بعض مغربی مصنّفین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اسلام میں جب ایک حکومت قائم ہوجائے تو اس کو ہٹانے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یہ خیال شاید ان احکام کودیکھ کر پیدا ہوا ہے کہ جن میں کسی حاکم وقت کے خلاف بغاوت سے منع کیا گیا ہے لیکن یہ خیال قطعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں جس طرح کسی امیر یا خلیفہ کا تقرر پُر امن طور پر ہوسکتا ہے اسی طرح اس کی معزولی بھی مختلف طریقوں کے تحت ہوسکتی ہے
1۔ پُرامن معزولی:
چنانچہ مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر وہ پُر امن طریقے سے مغزول ہوسکتا ہے۔
(۱) امام خود اپنے آپ و معزول کردے، یعنی استعفیٰ دے دے کہ میں آگے کام نہیں کرسکتا۔ تو ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ معزول ہوجائے گا۔
(۲) امام پر کوئی ایسی حالت طاری ہوجائے جس کی وجہ سے وہ کاروبار حکومت چلانے کا اہل ہی نہ رہے۔ مثال کے طور پر پاگل ہوگیا۔ یا کوئی ایسی بیماری لاحق ہوگئی جس کی وجہ سے وہ اپنے روز مرہ کے کاروبار سرانجام نہیں دے سکتا۔ ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں بھی وہ معزول ہوجائے گا۔
(۳) تیسری صورت یہ ہے کہ وہ حاکم فسق کا ارتکاب کرے جس میں ظلم بھی داخل ہے، مثلاً اس نے ( العیاذ باللہ) شراب پینی شروع کردی، یارشوت لینی شروع کردی یا ناجائز ٹیکس لگا دیے۔ ایسے فسق کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ایسا امام معزولی کا مستحق تو ہے لیکن اس کی وجہ سے اس کے خلاف مسلح بغاوت نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کو پُر امن ذرائع سے معزول کیا جاسکتا ہو تو معزول کرنا واجب ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں:یعنی’’ ظالم حکمرانوں کے بارے میں جس بات پر علماء متفق ہیں وہ یہ ہے کہ اگر انہیں اتارنے پر کسی فتنے یا ظلم کے بغیر قدرت ہوتو اسے ہٹانا واجب ہے ورنہ واجب یہ ہے کہ صبر کیا جائے۔‘‘(فتح الباری، کتاب الفتن، باب قولہ صلی اللہ علیہ وسلم ہلاک امتی الخ ج13 ص 8)
اور صبر کا مطلب یہ ہے کہ مسلح کا رروائی کے ذریعے اسے ہٹانے کی کوشش کرنا جائز نہیں ہے اور پُر امن طریقے سے ہٹانے کا طریقہ آج کل یہ ہوسکتا ہے کہ یہ اختیار شوریٰ کو یا عدالت کو دیا جائے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ فسق کی بنا پر معزولی کا مستحق ہے؟ اگر معزولی کا مستحق ہو تو شوریٰ یا عدالت اس کو معزول کردے۔
(۴) اگر مذکورہ بالا اسباب میں سے کوئی سبب موجود نہ ہو، لیکن اس کی پالیسیاں ریاست کے مفاد کے مطابق نظر نہ آتی ہوں جس کی وجہ سے لوگ اسے ناپسند کرتے ہوں تو کیا ایسی صورت میں بھی اسے معزول کیا جاسکتا ہے؟ اس سوال کا کوئی واضح مثبت یا منفی جواب مجھے نہیں ملا، لیکن عام قواعد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شوریٰ نے اُسے امیربنایا تھا، اگر وہی ایسے حالات میں اُسے پُر امن آئینی ذرائع سے معزول کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر شوری مدت مقرر کردے تو اس میں کوئی شرعی قباحت معلوم نہیں ہوتی لیکن یہ مدت ایسی ہونی چاہئے جس میں کوئی سربراہ اپنی پالیسیاں مؤثر طریقے سے نافذ کرسکے، اس صورت میں امیر کی معزولی کی چوتھی صورت یہ ہوگی کہ اس کے تقرر کی مدت گزر جائے۔
-2امام کے خلاف مسلح کاروائی یا خروج:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اسلامی ریاست میں خانہ جنگی کو بدترین برائی سمجھا گیا ہے، حجتہ الوداع کے موقع پر آپ نے جس بات پر سے زیادہ زور دیا وہ یہ تھی کہ ’’ تمہارے خون، تمہارے مال اور ( محمد بن سیرین کی روایت کے مطابق) تمہاری آبروئیں ایک دوسرے کے لئے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اس مہینے میں تمہارے اس شہر ( مکہ) اور تمہارے اس دن ( عید الاضحی) کی حرمت ہے۔ صحیح بخاری، باب حجتہ الوداع، حدیث 4406ط دارالسلام ، صحیح مسلم، باب القسامۃ، حدیث 4351، وھذ اللفظ لفظ دارالقلم)
چنانچہ مسلمانوں کے درمیان لڑائی اور خانہ جنگی سے بچنے کے لئے شریعت نے بڑی سے بڑی برائی کو بھی گوارا کرلیا ہے۔ اسی لئے حضور سرور دو عالم ﷺ نے بار بار مختلف عنوانات اور مختلف اسالیب سے یہ حکم دیا ہے کہ جب کوئی شخص خلیفہ یا امیر بن جائے تو چاہے وہ فسق کا ارتکاب کرے یا لوگوں پر ظلم کرے، کسی بھی حالت میں اس کے خلاف مسلح بغاوت نہ کرو، تاکہ مسلمانوں کے درمیان خونریزی کی نوبت نہ آئے۔
صرف ایک صورت ایسی ہے جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلح خروج کے ذریعے امیر کا تختہ الٹنے کی اجازت دی ہے، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے جس بات پر بیعت لی، وہ یہ تھی کہ یعنی ’’ یہ کہ ہم سمع و طاعت سے کام لینگے، چاہے پسندیدگی کی حالت ہو یا نا پسندیدگی کی، تنگی، ہو یا خوشحالی اور چاہے ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جارہی ہو اور اہل اقتدار سے اس کے اقتدار میں جھگڑا نہیں کریں گے الا یہ کہ تم ایسا کھلا کفر دیکھ لو جس کے بارے میں تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے واضح ثبوت موجود ہو۔ (صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث نمبر 7056)
اس کا حاصل یہ ہے کہ امیر کے خلاف ہتھیار اٹھا کر اس کا تختہ الٹنے کی کوشش صرف اس صورت میں کی جاسکتی ہے جب اس سے کھلا کفر سرزد ہوجائے اس میں بھی حضور نبی کریم ﷺ نے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ بالکل کھلا ہوا کفر ہو جس کے بارے میں ہر شخص یہ سمجھ سکے کہ یہ کفر کی بات ہے ( اسی لے کفر کے ساتھ ’’بواح‘‘ کی قید ہے) اور اس بات کے کفر ہونے پر بھی اور امیر کی طرف سے اس کے سرزد ہونے پر بھی واضح ثبوت یا دلیل موجود ہو، محض سنی سنائی باتوں یا قیاسات اور اندازوں یا پروپیگنڈے کی بنیاد پر اس کے کافر ہونے کی رائے قائم نہ کرلی گئی ہو ۔حدیث میں ’’ الا ان تروا کفرا بواحا‘‘ کے جو الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ان سے مراد آنکھوں سے دیکھ لینا ہے محض رائے قائم کرلینا نہیں خلاصہ یہ کہ اس کا کفر ہونا بھی متفق علیہ ہو اور امیر سے اس کا صدور بھی یقینی ہو تب خروج جائز ہوگا۔
نیز دو شرطیں اور ظاہر ہیں ایک یہ کہ اس کو طاقت کے ذریعے ہٹادینے کی قدرت ہو، اور دوسرے یہ کہ اس کو ہٹانے میں اور کوئی اس سے بڑا مفسدہ پیش آنے کا اندیشہ نہ ہو، مثلاً یہ غالب گمان ہو کہ اس کو ہٹانے کے بعد بھی طالبانِ اقتدار کے درمیان جنگ جاری رہے گی اور کسی ایک شخص پر لوگ متفق نہیں ہوسکیں گے اور تمام تر جدوجہد کے بعد بھی عوام کو مسلسل خونریزی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا یا اس خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی دشمن ملک چڑھائی کرکے ملک پر قبضہ کرلے گا اور ابھی تک صرف امیر ہی کافر تھا اب پورا ملک ( معاذ اللہ) دارالسلام کی حیثیت کھو بیٹھے گا اور دشمن ملک کے تسلط سے دارالکفر میں تبدیل ہوجائے گا۔
3.سیاسی تحریکیں:
ایک اور مسئلہ بھی یہاں قابل ذکر ہے اور وہ یہ کہ جن صورتوں میں خروج ناجائزہے ان میں حکومت کی تبدیلی حکومت سے کوئی جائز مطالبہ منوانے یا اس سے اپنے حقوق حاصل کرنے پُر امن طریقہ یا ہوسکتا ہے؟ اور ان اغراض کیلئے آجکل کی سیاسی تحریکوں میں ہڑتال، بھوک، ہڑتال، جلوس وغیرہ کے جو طریقے رائج ہیں شرعی اعتبار سے وہ کس حد تک جائز ہیں؟
صورتحال یہ ہے کہ آج کل ہماری زندگی کا سارا ڈھانچہ بالخصوص سیاسی زندگی کا ڈھانچہ، پچھلی چند صدیوں سے مغربی افکار کی بنیاد پر تعمیر ہورہا ہے، اس لئے بہت سی باتیں سیاسی زندگی کا لازمی حصہ سمجھ لی گئی ہیں انہی میں سے احتجاج کے یہ طریقے بھی داخل ہیں، یعنی ہڑتالیں، جلوس، توڑ پھوڑ وغیرہ جن کے ذریعے حکومت کاپہیہ جام کرکے اس کو بالآخر اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ مطالبات تسلیم کرلے۔
اس قسم کی سیاسی تحریکوں کی شرعی حیثیت کے بارے میں گزارش یہ ہے کہ ان میں سے بعض طریقے تو بالکل حرام ارو ناجائز ہیں مثلاً بھوک ہڑتال جو خودکشی کی حد تک پہنچ جائے، یا کوئی بھی ایسا طریقہ جس سے کسی کی جان، مال، یا آبرو پرحملہ کیا جاتا ہو یا سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہو کیونکہ سرکاری املاک درحقیقت حکمرانوں کی نہیں بلکہ ملک کے تمام باشندروں کی اجتماعی ملکیت ہوتی ہیں اور انہیں نقصان پہنچانے سے پوری قوم کا حق پامال ہوتا ہے اور یہ ایسا گناہ ہے کہ اس کی معافی بہت مشکل ہے کیونکہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے جن کے بارے میں اصول یہ ہے وہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوتے بلکہ صاحب حق کا معاف کرنا ضروری ہے اور سرکاری املاک میں صاحب حق پوری قوم ہوتی ہے اور انسان کیلئے یہ بات تقریباً ناممکن ہے کہ وہ قوم کے ہرہر فرد سے معافی مانگے اس لئے ایسی املاک کو نقصان پہنچانے کا معاملہ شخصی املاک سے زیادہ سنگین ہے۔
جہاں تک عام ہڑتال کا تعلق ہے تو فی نفسہ اس کا حکم یہ ہے کہ حکومت کے کسی عمل پر ناراضگی یا احتجاج کے اظہار کے لئے اگر لوگوں سے یہ اپیل کی جائے کہ وہ اپنا کاروبار بند رکھیں، اور اس پر عمل کرنے کیلئے کسی شخص پر کوئی جبر نہ کیا جائے تو تنہا اس اپیل میں یا اس اپیل پر خوش دلی سے عمل کرنے میں شرعاً کوئی گناہ نہیں اور ایسی ہڑتال ایک مباح تدبیر کے درجہ میں فی نفسہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں ایسے استثناء بھی رکھے جائیں جو انسانوں کیلئے ضروری ہیں، مثلا مریضوں کا علاج وغیرہ، لیکن عملاً ہوتا یہ ہے ہڑتال کروانے والے اتنی بات پر بس نہیں کرتے بلکہ ہڑتال لا زمی حصہ یہ بن گیا ہے کہ ہڑتال کرانے والے لوگوں کو اپنا کاروبار بند کرنے پر مجبور کرتے ہیں اگر کوئی گاڑی چلا رہا ہے تو اس پر پتھراؤ کیا جاتا ہے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں اور اگر کوئی شخص ہڑتال میں حصہ نہیں لے رہا تو اس کو کم از کم غم و غصہ کا نشانہ بنایا جاتا ہے یا اسے زبردستی ہڑتال میں شریک ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے یا اس پے تشدد کیا جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ سارے اقدامات شرعاً بالکل حرام ہیں ان کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ غریب لوگ جو روز کے روز اپنی روزی کماتے ہیں وہ اپنی روزی سے محروم ہوجاتے ہیں بہت سے مریض علاج نہ ملنے کی وجہ سے سختیاں جھیلتے ہیں، اور بہت سے تو موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔
یہ عجیب قصہ ہے کہ ایک طرف جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور دوسری طرف جو شخص اس ہڑتال میں حصہ نہیں لینا چاہتا اس کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دینے سے انکار کیا جاتا ہے ،یہ بات نہ تو اسلام کے مطابق ہے اور نہ یہ اخلاق اور آزادی اظہار رائے کے اصول کے مطابق ہے۔ عام طور پر آج کل کی ہڑتالیں ان امور سے خالی نہیں ہوتیں، ایسی ہڑتال جس میں ہڑتال کی اپیل کرنے والے شرافت کے ساتھ لوگوں سے اپیل کرکے بیٹھ جائیں کہ جو چاہے دکان کھولے اور جو چاہے نہ کھولے ایسی شریفانہ ہڑتال آج کے ماحول میں تقریباًنایاب ہے اور جب کسی مباح کو ناجائز امور کا ذریعہ بنالیا جائے تو سد ذریعہ کے طورپر اس کو ممنوع ہی کہنا چاہئے اگر چہ فی نفسہ جائز ہو، اس لئے ہڑتال کی یہ تدبیر جس میں توڑپھوڑ اور امن وامان میں خلل اندوزی اور لوگوں کے کاموں میں رکاوٹ پیدا ہو شرچی تدابیر کے تحت نہیں آتی اور جب سیاست بذات خود مقصود نہیں، مقصود اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے تو اس صورت میں تدبیر بھی وہ ہی اختیار کرنی چاہئے جو شریعت کے مطابق ہو جس میں شریعت کی کوئی خلاف ورزی لازم نہ آئے ورنہ اس کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ اسلام کے احکام توڑ توڑ کر اسلام نافذ کرنے کی تحریک چلائی جائے۔ جلوسوں کا مسئلہ بھی یہ ہے کہ اگر ان سے لوگوں کو غیر معمولی تکلیف نہ پہنچے تو وہ فی نفسہ جائز ہیں لیکن عام طور سے ان میں بھی توڑ پھوڑ اور عوام کیلئے مشکلات پیدا ہونا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے اور ظاہر ہے کہ اس پہلو کو جائز نہیں کہا جاسکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شریعت میں حکومت پر دباؤ ڈالنے کا کوئی طریقہ ہے؟ جواب یہ ہے کہ حقیقت میں شریعت نے ایک راستہ ایسا تجویز کیا ہے اگر قوم اس پر عمل کرلے تو بڑی سے بڑی حکومتوں کے گھٹنے چند گھنٹوں میں ٹکوائے جاسکتے ہیں اور وہ راستہ یہ ہے کہ اس اصول پر عمل کیا جائے کہ ’’لا طاعۃ لمخلوق فی معصےۃ الخالق‘‘’’خالق کی معصیت میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں ہے‘‘ جب ایک مرتبہ یہ اصول مان لے جائے کہ کسی مخلوق کے حکم پر خالق کی نافرمانی نہیں کی جاسکتی تو جتنے غیر اسلامی احکام نافذ ہیں ساری قوم اگر ان میں شرکت سے انکار کردے تو اندازہ کیجئے کہ حکومت کے پاس کیا چارۂ کار رہ جاتا ہے ؟ فرض کیجئے کہ عدالتوں میں بیٹھنے والے جج اگر یہ کہہ دیں کہ جب تک ہمیں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیا جاتا اس وقت تک ہم عدالتوں میں کام نہیں کریں گے اور اگر وکلاء یہ کہہ دیں کہ جب تک قوانین شریعت کے مطابق نہیں ہوجاتے ہم عدالتوں میں بحیثیت وکیل کے پیش نہیں ہونگے سارے عوام مل کر غیر شرعی احکام کی تعمیل سے انکار کردیں تو آپ ذرا تصور کریں کہ جس دن یہ ہڑتال ہوگی اس دن چند گھنٹوں میں حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائے گی۔یہ شرعی ہڑتال ہے لیکن چونکہ اس میں اپنے مفادات کو تھوڑا سا قربان کرنا پڑتا ہے اس لئے اس کی وجہ سے تھوڑی سی دشواری ہے۔
یہ درست ہے کہ یہ طریق کار اسی وقت موثر او مفید ہوسکتا ہے جب عوام کی اکثریت یا ان کی اتنی بڑی تعداد اس کے لئے تیار ہو جس کا وزن یا دباؤ محسوس کیا جاسکے اور اس کے لئے ذہن سازی اور لوگوں میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اگر ایک مرتبہ نکتہ ذہن نشین ہوجائے اور سیاسی جماعتیں اس طریق کا ر پر دل سے راضی ہو کر اسے قبول کرلیں تو ان کو اس کے لئے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی، ذہن سازی کا ایک وسیع پرگرام مرتب کرنا ہوگا اور اس غرض کے لئے تعلیمی اداروں سے لے کر عوام اجتماعات تک ایک مہم چلانی ہوگی جس میں پہلے لوگوں کا یہ ذہن بنایا جائے کہ غیر شرعی کاموں میں تعاون کرنے والی ملازمتیں دنیا اور آخرت دونوں کیلئے کس قدر مضر اور بے برکت ہیں اور رزق حلال حاصل کرنا ایک مسلمان کیلئے کس قدر ضروری ہے جب عوام کی بھاری تعداد کا ذہن ایسی ملازمتوں سے اقدر نفرت کرنے لگے کہ وہ اسے چھوڑ کرکم پر گذارا کرنے پر راضی ہوجائیں بلکہ اس کیلئے دوسری قربانیاں دینے کیلئے بھی تیار ہوں تب یہ مہم اتنی موثر اور کامیاب ہوسکتی ہے جتنی کوئی اور ہڑتال کامیاب نہیں ہوسکتی۔ ذرا اندازہ لگائیے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں مختلف فوجی حکمرانوں نے کتنی مرتبہ ملک کا دستور توڑا، ہر مرتبہ وہ اس لئے کامیاب ہوئے کہ عدالت کے ججوں نے ان کے اقدامات کو سند جواز دے دی، البتہ ہر مرتبہ کچھ جج ایسے تھے جنہو ں نے دستور کے خلاف کسی اقدام کو ماننے سے انکار کیا اور اپنی ملازمت کو قربان کردیا ایسے جج صاحبان کو بھی ان کی تقلید کرنی چاہئے تھی اور اگر وہ ایسا کرتے تو کسی کی مجال نہ تھی کہ دستور کو توڑ رسکتا(جنرل پرویز مشرف کے دور میں آئین کو پامال کرنے کے خلاف ججوں کی ایک بڑی تعداد متفق ہوگئی تو بالآخر کامیابی انہی کو حاصل ہوی)اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے ہمارا بنیادی آئین قرآن و سنت ہے اگر اس کے تحفظ کے لئے قوم میں وہی جذبہ بیدا ہوجائے تو ’’لا طاعۃ لمخلوق فی معصےۃ الخالق ‘‘ کا یہ اصول پر امن احتجاج کا بہترین اور موثر ترین طریقہ ہوسکتا ہے۔