یہ سوال پوچھتے پھرنا کہ “بتاؤ کس آیت میں لکھا ہے کہ خلافت قائم کرنا ضروری ہے” ظاہر کرتا ہے کہ سائل کو معاملے کی نوعیت کی خبر ہی نہیں۔ یہ سوال ہی باطل ہے۔ متعلقہ سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالی نے جن حقوق و فرائض کو متعین کیا ہے ان کی ادائیگی لازم ہے یا نہیں؟” یہ جسے خلافت کہتے ہیں یہ تو ان ناگزیر حقوق کو محفوظ کرنے کی ناگزیر ترتیب کا نام ہے جو خدا نے انسانوں کے مفاد میں مقرر کئے ہیں۔ تو اگر وہ حقوق ناگزیر و لازم ہیں یہ سوال پوچھنے والوں کو اتنی بھی خبر نہیں کہ جو نتیجہ استخراجی منطق سے ثابت ہو وہ لفظی استدلال سے بھی زیادہ قطعی ہوتا ہے۔ ناگزیر شے پر نص مانگنے کا کیا مطلب بھائی؟ کیا لازمی نتیجے کے اثبات کے لئے الگ سے دلیل کی ضرورت ہوتی ہے؟ کم از کم سوال کرتے وقت سوچئے تو صحیح کیا سوال کررہے ہیں۔ چنانچہ مسئلے کا آدھے سے زیادہ حل درست سوال فریم کرنے میں پوشیدہ ہوتا ہے۔
٭خلافت کا معنی اور ناگزیریت
اللہ تعالی نے حکم دیا کہ انسانی جان کو تلف کرنے والے کو سزا دو، بدکاری کرنے والے کو سزا دو، لوگوں کا مال چوری کرنے والے اور باطل طریقے سے مال کھانے والوں کو سزا دو، شوہر پر بیوی کا نفقہ لازم ہے ۔۔۔ آپ قرآن و حدیث کا مطالعہ کرتے جائیں تو اس نوع کے بے شمار احکامات ملیں گے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کے ایک دوسرے پر بے شمار حقوق و فرائض متعین کئے ہیں (مثلا شوہر بیوی کے، اولاد والدین کے، تجارت کی لین دین کے وغیرہ)۔یہاں چند سوالات پیدا ہوتے ہیں۔
1۔ اللہ تعالی نے یہ احکامات کیوں نازل کئے؟ کیا ان احکامات سے انسانوں کا کوئی مفاد وابستہ ہے یا نہیں؟ نیز کیا ان احکامات (یعنی حقوق و فرائض) کی ضرورت انسانوں کو کسی خاص صورت میں ہوتی ہے یا یہ انسانی معاشرت کے ناگزیر عناصر ہیں (ان معنی میں کہ جب بھی انسان مل جل کر رہیں گے انہیں ان حالات سے واسطہ پڑنا ہی ہے)؟ ہر ذی شعور شخص اس سوال کا یہی جواب دے گا کہ یہ حقوق و فرائض انسانوں ہی کی بھلائی کے لئے ہیں نیز یہ ناگزیر ہیں۔
2۔ ان ناگزیر احکامات پر کوئی عمل کروائے گا یا یہ خود بخود نافذ ہوجاتے ہیں؟ ظاہر ہے ہر ذی عقل شخص یہی کہے گا کہ ان پر خود بخود عمل نہیں ہوجائے گا، اس کے لئے ایک اجتماعی نظام کی ضرورت ہے۔
3۔ اگر یہ حقوق و فرائض (احکامات) ناگزیر ہیں تو ان پر عمل درآمد کے لئے جس انتظام کی ضرورت ہے وہ ناگزیر ہوگا یا نہیں؟ اس دنیا کا ہر ذی عقل شخص یہی کہے گا کہ یقینا وہ انتظام بھی ناگزیر ہی ہوگا۔
اب اگر آپ اسلامی فقہ و فقہ سیاسیۃ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ علمائے کرام کے نزدیک یہ مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنا امیر/حکمران/ خلیفہ مقرر کریں جو اللہ تعالی کے احکامات کے مطابق ان امور میں انسانوں کے حقوق و فرائض پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ اسی تصور کو “خلافت” (یا “حکومت الہیہ” وغیرہ) کا عنوان دیا جاتا ہے جسے بیسویں صدی کے مخصوص تناظر میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ تھیورائز کرلیا گیا (مثلا “اللہ تعالی کی حاکمیت کا قیام”، کیونکہ یہ وہ دور تھا جب “انسانوں کی حاکمیت کے قیام” کی بنیاد پر حقوق و فرائض کے تعین کو عقیدے و علم کے طور پر پیش کیا جارہا تھا لہذا اس کا جواب بھی اسی زبان میں دیا گیا)۔
اب جب کوئی کہتا ہے کہ خلافت کا قیام بس اضافی صورت حال سے متعلق ہے، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ انسانی جان، مال، عزت وغیرہ کا تحفظ کرنا، یہ سب اتفاقی طور پر صورت حال میسر آجانے سے متعلق ہے، دین کو ان پر بالذات عمل مقصود تھوڑی ہے، یہ بس اضافی نوعیت کے احکامات ہیں کہ اگر مسلمانوں کے لئے ممکن ہو تو عمل کرلیا کریں اور اگر ممکن نہ ہو تو ان پر عمل پیرا ہونے کی استطاعت حاصل کرنا کوئی ضروری نہیں بلکہ ایسی استطاعت حاصل کرنا تو گویا ایسا ہے جیسے کوئی شخص طلاق کے حکم پر عمل کرنے کے لئے شادی کرے (یعنی قیاس کرنے والے نے ایک لمحے کے لئے اتنا بھی نہیں سوچا کہ طلاق تو شرع کو مطلوب ہی نہیں۔ اصل موازنہ تو یہ تھا کہ جب لوگ نکاح کرنا چھوڑتے چلے جائیں تب شرع کا کیا حکم ہے؟)۔
اب اس تناظر کو سامنے رکھ کر ذرا اس سوال پر غور کریں کہ “خلافت کا قیام لازم ہے یہ کس نص میں لکھا ہے؟” خدا کے بندو خلافت تو اللہ تعالی کے مقرر کردہ ناگزیر حقوق و فرائض پر عمل کرنے کے ناگزیر انتظام و صف بندی کا نام ہے (جسے بیسویں صدی کے مخصوص تصورات میں تھیورائز کرلیا گیا ہے اور بس)۔ چنانچہ نظم اجتماعی کا قیام تو “ناگزیر” ہے، اس میں تو کوئی چوائس ہے ہی نہیں، یہ تو ہر صورت قائم ہوگا۔ تو جو عمل ناگزیر ہے اور جس سے متعلق خدا کے فراہم کردہ حقوق و فرائض بھی ناگزیر نوعیت کے ہیں اس عمل کے لزوم پر سوال کھڑا کرنے والی عقل کے متعلق کیا کہا جائے؟
اسی لئے یہ گزارش کی تھی کہ خلافت کا لزوم تو ایک لازمی (necessary) استخراجی (deductive) نتیجہ ہے، اس پر دلیل مانگنے کا کوئی مطلب نہیں۔ جو دعوی استخراجی دلیل (deductive argument) کا نتیجہ (conclusion) ہو اس پر دلیل طلب کرنا بدیہیات و لوازمات عقل پر دلیل طلب کرنے کے مترادف ہے جو ایک باطل خیال ہے۔ زید استخراجی دلیل کے مقدمے (premise) کے درست ہونے پر یقینا سوال اٹھا سکتا ہے (یعنی یہ کہ کیا خدا کے مقرر کردہ ناگزیر حقوق حق و مطلوب ہیں؟)، لیکن ایک مرتبہ اس مقدمے کو قبول کرلینے کے بعد پھر اس سے برآمد ہونے والے لازمی و ناگزیر نتیجے کے درست ہونے پر زید اگر الگ سے ایک دلیل طلب کررہا ہو تو ایسے میں ہم اسکی عقلی صحت پر شک کریں گے۔ اگر الف ب سے بڑا ہے اور ب ج سے بڑا ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ الف ج سے بڑا ہے۔ اب اگر زید پہلے دو قضایا کو درست ماننے کے بعد پھر الگ سے نتیجے کی بھی دلیل مانگتا پھرے تو آپ اس کے بارے میں کیا کہیں گے؟
سوال: “ناگزیر نظم اجتماعی ‘خلافت’ کی شکل میں ہی متشکل ہو، کیا یہ ‘ناگزیر’ ہے؟”
اس کا جواب اس پر منحصر ہے کہ سوال پوچھنے والے کا تصور خیر (مابعد الطبعیاتی تناظر، یعنی عقیدہ) کیا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حقوق و فرائض کی تفصیلات کا انحصار تصور خیر بدلنے سے بدل جاتا ہے۔ مثلا اگر زید سیکولر ہے تو انسانوں کے حقوق کی جن تفصیلات کو وہ محفوظ کرنا چاہے گا وہ ان حقوق سے مختلف ہونگے جنہیں مثلا ایک سوشلسٹ تحفظ دینے کی بات کرے گا۔ اسی بنا پر ان کے “ناگزیر نظم اجتماعی” کے تصورات بھی مختلف ہوتے ہیں۔ خلافت، جیسا کہ عرض کیا گیا، ان ناگزیر حقوق کے فروغ و تحفظ کا نام ہے جو شارع نے متعین کئے، لہذا زید اگر ان حقوق کو معتبر و ناگزیر مانتا ہے تو لازم ہے کہ پھر خلافت کو بھی معتبر و ناگزیر مانے۔
تحریر : زاہد مغل