اسلام،سائنس اورملحدین کی سائنس

سوشل میڈیا پر ملحدین کی طرف سے اکثر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سائنس نے مذہب کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔ ہمارے ردالحاد کے موضوع پر کام کرنے والے ایک دوست محمد سلیم صاحب نے کچھ عرصہ پہلے اس دعوی کا ملحدین کے انداز میں ہی جواب دیا تھا، یہ جواب واضح کرتا ہے کہ کس طرح ملحدین ایک نیوٹرل علم یعنی سائنس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور پھر اسکو اصلی سائنس بنا کر مذہب کے خلاف پیش کرتے ہیں۔ صاحب تحریر کا لہجہ سخت ہے لیکن انکے بہت سے پوائنٹس متوجہ کرتے ہیں ۔ انہی کو دیکھتے ہوئے ہم اس تحریر کو اپنے اس سلسلہ تحاریر میں پیش کررہے ہیں۔ ایڈمن

٭٭٭

لوگ عموماً سمجھتے ہیں کہ اسلام سائنس کے خلاف ہے ۔ مگر جب میں سائنسی نظریات پہ نظر ڈالتا ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ اسلام سائنس کے خلاف نہیں بلکہ سائنس اسلام کے خلاف ہے ۔سائنس سے میری مراد یہاں ایسے غیر مسلم سائنس دان ہیں جو اسلام سے شدید نفرت کرتے ہیں ۔ اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے انہبں اگر کسی غیر سائنسی رویے کو اپنانا پڑے تو وہ اس سے بھی نہیں چوکتے ۔ اس مضمون میں میں جہاں سائنس کا لفظ استعمال کروں گا اس سے مراد سائنس دان ہی ہوں گے ۔

سائنس کو اگر مریخ پہ پانی کے آثار مل جائیں تو وہاں زندگی کی تلاش شروع ہو جاتی ہے ۔ کیوں کہ جہاں پانی ہو وہاں زندگی کا ہونا غیر یقینی نہبں ۔ بغیر یقینی آنکھ سے دیکھے محض شواہد کی بنیاد پر زندگی کا تصور کر لیا جاتا ہے ۔مگر انہی اصولوں پر خدا کی تلاش یا تصور سائنس کے لئے محال ہے ۔ ایسے میں سائنس کی ایک اور پالیسی سامنے آتی ہے کہ جو چیز جب تک سائنس کے مشاہدے میں نہ آجائے اس وقت تک سائنس اس چیز کے وجود کو تسلیم نہیں کرتی ۔ سائنس کے مطابق خدا کی تخلیقات خدا کے وجود کا ثبوت نہیں ۔ جب تک خدا خود زمین پہ آکر اپنا دیدار نہ کروا دے مگر انہی سائنس دانوں کو اگر پچاس لاکھ سال پرانا کوئی دانت مٹی میں دبا مل جائے تو اس پہ پورا ہوموسیپیئن یا نانڈراتھیال کھڑا کر لیتے ہیں ۔ مشاہدوں پر مخلوقات کا تصور سائنس کے لئے عمومی بات ہے مگر انہی مشاہدوں پر خدا کا تصور سائنس کے لئے ناممکنات میں سے ہے ۔

جو چیز سائنس کے مشاہدے میں نہ آسکے وہ چیز اپنا کوئی وجود نہیں رکھتی ۔ جادو ۔ معجزے اور جنات انہی چیزوں میں شامل ہیں ۔ اسی اصول پر اگر ہم نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو پرکھیں تو اندازہ ہو گا کہ گریویٹی نیوٹن کی دریافت نہیں بلکہ ایجاد تھی ۔ کیوں کہ نیوٹن کے لاء آف گریویٹی کو متعارف کروانے سے ایک دن پہلے لاء آف گریویٹی کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ تھا ۔ اور جس چیز کا سائنس کے پاس کوئی مشاہدہ نہ ہو اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔ جس طرح خدا کا سائنس کی نظر میں کوئی وجود نہیں ۔ اور جو چیز وجود ہی نہ رکھتی ہو اسے وجود بخشنے والا اس کا خالق اور موجد کہلاتا ہے نا کہ دریافت کنندہ ۔ یعنی سائنس کے اسی اصول پر نیوٹن لاء آف گریویٹی کا خالق اور موجد تھا ۔

اگر ہم اس اصول کو تمام سائنسی دریافتوں پر اپلائی کر دیں تو وہ سب ایجادات میں تبدیل ہو جائیں گی ۔ تاوقتیکہ سائنس اس معاملے میں اپنی اصلاح کا اعلان نہ کرے ۔بہتر رویہ یہ ہوتا کہ سائنس کچھ معاملات میں اپنی کم فہمی کا ادراک کرلے کہ جس چیز کا مشاہدہ سائنس کے پاس نہ ہو اس کا وجود تو ممکن ہے مگر سائنس ابھی اس معیار پر نہیں پہنچی کہ اس پر گواہی دے سکے ۔ مگر یہ رویہ سائنس کو خدا کا تصور بھی دے دے گا جو سائنس کے لئے لمحۂ فکریہ ہے ۔

پھولوں میں رنگ کون بھرتا ہے ؟ سائنس کو نہیں پتہ مگر خدا کے سوا کسی نے بھی بھر دئے ہوں گے ۔

پھولوں سے خوشبو کیوں آتی ہے ؟ سائنس نہیں جانتی مگر اس میں خدا کا کوئی کردار نہیں ہو سکتا ۔

پھلوں کے ذائقے ۔ انسان کی تخلیق ۔ انسان کا اندرونی جسمانی نظام ۔ یہ سب باتیں کوئی نہ کوئی سائنسی وجہ رکھتی ہوں گی ۔ مگر خدا نہیں ہو سکتا ۔

لاکھوں سال لگتے ہیں ایک بندر کو ارتقا کے مراحل سے گزر کر انسان بننے میں مگر ایک ناپاک قطرہ ماں کے پیٹ میں محض نو مہینے میں انسانی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ پتہ نہیں اس قطرے میں سے انسانی اعضا برامد ہو جاتے ہیں یا ماں کے پیٹ میں پہلے سے دگنے انسانی اعضا موجرد ہوتے ہوں گے جن میں سے آدھے وہ اپنے بچے کو عنایت کر دیتی ہے ۔ چار مہینے میں وہ مردہ قطرہ زندگی کی نمو پا کر حرکت میں آجاتا ہے اور انسان الٹراساؤنڈ مشینوں کی مدد سے محض اس کی حرکات دیکھ کر اپنی ذہانت پہ دل ہی دل میں خوش ہوتا رہتا ہے کہ دیکھو میں کتنا ترقی یافتہ ہوں کہ میں ماں کے پیٹ میں بچے کو حرکت کرتے دیکھ سکتا ہوں ۔ بچہ کیسے پیدا ہوتا ہے اس معاملے میں سائنس کے پاس بھی اتنا ہی علم ہے جتنا میری گلی میں گٹر صاف کرنے کے لئے آنے والے جمعدار کے پاس ۔ مگر بچہ کیوں پیدا ہوتا ہے ۔ اس معاملے میں جمعدار اور سائنس کی جہالت میں کوئی واضح فرق نہیں ۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں سات آسمانوں کا ذکر کرتا ہے ۔ سائنس کو آج تک ایک بھی نہیں ملا لہٰذا آسمان موجود ہی نہیں ۔ انسان کی رسائی چاند اور مریخ سے آگے نہ جا سکی ۔ مگر جس آسمانِ دنیا پر ستارے ٹانکے گئے ہیں وہی ستارے جو سورج سے بھی لاکھوں نوری سال کی مسافت پہ ہیں ۔ اس آسمانِ دنیا کا کوئی وجود نہیں ۔ یہ ستارے اگر ٹمٹما نہ رہے ہوتے تو سائنس ان کا بھی انکار کر ڈالتی ۔ پھر اگر کسی سائنس دان کو اگر دوربین سے کوئی ستارہ دکھ جاتا تو وہ اس کا دریافت کنندہ نہیں بلکہ خالق بن بیٹھتا ۔ کیوں کے سائنس ہی کے مطابق ایک دن پہلے تک اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا تو جس نے ڈھونڈ لیا وہ اسی کا ۔

سائنس کے مطابق انسان لاکھوں سالوں سے اس دنیا میں مقیم ہے مگر آج تک نہیں جانتا کہ سمندر میں مچھلیوں کی کتنی قسمیں بستی ہیں ۔ روز نت نئی مچھلیاں ایجاد ہو رہی ہیں ۔ مگر سوری ۔ یہاں ایجاد کا لفظ نہیں آئے گا ۔ کیوں کہ یہاں سائنس کی تھیوری بدل جاتی ہے ۔ سائنس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ زمین پر لاکھوں سال جوتیاں چٹخانے کے باوجود ہمیں زمین پر موجود تمام مخلوقات کا علم نہیں ۔ مگر کائنات جس میں ہم چاند اور مریخ سے آگے کبھی نہ گئے اس کے بارے میں ہمیں پکا پتہ ہے کہ وہاں آسمان نہیں ہو گا ۔ للہ ستارے شیاطین کے پیچھے کیسے چھوڑ سکتا ہے یہ تو ممکن ہی نہیں ۔

کسی سیارے پہ سائنس کو انسانی فضلے کے شواہد مل جائیں تو پوری زمین کے سائنس دان اپنی ساری مشینری اس انسان کو ڈھونڈنے میں استعمال کر ڈالیں گے ۔ کسی کے ذہن میں کبھی بھولے سے بھی خیال نہ آئے گا کہ انسانی فضلہ وہاں خودبخود بھی تو بن سکتا ہے ۔ ممکن ہے مادہ اور ضد مادہ آپس میں ٹکرا کر ختم ہو گئے ہوں اور فضلے کی داستان چھوڑ گئے ہوں ۔ کسی بگ بینگ کے نتیجے تخلیق پا گیا ہو ۔ جی نہیں ایسا کیسے ممکن ہے ۔ سائنس اس بات کو نہیں مانتی ۔ خودبخود تو صرف کائنات وجود میں آ سکتی ہے ۔ چاند سورج ستارے وجود۔میں آسکتے ہیں ۔ زمین وجود۔میں آسکتی ہے ۔ انسان وجود میں آسکتا ہے ۔ مگر انسانی فضلے جیسی عظیم ترین چیز خودبخود کیسے وجود۔میں آسکتی ہے ؟

لاکھوں سال پرانے غاروں میں سائنس انسانی ہاتھوں کے بنے نقش و نگار کا پتہ لگاتی ہے اور اس پہ کچھ معترضین تصویریں دکھا دکھا کر ہمیں یقین دلاتے پھرتے ہیں کہ دیکھو انسان بھی موجود اور خود ساختہ مذاہب بھی موجود ۔ یہ تو بہت بڑا ثبوت ہے ۔ ظاہر ہے انسان تھا تو نقش و نگار بنائے نا ۔ کسی بگ بینگ تھیوری کے نتیجے میں نقش و نگار تھوڑی بن سکتے ہیں ۔ صرف کائنات بن سکتی ہے ۔

حقیقت میں سائنس اور اسلام کا آپس میں کوئی تنازعہ نہیں ۔ سائنس تو اصل میں للہ ہی کا انسان کو دیا گیا ایک علم ہے ۔ ورنہ ا للہ کے لئے کچھ مشکل نہیں تھا کہ بغیر کسی قاعدے اور ضابطے کی محض معجزاتی طور پر یہ پوری کائنات تخلیق کر دیتا اور انسان بے بسی سے پھر اس کائنات کو دیکھ کر حیران ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا ۔ تنازعہ اصل میں موجودہ سائنس دانوں کے عقائد کا ہے ۔ میری اس تنقید کا کسی سائنس دان کو برا منانے کی ضرورت نہیں ۔ یہ حقائق ہیں ۔ جس طرح قانون اندھا ہوتا ہے اس طرح سائنس بھی اندھی ہوتی ہے ۔ مگر انسان اندھے نہیں ہوتے ۔ عقل و شعور ہمیں ہر اس مقام پر کچوکے لگاتے ہیں جس مقام پر سائنس ہمیں تنہا چھوڑ جاتی ہے ۔

کوئی بے جان چیز کسی جاندار چیز کو وجود دے ہی نہیں سکتی یہ سائنس کہتی ہے ۔ انسان اور چیمپینزی کی شکل بھی ملتی ہے اور کروموزومز بھی لہٰذا یقیناً انسان چیمپینزی سے ارتقاء پزیر ہوا ہو گا ۔ چمپینزی کسی اور مخلوق سے ۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے ایک یک خلوی جرثومے پہ جا کر اٹک جاتا ہے کہ کیا یک خلوی جرثومہ کسی بے جان چیز سے وجود میں آیا ؟ یا کوئی ہے جو ہر قسم کا علم دینے کے بعد بھی بعض معاملات اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے ۔ قانون بدلنا آسان ہے عقیدہ بدلنا مشکل ۔ ایک دعویٰ یہ کہ جو چیز میرے مشاہدے میں نہیں اس کا کوئی وجود نہیں اور دوسرا دعویٰ یہ کہ ہر موجود چیز میرے علم میں ہے ۔ یہ دونوں دعوے ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ میں پہلا دعویٰ کروں اور دوسرے کا انکار کروں تو میرے پہلے دعوے کی وقعت دو کوڑی بھی نہیں ۔ مگر سائنس باوجود اس کے کہ دوسرے دعوے کا انکار کرتی ہے مگر پہلے پہ قائم ہے ۔ اس کی آخر وجہ کیا ہے ؟ وہی وجہ جو میں نے پہلے بتائی کہ قانون بدلنا آسان ہے عقیدہ بدلنا مشکل ۔ اگر ہر اس چیز کے وجود کے امکانات کو تسلیم کر لیا جائے جو سائنس کے مشاہدے میں نہیں تو پھر خدا کے ہونے کے امکانات کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور اب یہ معاملہ سائنسی قانون کا نہیں بلکہ عقیدے کا ہے ۔

ملحدوں کا دعویٰ ہے کہ وہ بنیاد پرست یا عقیدہ پرست نہیں ہیں ۔ کیوں کہ بنیاد پرستی اور عقیدہ پرستی مذہبی لوگوں کہ خاصہ ہے ۔ ملحدوں کا دعویٰ عقل پرستی کا ہے ۔ تو کیا کہتی ہے عقل کہ بے جان سے جاندار کا وجود ممکن نہیں پھر یک خلوی جرثومہ کہاں سے آیا ؟اگر ایک بے جان شے ایک جاندار یک خلوی جرثومے میں بدل سکتی ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا جیتے جاگتے سانپ میں کیوں نہیں بدل سکتا ؟ اگر جرثومے کے پیچھے کوئی سائنس ہے تو عصا کے سانپ میں بدل جانے کے پیچھے بھی وہی سائنس ہو گی ۔ اور اگر عصا کا سانپ بن جانا محض اس لئے ناقابلِ یقین یا معجزہ ہے کہ بے جان سے جاندار کا وجود ممکن نہیں تو یک خلوی جرثومہ بھی ایک معجزہ ہی مانا جائے گا ۔ معجزے کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ دونوں الگ الگ میدان ہیں ۔ اور اگر یک خلوی جرثومے کی پیدائش کو معجزہ تسلیم کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نظریۂ ارتقاء کی بنیاد ہی کا سائنس سے کوئی تعلق نہیں ۔ جس قانون کی بنیاد معجزے پر پڑی ہو اس کا سائنس سے بھلا کیا واسطہ ؟

پوسٹ کا مرکزی خیال وہی دعویٰ ہے جس کو کوئی ملحد آج تک کسی بھی فورم پہ ثابت نہیں کر پایا مگر ڈھٹائی کا عالم یہ کہ دعوے سے دستبردار بھی نہیں ہوا ۔

دعویٰ یہ ہے کہ سائنسی ترقی نے مذہب کا گلا گھونٹ دیا ۔میرے خیال سے اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے جو لوگ مذہب کی لگائی اخلاقی پابندیوں سے مادر پدر آزادی چاہتے ہیں وہ سائنس کے غیر تسلیم شدہ غیر منطقی اور احمقانہ نظریات کو خدا بنا کر پوجنا شروع کر دیتے ہیں ۔ سائنس ایک ایسا خدا ہے جو آپ سے کچھ نہیں مانگتا ۔ نہ کڑکتی سردی میں صبح صبح اٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر کے فجر کی نماز ۔ نہ رمضان میں صبح سے شام تک بھوکا رہنے کی عبادت ۔ نہ حج کے سفر کی تنگی ۔ نہ زکات کی صورت اپنی کمائی کا مخصوص حصہ کسی غریب کو دینے کا مطالبہ کہ معاشرے کی بھلائی میں کچھ حصہ ڈالا جا سکے ۔ بلکہ الٹا یہ تعلیم کہ یہ زندگی بے مقصد ہے ۔

کائنات کی تخلیق ؟

بے مقصد

دنیا کی تخلیق ؟

بے مقصد

انسان کی پیدائش ؟

بے مقصد

سوال یہ ہے جب انسان کی پیدائش ہی بے مقصد ہے تو پھر توہینِ رسالت کے نام پر مسلمانوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل پر انسانی ہمدردی کی بین کیوں بجائی جاتی ہے ؟ جس کا پیدا ہونا ہی بے مقصد ہو اس کو مارنے کا کم از کم ہمیں ثواب تو ملے ۔ بندہ کسی کا بھلا ہی کر دیتا ہے ۔ وہ آج نہ مرتا تو کسی اور دن مر جاتا ۔ پیدائش کا مقصد ہو نہ ہو کم از کم مرنے کا تو کوئی مقصد ہوتا ۔

اب آتے ہیں اصل موضوع پہ ۔

میں جاننا چاہوں گا کہ سائنس نے وہ کون سا تیر مارا ہے جس نے مذہب کا گلا گھونٹ دیا ۔

اگر ہم دنیا میں زندگی کے آغاذ کی بات کریں تو سائنس ہمیں بتاتی ہے کہ اس دنیا میں زندگی کا آغاذ ایک یک خلوی جرثومے سے ہوا ۔ آغاذ کا مطلب یہ ہے کہ پہلے یک خلوی جرثومے سے پہلے اس دنیا میں کوئی جاندار چیز موجود نہ تھی ۔ یعنی یک خلوی جرثونے نے بے جان چیزوں سے جنم لیا ۔ تو کیا بے جان سے جاندار کے وجود کی پیدائش کو سائنس تسلیم کرتی ہے ؟ اگر کرتی ہے تو کس بنیاد پر ؟ اور اگر نہیں کرتی تو یک خلوی جرثرمے کو کیسے تسلیم کر لیا جو نظریۂ ارتقاء کی بنیاد ہے ؟

جب سائنس سے پوچھا جاتا ہے کہ یک خلوی جرثومہ کیسے وجود میں آیا تو سائنس کہتی ہے “ہمیں نہیں پتہ” ۔ کیا یہی ہے وہ جواب جس پر مسلمانوں سے یہ امید رکھی جاتی ہے کہ وہ کسی خدا کے وجود کا انکار کر ڈالیں ؟ کیا یہی وہ سائنس ہے جس نے مذہب کا گلا گھونٹ دیا ؟ یک خلوی جرثومے کی پیدائش تو ارتقائی نظریے کی بنیاد ہے ۔ اور جب بنیاد ہی غیر سائنسی ہو تو باقی نظریہ سائنسی کیسے ہو سکتا ہے ؟

کسی سے اپنی کوئی منطق تسلیم کروانے کے کچھ اصول ہوتے ہیں ۔ مثلاً اگر میں کہوں کہ ستارے سفید ہوتے ہیں اور آپ کو لگے کہ میں غلط ہوں تو آپ میری تصحیح کر سکتے ہیں مگر مجھے جھٹلا نہیں سکتے ۔ یعنی آپ یوں تصحیح کر سکتے ہیں کہ ستارے سفید نہیں ہوتے بلکہ لال ہوتے ہیں یا نیلے ہوتے ہیں ۔ مگر یوں نہیں کہہ سکتے کہ ستارے سفید نہیں ہوتے اور ہمیں یہ بات پتہ ہی نہیں کہ ستارے کس رنگ کے ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ جب آپ کو پتہ ہی نہیں کہ ستارے کس رنگ کے ہوتے ہیں تو یہ کیسے پتہ کہ سفید نہیں ہوتے ؟ ہو سکتا ہے سفید ہی ہوں ؟

اسی طرح ً اگر میں یہ کہوں کہ للہ نے ہر جاندار پہلی بار جوڑوں میں پیدا کیئے اور اس سے دنیا میں زندگی کا آغاذ ہوا ۔ تو آپ اس کا انکار ضرور کر سکتے ہیں ۔ مگر پھر آپ کو یہ بتانا پڑے گا کہ زندی کا آغاذ کیسے ہوا ؟ دوسری صورت کیا ہے ؟ “پتہ نہیں” جیسے جواب سے آپ مجھ سے میرا عقیدہ نہیں بدلوا سکتے ۔ یعنی یہ ممکن نہیں کہ آپ مجھ سے یہ کہیں کہ اس دنیا میں زندگی کا آغاذ خدا کی تخلیق سے نہیں ہوا مگر جب میں آپ سے یہ پوچھوں کہ پھر کیسے ہوا ؟ تو آپ جواب دیں ہمیں نہیں پتہ ۔ جب آپ کو ایک بات کا پتہ ہی نہیں تو خدا کے انکار کا دعویٰ کیا معنیٰ رکھتا ہے ؟

اسی ارتقائی نظریئے میں آگے چلیئے تو معلوم ہوتا ہے کہ یک خلوی جرثومہ ایک پودے میں تبدیل ہوا اور پودا ایک آبی جاندار میں ۔ پھر وہ آبی جاندار خشکی پر آگئے ۔ کیسے ؟ جبکہ ہم یہ جانتے ہیں کہ پانی میں سانس لینے والے جاندار گلپھڑوں سے مزین ہوتے ہیں اور خشکی کے جاندار پھیپھڑوں سے ۔ پھر پانی کے جانداروں کا خشکی پہ سانس لینا کیسے ممکن ہوا ؟ سائنس اس کا یہ جواب دیتی ہے کہ جو جاندار پانی سے خشکی پہ گئے ان کے گلپھڑے اور پھیپھڑے دونوں تھے ۔ بعد میں تھیوری آف فٹیسٹ کے تحت خشکی کے جانداروں کے گلپھڑے ختم ہو گئے اور پانی کے جانداروں کے پھیپھڑے ختم ہو گئے ۔ سبحان للہ ۔

اب یہاں کئی سوال ایک ساتھ پیدا ہوتے ہیں ۔

سوال : جو جاندار گلپھڑوں اور پھیپھڑوں سے بیک وقت مزین تھے وہ آج کہاں ہیں ؟

مذاہب کا گلا گھونٹ دینے والی سائنس کا جواب : وہ ناپید ہو گئے ۔

سوال : کیوں ؟

سائنس : پتہ نہیں ۔

اگلا سوال : جب آبی جاندار خشکی پہ گئے تو ان کے گلپھڑے کیوں ختم ہو گئے ؟

سائنس کا جواب : کیوں کہ وہ غیر ضروری تھے ۔

سوال : تو وہ جاندار جو پانی میں رہتے ہوئے پھیپھڑوں اور گلپھڑوں سے ایک ساتھ مزین تھے ان کے پھیپھڑے کیوں غیر ضروری نہیں تھے ؟ کیا وہ جانتے تھے کہ مستقبل میں ان کا ارتقاء خشکی پہ ہونا ہے لہٰذا پھیپھڑے بچا کر رکھے جائیں وہاں کام آئیں گے ؟

جواب : ہم ابھی یہ نہیں جانتے ۔

یہ ہے وہ سائنس جس نے مذہب کا گلا گھونٹ دیا ؟

آگے چلیئے ۔

ایک ملحد سے جب میں نے یہ پوچھا کہ ایک قطرہ مادۂ منویہ شکمِ مادر میں نو مہینے گزار کر جیتے جاگتے انسان میں کیسے تیدیل ہو جاتا ہے تو جواب ملا کہ اس کے ڈی این اے میں ہر عضو کی معلومات ہوتی ہیں ۔ میں نے پوچھا یہ معلومات کہاں سے آئیں تو جواب ملا کہ لاکھوں کروڑوں برسوں کے ارتقائی سفر سے جانداروں نے یہ معلومات سیکھی ہیں ۔

اب ذرا اس بات کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔

یک خلوی جرثونے میں افزائش نسل کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو تقسیم کر لیتا ہے ۔ یعنی ایک سے دو دو سے چار اور چار سے آٹھ ۔ پھر وہ یک خلوی جرثومہ ایک پودے میں تبدیل ہو گیا ۔ پودے میں افزائشِ نسل کا طریقہ جنسی تولید ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جرثومے نے پودے میں تبدیل ہونے کے بعد جنسی تولید کا طریقہ کس سے سیکھا ؟ کیا اس کی کوئی مثال پہلے موجود تھی ؟ جب کوئی مثال ہی نہیں تھی تو سیکھا کیسے ؟

آگے چلیں ۔

پھر پودا جاندار میں تبدیل ہو گیا ۔ افزائشِ نسل کا طریقہ ایک بار پھر تبدیل ہو گیا ۔ یعنی اب جنسی تولید کی جگہ جنسی اختلاط ہونے لگا ۔ یعنی اب نر اپنا عضوئے مخصوص مادہ کے عضو میں داخل کر کے مادہ منویہ چھوڑے گا تو مادہ انڈا یا بچہ جنے گی ۔ یہ کام کس سے سیکھا ؟ کیا اس کی کوئی مثال پہلے موجود تھی ؟

پھر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگلا سبق سیکھتا جا رہا ہے پچھلا بھولتا جا رہا ہے ۔ یعنی جس تقسیم والے طریقے سے جنسی تولید والے طریقے پہ جمپ ماری تو تقسیم والا طریقہ بھول گیا اور جب جنسی تولید سے جنسی اختلاط پہ قلابازی کھائی تو جنسی تولید بھول گیا ۔ پتہ نہیں بھول گیا یا بٹوارہ ہو گیا کہ تقسیم آج بھی صرف جرثوموں ہی کا خاصہ ہے ۔ جنسی تولید آج بھی پودوں ہی کا خاصہ ہے ۔ مگر آج کا انسان جس نے جرثومے اور پودے سے ہی ارتقاء کا سفر طے کیا ۔ وہ نہ تقسیم ہونا جانتا ہے نہ جنسی تولید پہ قادر ہیں ۔ وہ اب صرف جنسی اختلاط سے ہی نسلی افزائش کر سکتا ہے حالانکہ اصولاً ارتقاء کے اس سفر میں اتنا کچھ سیکھنے کے بعد آج انسان کے پاس افزائشِ نسل کے یہ تینوں طریقے موجود ہونے چاہیئے تھے ۔ آج ہمارے معاشرے میں بہت سی خواتین ہیں جو شادی نہیں کرنا چاہتیں ۔ کسی مرد سے اختلاط نہیں کرنا چاہتیں مگر بچوں کی خواہش رکھتی ہیں ۔ وہ گھر بیٹھے جرثوموں کی طرح اپنے آپ کو تقسیم کر لیتیں ۔ ہینگ لگے نہ پھٹکری رنگ چوکھا آئے ۔

پھر اس احمقانہ نظریے کی داستان یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔

پانی سے خشکی پر ارتقاء ہوا پھر خشکی سے ہوا میں اڑنا شروع کر دیا ۔ وہ کیسے ؟ اس موضوع پہ ابھی تک میری کسی ملحد سے بات نہیں ہوئی اس لیئے مجھے بالکل بھی اندازہ نہیں کہ اس کا کیا جواب گھڑیں گے ۔ ہو سکتا ہے یہ کہیں کہ جانداروں کو ہوا میں اڑنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے لاکھوں سال تک ہوا میں چھلانگیں لگا لگا کر اڑنے کی کوششیں کیں ۔ آخرکار ان کے پر نکل آئے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر انسان کو انہی پرندوں سے سیکھ کر ہوائی جہاز ایجاد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی ؟ انسان بھی پھدکنا شروع کر دے ۔ کیا پتہ اس کے بھی پر نکل آئیں اور وہ اڑنے لگے ۔

مذاہب میں خدا کے وجود اور پھر خدا کی قدرت سے جانداروں کی پیدائش کو سائنس کے مقابل احمقانہ سمجھنے والے ملحدوں نے سائنس میں جو پایا وہ میں نے من و عن عرض کر دیا ۔ اس میں وہ تجربے بھی ہیں جو ملحدوں کے ساتھ مختلف مباحثوں میں پیش آئے ۔

سائنسی نظریات میں جتنے جھول موجود ہیں اس سے الحادی عزائم کی پوری قلعی کھل جاتی ہے کہ مسئلہ صرف اسلام دشمنی ہے ۔ اخلاق سے آراستہ اور مذہبی پابندیوں سے فرار کا راستہ الحاد ہے ورنہ غیر متعصبانہ انداز میں سائنس کا مطالعہ کیا جائے تو سائنس کسی بھی مقام پہ خدا یا مذہب کے خلاف کوئی نظریہ پیش نہیں کرتی ۔

تحریر محمد سلیم