لفظوں میں کہیں تو کیا درست ہے اور کیا غلط، کیا نیکی ہے اور کیا برائی، کیا خوبصورت ہے اور کیا بد صورت۔ سوالات کے ان تین جوڑوں اور ان کے سامنے اختیار کئے گئے جوابات سے ہی تہذیب کا مکمل چہرہ سامنے آ جاتا ہے۔ ان سوالات کے جواب طے کرنے کیلئے جن ماخذات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے وہیں سے بات کھل جاتی ہے کہ ہم کس نظام اور کس فکر کے زیر اثر ہیں۔ دعوی چاہے جو بھی ہو۔


مصنف کی نظر میں اسلام کو غیر سیاسی کہنا ایک آفاقی نوعیت کا مذاق ہے۔ امید یہ ہے کہ اس تحریر کو پڑھنے کے بعد قاری کو بھی اندازہ ہوجائے گا کہ اسلام کو غیر سیاسی کہنا غلط کیوں ہے۔ حالات حاضرہ کے تناظر میں یہ بات چلتے چلتے سمجھ لینے کی ہے کہ ملک کے اندر سیکولرزم پھیلانے کی مہم پر جو پرجوش تبلیغی جماعتیں گشت کررہی ہیں یا ایسے سرگرم روشن خیال مفکرین جو ریاست کو بے دین ثابت کرنے کیلئے قلم توڑ علمی کاوشوں میں مصروف ہیں، دونوں ہی اسی ایک متضاد اصطلاح کے نیچے قائم ہونے والے ذیلی عنوانات ہیں۔ تاہم اس اصطلاح پر تنقید سے پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ “سیاسی” یا سیاست کا مفہوم کیا ہے۔ مزید یہ کہ ہمارے ہاں دین کو سیاست سے جدا کرنے کی چنگیزی تحریک کے پیچھے کس قسم کی نفسیات کارفرما ہے اور اسکے ڈانڈے کہاں سے ملتے ہیں۔


سیاست” عربی زبان کا لفظ ہے۔ ثلاثی مجرد “سیس” سے مشتق، اردو میں من و عن منتقل ہوا اور بطور اسم استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں اس کے معنی کسی ملک کا نظام حکومت، ملکی تدبیر و انتظام، طریقہِ حکومت، احتساب، حکومت کا قیام، حکومت کرنے کی حکمت عملی” بیان ہوئے ہیں۔ (Urdu lughat) “سیاست کیلئے انگریزی میں استعمال ہونے والا لفظ “پولیٹیکس” اُسی لفظ سے نکلا ہے جس سے ارسطو کی کتاب کا عنوان “پولیٹیکا” برآمد ہوا ہے۔ اس کا سادہ ترجمہ “شہر کے معاملات” کیا جانا چاہئے۔ پندرھویں صدی کی انگریزی میں اس لفظ کو polettiques لکھا گیا جو جدید انگریزی میں politics بن گیا۔ اس لفظ کی مفرد حالت politic پہلی مرتبہ 1430 ء میں انگریزی تحریروں میں نظر آئی جو فرانسیسی لفظ politique کا ترجمہ ہے۔ Poltique لاطینی زبان سے فرانسیسی میں منتقل ہوا جہاں یہ لفظ یونانی زبان کے لفظ politikos کے ترجمہ کے طور پر مستعمل تھا۔ جس کے معنی “شہریوں/ citizens سے متعلق معاملات، ریاست کے معاملات” درست ہیں۔ یوں polites سے citizen اور polis سے city )بن گئے”


. The Diets and Sayings of the Philosophers(Early English Text Society, Original SeriesNo. 211, 1941; reprinted 1961), p. 154: “the book of Etiques and of Polettiques”.


. Charlton T. Lewis, Charles Short. “A Latin Dictionary”. Perseus Digital Library. Retrieved 2016-02-19.

. Henry George Liddell, Robert Scott.πολιτικός “A Greek-English Lexicon”Check |url= value (help). Perseus Digital Library. Retrieved 2016-02-19.

سیاست کی ایک جدید مستعمل تعریف میریم ویبسٹر ڈکشنری میں یوں ہے:

“کسی حکومت یا ریاست کو اپنی حکمت عملی ترتیب دینے کیلئے رہنمائی فراہم کرنے اور اس ریاست کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کیلئے بروئے کار لائے جانے والے علوم یا سرانجام دینے والے اعمال کا نام سیاست ہے” (. Merrium Webster Dictionary)

وقت اور زمانے کی اپنی ایک رفتار اور ڈھب ہے، اکیسویں صدی کے جن حالات میں ہم نے آنکھ کھولی وہ پچھلی صدی اور اس سے پہلے کے تاریخی واقعات کا واحد منطقی انجام تھے۔ دستیاب تاریخ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ ابتدا میں مدینہ میں قائم ہونے والی ایک چھوٹی سی دینی ریاست جسکی اولین قیادت خدا کے آخری پیغمبر کے ہاتھ میں تھی، انکے اپنے تربیت یافتہ ساتھیوں اور پھر اس جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کی زیر نگرانی بے مثال تیزی کیساتھ ابھری، پھیلی اور وقت کی بڑی طاقتوں کو للکارتی انکو زیر نگیں کرتی تیرہ صدیوں تک قائم رہنے والی ایک عظیم الشان بین الاقوامی سلطنت میں ڈھل گئی۔ اس سلطنت نے دنیا بھر کے علوم اور فنون کی سرپرستی کی، ان کو پروان چڑھایا اور اضافے کئے۔


وقت مزید گذرا اور بدلتی ہوئی دنیا اس قدر بدلی کہ اس عظیم سلطنت کو زوال آگیا۔ اسی دوران یا اس سے کچھ پہلے یورپ میں ایک ایسی جدید ریاست کا تصور پروان چڑھا جس نے دین اور مذہب کو اپنے امور سلطنت سے بے دخل کردیا۔ مسیحیت کو گرجا کے اندر مقفل کرکے اکثریت کی رائے کو امور سلطنت میں حتمی اختیار دیدیا اور یوں “جمہوریت” کو سیاسی نظام کے طور پر اپنالیا۔ تجارت اور منڈی سے طاقت حاصل کی اور عظیم الشان فوجیں تیار کیں۔ ملک کے ملک اس نئے نظام کے آگے گھٹنے ٹیکتے گئے یہاں تک کہ پوری دنیا پر یا تو اس نظام کی براہ راست حکومت قائم ہوگئی یا اسکی تجارتی اور سیاسی حلیف اور باجگزار بنادی گئی۔ علم اور فن کی سرپرستی ان طاقتوں نے اپنا لی، قابل قدر اضافے کئے اور اپنے اقتدار کو استحکام دینے کیلئے جدید علوم کا زبردست استعمال کیا۔


اقوام کے عروج وزوال کی داستان طویل بھی ہے اور پیچیدہ بھی۔ لیکن یہ طے ہے کہ ہر غالب قوم اپنے حکم کیساتھ ساتھ اپنا فلسفہ بھی مغلوب قوم پر لاگو کرتی ہے۔ زبان اور نظریات، عسکری اور سیاسی غلبے کے ساتھ ہی مغلوب قوم کے اندر پسندیدہ یا تو از خود ہوجاتے ہیں یا کردئے جاتے ہیں۔


ایسٹ انڈیا کمپنی اور اسکی پشت پر برطانیہ عظمی کا متحدہ ہندوستان پر تسلط بھی عروج اور زوال کی اسی مسلسل داستان کا ایک باب ہے۔ مغلیہ اسلامی سلطنت کے مغلوب ہوجانے کے بعد غالب قوم جب اپنے نظام سیاسیات اور زبان و نظریات کو ہندوستان میں رائج کررہی تھی، تب جو لوگ ایک نظام کے تحت غالب اقوام کی نظریات کو قبول کررہے تھے وہ ہمارے ہی باپ دادا تھے۔ اس تسلط کے خلاف کئی اٹھنے والی تحریکوں نے بعد میں تحریک پاکستان کی شکل اختیار کرلی اور نتیجہ کے طور پر بڑی تگ و دو اور بہت کچھ کھونے کے بعد ایک الگ مملکت حاصل کرلی گئی۔ صورتحال مگر یہ تھی کہ یہ نوزائیدہ مملکت بہرحال اُسی دنیا میں رہتی تھی جسکے آدھے حصے پر برطانیہ عظمی کی حکومت اب بھی قائم تھی۔ پھر برطانیہ کے جزوی زوال کیساتھ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو عروج ملا اور یورپی ممالک کی یونین امریکہ کے پہلو بہ پہلو دنیا پر حکمرانی کرنے لگی۔


اس نوزائیدہ مملکت کے شہریوں کو اس لئے ورثے میں غالب انگریز قوم کا فلسفہ اور اس کے خلاف مزاحمتی تحریکی مواد دونوں اطراف سے ہی حصہ ملا ہے۔ پاکستان کا قیام اس بات کا اگرچہ کافی ثبوت ہے کہ دونوں میں سے کونسا عنصر غالب رہا۔ تاہم ایک باریک نکتہ یہ ہے کہ غالب قوم کے فلسفہ سے کئی نظریات اس ملک کے تحریکی لوگوں کی سوچ میں بھی شامل اس بنیاد پر ہوگئے کہ ساری دنیا جس رنگ میں رنگی ہو اس سے دامن کو مکمل بچا کر رکھنا شاید ممکن نہیں۔


ٓج یہ مخفی اثرات اس وقت واضح طور پر سامنے آتے ہیں جب نظریات اور نظام کے حوالے سے تعریفات متعین کرنے کی باری آتی ہے، اور جب حق و باطل، خیر و شر اور حسن و قبح کے معیار طے کرنے کیلئے سوال پوچھے جاتے ہیں۔ جیسے مثلاً آج کا سوال، کہ دین اور سیاست کا آپس میں کیا تعلق ہے اور کیا دین سے سیاست کو الگ کیا جانا چاہئے؟ کیوں، اور کیوں نہیں۔ وغیرہ۔


سیاست” کا دائرہ کار متعین کرنے، اور خاص طور پر دین کیساتھ اسکے تعلق کو طے کرتے وقت لہذا، غالب قوم کے فلسفہ کے زیر اثر ہمارے ہاں ایک تو مغربی جمہوریت کو سیاست کے متبادل سمجھا جاتا ہے اور دوسرے دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں بانٹ کر ایک کو دوسرے کے دائرہ اثر سے دور رکھنے کی حمایت شد و مد سے کی جاتی ہے۔ جمہوری سیاست کو غالب کرنے کیلئے چونکہ یورپ نے مسیحیت کو گرجے کے اندر مقفل کردیا گیا تھا، ہمارے روشن خیال دانشور بھی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسلام کو مسجد کے اندر محصور کرنا چاہتے ہیں تاکہ جمہوریت کو اسکی اصل مغربی روح کیساتھ نافذ کیا جاسکے۔


غیر سیاسی اسلام” اسی طرح کے مغلوب اذہان میں پلنے والی اُس مستعار فکر کا عنوان ہے جسکے زیر اثر سیکولرزم کی تبلیغ ہوتی ہے اور ریاست بے دین قرار دی جاتی ہے۔


دین اسلام کے دو بڑے ماخذات ہیں؛ اللہ کی کتاب اور نبی ص کی سنت۔ پہلے ماخذ کی بنیاد بھی دراصل نبی ص ہی کی ذات ہے کیونکہ قرآن کریم آپ کے قلب اطہر پر نازل ہوا اور ہم مسلمان آپ ہی کی خبر پر یقین کرکے قرآن کو خدا کا کلام کہتے ہیں۔ لہذا دونوں ماخذات کا تعلق نبی ص سے ہے اور انہی کی ذات گرامی ہمارے لئے دین کی اصل بنیاد ہے۔


دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح سیاست کا بھی دائرہ کار دین اسلام کی نظر میں متعین کرنے کیلئے لہذا، نبی ص کی سیرت کے سیاسی کردار سے بہتر نمونہ اور دلیل ممکن نہیں۔


انبیاء کی سیاست کے موضوع پر صحیح بخاری کے باب “احادیث الانبیاء” کے حوالے سے ایک حدیث ملی۔ اس حدیث میں سیاست کیلئے لفظ “تسوسھم” استعمال ہوا ہے۔ حضرت ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ نبی ص نے فرمایا


” ـ”بنی اسرائیل کی سیاست ان کے انبیاء کرتے تھے جب کوئی نبی وفات پا جاتا تو اس کا خلیفہ ونائب نبی ہوتا تھا اور میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور عنقریب میرے بعد خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے ہاتھ پر پہلے بیعت کرلو اسے پورا کرو اور احکام کا حق انکو ادا کرو بے شک اللہ ان سے انکی رعایا کے بارے میں سوال کرنے والا ہے۔”


سیرت نگاری ایک باقاعدہ صنف ادب ہے اور سیرت کے موضوع پر بڑی مستند اور معیاری کتابیں موجود ہیں جن میں نبی ص کی سیاسی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے متعلق معلومات ملتی ہیں۔ چند سال قبل سیرت کے حوالے سے معروف مستشرق منٹگمری واٹ کی شہرہ آفاق کتاب کا تعارف ایک آڈیو لیکچر کے دوران ہوا۔ اسلام کے حوالے سےدین اور سیاست کا تعلق، پہلی اسلامی ریاست اور نبی ص بطور مردِ ریاست کے موضوعات پر بہت معیاری اور تفصیلی مواد پروفیسر واٹ کی کتب میں موجود ہے۔


ولیم منٹگمری واٹ کا شمار ان چند مستشرقین میں ہوتا ہے جن کی دین اسلام سے متعلق تحریریں اور تجزیے مسلمان اور غیر مسلم علماء، ہر دو کے نزدیک آزاد اور تعصب سے بالا سمجھے جاتے ہیں۔ واٹس 1909 میں سکاٹ لینڈ میں پیدا ہوئے۔ وہ اینگلکن پادری تھے۔ 1964 سے لیکر 1979 تک ایڈنبرا یونورسٹی میں عربی اور اسلامیات کے پروفیسر رہے۔ محمد ص کی حیات پر انکا شہرہ آفاق کام دو حصوں “محمد ایٹ مکہ” اور محمد ایٹ مدینہ” کے نام سے موجود ہے۔ بعد میں ان دونوں کتابوں کے مواد کو پروفیسر واٹ نے اپنی ایک اور معروف کتاب میں یکجا کرکے کچھ تبدیلیوں کیساتھ شائع کیا۔ اس کتاب کا عنوان ہے


Muhammad: Prophet and statesman


پروفیسر واٹ کی غیر جانبدار رائے میں نبی صلعم کی مکی اور مدنی زندگی، دونوں کا سیاسی پہلو اس قدر بھرپور رہا تھا کہ انہوں نے اس کتاب کے عنوان ہی میں نبی ص کو پیغمبر ہونے کے ساتھ سٹیٹسمین یا مردِ ریاست بھی قرار دیا۔


سیرت کا عمومی طور پر اور پھر اسکے سیاسی پہلو کا خصوصی طور پر ایک یورپی غیر مسلم کی نظر سے انہوں نے جیسا گہرا اور تفصیلی مطالعہ کیا ہے اس کا ثبوت کتاب کے مطالعے ہی سے بخوبی مل سکے گا۔


نمونے کے طور پر انکی کتب میں سے چند منتخب اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے


پروفیسر واٹ لکھتے ہیں:


مذہب اور سیاسیات کے معاملات کو یہاں آپس میں ملا ہوا دیکھ کر قاری کو شاید یہ محسوس ہو کہ عرب قبائل کی اسلامی ریاست میں شمولیت شاید صرف ایک سیاسی اقدام تھا اور مذہبی نہیں۔ ایسا سوچنا درست نہیں ہے۔ بنی اسرائیل کے مصر سے انخلاء کے بعد مشرق وسطی میں مذہب اور سیاست ہمیشہ ایک دوسرے کیساتھ جڑے رہے ہیں۔ اور اس مشاہدے کا کہ اس شمولیت کا ایک واضح سیاسی پہلو ہے ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کام کا مذہب سے تعلق نہیں تھا۔ (جیسا کہ عموماً مغرب میں سمجھا جاتا ہے)۔


اسلام نے ایک مکمل معاشی، سماجی اور سیاسی نظام مہیا کیا اور مذہب اس نظام کا ایک لازمی جزو تھا، کیونکہ یہی وہ تصورات پیش کرتا تھا جن کے اوپر اس پورے نظام کی بنیاد تھی۔”( Muhammad at Medina. (1956) Oxford University Press. ISBN 0-19-577307-1. p. 224)


ایک اور جگہ لکھتے ہیں:


“اس زمانے کے عرب یقینی طور پر نظام کو ایک مجموعی اکائی سمجھتے تھے۔ وہ نظام کو معاشیات، سیاسیات اور مذہب کے خانوں میں منقسم تصور کرنے سے قاصر تھے۔ اہم ترین سوال انکے آگے یہی تھا کہ اس نظام میں شامل ہوا جائے یا الگ رہا جائے۔ وہ خدا اور پیغمبر پر ایمان کی مذہبی دعوت کو تسلیم کئے بغیر سیاسی اور معاشی فوائد حاصل ہی نہ کرسکتے تھے۔ خدا اور پیغمبر پر ایمان کی اس دعوت کو تسلیم کرنا بے معنی تھا اگر وہ محمد صلعم کی جماعت کا حصہ نہ بن جاتے، ایک ایسی جماعت جو سیاسی ہونے کیساتھ ساتھ مذہبی بھی تھی۔ لہذا ایسا سوچنے میں کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہے کہ 630 اور 631 ء میں قبائل کی جوق در جوق شمولیت کے پیچھے مذہب کارفرما تھا۔ یورپ کی تجزیاتی زبان میں یہ بنیادی طور پر ایک سیاسی عمل ہوگا (اگرچہ ایسا کہنا شاید یورپ کی مادیت کی طرف متعصبانہ جھکاؤ کی بنیاد پر ہے)، تاہم واقعات کی اصل حقیقت کو دیکھا جائے تو ان میں سے مذہب اور سیاست کو جدا کرنا ناممکن ہے۔”( Muhammad at Medina. (1956) Oxford University Press. ISBN 0-19-577307-1. p. 225)


کتاب کے آخر میں پروفیسر واٹ نے “عظمت کی بنیادیں” کے عنوان کے تحت نبی ص کی تین صلاحیتوں کا خصوصیت کیساتھ تذکرہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔


خاص طور پر ہم تین ایسی صلاحیتوں کا ذکر کرینگے جو محمد ص کی غیر معمولی کامیابیوں کیلئے ناگذیر کہی جاسکتی ہیں۔


پہلی خصوصیت انکی صلاحیت بطور غیب دان یا پیش گو کے ہے۔۔۔۔

دوسری خصوصیت انکی صلاحیت بطور مردِ ریاست اور مدبر سیاستدان کے ہے۔ قرآن میں سیاسیات کے حوالے سے ھدایات کا محض ایک بنیادی ڈھانچہ ہی دیا گیا ہے۔ اس ڈھانچے کو ٹھوس حکمت عملی اور مضبوط اداروں کا سہارا فراہم کرنا ضروری تھا۔ اس کتاب میں انکی دور رس سیاسی حکمت عملی اور سماجی اصلاحات کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا۔ انکی سیاسی حکمت کی کامیابی کا یہ کافی ثبوت ہے کہ ایک چھوٹی ریاست کیسے ایک قلیل مدت میں وسیع و عریض عالمی سلطنت میں تبدیل ہوگئی اور یہ کہ کتنے مختلف اور متنوع حالات کے اندر انکے اس نظام کو کامیابی کیساتھ لاگو کیا گیا اور پھر یہ سلسلہ تیرہ صدیوں تک جاری رہا۔


تیسری خصوصیت انکی انتظامی صلاحیت ہے اور وہ دانائی جسکے تحت ایسے قابل افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جنکو اہم اور حساس ذمہ داریاں سونپی جاسکیں۔۔۔۔

آدمی جس قدر ابتدائی اسلام اور محمد صلعم کے ساتھ پیش آنے والے تاریخی واقعات پر غور کرتا ہے اسی قدر وہ انکی کامیابیوں کے پھیلاؤ پر حیرت زدہ ہوتا ہے۔ انکو حالات نے جس طرح کے مواقع فراہم کئے اگرچہ کم لوگوں کو ملے ہونگے لیکن وہ اپنے دئے گئے حالات کیلئے ہر پہلو سے موزوں پائے گئے۔ اگر انکے اندر ایک نبی، ایک مرد ریاست اور ایک زبردست منتظم ہونے کی صلاحتیں نہ ہوتیں اور پھر اس کی پشت پر یہ اٹل یقین بھی، کہ وہ خدا کی طرف سے بھیجے گئے ہیں، تو بنی نوع انسان کی تاریخ کا ایک اہم باب لکھنے سے رہ جاتا۔ ” (. Muhammad at Medina. (1956) Oxford University Press. ISBN 0-19-577307-1. p. 334-335)


لہذا اب بھی کسی فرد یا جماعت کا “غیر سیاسی اسلام” جیسی غریب اور انمل اصطلاح کی لسانی ساخت سے حظ اٹھاتے رہنے کا ارادہ ہو، تو ذوق کے اس بگاڑ یا ارادے کے ایسے فساد کا کوئی حل نہیں۔ شاید اس طرح کی شغل بے کاری کیلئے “دانشور حلقوں” میں ایک محدود پیمانے پر گنجائش بھی نکل سکتی ہو، لیکن یہ بہرحال طے ہے کہ ریاست اسلام کے نزدیک ابتدا ہی سے پیغمبر کے ماتحت ایک دینی ادارہ رہا ہے۔ اسلامی طرزِ حکومت کے اندر سے دین اور سیاست کو جدا کرنا ممکن نہیں، اور یہ بھی، کہ اسلام کبھی بھی غیر سیاسی نہیں رہا، نہ کبھی ہوسکے گا۔


نوٹ: بریکٹ میں دئے گئے الفاظ بھی پروفیسر واٹس کے ہیں۔ تراجم مصنف مضمون ھذا نے کئے ہیں۔


تحریر خالدولی اللہ بلغاری ، بشکریہ دانش ڈاٹ پی کے