کرایگ سٹیفن ہکس نامی ایک ملحد دہشت گرد نےامریکہ میں تین معصوم مسلمانوں کے سروں پر گولیاں مار کر انہیں انتہائی بے رحمی سے ہلاک کیا۔ مغربی میڈیا خاموش ہے، اور پریشان بھی ہے کہ کیا اس ملحد دہشت گرد کو دہشت گرد کہیں یا نہیں؟ وہ کہیں یا نہ کہیں لوگوں کو اس بات کہ علم ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا ہے اور چونکہ یہ ایک لبرل/ملحد کے ہاتھوں سرزد ہوا ہے، ا س لیے اسے لبرل/ملحد دہشت گردی کہنے میں کسی کو کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔
ملحد دلیل پیش کرتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ”کتاب” نہیں ہے کہ جس سے دہشت گردی کے ارتکاب کا کوئی جواز مل سکے۔ حالانکہ یہ ایک سادہ سی بات ہے کہ قتال کے جواز کے لیے کسی مقدس کتاب کا ہونا ضروری نہیں ہوتا، بیسویں صدی کی دو بڑی جنگوں کا جواز ظاہر ہے مسیحیوں نے کسی کتاب سے نہیں تراشا تھا۔ !
یہ ضروری نہیں کہ دہشت گردی کے ارتکاب کے لیے روایتی معنوں میں کسی مذہبی صحیفے کی ضرورت ہو۔ شدت پسند ملحد اپنا جواز سائنسی انداز میں پیش کیے گئے نظریات سے حاصل کرتا ہے۔ انتہاپسند ملحدین کی بائبل ’’دی گاڈ ڈیلوژن The God Delusion‘‘ کو کون نہیں جانتا اور انکے نبی رچرڈ ڈاکنز کو بھی جو ہمہ وقت شدت پسندی کی تبلیغ کرتے ہوئے مذاہب کو انتہائی برے طریقے سے تنقید کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے اس ملحد کو بھی دہشت گردی پر اکستانے والا ڈاکن یا اسکی کتاب ہو۔۔
یہ صرف ہم نہیں کہہ رہے ،بہت سے مغربی مفکرین کی جانب سے بھی ڈاکنز کے طریقہ کار کو بجا طور پر ’’متشدد دہریت‘‘ کہا گیا ہے کیوں کہ وہ مذہب کے تمام عملی مظاہر کو ڈھا دینے کی حمایت کرتے ہیں اور ایسے ہر ضابطہ کی نفی کرتےہیں جو مذہب کو عملی طور ممکن بنائے اور اس کی انفرادی یا اجتماعی بنیادوں کو مضبوط کرے۔ جیسا کہ کیرن آرمسٹرانگ اپنی کتاب ’’ خدا کامقدمہ ‘‘میں جامعیت کے ساتھ بیان کرتی ہیں کہ
” ڈاکنز ایک مخصوص تخفیفی میلان کی ترجمانی کرتے ہیں جو غیر معمولی طور پر مذہبی شدت پسندوں سے متشابہ ہے اور دونوں ایک دوسرے کو ’’بدی کا نمونہ ‘‘ سمجھتے ہیں۔یہ دونوں فکری رجحانات غیر ضروری تسہیل اور تعمیم کی بناء پر اپنی اپنی جگہ کچھ ناگزیر قضایا قائم کرتے ہیں جن سے اخذ کردہ نتائج آخر کار ایک دوسرے کے بدترین اور بدشکل مظاہر کو نمایا ں کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ امر کسی حیرانی کا باعث نہیں کہ مصنف کرسٹوفر ہچنز اور ابن وراق وغیرہ کی تنقیدی تحریروں کے اطلاق سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ مذہب کے متعلق ایک روادار، متحمل اور مبنی براحترام زاویہ ءنگاہ بھی شدیدقابل مذمت ہے کیوں کہ مذہب کی کوئی بھی شکل مذہبی شدت پسندی کا جواز فراہم کرتی ہے۔ ”
( Karen Armstrong, The Case for God, Anchor Reprint Edition, 2010)
یہی متشدد ملحد سکالر ز ہیں جنکی وجہ سے مغربی ممالک میں الحاد رجعت پسند مذہبیت کا متبادل بن چکا ہے۔ کبھی شارلی ہیبڈو کا واقعہ تو کبھی حالیہ چیپل ہل کا واقعہ۔ مسلمانوں کی مساجد اور قبروں کو مسمار کرنا، مسلمان لڑکیوں کے حجاب نوچنا آزاد اور الحادی آئیڈیالوجی کا جزو لائنفک بن چکے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے الحادی دہشت پسند اور قدامت پسند معاشرے کے مذہبی دہشت پسند کا فرق مٹ چکا ہے۔