خدا کو رد کرکے جدید مغرب کے نظریہ حیات کی بنیاد اس فلسفے پر ہے کہ:
کیونکہ میں سوچتا ہوں لہٰذا میں ہوں۔
یہ ایک گہرا اور ہمہ گیر فلسفہ ہے۔یہ فلسفہ بنیادی طور پر انسان کو فطرت اور اطراف سے بیگانہ کرکے اس کو وجود کے اندر اتار کر ایک آزاد اور سوچتا ذی نفس قرار دیتا ہے۔ اس نظریے نے انسان کے شعور اور جسم کو مدغم کر کے اس کی ذات کی پہچان کا بہت قوی اورمستحکم شعور دیا۔ اس آگہی کے حصول کے بعد عملیت کا درس دیتے ہوئے اطراف اور کائنات کو عقل اور شعور سے سمجھنے، برتنے اور مسخّر کرنے کا عزم دیا تو انسان اپنی فلاح کی خاطر خدا سے لاتعلّق ہو کر ریسرچ اور علوم کے حصول میں غرق ہوگیا اور ہر قدم پر اسی فلسفے کی بنیاد پر پرانے عقائد، روایات اور رسومات کو عقل اور شعور کے تناظر میں روندتا اور نئے رسوم و رواج کی ترویج کرتا آگے بڑھنا شروع ہوا۔ اسی کے بموجب جدید انسان نے اپنے آپ کو عاقل ترین اور ماحول کا محور قرار دیا۔
اس فلسفے کا بنیادی نکتہ، میر ی ذات اور میری سوچ ہے!
اس طرز ِفکر میں انسان کا بنیادی سوال کہ، میں کون ہوں؟ اس طرح حل کر دیا گیا کہ میں وہ ہوں جو سوچتا ہے۔ اب آگے کے مرحلے شعور اور تجربات سے کائنات کو سمجھنا ہیں اور بس، یعنی ریسرچ! اس طرح اس فلسفے نے جدیدانسان اور فلسفی کو اپنے دائرے میں کھینچ کر مقیّد کر لیا ہے۔ اس کا موضوع صرف حال اور مستقبل ہے، ماضی نہیں۔ گویا یہ ماضی کی روایات اور اخلاقیات کا اپنی عقل کے تئیں باغی اور منکر ہے۔ صدیوں کے متعیّن اخلاق اور معاشرتی ضوابط کو من و عن صرف نظریہ ضرورت کے تحت ہی مجبوراً قبول کیا گیا ہے جن کی مزید تشریح انسانوں کی اکثریت کی سوچ سے مشروط ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ ہم کو بھی اسی عفریت کا سامنا ہے جو آج نہیں تو کل یہاں کھل کر وارد ہوگا، کیونکہ یہ ہمارے درمیان آہستگی سے آ کر نوجوان ذہنوں کو مسموم کر رہا ہے لہٰذا اس فلسفے کی عقلی اور سائنسی بنیاد پر مضبوطی کا جائزہ ہمارے لیے بہت اہم ہے تاکہ اس کی کمزوریوں کو طشت از بام کیا جاسکے۔ یہ فلسفہ جدیدیت کا بیج ہے جس میں اس کا درخت اور پھل چْھپے ہیں۔ اس بیج کی تفصیلی جانکاری ہی بتائے گی کہ یہ کتنا فطری ہے۔
خیال کیا ہے؟
خیال کا تعلق دماغ سے ہے مگر ابھی تک سائنس بھی دماغ کی کارکردگی کی ماہیت جاننے میں کامیاب نہیں ہوئی۔ دماغ پر جدید تحقیقات یہ واضح کرتی ہیں کہ ہم ابھی دماغ اور اس کی کارکردگی کی اصلیت سمجھنے کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ روبوٹ اعلیٰ ساخت کی مشین ہے جس کو انسان سوچنے کی مصنوعی صلاحیت دینے کی کوشش کر رہا ہے لیکن دماغ کی سوچنے کی صلاحیت ایک ایسا اسرار ہے جس کو انسان فی الحال ہو بہو کسی مشین میں نہیں منتقل کرسکا۔ اس کے علاوہ سائنس اور فلاسفر ابھی تک یقینیت کے ساتھ یہی
ہیں کہ شعور آیا دماغ کی طبعی ساخت سے مکمل منسلک ہے یا کچھ اور بھی۔
یہاں ہم اس فلسفے کو پرکھنے کی کاوش سائنس اور سادہ استدلال سے کریں گے۔ اس جائزے میں ہم بھی خدا کو اپنی بحث سے الگ کرکے اسی فلسفے اور سائنس کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے تاکہ دقیانوسیت یا غیر سائنسی اْسلوب کا کوئی الزام ہمارے سر نہ پڑے۔ لیکن سب یہ جان لیں کہ جدیدیت اور سائنس کی خیرہ کن کامیابیاں خواہ انسان کو علمیت کی کتنی ہی بلندی پر لے جائیں اور انسان اور خدا کے درمیان لاکھ رخنے کھڑے کریں لیکن بہت جگہوں پر آ کر یہی جدیدیت خود بے دست و پا ہوجاتی ہے۔
وہ کیا ہے؟ آئیے سمجھتے ہیں ۔
اس فلسفے میں انسان اور اس کی سوچ ایک اکائی کی حیثیت سے ہیں۔ گویا انسان میں سوچ ہے اور سوچ سے انسان۔ خیالات کی آمد ہر جاگتے انسان کی جبلّت ہے اس لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ خیالات کیونکر پیدا ہوتے ہیں۔ ہمیں سوچ اور خیال کی ماہیت جاننی ہے اور یہاں یہ دیکھنا ہے کہ سائنس اس بارے میں کیا کہتی ہے کہ میں کیسے سوچتا ہوں۔ یعنی میرے خیالات کیسے آتے ہیں۔ کیا یہ میرے وجود کا حصہ ہیں یا کوئی اجنبی چیز ہے جو مجھ میں در آتی ہے۔
اگر خیالات دماغ یا با الفاظ دیگر ذات سے اٹھتے ہیں توسوال یہ ہے کہ:مستقبل یا آئندہ کے بےحساب خیالات اور سوچ کا کیا کوئی وئیر ہاؤس ہے جہاں سے یہ وارد ہوتے رہتے ہیں؟اگر ہے تو کہاں؟
سائنس کے مطابق تو دماغی خانے میں صرف ماضی کی فائلیں ہوتی ہیں جنہیں ہم یادداشت کہتے ہیں، کیونکہ سائنس انسانی دماغ میں ایسا کوئی خانہ دریافت نہیں کرسکی، جہاں پر مستقبل کے خیالات منجمد یا ذخیرہ ہوں تو اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ کوئی خارجی عامل بھی ہے جو انسان کے دماغ میں سرایت کرتا ہے جس سے خیالات اور سوچ پیدا ہوتی ہے۔ سائنس دماغ میں کیمیائی عمل کا مشاہدہ کرکے بتاتی ہے کہ سوچ دماغ کے اندر ظاہر ہوتی ہے۔ سائنس کے مطابق ہمارے خیالات دماغ میں موجود نیورون میں کیمیکل ری ایکشن کی بدولت پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی میری سوچ ایک سائنسی اور کیمیائی چیز product ہے۔ اس طرح خیال کو پروان چڑھانے والے ا ن کیمیکل عوامل یا فارمولوں کا کوئی منبع ہونا تو سو فیصد منطقی بات ہے۔ مزید یہ کہ انسان کے اندر آئندہ کے خیالات کا کوئی ذخیرہ نہیں ہوتا تو پھر سوچ کا کوئی خارجی منبع یا بنیاد رکھنا لازمی ہے۔ لیکن ہمارے مذکورہ فلسفے سے یہ بات ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ اِس فلسفے میں فلسفی سوچ کو انسان کی ذات کا حصّہ کہتا ہے۔ ایک خارجی چیز ذات کا حصّہ کیسے ہوسکتی ہے؟ دیکھیے جناب انسان آکسیجن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا جسے وہ ہر لمحہ باہر سے حاصل کرتا ہے، تو کیا آکسیجن جو ہمیں زندہ رکھتی ہے ہماری ذات کا حصّہ ہے؟ گویا جس طرح آکسیجن انسانی زندگی کو جاری رکھتے ہوئے بھی انسانی ذات کا حصّہ نہیں ہے، اسی طرح سوچ کو پیدا کرنے والے عوامل اگر خارجی ہیں تو وہ انسانی ذات کا حصّہ نہیں ہو سکتے۔ خیال جو باہر سے کسی عنصر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہو وہ درحقیقت ایک اجنبی چیز ہوتا ہے جس کو انسان اپنے اختیار کے بموجب اپناتا یا رد کرتا ہے۔
اب اگر ہم یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں کہ سوچ داخلی نہیں بلکہ خارجی عامل ہے تو اس فلسفے کی بنیاد کا غیر سائنسی اور غیر منطقی ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے دیکھنا ہے کہ خیال کے پیدا ہونے کے خارجی ذرائع کیا ہوسکتے ہیں؟ باہر ایسا کیا ہے جو سوچ پیدا کرتا ہو۔
انسانی حواس:
اب آئیے انسانی حواس پر، بظاہر یہ وہ بیرونی معلومات وصول کرنے والے واسطے Receptors ہیں کہ جن کی بنا پر معلومات دماغ تک پہنچتی ہیں۔ اگر حواس معطّل ہوجائیں تو دماغ کی سوچنے کی صلاحیّت ساکت ہوجانی چاہیے لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ حواس معلومات دینی بند کر دیں، پھر بھی انسان سوچتا ہے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ فعّال حواس خمسہ کے واسطے سے حاصل معلومات انسان کو فوری سوچ اور ردعمل دیتی ہیں لیکن مفلوج حواس کی صورت میں، یعنی آنکھ، کان، ناک، زبان اور لمس کو ارادتاً معطّل کر دیا جائے، پھر بھی دماغ اور اعصاب کا کام کرنا اور خیال کا آنا یا ہمارا تفکّر یہ ثابت کرتا ہے کہ کوئی اور بیرونی عنصر بھی ہوسکتا ہے جو دماغ یا قلب پر اثر انداز ہوتا ہے۔ لہذٰا اب کسی بیرونی اور ناقابل پہچان untraceable عامل کی تلاش بھی ہماری ضرورت ہوگی۔
یہاں سائنسی علوم کو بہ حیثیت مجموعی ایک اکائی سمجھ کر ہی کوئی فیصلہ سائنسی ہوگا۔ سائنس کے مطابق انسان ایٹم سے بنا اور ارتقاء کی منازل طے کرکے یہاں پہنچا۔ ہم سائنسی نظریے نیچرل سلیکشن کی جادوئی کرامات یعنی ”ہر جاندار خود کو خود ہی ماحول کے مطابق بہتر کر رہا ہے.“ کو بھی سائنسی ہی مان لیتے ہیں، لیکن اگر کھرب ہا کھرب انسانوں کے دماغ میں اچھائی اور برائی کا ایک تصوّر صدیوں سے منتقل ہو رہا ہے تو یہاں ”میں“نہیں بلکہ ”ہم“ ہوئے یعنی آفاقیت۔ تمام اخلاقی معیار کیونکہ آفاقی ہوتے ہیں لہٰذا ہر ذہن میں ان کی آمد یا قیام انسان کی اپنی ذات کا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ ذہن میں پیوست ہوتا ہے جو کسی آفاقی نظم کا حصہ ہے۔ یہاں ”میں“ سے پہلے تو ”ہم“ ہے کیونکہ سب کسی نظم کے تحت اخلاقیات کی یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ اگر ایک انسان کہیں پر اپنے خیال کے بموجب جھوٹ یا قتل کو برا کہتا ہے تو ساری دنیا کے انسان بھی عمومی طور پر یہی سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہمیشہ سے ہو رہا ہے تو پھر صرف ”میں“ ہی اپنی ذات میں نہیں سوچتا بلکہ انسان کسی نامعلوم کلیّت totality میں بھی سوچتا ہے۔ گویا انسانیت انسانوں کی مربوط سوچ کا نام ہے جس میں انسان ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح جُڑے ہیں۔ اپنی اصل میں اخلاقیات نسل در نسل منتقل ہوتی اقدار نہیں ہیں بلکہ اپنی ابتدا میں کہ جب انسان نے شعور کے تئیں کسی انجانی تحریک پر صحیح اور غلط کے بارے میں مجموعی طور پر یکساں فیصلے کیے تو اس ہمہ گیر قبولیت کا محرّک اگر کوئی بیرونی عنصر نہ ہوتا تو بنیادی اخلاقیات کی ماہیت پر اختلاف و جنگ و جدل ہونا فطری تھا۔ ہر انسان میں غلط کام پر ملامت کرتا ذہن ہمیں ایک پوشیدہ اور فی الوقت نہ سمجھ میں آنے والے اثر انگیز بیرونی نظم کا پتہ دیتا ہے۔
میں سوچتا ہی کیوں ہوں؟
کیا سائنس کے پاس اس کا جواب ہے؟
اگر سائنس کے پاس ”میں کیوں سوچتا ہوں“ کا جواب نہیں توسوال یہ بھی ہے کہ لفظ کیوں آخر انسان کے ذہن میں کس کیمیکل ری ایکشن سے آیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کیونکہ سوچ یا خیال باہر سے وارد ہوتے ہیں تو کیوں کے جواب بھی کہیں خارج میں ہی ہوں؟ دیکھیے جناب میری سوچ تو میری نہیں کیونکہ یہ تو کسی نامعلوم کیمیائی عمل کا نتیجہ ہے جس کے منبع origin کا مجھے علم ہی نہیں تو میں کیسے یقین کروں کہ یہ میں جو سوچ رہا ہوں وہ میری ملکیت property ہے؟ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ میرا خیال یا میری سوچ ہے لیکن یہ مدّنظر رہے کہ حقیقتاً یہ کسی اجنبی اشتراک سے ممکن ہوا۔ گویا جب انسان سوچ رہا ہوتا ہے یا کوئی خیال اس کے ذہن میں وارد ہوتا ہے تو دراصل وہ کسی نامعلوم بیرونی پہل پر ردّعمل دے رہا ہوتا ہے۔ سوچنا بھی ایک کیمیائی ردّعمل ہے۔ گویا ہمارے ذہن میں اُٹھنے والا خیال اپنی ساخت میں ایک حسابی ترتیب سے آتا ہے تب ہی تو کیمیائی فارمولے میں ڈھلا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو اپنے خیالات کی ترویج والے ان فارمولوں کا علم تو آج بھی نہیں۔
یہ سوال سائنسدانوں سے جواب مانگتا ہے کہ خیالات آفاقی نوعیّت کے کیوں ہوتے ہیں؟
ہر جدا انسان اپنی جین میں صدیوں کے یکساں اخلاقی تجربات کا بوجھ لے کر کیوں رواں دواں ہے؟
انسان رشتوں کا احترام کیوں کرتا چلا آرہا ہے؟
اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ انسان کے خیالات اس کے اندر، خارج یا باہر موجود کسی نظم کے تحت ابھرتے ہیں تبھی آفاقی ہوتے ہیں۔ یعنی ہر انسان سوچ رہا ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے مذکورہ جدیدیت کے فلسفے، ”کیونکہ میں سوچتا ہوں لہذٰامیں ہوں“، کی بنیاد تو انسان کے اندر کے بجائے خارج یعنی انسان کے جسم سے باہر ہونی ثابت ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ فلسفہ تو ہوا میں معلّق ہوا کیونکہ یہ فلسفہ انسان کو ایک خودمختار اکائی قرار دیتا ہے۔ اس فلسفے کی بنیاد ایک مفروضہ ہے کہ خیال یا سوچ انسان کی ذات کا حصّہ ہے کیونکہ انسان کے خیالات اندر سے ابھرتے ہیں جو غلط ہے جس کی طبعی حقائق تصدیق نہیں کر رہے۔ یعنی مفکّر بہت سے حقائق کو بغیر ان کی ماہیت جانے من و عن قبول کرکے اپنا فلسفہ پیش کرتا ہے جبکہ اس کے قبول کیے ہوئے اخلاقی حقائق اور عقائد خود بھی اس کے فلسفے سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یہ نظریہ اہم سائنسی حقائق کو نظر انداز کرکے اپنے حروف تہجّی ا ب پ کے بجائے ج چ ح سے شروع کرتا ہے جو کہ نامکمل ہے۔ اگر ابتدائے آفرینش سے ہر فرد اپنی اپنی ذات میں ہی سوچتا ہوتا تو سب انسان خوبصورتی کو خوبصورتی نہیں کہتے بلکہ اس میں اختلاف ہوتا اور کچھ اسے بدصورتی کہتے یا انسانوں میں سچ اور جھوٹ ، صحیح اور غلط کے عمومی معیار اُلٹ بھی ہوتے۔ یعنی یہ آفاقی سچّائیاں عنقا ہوتیں۔
سوال پھر یہ ہے کہ یہ خارجی عامل کیا ہے یا کیا ہوسکتا ہے؟
ایک مفروضہ:One Hypothesis
خارج سے سوچ کی آمد پر اگر غور کریں تو ہمیں ایک دوسرے نظریے سے کچھ مدد مل سکتی ہے۔ دیکھیے سائنسدانوں نے ایٹم کے بارے میں بہت کچھ جان لیا تھا، یہاں تک کہ ایٹمی ہتھیار بھی بنالیے لیکن ایک معمّہ ہمیشہ رہا کہ ایٹم جو ٹھوس مادّہ نہیں بلکہ توانائی ہے اور نظر نہیں آتا، اس میں کمیّت mass کہاں سے آتی ہے۔ اس پر سائنسدان غور کرتے اور مفروضات پیش کرتے رہے۔ ان میں ایک مفروضہ بڑا منطقی تھا کہ کائنات کسی پارٹیکل یا فیلڈ سے بھری ہوسکتی ہے کہ جس سے مَس ہوکر ایٹم کمیّت حاصل کرتا ہو۔ اب حال ہی میں اس کی سائنسی تصدیق ہوئی ہے اور اس فیلڈ کو ہگز فیلڈ یا ہگز بوزون higgs-boson کا نام دیا گیا ہے۔ اس طرح ایٹم میں کمیّت کا خارج سے آنا اب ثابت ہوا۔
ہمارا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ خیالات کا پیدا ہونا تو دماغ میں ثابت ہے لیکن یہ کسی خارجی عامل سے کیسے ہوگا؟ یہ ایک پہیلی ہے۔ میرے خیال میں ہمارے اطراف فضا میں کوئی غیر مرئی عنصر موجود ہے جس میں ایسی خصوصیت ہے کہ وہ ہر دماغ سے مَس ہوا رہتا ہے اور اس کی وجہ سے انسان اور حیوان ہمہ وقت ایک ٖغیر مرئی خام لہر سے استفادہ حاصل کرتے ہیں جو مختلف عوامل کے تئیں دماغ میں کیمیکل ایکشن کو مہمیز دیتی ہے جس سے حالات کے مطابق کسی پوشیدہ نظام کی وجہ سے خیالات کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ گویا دماغ میں خیالات کسی خام شکل میں وارد ہوتے ہیں جو کیمیائی عمل کے بعد ایک سوچ کا روپ دھار کر ذہن کے پردے پر ظاہر ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے خیال کی بابت بھی سائنس داں خاموش ہیں، اس کا جواب بھی اسی مفروضے میں ہو سکتا ہے کہ یہ غیر مرئی عناصر مثبت اور منفی جوڑے کی شکل میں ہوں.
اب پھر اس فلسفے کی طرف آتے ہیں جس کی بنیاد میں ایک سائنسی سقم سامنے آیا ہے کہ یہ انسان کے خارج سے تعلق کو ابتدائی مرحلے میں مسترد کرتا ہے جبکہ ایسا نہیں ہے تو جبلّی طور پر اس فلسفے کی بنیاد پر تعمیر ہونے والے تمام معاشرے انسان کو کسی اصل خارجی حقیقت روشناس کرانے کی صلاحیت سے عاری ہوں گے۔ اس فلسفے کی جبلّت انسان کی ذات اور کائنات ہے لہٰذا یہ انہی کے اطراف گردش کرتا ستارہ ہے اور رہے گا۔ جیسا کہ ابتدا میں عرض کیا تھا کہ یہ ایک بیج ہے اور بیج کے پھل صرف اور صرف اس کی ہی سرشت لیے ہوتے ہیں۔
اب ہم خود ہی اس پر بات کرتے ہیں کہ جدید فلاسفر کیوں حقیقت آشنائی کے اچھے موصل Good-Conductor نہیں ہیں۔
تخلیق کے مدارج میں انسان ایک ترقّی یافتہ خلیاتی حیوان ہے۔ اس کے شعور اور خیالات سب ہی خلوی cellular بنیاد پر نمو پذیر ہوتے ہیں۔ ان کی ایک خلیاتی جبلّت یا سرشت ہے جو اٹل ہے اور اپنی خصوصیات اور حدود کار میں بھی خلیاتی شعور کے تئیں ہی”لامحدود“ ہے جبکہ حقیقتاً محدود ہے کیونکہ اسی شعور کے مطابق کائنات میں صرف مادّہ ہی نہیں توانائیاں بھی ہیں اور اس خلوی ساختہ شعور کی حد سے باہر اگر کچھ ہے تو ہمیں اس کے متعلق نہیں معلوم مثلاً توانیاتی شعور Energy-based-concsciousnes اور Light-based-consciousness نورانی یا تنویمی شعور وغیرہ ! ۔ مختصراً انسان کا کُل علم وہی ہے جو اس کے خلوی ساختہ دماغ سے ہم آہنگ ہوکر اس کے اندر سماجائے، باقی اس سے ماوراء ہر معلومات اس کے لیے معدوم ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ مغربی فلاسفر، سائنسدان اور تحقیق کرنے والے خواہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں، اپنی خلوی جبلّت کے بموجب، صرف اور صرف خلیاتی ساختہ شعور میں سوچتے ہوئے اپنے علم کے خمار اور احساس برتری میں غلطاں ہوکر کائنات میں شعور کی دیگر اقسام کو نہ صرف نظر انداز بلکہ مسترد کر دیتے ہیں جبکہ حقیقتاً یہ کائناتی حقائق اپنی جگہ بہت سے لاینحل سوالات کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ وہ سوالات جدیدیت کے علمبرداروں کے لیے سوہان ِروح نہیں بلکہ سوہان ِشعور بنے ہیں کیونکہ روح کو سائنس جان نہیں پائی ہے۔ ان ہی سوالات میں بڑی تعداد ”کیوں“ کے سابقہ اور لاحقہ والے سوالات ہیں جن کے جواب ان کے پاس نہیں ہوتے لیکن اپنی بقاء اور انا کی تسکین کے لیے عقل، فلسفے اور مفروضات کی مدد سے اپنے آپ کو یقین کی مصنوعی کیفیت میں رکھنے میں مجبور ہوتے ہیں۔ یہ فلسفہ بنیادی طور پر یہی تلقین کرتا ہے کہ انسان اپنی عقل کو لامحدود گردانے ہر وقوعہ کو صرف عقل اور تجربات سے سمجھے اورجو عقل میں نہ آئے، اس کو مفروضات کی ڈور سے باندھ کر مستقبل کی ٹوکری میں ڈال کر آگے بڑھ جائے۔ اس فلسفے کی بنیاد غیر سائنسی اور غیر فطری ہے اسی لیے مغرب میں بے شمار اخلاقی مسائل کھڑے ہو رہے ہیں اور اخلاقی اقدار و خاندانی نظام میں ٹوٹ پھوٹ جاری ہے۔
اب ایک اہم نکتہ توجّہ چاہتا ہے۔
اسلام جو دین فطرت ہے اور اپنا ایک فلسفۂ حیات رکھتا ہے جس کی بنیاد دماغی سوچ یا کوئی انسانی فلسفہ نہیں بلکہ مادّے سے ماورا ہے۔ اگر سائنس اور جدید فلسفے کی رو سے سمجھیں تو یہ انسان کو ایک بہت برتر بلکہ لامحدود اجنبی نورانی شعور کے تابع کرتا ہے۔ یہ انسان کو ایک مقام اولیٰ عطا کرتا ہے کہ انسان اپنے خالق کی برتر ترین تخلیق اور زمین پر اپنے خالق کا نائب ہے۔ خالق کی شعوری صفات ایک معیّن درجے میں انسان میں ودیعت کی گئی ہیں تاکہ یہ ایک با اختیار مگر محدودیت میں قید ”خالق“ بنے بالکل اسی طرح جیسے انسان برقی یا الیکٹریکل شعور روبوٹ میں منتقل کر کے ایک ہیومنائڈ روبوٹ humanoid تخلیق کرتا ہے۔
اب یہ دبھی دیکھیے کہ اللہ کائنات کو بلا شرکتِ غیرے چلا رہا ہے تو فطری طور پر انسان کے اندر بھی یہ صفت کسی نہ کسی طور پر موجود ہے کہ وہ بھی اپنی سلطنت میں کسی کی عمل داری نہیں چاہتا اور کوشش کرتا ہے کہ خدا کے بغیر اپنی سلطنت کا جواز دھونڈ لے۔ اسی ذہنی اُپج کے تئیں کیونکہ انسان مادّے کی سرشت لیے ہوئے ہے، پہلے کائنات کو صرف مادّے کی نظر سے پہچاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی سوچ میں نئے فلسفے گھڑتا ہے تاکہ کائنات اور زندگی کا جواز خالص عقلی بنیاد پر استوار کرے۔ مغرب کیونکہ ان فلسفوں کے بموجب معاشرہ استوار کر کے مادی ترقی کر رہا ہے اور باقی دنیا سے مادّی ترقّی میں بہت آگے ہے، اسی لیے جدید انسان حاصل علوم کے بموجب نئے فلسفوں سے مادی حدود میں ہی انسان اور کائنات کی تشریح کیے جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان فلسفوں سے بے بہا مادّی ترقی تو حاصل ہورہی ہے لیکن انسان اپنے اور کائنات کے وجود کے مخمصے حل نہیں کر پایا کیونکہ ان سوالات کا جواب مادّیت پر مبنی فلسفوں اور علوم میں ہے ہی نہیں۔ وما علینا الّا البلاغ۔
(خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریاتی اشکال از مجیب الحق حقی سے اقتباس)ا