آج کل کے ماحول میں انتخابات کا طریقہ کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ سمجھتا چاہئے کہ جب کوئی طریقہ عالمگیر طور پر اختیار کرلیا جاتا ہے تو عام طور پر اس کے خلاف کسی اور طریقے پر غور کرنے کے لئے لوگ تیار نہیں ہوتے اور اس کے خلاف ہر طریقے کو ناقابل عمل قرار دے لیتے ہیں حالانکہ اگر اپنے ماحول کے دباؤ سے آزاد ہو کر سوچا جائے تو وہ ناقابل عمل نہیں ہوتا۔ خود موجود دور کے انتخابات کیلئے مختلف ملکوں میں مختلف طریقے اختیار کئے گئے ہیں کہیں متناسب نمائندگی کا نظام ہے کہیں دو مرتبہ انتخابات (Second Ballot) کا طریقہ اپنایا گیا ہے کہیں قابل انتقال ووٹ (Transferable Vote) کے مطابق انتخاب ہوتے ہیں، لہٰذا کسی ایک طریقے کو ناگوار سمجھنا درست نہیں ہے۔
مثلاً امیدواری کے بجائے انتخاب کا نظام اس طرح بنایا جاسکتا ہے کہ ہر حلقہ انتخاب کے عوام کو دعوت دی جائے کہ وہ اپنے حلقے کی نمائندگی کیلئے از خود افراد تجویز کریں، ان افراد کی صفات اہلیت بھی متعین کردی جائیں جن میں ان کی تعلیمی قابلیت، ان کی سماجی خدمات ان کے عملی تجربے اور انکے کردار کے بارے میں بھی ضروری اوصاف طے کردیے گئے ہوں، پھر جس شخص کانام حلقے کے لوگوں کی ایک متعین تعداد مثلاً پانچ سو یا ایک ہزار آذمیوں نے مذکورہ بالا اوصاف کے مطابق تجویز کیا ہو، الیکشن کمیشن اس کا جائزہ لے کہ کیا یہ تجویز حقیقی ہے؟ یعنی یہ افراد جنہوں نے نام تجویز کیا ہے واقعتاً اس حلقے کے لوگ ہیں؟ اورکیا واقعی تجویز کرنے والے متعین تعداد میں یعنی پانچ سو سے ایک ہزار ہیں؟ اور اس میں کوئی جعلسازی تو نہیں ہوئی ہے؟ نیز جس شخص کا نام تجویز کیا گیا ہے وہ ان اوصاف کا حامل ہے جو نامزدگی کیلئے طے کی گئی ہیں؟ ان باتوں کا اطمینان کرنے کے بعداس کے کاغذات نامزدگی کو منظور کیا جائے اور اگر اس طرح کئی لوگوں کے نام تجویز ہوئے ہیں تو پھر ان کے درمیان انتخاب کرنے کیلئے ان نامزد افراد کے بارے میں ووٹ ڈلوائے جائیں۔
پھر بجائے اس کے کہ وہ نامزد فرد خود اپنی تشہیر کرکے لوگوں سے یہ اپیلیں کرے کہ وہ اسے ووٹ دیں اور ان سے جھوٹے سچے وعدے کرے اور اپنے مقابل دوسرے نامزد افراد کی برائیاں بیان کرے اور اس کام کیلئے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرے جیسے کہ آج کل انتخابات میں ہوتا ہے ‘الیکشن کمیشن ان کو لوگوں میں متعارف کرانے کیلئے میڈیا کے ذائع استعمال کرے، اور ضرورت ہوتو ان کے انٹرویو نشر کرائے جس کے ذریعے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ اس حلقے میں کون کون لوگ انتخاب کیلئے نامزد کئے گئے ہیں ان کی تعلیمی قابلیت کیا ہے؟ ان کی سابق زندگی کیسی گزری ہے؟ ان کی معاملہ فہمی اور دیانت کا کیا معیار ہے ؟ وہ عوام کے مسائل کو کس حد تک سمجھتے ہیں؟
اس وقت تو صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ جو شخص خود امیدوار بنتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے فضائل و مناقب خود بیان کرکے لوگوں کو سبز باغ دکھلاتا ہے بلکہ لوگوں میں اپنی تشہیر کرنے کیلئے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتا ہے، اس لئے امیدواری کے اس نظام میں امیدوار وہی بن سکتا ہے جس کے پاس لاکھو ں کروڑوں روپے خرچ کرنے کیلئے فالتو موجود ہوں، ایک متوسط درجے کا انسان امیدوار بننے کا تصور بھی نہیں سکتا پھر جس شخص نے لاکھوں کروڑوں روپے کسی منصب کے حصول کیلئے خرچ کئے ہیں عموماً وہ اسے سرمایہ کاری تصور کرتا ہے تاکہ منتخب ہونے کے بعد اس سے کہیں زیادہ کرپشن کے ذریعے وصول کرسکے، اس طرح صاف ستھرے افراد کا حکومت تک پہنچنا کم از کم ہمارے ماحول میں تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔
لہٰذا اگر امیدواری کے بجائے تجویز کا مذکورہ بالا نظام اپنایا جائے اور مجوزہ افراد کو اعتدال کے ساتھ متعارف کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن اٹھائے اور کسی کو الیکشن کمیشن کے ذرائع کے علاوہ کسی اور ذریعے سے تشہیر یا ترغیب کے مروجہ طریقے اختیار کرنے کی اجازت نہ ہو تو یہ خرابیاں بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہیں۔ اسی طرح پولنگ اسٹیشن کے باہر جو پولنگ کیمپ بنتے ہیں وہ تجویز شدہ افراد کے نہ ہوں بلکہ وہ الیکشن کمیشن کی طرف سے قائم کردہ ہوں کہ وہاں سے جاکر لوگ پرچیاں وصول کریں، یعنی تجویز کردہ افراد جو ووٹروں پر دباؤد ڈالتے ہیں یا ان کیلئے جو ترغیبات استعمال کرتے ہیں ان کا دروازہ حتی المکان بند کیا جائے، بعض ملک اب بھی ایسے ہیں جن میں کنویسنگ کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ ان میں ہوتا یہ ہے کہ جب امیدوارکے نام رجسٹر ہوگئے تو ریڈیو اور ٹی وی پر ان کو بلاکر ان سے انٹرویو کرائے جاتے ہیں اور بس اور اس سے آگے جلسے جلوس نہیں ہوتے اور نہ اس قسم کی اشتہاری بازی ہوتی ہے کہ دیوار انتخابی نعروں سے اس طرح بھری ہوئی ہو کہ دیوار کی شکل ہی نظر نہ آئے۔
یہ درست ہے کہ وڈیرہ شاہی نے ہمارے ملک میں لوگوں پر بڑا قبضہ جمایا ہوا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ عام طور سے انہی کے زیر اثر ووٹ ڈالتے ہیں لیکن اگر ان کے یہ ہتھیار یا آلات چھن جائیں جن کو وہ استعمال کرتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کی حقیقی رائے معلوم کرنے کا بڑی حد تک صحیح انتظام ہوسکتا ہے۔
پھر اس وقت ہمارے ملک میں ایک رکنی حلقہ انتخاب کا نظام جاری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک حلقے سے ایک ہی شخص پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کا رکن منتخب ہوتا ہے اس میں بعض اوقات یہ خرابی ہے کہ دس امیدواروں میں سے جس کے ووٹ سب سے زیادہ ہوتے ہیں بس وہ منتخب ہوجاتا ہے چاہے اس حلقے کے اکثر ووٹ اس کے خلاف پڑے ہوں، مثلاً دس امیدواروں میں سے نو امیدواروں نے ایک ایک ہزار ووٹ لئے، اور دسویں امیدوار نے دو ہزار ووٹ لئے تو وہ جیت جائے گا حالانکہ پورے حلقے میں اس کے حق میں رائے دینے والے صرف دو ہزار تھے اور نوہزار اشخاص نے اس کے خلاف رائے دی تھی، اس کے برعکس اگر انتخابی حلقے بڑے بنا کر کثیر رکنی طریقہ انتخاب اختیار کیا جائے خواہ قابل انتقال ووٹ کے ذریعے ہو یا ناقابل انتقال ووٹ کے ذریعے تو یہ خرابی بڑی حد تک دور ہوسکتی ہے مثلا یہ طے کرلیا جائے کہ ایک بڑے حلقے میں چار افراد منتخب کئے جائیں گے، پھر انتخاب کے بعد وہ چار افراد منتخب سمجھے جائیں جنہوں نے بالترتیب سب سے زیادہ ووٹ لئے ہوں۔
امیر کی مدد کرنے اور اس کو راہ حق پر چلنے کے لیے بروقت صحیح اور عملی تجاویز کا انتظام اسلام نے اپنے شورائی نظام کے ذریعہ کیا ہے۔ یہ شورائی نظام نہ صرف منتخب مجالس نمائندگان پر مشتمل ہوگا بلکہ ہروزارت اور ہر وزیر کے ساتھ اس کی ذمہ داریوں کے اعتبار سے اہل علم، تجربہ کا ر اور دیانت دارافراد کی ٹیمیں ہوں گی تاکہ فوراً صحیح اور مناسب حال فیصلے کیئے جائیں اور ان کو عملاً نافذ کیاجاسکے۔ یوں مرکز سے لیکر صوبوں ‘ ضلعوں اور گاؤں تک شورائی نظام،میدان عمل میں اپنی برکات کو ظاہر کرتا رہے گا۔
جیسا کہ پیچھے عرض کیا جاچکا ہے کہ اسلام نے کچھ بنیادی اصول دے کر اس کی تفصیلات کا تعین ہر دور کے اہل بصیرت پر چھوڑ دیا ہے، یہاں بھی صورت حال یہ ہے کہ طلب اقتدار کی ممانعت اور شورائیت کا اصول تو اسلام نے دیا ہے لیکن ان اصولوں پر عمل کرنے کا تفصیلی طریق کار خود متعین کرنے کے بجائے اُسے اتنا لچکدار رکھا ہے کہ ہر دور کے اہل بصیرت اسے اپنی فہم و فراست اور تجربے کی روشنی میں متعین کرسکیں، اوپر تجویز کا جو بنیادی خاکہ عرض کیا گیا ہے کہ اس کی مزید تفصیلات بھی اہل بصیرت اپنے تجربات کی روشنی میں متعین کرسکتے ہیں۔
استفادہ تحریر: اسلام اور سیاسی نظریات از مفتی تقی عثمانی