چند دن پیشتر کسی ملحد (atheist) کی پوسٹ پر میں نے ایک مختصر اور نہایت مہذبانہ تبصرہ کیا، مگر اس کے باوجود موصوف بہت طیش میں آگئے۔ میں نے اگرچہ ان سے معذرت کی لیکن ان کا غصہ کسی طرح بھی کم نہ ہوا تو میں نے خاموشی اختیار کر لی۔ان کے کہے ہوئے الفاظ البتہ کئی دن تک میری سماعت میں گونجتے رہے۔ ‘میرے بھائی، مذہب کے کنویں سے باہر نکلو، اس سے باہر کی کائنات بہت وسیع ہے۔ مذہب نے تم لوگوں کے ہوش و حواس اور عقل و خرد چھین لئے ہیں ۔’
میں نے فوری طور پر اس موضوع پر کچھ نہیں لکھا، جب غم و اندوہ کی کیفیت سے کچھ باہر نکلا تو اب قلم اٹھانے کی ہمت کی ہے۔ پوچھنا تو میں ان سے چاہتا تھا کہ جس وسیع عریض کائنات کی آپ بات کر رہے ہیں یہ اپنے تمام تر توازن، تنظیم اور حسن ترتیب کے ساتھ کیا خود بہ خود وجود میں آ گئی ہے یا کسی ملٹی نیشنل کمپنی نے مینوفیکچر کی ہے ؟ آپ کے اپنے بدن کے کئی ٹریلین خلیات میں توازن و ترتیب کسی کا معجزۂ تخلیق ہے یا یہ خود ہی مرتب و مدون ہو کر زندگی کے پراسرار کارواں کے سالار بن گئے ہیں ؟اور بھی بے شمار سوالات۔ لیکن ان سوالات کو میں کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتا ہوں۔فی الحال میں چند ایسے انکشافات کروں گا جن سے ثابت ہو گا کہ ملحد خود بھی اپنے آپ کو ملحد سمجھنے میں مخلص نہیں ہوتا۔
سب سے پہلا انکشاف یہ کہ وہ مرد اور عورت کے انہی رشتوں پر پورا ایمان رکھتا ہے جو صرف توحیدی مذاہب کی دین ہیں۔ مثلا وہ خونی رشتوں سے نکاح کو درست نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی نگاہ میں تو نکاح ہی جہالت کی علامت ہے پھر بھی وہ ہر ایک سے رشتہ زوجیت استوار نہیں کرتا۔ ہونا تو یہ چاہئے کی وہ سگے خونی رشتوں میں بھی ازدواجیت ممکن بنائے مگر چونکہ وہ سچا ملحد نہیں ہے اس لئے اللہ کی بنائی ہوئی ان حدود سے باہر نہیں جاتا۔ کیا بڑے سے بڑا ملحد بھی اپنی ماں یا بہن یا خالہ یا پھوپھی کو اپنی زوجہ محترمہ بنا سکتا ہے ؟ یہ ممانعت تو اللہ نے کی ہے۔ پھر یہ محترم اللہ کا حکم کیوں مان رہا ہے ؟ ہے نا سوچنے کی بات۔ کیا یہی ہے سچا الحاد؟
آگے چلئے، لباس کا حکم تو اللہ نے دیا ہے اور بے لباسی کو گناہ قرار دیا ہے۔ کہاں ہے وہ سچا اور خالص ملحد جو سب کے سامنے بے لباس گھومے یا چلو سب کے سامنے نہ سہی جہاں اس جیسے ہم عقیدہ خواتین و حضرات کی محفل ہو وہیں پر سہی۔ کیا ہے کوئی ایسا ملحد؟ اگر ہے تو ہمت کرے، سب کے سامنے آئے۔ طعن و تشنیع میں تو یہ صاحب چھ فٹ کی زبان دراز کرتے ہیں لیکن جہاں عمل کی بات آئے پھر یہ کہاں چلے جاتے ہیں۔
اب آئیے ذرا میت اور تدفین کا بھی ذکر کئے لیتے ہیں۔ کون ایسا ملحد ہو گا جو اپنے مذہبی پس منظر سے باہر نکل کر اپنے پیاروں کی میت کے ساتھ الحاد کے شایان شان سلوک کرے۔ بھئی اب وہ ایک لاش ہی تو ہے جو بقول اس کے کسی قیامت میں بیدار نہ ہو گی، نہ حساب کتاب کا جھنجٹ اور نہ دوزخ جنت کی جھک جھک۔ بس رات گئی بات گئی۔ تو وہ کیوں اب آخری رسومات کے لئے مذہبی رہنما کی خدمات حاصل کر رہا ہے۔ کیوں نہیں اس لاش کو کسی میڈیکل یونیورسٹی کو ہدیہ کر دیتا یا کسی اور طریقے سے ٹھکانے لگا دیتا۔ بھئی وہ سچا ملحد ہو تو ایسا کرنے کی جرآت بھی کرے۔ (معزز قارئین! اسی طرح کے بے شمار انکشافات اور بھی ہیں لیکن وہ میں آپ کے تخیل اور فکرودانش پر چھوڑتا ہوں۔ )
الحاد کا پرستار یہ کہہ سکتا ہے کہ میں زمانے سے نہیں ٹکرا سکتا۔ جب آہستہ آہستہ ساری دنیا ملحد ہو جائے گی تو میں اپنے سارے ارمان نکالوں گا۔ یعنی دوسرے الفاظ میں وہ یہ ثابت کر رہا ہوتا ہے کہ الحاد کوئی ایسا سچا نظریہ بھی نہیں کہ وہ اس کے لئے اپنی جان کو مصیبت میں ڈال دے۔ بہت عمدہ بات ہے۔ جان کی حفاظت اسی طرح کرنی چاہئے۔ وہ ضرور اپنی جان محفوظ رکھے مگر ساتھ ہی یہ بھی کرے کہ اپنی گز بھر کی زبان پیغمبروں پر دراز نہ کرے جنہوں نے اپنی جان کی اور اپنے تن من دھن کی بال برابر بھی پرواہ نہ کی اور اپنے نظرئیے کے لئے ڈٹ گئے۔ ہر طرح کے ستم برداشت کئے، یہاں تک کہ جان بھی دینا پڑی تو ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔ اور جب صلے یا معاوضے کی بات آئی تو یہی کہا کہ ہمارا صلہ ہمارے رب کے پاس ہے، ہم انسانوں سے کوئی صلہ نہیں مانگتے۔ اس کے بعد انبیاء کرام کے پیروکاروں کی پوری تاریخ ہے، اک داستان ہوشربا ہے ایثار و قربانی کی۔الحاد کی پوری تاریخ میں ایسا ایک بھی سچا ملحد ڈھونڈا جا سکتا ہے جو ایسی قربانیوں کا تصور بھی کر سکا ہو۔
ڈاکٹر یونس