مندرجہ ذیل اقتباس ایک ایسی شخصیت کا ہے جو مغرب کے لبرل ڈیموکریٹک نظام کی وکالت کے لیے معروف ہیں:
” لبرل ڈیموکریٹک سسٹم جو ابھی مسلمانوں کو سمجھ نہیں آ سکتا۔ اگر پاکستان میں جمہوریت تسلسل کے ساتھ رہے تو آہستہ آہستہ چیزیں بہتر ہو تی جائیں گی۔ اگرچہ مغرب کو اس نظام تک پہنچنے میں چار سو سال لگے ہیں، قتل و غارت ہوئی ہے۔ لیکن مغرب نے جو لبرل ڈیموکریٹک نظام اختیار کیا ہے اس کے لیے انھوں نے اتنی قربانیاں دی ہیں جس کی وجہ سے آج وہ امن و سکون سے رہ رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانیوں سمیت تیسری دنیا کے لوگوں کا یہ خواب ہے کہ وہ مغرب میں رہیں، وہیں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، وہیں ملازمت کریں اور اچھی زندگی گزاریں اور اس کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ میرے کہنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کو یہ نظام اختیار کرلینا چاہیے جس کے لیے مغرب نے اتنی قربانیا ں دی ہیں۔ مگر آپ جیسے مسلمان جنھیں دعویٰ ہے کہ ہمارے پاس اعلیٰ ترین نظام ہے مگر یہ اعلیٰ ترین نظام صرف خیالوں میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے چودہ سو سال سے قتل و غارت کرتے چلے آرہے ہیں اور اگلے پانچ دس ہزار سال بھی اسی طرح قتل ہوتے رہیں گے۔ یہ اتنا اعلیٰ نظام ہے کہ حضورصلعم کی وفات کے بعد ہی اقتدار کے لیے قتل وغارت شروع ہو گئی تھی۔ چار خلفاء میں سے تین خلفاء تو اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہو گئے تھے اور اس کے بعد سے لے کر اب تک اسلام کے نام پر قتل و غارت برپا چلی آرہی ہے۔
مغرب میں جب تک فیوڈل ازم رہا وہ لڑائی جھگڑوں میں مصروف رہے۔اس دوران صنعتی ترقی شروع ہوئی۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے انھیں سمجھ آئی کہ کون سانظام ہمارے لیے درست ہے۔ مغرب والوں کی خصوصیت یہ ہے کہ قتل و غارت کے بعد انھیں سمجھ آگئی کہ اکٹھا کیسے رہا جا سکتا ہے اور وہ اس پر عمل کر رہے ہیں مگر مسلمانوں کو یہ سمجھ ابھی نہیں آئی اور قتل و غارت میں مصروف ہیں۔
کوئی بھی نظام حتمی نہیں ہوتا ۔ نظام وہی کامیاب ہوتا ہے جس میں اتنی لچک ہو کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو تبدیل کرلے۔ لبرل ڈیموکریسی مختلف شکلوں میں کام کررہی ہے۔ یورپ میں اس کی شکل اور ہے، امریکہ میں اور ہے، کینیڈا میں اور ہے ۔پھر لبرل ڈیموکریسی اور کیپٹل ازم لازم و ملزوم ہیں اور یہ حالات کے مطابق اپنے آپ کو بدل لیتے ہیں جبکہ آئیڈیالوجی کی بنیاد پر بنے نظام میں لچک نہیں ہوتی اور ایک وقت کے بعد وہ ختم ہو جاتا ہے جیسے کہ اسلام اور حالیہ دور میں کمیونزم۔اور پھر یہ بھی یاد رکھیں کہ کوئی بھی نظام آئیڈیل نہیں ہوتا ۔ ایسا ناممکن ہے ۔ انسانی تاریخ میں ابھی تک ایسا کوئی نظام نہیں آیا جو جنت جیسا ہو۔ہر نظام میں خرابیاں ہوتی ہیں۔ مگر مغرب نے جس نظام کو اختیار کیا ہے یہ اس وقت بہترین نظام ہے، اس سے بہتر نظام کوئی نہیں ہے، اگر ہو گا تو وہ اپنی جگہ لے گا۔“
اوپر دیا گیا اقتباس در اصل اسلامی نظام کے خلاف ایک لبرل ڈیموکریسی کے وکیل کے فیس بک پر کیے گئے تبصروں کا مجموعہ ہے۔ آنجناب ایک ماہانہ بھی چلاتے ہیں۔ انھوں نے اس اقتباس پر اپنے نام کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں دی ورنہ ساتھ میں نام بھی دے دیا جاتا۔ اس کے علاوہ بھی موصوف نے بہت کچھ کہا تھا لیکن یہاں پر اس کو نقل کرنے میں کوئی افادیت نظر نہیں آئی اس لیے ان حصوں کو نظر انداز کردیا گیا۔ موصوف کے مزید تبصروں کے بعد پتہ چلا کہ انھیں اسلام کے بنیادی عقائد پر ہی اعتراضات ہیں اور بقدر ضرورت الحادی فکر کی ترویج بھی کرتے ہیں۔ یہاں پر جو بھی اعتراضات ہوئے ہیں وہ صرف اسلام کے بحیثیت ایک نظام کے ہوئے ہیں اور عام طورپر انہی نکات کو اچھال کر ہمارے دانشور کالم نگار حضرات نوجوانوں کو اسلامی نظام سے متعلق الجھانے اور مایوس کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جن صاحب نے یہ اعتراضات یا تبصرے کیے ہیں انھیں سمجھانے کی کوشش تو فضول ہے کہ دین کے بنیادی عقائد کے بارے میں ہی وہ الجھاؤ کے شکار ہیں۔لیکن ہمارے وہ مخلص احباب جو کہ اسلام کو اللہ کی طرف سے آیا ہوا پیغام مانتے ہیں لیکن اسلام کے بحیثیت ایک نظام ہونے کے بارے میں انھیں کچھ اشکالات ہیں ان کے لیے مختصراً مندرجہ بالا نکات پر کچھ بنیادی باتیں عرض کرنی ہیں۔ اوپر دیے گئے بتصروں کو اگر بغور پڑھا جائے تو ان میں سے کچھ نکات سامنے آتے ہیں جن کی بنیاد پر اسلامی نظام کے خلاف ایک فکری مقدمہ کھڑا کیا گیا ہے اور عموماً ان نکات کی بنیاد پر ہی اسلامی نظام کے خلاف میڈیا وغیرہ میں غلط فہمی پیدا کی جاتی ہے۔ اوپر دیے تبصروں سے کچھ نکات الگ الگ ذکر کرکے ان کے جوابات پیش کیے جارہے ہیں۔ پورا تبصرہ پڑھنے سے یہ لگتا ہے کہ لبرل ڈیموکریسی سے موصوف کی مراد مغرب کا پورا سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ہے اس لیے ہماراتبصرہ مغرب کے پورے نظام کو مدنظر رکھ کر دیا جارہا ہے۔
مغرب کے لبرل ڈیموکریٹک نظام کو اختیار کرنے کے فوائد
دنیا میں جتنے بھی سیاسی، معاشی اور سماجی نظام ارتقا پذیر ہوئے ہیں ان کا ایک تاریخی اور تمدنی سیاق ہوتا ہے۔ بلکہ یہ نظام انھیں تاریخی اور تمدنی بہاؤ کے قدرتی نتائج ہوتے ہیں اور صرف انہی تہذیبوں سے مناسبت رکھتے ہیں جہاں پر یہ ارتقا پذیر ہوتے ہیں۔مغرب کا لبرل ڈیموکریٹک نظام مغرب کے موافق اس لیے ہے کیونکہ وہ مغرب کے اپنے عوامل(parameters) اور عناصر سے بنا ہوا ہے۔مغرب کے استعماری اور مابعد استعماری تسلط کے باوجودمسلم معاشرے میں آج بھی ان کا اپنی تاریخ اور تمدنی سیاق بولتا ہے نہ کہ مغرب کا۔
اب اگر مسلم ممالک کو مغرب کے پیداشدہ خود رو ”پھلوں اور پھولوں“سے مزین کرنا ہے تو پھر مسلمانوں کا سب سے پہلے اپنی جڑوں کا کاٹنا ضروری ہے یا کم از کم دین کی ایسی تعبیر لازمی ہے جس سے ثابت ہو کہ دین کا دائرہ کار صرف فرد کی حد تک ہے۔ لیکن تاحال یہ سیکولر طبقہ ایسی کوئی علمی بنیاد دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس شوق میں انکار سنت تک کی مہم سر کردی گئی لیکن پھربھی بات نہیں بنی۔ قرآن اور نبوت کے انکار سے کم پر بات بنتی ہی نہیں اور ان موقعہ پرست اور ضمیر فروش ملحدوں میں ایسی ہمت ہے ہی نہیں کہ مسلم معاشرے میں رہتے ہوئے اتنا بڑا اقدام کریں۔
مغرب کو اپنے اجتماعی نظام سے مسیحیت کو علیحدہ کرنے کے لیے ایک طویل جد و جہد کرنی پڑی اس کے باوجود مغرب اپنے اجتماعی نظام سے مسیحیت کو کلی طور پرعلیحدہ نہیں کرسکا۔ لیکن مندرجہ ذیل نکات کی وجہ سے اسلام کے معاملے میں یہ صورت حال یکسر مختلف ہے:
(۱)عہدنامہ جدید میں مذہب کے اجتماعی کردار کے بارے میں ابہام پایا جاتا ہے جبکہ قرآن اور قرون اولی کی صورت حال سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں کا اجتماعی نظام اسلامک آرڈر کے علاوہ کچھ اور ممکن نہیں ہے۔
(۲)عہدنامہ جدید میں مذہبی قانون سرے سے موجود نہیں ہے اور مسیحی اپنے آپ کو عہد نامہ قدیم کے قانون کا پابند نہیں مانتے۔ایسے میں قانون کے معاملے میں مسیحیت میں ایک خلا پایا جاتا تھا جس کو پوپ کے اختیارات اور کلیسا کے اجتہادات نے پر کیا ہوا تھا۔ جبکہ قرآن میں بعض اجتماعی قوانین بالکل صاف اور واضح انداز میں موجود ہیں۔ بھلے اس کی تفصیلات میں جانے کے لیے فقہ اور اجتہاد کی ضرورت پڑتی ہو لیکن قوانین کے ہونے میں قطعی کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔ مغرب میں سیکولر بمقابلہ مذہبی نظام کی جوجدو جہد ہوئی تھی وہ دراصل مذہبی دائرہ کارکے بجائے کلیسا کے اختیارات سے متعلق تھی۔
(۳)عقل اور مذہب کی جنگ میں مسیحیت صاف شکست کھارہی تھی اور اسے اپنے بچاؤ کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا کہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے شعور کی آزادی ہی چھین لے۔ اسلام کے معاملے میں صورت حال یہ ہے کہ اسلام عقل کی اپنی اہمیت تسلیم کرتا ہے اور صرف ان معاملات میں عقل کے استعمال سے روکتا ہے جہاں پر عقلی طور پر کچھ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ فتنہ اعتزال جسے عام طور عقل اور وحی کا ٹکراؤ سمجھا جاتا ہے وہ دراصل وحی اور مغرب سے درآمدشدہ فلسفوں سے متاثر ذہن کا ٹکراؤ تھا۔ یونانی فلسفہ انسانی ذہن کو متاثر تو کرسکتا ہے لیکن الٰہیات کے سلسلے میں اس کے پاس بھی کوئی دلیل نہیں تھی۔
(۴)مسیحیت کے کسی بھی غیر جانبدارانہ تجزیے سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ یہ خالص وحی سے نکلی ہوئی چیز نہیں ہے۔ اس لیے سیکولرزم کے مقابلے میں مسیحیت کی دستبرداری در اصل ایک گمراہی کی دوسری گمراہی کے مقابلے میں شکست تھی۔ اسلام کے معاملے میں صورت حال بالکل مختلف ہے۔
اب تک مسلم ممالک میں لبرل ڈیموکریٹک نظام کے جو بھی علمبرادار پیدا ہوئے ہیں وہ اپنی اخلاقی ساکھ قائم کرنے میں پوری طرح سے ناکام رہے۔ اکثر یاتو مغرب کے سیاسی دباؤ میں رہے یا پھر اپنے ذاتی مفادات کے لیے کرپشن کی گندگی میں بری طرح آلودہ رہے۔ ہمارے وہ دانشور جو لبرل ڈیموکریٹک نظام کے حامی ہیں وہ بھی ان کرپٹ حکمرانوں کے بارے میں یا تو خاموش رہے یا پھر ان کے حامی رہے صرف اس لیے کہ اسلامی نظام کے مقابلے میں انھوں نے ان کرپٹ حکمرانوں کو مغربی نظام سے زیادہ موافق پایا۔ بالفاظ دیگر لبرل ڈیموکریٹک نظام کی حمایت کرنے کے لیے منافقت کو باقاعدہ ایک اصول کے طور پر اپنایا گیا۔
جیسا کہ پہلے ہی اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ مسلمانوں کا مسلمان ہوتے ہوئے اجتماعی نظام سے اسلام کو بے دخل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، لیکن اوپر دیے گئے نکات سے یہ بھی واضح ہے کہ سیکولر معنوں میں بھی لبرل ڈیموکریٹ نظام کو مسلم معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش کامیاب ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود بعض دانشوروں کا اس نظام کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ کسی مسئلے کو حل کرنے کے بجائے صرف محاذ کو گرم رکھنے میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں یا مغرب کے لبرل ڈیموکریٹک نظام سے بالکل اسی طرح اندھی عقیدت رکھتے ہیں جس طرح یورپ کے تاریک دور میں مسیحی اپنے مذہبی ابہامات سے اندھی عقیدت رکھتے تھے۔ بقول مذکورہ نامہ نگار کے مغرب نے اس نظام کو نافذ کرنے کے لیے چار سو سال قربانیاں دی ہیں۔ اب ان کو لگتا ہے کہ چونکہ چارسو سال کی قربانیوں کے نتیجے میں یہ نظام بالکل پک کر تیار ہوچکا ہے اس لیے اس کو بغیر کسی مزید قربانی کے مسلم معاشرے میں جاری و ساری کیا جاسکتا ہے۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اس طرح کی منطق انتہائی احمقانہ ہے۔ عمرانی نظریات، عقائد، معاشرتی اقدار اور تاریخی تناظرات ایسی چیزیں نہیں ہیں کہ انھیں علم کیمیا کی لیباریٹری میں ٹیسٹ کرکے جہاں چاہیں استعمال کیا جائے۔مختصراً یہ کہ مغربی نظام اول تو ہے ہی کفر، لیکن اس کفر کو مسلم معاشرے پر نافذ کرنا عمرانیاتی لحاظ سے ناممکن ہے اور ایسی کوشش وہی کرسکتا ہے جو مسلم معاشرے کے اندر ایک شدید قسم کی کشمکش کے پیدا کرنے کا خواہش مند ہو۔
اسلامی نظام اپنے ابتدائی دور میں ہی ناکام ہوگیا تھا
یہاں پر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہم جب اسلامی نظام کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو اس سے ہماری کیا مراد ہے۔ہر معاشرے کی اپنی شناخت کچھ اصولوں اور اقدار کی بنیاد پر ہوتی ہے۔انسانی اجتماعیت کے کچھ سوالات ہوتے ہیں جس کا جواب مختلف تہذیبیں اور ادیان اپنے انداز میں دیتے ہیں۔ اور وہی جوابات ان تہذیبوں کی شناخت متعین کرتے ہیں۔
فرد کی اجتماعیت اور مرکزیت کی کیا بنیادیں ہوں؟ اس کے اجتماع کی مرکزیت کے مختلف عناصر میں کن بنیادوں پر توازن قائم ہو۔ ایک فرد کا دوسرے فرد سے کیا تعلق ہو؟ معاشرہ اپنے آپ کو کن عناصر سے شناخت کرے؟ ایک فرد کا دوسرے فرد سے باہمی تعاون کی کیا گنجائش ہو؟ مرد اور عورت کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہوں؟ معاشرے اور فرد کے حقوق میں کس طرح سے توازن قائم ہو؟ ماں باپ اور بچوں کے درمیان حقوق اور فرائض کیا ہوں؟ مرد اور عورت کا ملاپ کن شرائط کے ساتھ میں ہو؟خرید و فروخت اور کار و بار کو کیسے منضبط کیا جائے؟حکومت کا عوام پر کیا حق ہو اور عوام کا حکومت پر کیا حق ہو؟ بے حیائی اور فحاشی کی معاشرے میں کتنی گنجائش ہونی چاہیے؟ ایسے کاروبار جو معاشرے پر اثر انداز ہوں ان کو کس حد تک پابند کیا جائے؟کوئی عمل جو کہ معاشرے میں کھلم کھلا ہورہا ہو اس کے فوری اور دوررس اثرات کا تجزیہ کس طرح سے کیا جائے؟ معاشرے کے اجتماعی اصولوں کی خلاف ورزی پر کسی کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ اجتماعیت اور مرکزیت کی بنیادوں کی بے حرمتی کرنے والے کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیا جائے؟ نظم و ضبط قائم کرنے کے اختیارات اور ذمہ داریاں کس طرح سے منقسم ہوں وغیرہ وغیرہ۔
یہ اور اس طرح کے سوالات ہر اجتماعیت کے پیش نظر ہوتے ہیں اور اس معاملے میں ہر قوم کا اپنا جواب ہوتا ہے۔ان سوالات کا جواب طبیعاتی سائنس کی بنیاد پر نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی ان کے جوابات کو کسی لیباریٹری میں جانچا جاسکتا ہے۔
جب ہم ”اسلامی نظام“کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کے سوالات کے جوابات کے لیے اس وحی کو بنیاد بنایا جائے جو محمدﷺ پر نازل ہوئی تھی نہ کہ کسی اور ذریعے کو۔اوپر بیان کی گئی بہت ساری چیزیں مسلم معاشرے میں روایتی طورپر تو موجود ہیں لیکن روایتی اور سرکاری سوچ اگر مخالف سمت میں ہو تو معاشرے میں بے آہنگی اور کشمکش پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں مسلمانوں کی قوت اور وسائل اسی کشمکش میں لگتے ہیں۔ اس لیے اسلامی نظام کے استحکام اورتکمیل کے لیے حکومتی سطح پر اسلام کا نفاذ لازمی ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دور نبوت سے بُعد کے ساتھ ساتھ اس نظام میں کمزوری ، ڈھیلاپن اور بیرونی اثرات کافی در آئے ہیں۔ لیکن عالمی حالات جس رخ پر جارہے ہیں اس بارے میں اس بات کی کافی گنجائش ہے کہ اسلامی نظام پھر سے مضبوط ہوجائے گا اور ہمارے پاس احادیث کا جو ذخیرہ ہے اس سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔
اسلامی نظام کی ناکامی کا جو مقدمہ کھڑا کیا گیاہے وہ بے بنیاد ہے۔ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ”اسلامی نظام“بس حاکم کے انتخاب کرنے کا نظام ہے اور چونکہ خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں میں بادشاہت اور خاندانی حکومت در آئی ہے اس لیے خلافت روز اول ہی سے ناکام رہی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکمران کا انتخاب بھی اسلامی نظام کا ہی حصہ ہے اور واقعی میں یہ رخنہ اسلامی نظام میں بہت پہلے ہی سے پڑ گیا تھا۔ لیکن اس بنیاد پر یہ دعوی کرنا کہ اسلامی نظام ناکام ہوگیا ایک بہت ہی گمراہ کن پروپیگنڈا ہے۔ صورت حال یہ ہے حکمران کے انتخاب کے بارے میں اسلام نے شوری اور اسلام کے مجموعی اصولوں کے علاوہ مزید کوئی ہدایات نہیں دی ہیں۔ اسی وجہ سے ہمیں خلفائے راشدین کے انتخابات میں مختلف طرز عمل نظر آتے ہیں۔
”اسلامی نظام“خود سے اتنا طاقتور تھا کہ تاتاریوں کے حملے سے پہلے تک فاسق سے فاسق حکمران کی بھی اتنی ہمت نہیں تھی کہ اسلامی اجتماعیت کے اصولوں پر انگلی اٹھاسکے۔ دو سے تین صدیوں پر محیط مغربی استعمار کی دراندازی، پھر انہی استعمار کے غلاموں کا تسلط، مغرب کے بے پناہ مادی وسائل اورتسلسل کے ساتھ مسلم معاشروں پر مغربی اطلاعاتی اور ابلاغی حملوں کے باوجوداسلام اب بھی بطور نظام کے مسلم معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ کہیں کہیں پر تین سے چار دہائیوں تک مسلم معاشروں پر مغربیت زدہ آمروں کی حکومت کے باوجودجیسے ہی یہ آمر رخصت ہوئے پتہ چلا کہ علم اور عمل میں کمی کے باجود دین سے وابستگی اور وارفتگی کا وہی جذبہ جوں کا توں موجود ہے۔ ایسا نظام جو حکومت کے سہارے بلکہ مخالفت کے باوجود اتناپائیدار ہوسکتا ہے وہ انسانی فطرت سے کتنا قریب ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ بیشتر مسلم حکمرانوں نے بیسویں صدی کے اوائل تک ”نظام“کی حد تک اسلام ہی کے مطابق حکومت کی اگرچہ حکمرانوں کے انتخاب کے معاملے میں رخنہ بہت پہلے سے پڑچکا تھا۔
اس کے بالمقابل مغربی نظام ایک ڈیڑھ صدی میں بہت زیادہ کمزور ہوچکا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ صرف حکمران کے انتخاب کے علاوہ ہر معاملے میں یہ ناکام نظر آرہا ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ مغرب کا کوئی بھی دانشور اپنے معاشرتی اور خاندانی نظام کو کامیاب نظام کہتا نظر نہیں آتا۔ سیکولر معیارات کو سامنے رکھ کر بھی مغربی ”معاشرے“کی ناکامی پر اگر لکھنا شروع کیا جائے تو اس موضوع پر کتابوں پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں۔ کچھ عرصے پہلے تک مغربی نظام کی کامیابی معاشی میدان میں بھی نظر آرہی تھی۔ مغربی نظام میں جتنی بھی خرابیاں اور جھول تھے معاشی کامیابیاں ان سب کی عیب پوشی کے لیے کافی تھیں۔ لیکن اب جبکہ معاشی نظام کے بارے میں سوالیہ نشان پیدا ہوچکا ہے اور مسلسل پیوند کاری اور مصنوعی سہاروں سے اس بھاری بھرکم ہاتھی کو سہارا دینے کی کوشش کی جارہی ہے مغربی نظام کی اس طرح پرجوش انداز میں وکالت کرنا ذہنی دیوالیہ پن کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ اور ایسے افراد یا تنظیمیں ایک ناکام یا مشکوک نظام کو پیش کرنے کے لیے اسلامی نظام کو روز اول سے ناکام قرار دیں تو اس کی کیا حیثیت ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لیے قارئین کو زیادہ دقت نہیں ہونی چاہیے۔
اسلامی تاریخ قتل و غارت گری کی تاریخ؟
ہمارے بعض دانشور حضرات جن میں کچھ تو مسلمانوں سے ہمدردری کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلامی تاریخ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کی تاریخ ہے اور بس۔ تاریخ کا تجزیاتی مطالعہ نہ صرف دقت طلب بلکہ اچھا خاصہ متنازعہ کام ہے۔ بات صرف اسلام کی ہی نہیں بلکہ کسی بھی بڑی تہذیب کی تاریخ لے کر آپ کچھ واقعات کو ایک مخصوص ترتیب سے پیش کریں تو وہ تہذیب آپ کو دنیا کی بد ترین تہذیب نظر آسکتی ہے۔ اسی تاریخ کے کچھ اور واقعات کو کسی اور ترتیب سے پیش کریں تو ایسا لگتا ہے کہ بس یہی وہ تہذیب ہے جس میں انسانیت کے بہترین خصائل اپنے عروج پر تھے۔ اسلامی تاریخ کے کئی پہلو ہیں، اس میں علم و تحقیق، زہد و تقوی، عدل و انصاف، فتوحات و جہان گیری، سائنس و تسخیر کائنات، فن و ادب، علم کلام و تصوف، فلسفہ و معقولات وغیرہ شامل ہیں۔ ایسے میں اگر ہم اسلامی تاریخ کا جتنا بھی دفاع کریں اس کو معروضی تحقیق نہیں مانا جائے گا۔ تاریخ کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھنا بہت آسان ہے بلکہ اپنے مخصوص طرز فکر کے لیے بھی تاریخ کوآسانی سے گواہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے اسلامی تاریخ کا دفاع کرنے کے بجائے اس ذہنیت پر غور کرنا ضروری ہے جو اسلامی تاریخ کو اس مخصوص نظر سے دیکھتی ہے۔
اب ذرا یہی دیکھ لیجیے، مذکورہ بالا نامہ نگار کو مغرب کی خون ریزیاں، ریڈ انڈینز کی نسل کشی، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملہ، فلسطین پر مستقل ظلم و زیادتی کی ۵۶سالہ تاریخ، اقوام متحدہ کے ذریعے نافذ شدہ عالمی چودھراہٹ یہ سب نہ صرف مبنی بر انصاف نظر آرہی ہیں بلکہ مغرب کی دی ہوئی ”قربانیاں“ نظر آرہی ہیں!
ہمیں کوئی شوق نہیں ہے کہ آج کے دور میں مغرب کی طرف سے عالم اسلام پر جو زیادتیاں ہو رہی ہیں اس پر واویلا کیا جائے۔ لیکن موصوف کا خیال ہے کہ افغانستان اور عراق پر حملہ، عرب ممالک پر مسلط شدہ ڈکٹیٹروں اور شاہوں کی حمایت، اسرائیل کی زیادتیوں جو کہ ان کے اپنے معیارات کے مطابق بھی ”بین الاقوامی قوانین“ کی خلاف ورزیاں ہیں ان کی مستقل اور مکمل حمایت، یہ سب مغربی نظام کے بہترین ثمرات ہیں جو مغرب کی چار سو سالہ قربانیوں کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں!اب اگر کسی کی ذہنی کیفیت یہ ہو کہ تاریخ کی بد ترین خون ریزیاں اسے قربانیاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہوا ظالمانہ نظام جس سے ”دوسری“اقوام کے ہزاروں بھوکے مرتے ہیں اور کچھ قومیں ضرورت سے کئی گنا کھانا اور پانی ضائع کردیتی ہیں عدل عالیہ نظر آتا ہو تو ایسے شخص کے بارے میں کیا کہا جائے؟… الغرض جس ذہنیت کو ظلم، نا انصافی اور استحصال ہی اپنی منزل نظر آرہی ہو اور جو نہ صرف لبرل ڈیموکریٹک سسٹم پر ایمان لے آیا ہو بلکہ اس نظام کا سرگرم داعی ہو اس سے یہ توقع کیسے رکھی جائے کہ تاریخ کے تجزیے جیسے نازک مسئلے میں معروضیت قائم رکھ پائے گا؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ اسلامی تاریخ میں بس خیر ہی خیر ہے اور کچھ برا ہوا ہی نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جاچکا کہ اسلامی تاریخ کے کئی پہلو ہیں جس میں فتوحات اور سیاست کی خاص اہمیت ہے۔ مسلم بادشاہوں کی باہمی چپقلش، محلاتی سازشیں، بغاوتیں، جانشینیوں کے انتخاب پر جھگڑے، مسلم بادشاہوں کے ایک دوسرے پر حملے، دنیاوی فائدے کے لیے مسلمانوں کے خلاف صلیبیوں سے اتحاد جیسے واقعات ہوئے ہیں اور بہت ہوئے ہیں۔ لیکن دوسری طرف انہی بادشاہوں نے دینی حمیت، اپنی مسلم اور غیر مسلم رعایا کے ساتھ انصاف، دین اور علمائے دین کی توقیر جیسے بہت سارے واقعات کی مثالیں بھی چھوڑی ہیں۔ یہاں تک کہ حق اور انصاف کی وہ بلند مثال بھی قائم ہوئی ہے کہ شریعت کی ایک شق پورا کرنے کے لیے ایک چیف قاضی نے بادشاہ کو سر عام نیلام کردیا تھا۔ مستحکم اور طاقتور مسلمان حکومتوں کی وجہ سے بیرونی خطرات سے جو فراغت حاصل ہوئی اس کے نتیجے میں اخلاق، ادب، تحقیق اور زہد کی بہترین مثالیں بھی قائم ہوئی ہیں۔
فاضل نامہ نگار کے بقول ”حضور صلعم کی وفات کے بعد ہی اقتدار کے لیے قتل و غارت شروع ہوگئی تھی۔ چار خلفاء میں سے تین خلفاء تو اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے اور اس کے بعد سے لے کر اب تک اسلام کے نام پر قتل و غارت برپا چلی آرہی ہے۔“
کسی چیز کو غلط رنگ دے کر اپنی بات ثابت کرنا ہی دلیل ہے تو یہ کمال کی دلیل ہے۔ لیکن اطلاعاً عرض ہے کہ قتل و غارت کا سلسلہ حضورﷺ کی وفات کے بعد نہیں بلکہ حضورﷺکی دعوت کے ساتھ ہی شروع ہوچکا تھا۔ معاشرے میں خیر و شر کی قوتیں ہمیشہ موجود ہوتی ہیں اور جیسے ہی نبیﷺ نے حق کی دعوت دی تو شیطانی قوتیں فوراً متحرک ہوگئیں جس سے معاشرے میں حق و باطل کی ایک کشمکش برپا ہوگئی۔ نبی ﷺکی پوری تیئس سالہ دعوتی زندگی اسی کشمکش سے عبارت ہے۔ نبیﷺ کے انتقال کے بعدیہی کھینچا تانی منکرین زکوة کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر حضرت عثمان کے دور خلافت میں بلوائیوں کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ حضرت عمر کو ایک مجوسی نے قتل کیا تھا نہ کہ مسلمان نے۔ اگرچہ حضرت عثمان اور حضرت علی کو انھیں لوگوں نے قتل کیا تھا جو مسلمانوں میں سے ہی نکلے تھے لیکن ان کے شہید ہونے کی بنیادی وجہ ملت اسلامیہ کی وسعت کے باوجود سادگی اور بے ساختگی کے اس معیار کو قائم رکھنے کی کوشش تھی جو نبیﷺ کے دور میں قائم تھی۔ بعد میں صفین، جمل، کربلا وغیرہ کی جنگیں بھی اس وجہ سے ہوئیں کہ ملت اسلامیہ جس تیزی کے ساتھ وسعت پارہی تھی اتنی تیزی کے ساتھ ان نئے مسلمانوں کی تربیت کا انتظام نہیں ہوسکا۔ صرف ان واقعات کو بیان کرکے اسلامی نظام کی کمزوری ثابت نہیں کی جاسکتی جب تک ان کی وجوہات پر غور نہ کیا جائے۔ مزید یہ کہ مغربی نظام کے ارتقا کے دوران ہونے والی خونریزیوں کو ”قربانی“ کے کھاتے میں ڈال کر اسلامی نظام کے دوران ہونے والی جنگوں کو ”قتل و غارت گری“ قرار دینا ایک واضح جانبداری ہے جو لفاظیوں کے باوجود چھپائے نہیں چھپتی۔
اگرچہ مسلم حکمرانوں کے غلط کرتوتوں کو اسلامی تاریخ سے الگ کر کے دیکھا نہیں جاسکتا لیکن یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ مسلم حکمران کتنے اسلام کی پیداوار تھے اور کتنے کسی اور تہذیب کی پیداوار تھے جنھیں اسلام نے تسخیر کیا تھا۔ یہ عمرانیات سے متعلق ایک گہرا موضوع ہے جس پر تحقیقات تو کی جاسکتی ہے لیکن اس پر فیصلہ کن بات کرنا انتہائی مشکل ہے اور کسی ایسے شخص کے لیے اور زیادہ مشکل ہے جو مغرب کی تاریخ کو قربانی کی تاریخ اور آج کے مغرب کو ایک پرامن اور مستحکم تہذیب سمجھتا ہو۔
اس معاملے میں ہمارے بعض دانشور اس وقت خیانت کی بدترین مثالیں قائم کرتے ہیں جب وہ سیاست اور اجتماعی نظام میں اسلام کو ترک کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوئے مسائل کو بھی اسلام کے ہی کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ یہ فکر اور دانشوری کا نہایت عجب کارنامہ ہے کہ پی پی پی اور پرویز مشرف کے جرائم کی پرچی بھی اسلام کے ہی نام سے کٹتی ہے اور انہی دانشوروں کا یہ حال بھی ہے کہ اسلام دشمنی اور مولویوں کو ذلیل کرنے کے کارناموں کی وجہ سے ان اسلام دشمنوں کی تمام زیادتیوں، بے اعتدالیوں، سیاسی جوڑ توڑ اور کرپشن کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ایک طرف پاکستان میں اسلامی نظام لانے کے خلاف جتنا جتن ہوسکے اتنا کرنا ہے اور دوسری طرف اسلام کو ترک کرنے کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کے لیے اسلام کو ذمہ دار ٹھیرانا، کتنی عجیب بات ہے!
اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے
اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے جو کہ کسی آئیڈیالوجی پر انحصار کرتا ہے۔ لبرل سیکولرزم ایک ایسا نظام ہے جو کہ ضرورت کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیتا ہے۔ یہ دونوں دعوے نہ صرف غلط بلکہ گمراہ کن بھی ہیں۔
بے شک اسلام کی اپنی آئیڈیالوجی ہے لیکن اس کا آپ سے آپ یہ مطلب نہیں ہے کہ اسلامی نظام ایک بے لچک نظام ہے۔کچھ مقامات پر اسلام سیدھا سادھا قانون دیتا ہے اور بہت سارے مقامات پر بنیادی ہدایات(directives) دیتا ہے اور قانون سازی کو علماء کے اجتہاد پر چھوڑ دیتا ہے ۔ بہت سارے مقامات پر سماج کے عرف کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ یہاں پر مسئلہ لچک ہونے اور نہ ہونے کا نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ لچک کتنی اور کس بنیاد پر ہو۔ علماء نے شرعی نصوص کی تحقیق سے”مقاصد شریعت“کو بھی منضبط کیا ہوا ہے جو کہ ہم پر”لچک“کے حدود بھی واضح کردیتے ہیں۔
ہم اس بات کے امکان کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دو دہائی پہلے طالبان کو افغانستان میں جو اسلامی نظام قائم کرنے کا موقعہ ملا تھا اس میں انھوں نے اسلام میں موجود لچک اور اجتہادی امکانات کو کافی حد تک نظر انداز کیا ہو۔ لیکن جو ذہنیت مغرب کو اپنے نظام کی ٹیوننگ کے لیے چار سو سال تک کا ڈسکاؤنٹ دینے کے لیے تیار ہے وہ اسلام کو ایک آدھ دہائی تک کا موقعہ دینے پر بھی کیوں صبر نہیں کر سکتی؟
مغرب کا سیکولر لبرلزم بھی کچھ نظریات پر مبنی ہے اور یہ نظام جو بھی لچک دکھاتا ہے وہ اس کے اپنے مخصوص دائرے کے اندر ہوتا ہے۔اسلام سے یہ توقع رکھنا کہ وہ مغربی نظام کے مطابق اور لبرل سیکولرزم کے دائرے میں آکر اپنی لچک دکھائے ایک لغو اور احمقانہ توقع ہے۔اس وقت دنیا میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں وہ کسی حد تک مغربی نظام کے تسلط کے ہی نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں اس لیے مغرب کے اپنے نظام کو ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنا آسان ہونا چاہیے تھا۔ لیکن انہی کی دی ہوئی کچھ آزادیوں کو استعمال کرتے ہوئے جب بھی کہیں ان کے معاشرے میں اسلامی رنگ کی ہلکی سی جھلک نظر آتی ہے تو وہ بے چین ہو اُٹھتے ہیں اور اپنی ”ذہنی کشادگی“اور ”وسعت نظری“کو بھلا کر معاشرے میں اسلامی شعائر کو دبانے کے لیے قانون سازی تک کی جاتی ہے۔ایسے میں اگر کسی کو مغرب میں موافقت اور مسلمانوں میں احتجاج کا مادہ نظر آتا ہے تو اسے فریب بلکہ خود فریبی ہی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مغرب اگر اپنے آپ سے موافقت رکھتا ہے تو اس کو کمال قرار دینا ذہنی غلامی کی بدترین مثال ہے۔اگر یہ بات بیس سال پہلے کہی جاتی تو شاید اس میں کچھ وزن ہوتا۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں مغرب نے ”ساز گاری“کے وہ کارنامے انجام دیے ہیں کہ رواداری کا پورا پردہ چاک ہوچکا ہے۔
ایک اور بات اس سلسلے میں غور کرنے کی یہ ہے کہ تبدیل اور لچک کا محرک کیا ہو؟ مذکورہ نامہ نگار کی تحریر سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لچک اور موافقت پیدا کرنے کا کوئی بنیادی اصول نہیں ہے۔ اور انھوں نے جس طرح سے سرمایہ داری اور لبرل سیکولرزم کو ایک دوسرے سے لازم و ملزوم قرار دیا ہے اس سے یہی پتہ چلتا ہے کہ مغرب کے آزاد معاشرے میں کسی بھی تبدیلی کا بنیادی محرک معاشی ترقی ہوتی ہے جو کہ سرمایہ دار ہی اپنی ابلاغی اور سیاسی قوتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ڈکٹیٹ کرتے ہیں۔کیا مغربی نظام کے داعی اس بات کا کھل کر اعتراف کرنے کے لیے تیار ہیں ؟ یہ اسلام کی خوبی ہے کہ وہ اپنے نظریات، اصولوں اور محرکات کے بارے میں واضح موقف رکھتا ہے جبکہ مغرب کے پاس اپنے اصولوں کے بارے میں لفاظیاں اور ڈھیلی ڈھالی اصطلاحات ہیں جو کہ اپنی مرضی اور معاشی مفادات کے سانچے میں آسانی سے ڈھالی جاسکتی ہیں۔گول مول اور بے سروپا اصطلاحات سے معاشرے کو مسحور کرنے کے نتیجے میں یہی ہوسکتا ہے کہ طاقتور افرا د پورے اجتماعی نظم اپنے مفادات کے لیے استعمال کریں اور مغرب میں ہو بھی یہی رہا ہے۔اسلام کی خوبی کو کمزوری قرار دینے والا اور مغرب کی خامی کو خوبی قرار دینے والا بلکہ اس خامی کی وجہ سے مغرب جن مسائل کا سامنا کررہا ہے اسے کامیابی قرار دینے والا شخص مغرب کا ایک اندھا عقیدت مند ہی ہوسکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہمارے مسلمان معاشرے کے کم علم اور بھولے بھالے مسلمان زیادہ بہتر انداز میں سوچ سکتے ہیں۔
رہی یہ بات کہ پاکستانیوں سمیت تیسری دنیا کے لوگوں کا یہ خواب ہے کہ وہ مغرب میں رہیں، وہیں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں، وہیں ملازمت کریں اور اچھی زندگی گزاریں اور اس کے لیے وہ ہر جائز و ناجائز طریقہ اختیار کرتے ہیں تو یہ بات صرف جزوی طور پر صحیح ہے۔ بہت سارے مسلمان باجود مواقع کے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو مغرب کی تہذیبی نجاست سے بچانے کے لیے اُن ممالک میں نہیں جاتے اور کسی حد تک اپنے کیریئر کی قربانی تک دیتے ہیں۔ اب یہ دیکھنا تو بہت آسان ہے کہ بہت سارے پاکستانی اور دوسرے ممالک کے لوگ دنیوی مقاصد کے لیے یورپ اور امریکہ میں آباد ہیں۔ لیکن اس کی پیمائش کرنے کا کیا ذریعہ ہے کہ کتنے لوگ مواقع کے باجود اپنے کیریئر کی قربانی دیتے ہوئے ان ممالک میں نہیں جارہے ہیں؟ اس لیے موصوف کی بات ایک بے بنیاد دعوے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
اگر ہمارے بہت سارے مسلمان بھائی دنیوی مفاد کی وجہ سے مغربی ممالک میں جابستے ہیں اور اس کے باوجود ان ممالک کی تہذیبی اقدار کو قبول نہیں کرتے تو بھی اس میں شکایت کی کوئی بات نہیں ہے۔ مغربی ممالک کا قانون انھیں اس بات پر مجبور نہیں کرتا کہ وہ مغربی تہذیب کو جوں کا توں اپنا لیں۔یہ تہذیبی تنوع کا دعوی، لامحدود لبرلزم کا مرض، مساوات کے جھوٹے دعوے، یہ کشادہ دلی اور وسعت نظر کا زعم آخر مغرب کی ہی تو سوغات ہے!…آخر کیا بات ہے کہ جب تک ان ممالک میں اسلامی رنگ ظاہر نہیں ہوئے تھے یہ معاشرے بڑے روادار لگ رہے تھے۔ اب کیا ہوا کہ”سکارف“اور مساجد کے مینار سے انھیں خطرہ محسوس ہونے لگا؟ صاف اور سیدھی سی بات ہے کہ مغرب کی رواداری، کشادہ دلی، تنوع، مساوات اور وسعت نظر، یہ اور اس طرح کی خصوصیات مغرب کے لیے ہی تھیں نہ کہ پوری انسانیت کے لیے۔ اس لیے مغرب یا مغرب کے نام نہاد نمائندوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم سے ہمارے ہی دینی اور تہذیبی اقدار کے خلاف رواداری کا مطالبہ کریں۔ ہم اگر کسی رواداری اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں گے تو ہمارے دین کے مطابق نہ کہ مغرب کے پر فریب دعوؤں کے زیراثر۔ اس معاملے میں مغرب اور اسلام میں فرق یہی ہے کہ ہمارا دعوی ہماری روایات اور شریعت کی شکل میں موجود ہے اور ہم وہی دعوی کرتے ہیں جس پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بالمقابل مغرب دعوے کے معاملے میں ہر چیز میں لامحدود اور غیر مشروط ہوتا ہے لیکن جب عمل کرنے کی ضرورت پیش آئے اور وہ بھی اسلام کے معاملے میں تو دھیرے دھیرے اس میں استثناء ات پیدا ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور آخر میں جاکر پتہ چلتا ہے کہ اسلام ان کے ہر تہذیبی اقدار سے مستثنیٰ ہے۔ سچ یہ ہے کہ بہت سارے مسلمان جو مغربی ممالک میں آباد ہوئے تھے وہ کشادہ دلی اور تنوع کے مغربی دعوے کے فریب میں آگئے تھے۔ اس لیے ان کو ملامت کرنے کے بجائے مغرب خود اپنی خبر لے کہ ان کی مزعومہ”تہذیبی اقدار“کی لائٹ اسلام کے معاملے میں کیوں آف ہو جاتی ہے۔
اسلامی نظام صرف خیالی منصوبہ ہے جبکہ مغرب حقیقت ہے
اس لیے تبدیلی کی کوشش نہ کرنا کہ اس میں قربانیاں دینی پڑیں گی انسان کی کمزوری کی دلیل ہے۔ جب بھی تبدیلی کی کوشش کی جاتی ہے تو پورے معاشرے پر آزمائشیں آتی ہیں اور ان آزمائشوں کی لپیٹ میں وہ لوگ بھی آتے ہیں جو ان تبدیلیوں کے داعی نہیں ہوتے۔ان آزمائشوں سے گھبرا کے ان تبدیلیوں کی مخالفت کرنا کم ظرفوں کی نشانی ہے۔ ایک قدم اور آگے بڑھ کر ان تبدیلیوں اور تبدیلی کے داعیوں سے دشمنی کرنا کھلی ہوئی منافقت ہے۔ اپنے ذاتی مفادات میں تبدیلی کی مخالفت، تبدیلی کی غلط تعبیریں بیان کرنا،نظام کے تبدیلی کے داعیوں کے خلاف پروپیگنڈا کرنا، موجودہ نظام(Status quo) کو تمام خرابیوں اور استحصال کے باوجود اسے سب سے بہترین نظام ثابت کرنے کی کوشش کرنا وہ بدترین انسانی خصلتیں ہیں جو مکی دور میں ابولہب اور مدنی دور میں منافقین کے ٹولوں کی شکل میں ظاہر ہوچکی ہیں۔
تاریخ میں اسلامی نظام کی نظیرڈھونڈنی ہے تو بے شک بہت مثالیں مل جائیں گی۔ لیکن اگر ہم آج کے دور میں ڈھونڈیں گے تو ہمیں کہیں نہ ملے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ہم واپس قریب قریب جاہلیت اولی کے دور میں پہنچ گئے ہیں۔ اس بار ایک فرق یہ بھی ہے باطل نظام نے کمال کے مادی وسائل بھی پیدا کرلیے ہیں۔لیکن ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ یہ نظام خود بخود اندر سے کمزور ہورہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس نے معاشرے کے اندر ایسے عناصر متعارف کرائے ہیں جو انسانی فطرت سے میل نہیں کھاتے جس کے نتیجے میں اس نظام کا شکست کھانا یقینی ہے۔
اسلامی نظام کے خلاف یہ دلیل کہ اس وقت اسلامی نظام ممکن نہیں ہے، در اصل انسانی سرشت کی وہ بد تر خصلت ہے جس کو قرآن کبھی عجول تو کبھی جہول کے الفاظ میں بیان کرتا ہے۔اور عجیب ترین بات یہ ہے کہ یہی اسلامی نظام کے مخالفین ان دانشوروں کو عظیم انسانوں کی فہرست میں شمار کرتے ہیں جنھوں نے کلیسائی استبداد کے خلاف جد و جہد کی۔ یعنی تبدیلی کی جد و جہد جبھی اچھی ہے جب وہ دوسروں کی قربانی کی وجہ سے کامیاب ہوچکی ہو اور آپ کو اس کے لیے کوئی قربانی نہیں دینی پڑے!اور ہروہ تبدیلی غلط ہے جس کی زد آپ پر پڑے۔ یہ دلیل دراصل ثبوت ہے کہ معاشرے کے سب سے کم ظرف ، کم ہمت اور پست ذہن انسان ہی اسلامی نظام کے مخالف ہیں۔
خلاصہ کلام:
(۱)اسلامی نظام کے خلاف اگر کوئی دلیل ہے تو وہ یہی ہے کہ یہ اس وقت ممکن نہیں ہے اور اس کو لانے کے لیے”بہت کچھ“کرنا پڑے گا۔ مغربی نظام کی حمایت میں دلیل یہی ہے کہ یہ بنا بنایا نظام ہے اور وقت کی عالمی معاشی اور سیاسی صورت حال سے ہم آہنگ ہے۔ اس کو قبول کرلو کامیابی ہمارے قدم چومے گی۔اب اگر کوئی اس بنے بنائے نظام کی مخالفت کرے گا تو وہ شدت پسندہے۔باقی اسلامی نظام کے خلاف جتنے بھی دلائل اورمقدمات گھڑے جاتے ہیں وہ طاغوت کے ایجنڈا برداروں اور وکیلوں کی اپنی ناآسودہ خواہشات کی ذہنی تسکین کا ذریعہ ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ پاکستانی معاشرے کے امکانات (Potentials)کے پیش نظر مغربی ممالک اور خصوصاً امریکہ یہاں پر پہلے بھی پیسے لگا تا رہا ہے اور اب بھی لگا رہا ہے۔
(۲)مسلم معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جو کہ نہ صرف اسلام کو نہیں مانتے بلکہ اسلام کے پکے دشمن ہیں۔ لیکن اپنے اندر اتنی ہمت نہیں پاتے کہ اپنی اسلام دشمنی کا کھلم کھلا اعلان کریں۔ یہ پست ہمت لوگ ہیں اگرچہ ابلاغی میدان میں اپنی دانشوری کا سکہ چمکا رہے ہیں۔
(۳)انھیں میں سے ایسے بھی ہوں گے جنھیں مغربی ممالک اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہوں۔ ان کے اندر کا کفر، اسلامی شناخت ، مغربی ممالک سے وابستہ معاشی مفاد اور ابلاغی میدان میں پایا جانے والا موافق ماحول ان کی اثر پذیری کو سہ آتشہ بنادیتا ۔ سو یہ لوگ بکے ہوئے ہیں۔
(۴)مسلمان معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جنھیں نہ اسلام کی پرواہ ہے اور نہ ہی کسی اور نظام کی۔ ان کی نظر میں اصل کمائی بینک بیلنس، عہدہ اور نام ہے۔ یہ لوگ ان مادی مفاد کے لیے کسی بھی فریق کو اپنی صلاحیتیں بیچنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ اپنی صلاحیت کے باوجود یہ موقعہ پرست، بکاؤ اور ضمیر فروش لوگ ہیں۔
(۵)ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ہیں جو اسلام کے کسی خاص ور ژن سے اپنے آپ کو وابستہ جانتے ہیں لیکن ان کے عقیدے میں اسلام کا بنیادی عنصر توحید ہی غائب ہے۔یہ لوگ ”اسلامی نظام“سے اس لیے خوف زدہ ہیں کہ ایسے کسی نظام کی صورت میں ان کا مخصوص اسلامی ایڈیشن سب سے پہلے خطرے میں پڑجائے گا۔ یہ لوگ گمراہی اور بدعات کے دفاع میں اسلامی نظام کے خلاف ہیں۔
(۶)ہمارے معاشرے میں ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان تو مانتے ہیں لیکن دنیاوی مفادات کو اسلام پر ترجیح دیتے ہیں اور انھیں”اسلامی نظام“کے نفاذ کی صورت میں کسی نہ کسی طرح اپنا مفاد خطرے میں نظر آتا ہے یا انھیں اپنے مخصوص رہن سہن کے بدلنے کا خطرہ ہے ۔ بے عملی اور کم علمی کی وجہ سے اس نظام کے حق میں دلائل پڑھنے کی ان میں ہمت ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ کمزور ہیں۔
الغرض اس نظام کی مخالفت کرنے والا اپنی تمام تر صلاحیتوں کے باوجود کسی نہ کسی اعتبار سے ایک کمزور ، بدخصلت یا رذیل ترین فرد ہی ہوتا ہے۔
تحریر : ابوزید، ایقاظ