جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ ہمیں نظام کو پرابلماٹائز کرنے کی ضرورت نہیں (کہ شاید وہ خود بخود ٹھیک ھوجاۓ گا یا وہ کمتر اہمیت کا حامل ھے یا فی الحال اسے موخر کرکے کسی اور کام پر توجہ دینی چاھئے) یا یہ کہ ایک پیچیدہ نظام کا مقابلہ اکیلا فرد یا کوئ اکیلی جماعت کرسکتی ھے، درحقیقت ایسے لوگ نظام کی تسخیری قوت سمجھنے سے قاصر ہیں اور اسکا انتہائ غلط اندازہ (underestimate) لگائے بیٹھے ہیں۔ اسے ایک آسان مثال سے سمجھتے ہیں۔
عام مشاہدہ ھے کہ ایک بچہ ماں باپ کی بات سننے (یا ان سے گفتگو کرنے) کے بجاۓ ٹی وی (مثلا کارٹون پروگرام یا اشتہار) کی طرف زیادہ متوجہ ھوجاتا ھے۔ آخر اسکی وجہ کیا ھے؟ اسکی وجہ یہ ھے کہ ‘بچہ۔باپ’ تعلق ‘ایک ذات کا ایک ذات’ سے تعلق ھے جبکہ بچہ۔ٹی وی تعلق ‘ایک ذات کا ایک ذات سے نہیں بلکہ لاکھوں ذاتوں سے بننے والے ایک ادارے’ سے تعلق کا نام ھے۔ ٹی وی درحقیقت ایک ادارہ ھے جو لاکھوں ذہین انسانوں کے تعلقات کے تانے بانے سے وجود میں آتا ھے (مثلا پرڈکشن ہاوسز میں کام کرنے والے لوگ، فنکار و ماڈلز، لیکھاری و شاعر، اشتہاری کمپنیاں،کارپوریشنز کے مارکیٹینگ ڈیپارٹمنٹز، یونیورسٹیز میں مارکیٹینگ پڑھانے والے لوگ وغیرہم)۔
چنانچہ معاشرے کے یہ ہزارہا ذہین ترین دماغ ملکر باقاعدہ علمیت کی بنیاد پر ایک ایسا کارٹون یا اشتہار تشکیل دیتے ہیں جو پچے کو اپنی طرف متوجہ کرسکے۔ ظاہر ھے باپ اکیلا ان لاکھوں ذہنوں کو شکست نہیں دے سکتا۔ یہ لاکھوں لوگ آپس میں ‘سرماۓ کے تعلق’ سے مربوط و جڑے ہوۓ ہیں، اور یہ سب ملکر بچے (بلکہ سب کو) کو سرماۓ کے اسی جبر کی طرف راغب کررھے ہیں۔
اب ظاہر ھے اس نظام کو انفرادی سطح کی جدوجہد سے شکست نہیں دی جاسکتی (مثلا محض ماں باپ کی محبت جگانے کے دروس سے کام نہیں چلے گا، گوکہ یہ بھی چاھئے)۔ فرد کا مقابلہ فرد کرتا ھے، جماعت کا جماعت اور نظام (ترتیب تعلقات و ادارتی صف بندی) کا مقابلہ نظام ہی کرسکتا ھے (جسے کہتے ہیں کہ a soldier deserves a soldier)۔ اکیلے فرد یا ایک جماعت کی جدوجہد سے یقینا چند نفوس کی اصلاح تو ممکن ھے مگر لاکھوں کروڑوں انسانوں کو اس نظام کے جبر سے بچالے جانا نہایت مشکل امر ھے اور یہ نظام انہیں اپنے بھاؤ کے ساتھ اسی جانب لیجا کر رہتا ھے جہاں وہ خود جارہا ہوتا ھے، چاھے یہ ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے۔ لہذا نظام کی تبدیلی کو پرابلماٹائز کرنا ایک نہایت بنیادی ضرورت ھے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاھئے کہ نظام ‘صرف’ بمبوں سے تباہ یا تبدیل نہیں کئے جاسکتے کیونکہ وہ ایک ‘علمیت’ پر قائم ہوتے ہیں اور علمیت کا مقابلہ علمیت سے ہی کیا جا سکتا ھے۔
مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے دور میں کسی بڑے سے بڑے فکری چیلنج کے مقابلے میں تھوڑاعلمی کام بھی زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہوا، لیکن جب زمامِ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکلی تو فکرِ جدید کے چیلنجز کے مقابلے میں اگرچہ مسلم دنیا غافل نہیں رہی، اس میں بہت چوٹی کے دماغ بھی پیدا ہوئے جنھوں نے اس فکر کی پیدا کردہ غلط فہمیوں پر علمی کام کیا اور ان کی تردید کی، پھر دورجدید کے وسائل کی فراونی کی وجہ سے تحقیق کے ایسے گوشے بھی بے نقاب کیے گئے جو قدما کے دور میں نہ ہو سکے تھے، لیکن قافلۂ زندگی پر ان کا اثر ویسے مرتب نہیں ہوا جو مسلمانوں کے سیاسی غلبے کے دور میں مرتب ہوا۔
فتنۂ انکارِ حدیث کی مثال لیجیے۔ معتزلہ کے دماغی کمالات آج کے تنویری ڈسکورس سے وابستہ لوگوں کے مقابلے میں شاید کچھ زیادہ ہی تھے، لیکن اس دور میں اس فتنے کے مٹ جانے کے اسباب میں ایک یہ بات بھی تھی۔موجودہ دور میں اس فتنے کے رد میں بے مثال کام ہوا، لیکن اس کے پیچھے ریاستی پشت پناہی والی استشراقی تحریک شامل تھی،لیکن معاملہ دوا کرنے کےباوجود مرض بڑھنے پر منتج ہوا۔ محترم احمد جاوید صاحب نے میشیل فوکو کے حوالے سے ایک عمدہ بات کہی کہ ہردور کی علمیات کا خارجی جبر انسان کی داخلی دنیا کی تشکیل میں فیصلہ کن ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مسلمانوں کی سیاسی مغلوبیت کوئی معمولی کارثہ نہیں۔ تاریخ کے اس جبر نے ہم کو دو میں سے ایک کے اختیار پر مجبور کیا ہے:
1- دین کو ویسا پیش کیا جائے جیسا کہ وہ ہے۔ اس صورت میں جدید انسان سے نفسانی خواہشات کی قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے گا، جس کے لیے وہ تیار ہوتا نظر نہیں آتا۔
2- دین کو کتربیونت کے ساتھ جدید انسان کی خواہشات کے مطابق ڈھال کر پیش کیا جائے، جس طرح صبح کے وقت سبزی بیچنے والے کاریٹ مہنگا ہوتا ہے لیکن شام کو بہت سستے داموں پر بولی لگاتا ہے تاکہ مال بکنے سے رہ نہ جائے۔
دوسری صورت میں وہ “دین” کو تو کسی درجے میں قبول کر لے گا، لیکن یہ مسخ شدہ دین ہوگا۔ یہ جبر کی وہ حالت ہے جس کی پیش گوئی حدیث میں یوں کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گاکہ دین پر چلنے والا ایسے ہوگا، جیسے انگارے کو ہاتھ میں پکڑنے والا ۔ اس صورت حال پر سلیم طبیعتیں بے چین ہو جاتی ہیں اور شام کی ڈوبتی شفق اور آسمانوں کے بادلوں کے ٹکڑوں کے پیچھے سے چھن چھن کرآنے والی روشنیوں کے رب کو پکارتی ہیں ، متی نصر اللہ !