امیر کی صفات اہلیت:
موجودہ دور کے جمہوری نظاموں میں سربراہ حکومت یا ارکان پارلیمنٹ کیلئے عموماً اہلیت کی کوئی شرائط مقرر نہیں ہوتیں عام طور سے دساتیر میں یہ درج ہوتا ہے کہ وہ ملک کا شہری ہو اور ووٹر لسٹ میں اس کانام درج ہو۔ ووٹر لسٹ میں نام درج ہونے کیلئے عموماً ایک خاص عمر کا بھی تعین کردیا جاتا ہے اور بس! اس کے بعد اس کی علمی قابلیت یا تجربے وغیرہ کی کوئی شرط نہیں ہوتی نہ تعلیم کی کوئی شرط ہے نہ کردار کی کوئی شرط ہے بلکہ کہا یہ جاتا ہے کہ جس شخص کو اکثریت منتخب کرلے وہ سربراہ یا رکن پارلیمانی بننے کا اہل ہوجاتا ہے، چنانچہ اس نظام کے تحت بہت سے جاہل یا بد کردار لوگ سربراہ بنتے رہے ہیں اور ان کے جانے کے بعد بھی مسلسل ان کی بدکرداریوں کی دستانیں چھپتی رہی ہیں۔ اب کینیڈی جیسا حکمران جو امریکہ کا بہت ہی بااقتدار صدر گزار ہے اور جس نے پہلی بار روس کو نیچا دکھایا اس کی بدنام داستانیں آج تک کتابوں میں چھپ رہی ہیں یہ سب کچھ اس لئے ہے کہ سربراہ حکومت کیلئے کسی قسم کی صفات اہلیت متعین نہیں ہیں۔لیکن اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے سربراہ حکومت کے اوصاف مقرر کرتا ہے ، جب تک وہ اوصاف کسی شخص میں نہ ہوں اسے امیر یا خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا ان اوصاف کے تعین میں علماء کرام نے طویل بحثیں کی ہیں۔
امیر کا انتخاب اور تقرر:
پھر ان صفات اہلیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اسلام کا حکم یہ ہے کہ امیر یا خلیفہ کا تقرر شوریٰ کے ذریعے ہونا چاہئے اس اصول کے دو حصے ہیں، ایک یہ کہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر کوئی امیر مقرر کریں جسے فقہ ارو عقائد کی کتابوں میں نصب الامام سے تعبیر کیا گیا ہے، دوسرا حصہ یہ ہے کہ یہ تقرر بطریق شوریٰ ہونا چاہئے۔ جہاں تک نصب امام کا تعلق ہے اس کے امام شوریٰ کے طریقے پر منتخب کرنا ضروری ہے یہ جائز نہیں کہ کوئی شخص زبردستی امام بن بیٹھے یا دو چار لوگ بغیر اہل حل و عقدے سے مشورہ کئے ہوئے کسی کو خلیفہ بنادیں۔ بلکہ یہ خلافت شوریٰ کے ذریعے ہونی چاہئے اس کی دلیل “وشاورہم فی الامر فاذاعزمت فتوکل علی اللہ ۔
( ان مسلمانوں سے) مشورہ کیا کروں، پھر جب تم عزم کر لوتو اللہ پر بھروسہ کرو‘‘ (الشوریٰ)اس کے علاوہ خلافت کے شوریٰ کے ذریعے منتخب ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضور اقدس نبی کریم ﷺ نے کسی خلیفہ کی نامزدگی نہیں فرمائی اور نامزدگی نہ فرمانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا انتخاب عام مسلمانوں پر چھوڑ دیا۔ اگر مسلمانوں کو انتخاب نہ کرنا ہوتا تو آپ خوش کسی کو نامزد فرما کر تشریف لے جاتے۔
ایک اور حدیث جس سے خلیقہ کے انتخاب کے بارے میں شوریٰ کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ، صحیح بخاری میں بہت تفصیل سے حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے، اس میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ جو شخص کسی بھی شخص کے ہاتھ پر مسلمانوں سے مشورہ کئے بغیر بیعت کرلے گا تو نہ اس بیعت کرنے والے کی پیروی کی جائے اور نہ اس کی جو ایسے شخص کے پیچھے چلے، کیونکہ ان دونوں کے بارے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان کو قتل کردیا جائے‘‘( صحیح البخاری، کتاب الحدود، باب رحم، الحبلی من الزنا۔ حدیث ۶۸۳۰)
اورمصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت سے عمرؓ کے یہ الفاظ مروی ہیں: جو شخض مسلمانوں کے معاملات کو مشورے بغیر زبردستی چھینے تو اس کی بیعت نہیں ہوتی۔( مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیق عوامہ ۱۲ ص ۳۰۷، قالوانی الفروض و تدوین الدواوین)
یہ سب دلائل اس بات کو واضح کرنے کیلئے کافی ہیں کہ خلیفہ کے تقرر کیلئے شوریٰ ضروری ہے، اب شوریٰ کا کیا مطلب ہے؟ آیا بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ووٹنگ یا کسی مخصوص جماعت یا حلقے کی طرف سے ووٹنگ ؟ تو اس کیلئے قرآن و سنت نے کوئی خاص طریقہ معین کرنے کے بجائے اس کی تفصیلات کو ہر زمانے کے مسلمانوں پر چھوڑ دیا ہے، البتہ عام طور سے علماء کرام ابحات فرمائی ہے کہ شوریٰ کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بالغ آدمی خواہ وہ کیسی بھی اہلیت رکھتا ہو وہ امیر کا انتخاب کرے بلکہ شوریٰ کا مطلب یہ ہے کہ اہل حل و عقد اس کے حق میں رائے دیں، یہ اسلامی سیاست کی ایک اصطلاح ہے جس کا حاصل ہے کہ خلیفہ کا انتخاب اہل حل و عقد کریں گے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ خلافت راشدہ کے دور میں خلافت کے جو انتخاب ہوئے وہ صرف اہل حل و عقد کے مشورے سے ہوئے، حضرت صدیق اکبرؓ کے معاملے میں بھی یہ ہی ہوا کہ ایک ایک فرد سے رائے نہیں لی گئی لیکن مہاجر ین اور انصار کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے مل کر یہ فیصلہ کیا۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کیلئے چھ صحابہ کرام کی ایک جماعت بنائی اور اسی کو انتخاب کا اختیار دیا اور اسی نے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتخاب کیا، پھر جب حضرت عثمانؓ شہید ہوگئے تو لوگ حضرت علیؓ کے خدمت میں پہنچے۔ اور ان سے بیعت کرنے کیلئے ہاتھ بڑھانے کو کہا تو حضرت علیؓ نے فرمایا: یہ معاملہ تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ یہ تو اہل شوریٰ اور اہل بدر کا کام ہے، اب جس کو بھی اہل شوریٰ پسند کریں گے وہی خلیفہ ہوگا۔ لہٰذا ہم جمع ہونگے اور اس بارے میں غور کریں گے۔ ‘‘(الامامۃ السیاسۃ الابن تیمیہ ج ۱ ص ۴۳)
اس طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عام آدمیوں کی رائے کو معتبر نہیں مانا اور فرمایا کہ اہل شوریٰ اور اہل بدر کو جمع کروں۔ اس بنیاد پر علماء سیاست شرعیہ یہ بات کہتے ہیں کہ خلیفہ کا انتخاب اہل حل و عقد کے سپرد ہے اور وہی انتخاب کریں گے۔
اہل حل و عقد سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو عوام صائب الرائے اور اپنا رہنما سمجھتے ہوں، اس زمانے میں جن کو اہل و عقد سمجھا جاتا تھا ان میں مختلف قبائل کے سردار بھی تھے علماء بھی تھے فقہا بھی تھے مختلف حلقوں کے سربراہ بھی تھے یہ اصطلاع کوئی مبہم اور مجمل اصطلاع نہیں تھی جس کے تعین میں کوئی جھگڑا ہو بلکہ عام طور پر سے معاشرے میں لوگوں کو یہ پتہ ہوتا تھا کہ اہل حل و عقد کون لوگ ہیں، اس کیلئے باقاعدہ تعین کی ضرورت نہیں تھی بلکہ عام لوگ ان کو پہنچانتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جب تک ان کامشورہ شامل نہیں ہوگا اس وقت تک اسے نمائندہ مشورہ نہیں سمجھا جائے گا۔اور عام طور سے خلیفہ کے انتخاب کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ اہل حل و عقد اسکے ہاتھ پر بیعت کرتے تھے اور بیعت کے وقت اس قسم کے الفاظ کہے جاتے تھے کہ(ہم خوشی سے آپ کے ساتھ اس بات پر بیعت کرتے ہیں کہ آپ قرآن و سنت کے مطابق امامت کے فرائض ادا کرتے ہوئے انصاف قائم کریں۔) لیکن بیعت کیلئے ہاتھ میں ہاتھ دینا ضروری نہیں بلکہ زبان سے بھی بیعت ہوجاتی ہے۔
لیکن بعد میں اہل حل و عقد کی وہ صورتحال برقرار نہیں رہین کہ وہ غیر متنازعہ طور ہر متعین ہوں اب اہل حل و عقد کے تعین کیلئے مسلمانوں کو کوئی طریقہ اختیار کرنا ہوگا اس کے لئے آج کل کیا طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مجلس شوریٰ جس کا ذکر آنے والا ہے آج اسی کو اہل الحل و العقد قرار دیا جاسکتا ہے اور مرکزی اور صوبائی مجالس شوریٰ کا مجموعہ بھی اہل حل و العقد قرار دیا جاسکتا ہے اور مجالس شوریٰ کا انتخاب براہ راست بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔
شریعت نے اس شوریٰ کا کوئی خاص طریقہ ابدالآ باد تک کیلئے مقرر نہیں فرمایا۔ یعنی یہ معین نہیں فرمایا کہ اس مشورہ کا طریق کار کیا ہو؟ کن لوگوں کو مشورے میں شامل کیا جائے؟ اور شوریٰ کی ہیت ترکیبی کیا ہو؟ بلکہ یہ تفصیلات ہر دور کے اہل بصیرت پر چھوڑ دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اب باتوں کی تفصیلات طے کرسکتے ہیں لہٰذا ا شوریٰ کا کوئی خاص ڈھانچہ شرعاً ضروری نہیں ہے کہ اس کیلئے باقاعدہ کوئی کمیٹی یا باضابطہ اسمبلی ہو اور اسکے ارکان متعین ہوں اور ہر معاملے میں اسی سے مشورہ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی زمانے میں کوئی باقاعدہ منتخب مجلس شوریٰ قائم کرلی جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجلس شوریٰ متعین نہ ہو بلکہ امام ا س دور کے اہل الرائے لوگوں کا انتخاب کرکے مشورہ کرلے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کچھ لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ کرلیا اور کبھی دوسروں سے مشورہ کرلیا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لوگوں کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ایک معاملے میں کسی ایک فریض سے مشورہ کیا گیا اور دوسرے معاملے میں دوسرے فریق سے مشورہ کرلیا گیا۔
اوریہی درحقیقت اسلام کے احکام سیاست کا حسن ہے کہ اس میں چند بنیادی اصول متعین فرما کر تفصیلات ہر دور کے اہل بصیرت پر چھوڑ دی ہیں ۔وجہ یہ ہے کہ اسلام کے احکام نہ کسی ایک خطے سے مخصوص ہیں نہ کسی ایک زمانے سے اس کے احکام قیامت تک آنے والے تمام حالات اور تمام خطوں کیلئے واجب العمل ہیں دوسری طرف یہ مشاہدہ ہے کہ علاقوں، قوموں کے مزاج اور زمانے کی تبدیلیوں کے مطابق مصلحت کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں، چنانچہ کوئی معاشرہ ایسا ہوسکتا ہے جہاں شوریٰ کا کوئی مخصوص ڈھانچہ بنانا ممکن نہ ہو یا مصلحت کا تقاضا نہ ہو اور دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ کسی معاشرے میں شوریٰ کے تصور کو اس طر ح ڈھیلا ڈھالا چھوڑنے سے خرابیوں کا اندیشہ ہو، اس لئے اسلامی شریعت نے یہ دروازہ کھلا رکھا ہے کہ ہر دور اورہر خطے میں وہاں کی ضروریات اور مصلحتوں کے مطابق شوریٰ کا طریق کار متعین کیا جاسکتا ہے آ ج کے دور میں اگر شوریٰ کے قاعدے کو بالکل ڈھیلا ڈھالا چھوڑ دیا جائے اور امیر کی صوابدید پر رکھا جائے کہ وہ کس سے اور کس حد تک مشورہ کرے تو اس میں بہت سے مفاصد کا اندیشہ ہے اسلے بظاہر اس دور میں ایک باقاعدہ مجلس شوریٰ کا تعین ضروری معلوم ہوتا ہے۔
قبائلی زندگی میں اس قسم کے افراد ہر معاشرے میں متعین جیسے ہوتے تھے ان کے باقاعدہ انتخاب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن موجودہ دور میں وہ صورت حال باقی نہیں رہی اس لئے ایسے لوگوں کے تعین کیلئے باقاعدہ انتخاب کی ضرورت ہوگی۔ یہ انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہو یا ان کے انتخاب کیلئے بھی کوئی انتخابی ادارہ (Electoral College) ہونا چاہئے اس بارے میں بھی شریعت نے کوئی لگا بندھا دائمی حکم نہیں دیا۔ اگر ملک میں تعلیم اور سیاسی شعور کا معیار بلند ہے تو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر بھی ان کا انتخاب ہوسکتا ہے اور اگر عوام کے حالات کے لحاظ سے یہ مناسب سمجھا جائے کہ انتخابات درجہ بدرجہ ہوں تو بظاہر شریعت کے لحاظ سے اس کی بھی کوئی ممانعت نہیں ہے۔
اگلی تحریر: موجودہ دور میں شوری ممبران/ارکان اسمبلی کے انتخاب کا بہترطریقہ