جواب: سوال یہاں تک ہی کیوں محدود ہو کہ اگر اللہ سب کو دولت مند بنا دیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟ یہ کیوں نہیں کہ اگر اللہ سب کو صحت مند بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟ اگر اللہ سب کو حسین و جمیل بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟ اگر اللہ سب کو طاقتور بنا دیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟ اگر اللہ سب کو صاحب اقتدار بنادیتا تو اس کے خزانے میں کون سی کمی آجاتی؟ وغیرہ وغیرہ ؟
میرے رفیق دراصل سوال خزانے میں کمی یا اضافے کا ہے ہی نہیں۔ سوال ہے اس ‘امتحان’ کے اصول کا جس کے تحت یہ دنیا کی بساط بچھائی گئی ہے۔ انسانی رویوں کا امتحان اسی وقت ممکن ہے جب ایک کشمکش بپا ہو۔ جب کسی کو دے کر آزمایا جائے اور کسی سے لے کر آزمایا جائے۔ کسی وقت عطا کر کے آزمایا جائے اور کسی وقت چھین کر آزمایا جائے۔ کس کو کس سے نوازنا ہے؟ اور کس کو کس سے محروم کرنا ہے؟ کس کو کتنا دینا ہے؟ اور کس کو بالکل نہیں دینا ہے؟ اس کا فیصلہ اسی دانشمند پر چھوڑنا درست ہے کہ جس کی دانش اس پورے کائناتی گرینڈ پلان کے پیچھے ہے۔ ہم سب اس تصویر کائنات کے معمولی پکسل ہیں۔ پوری تصویر تو اسی بزرگ و برتر کے سامنے ہے جو المصور ہے۔ ہمیں فقط اپنے رویے کو اپنے موجود حالات کی مناسبت سے بہترین بنانا ہے۔ اگر سب ہی امیر ہوتے تو یہ کیسے دیکھا جاتا کہ کون غریب کا سہارا بنتا ہے؟ کون غریب کا استحصال کرتا ہے؟ اور کون غربت میں بھی صبر کا دامن نہیں چھوڑتا؟ اگر سب ہی صاحب اقتدار ہوتے تو یہ کیسے دیکھا جاتا کہ کون اپنے ماتحت سے کیسے پیش آتا ہے؟ کون رحم و انصاف کا حامل بنتا ہے؟ اور کون ظالم کہلاتا ہے؟ باقی ہمیں بتادیا گیا ہے کہ روز حشر کسی سے احقر ترین درجے میں بھی ناانصافی نہیں ہوگی۔ گویا ہر شخص سے حساب اس کی موجود صلاحیتوں اور مواقع کی مناسبت سے لیا جائے گا۔
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفْ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ O ’’اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔ (البقرة،2 155)
ایک بار پھر بتا دوں کہ یہ دنیا ‘انصاف’ کے اصول پر نہیں بنائی گئی، ‘امتحان’ کے اصول پر بنائی گئی ہے۔ اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے۔ یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے۔ یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں۔ کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے۔ ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کر دیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے، عدالت اسے اس کے جرم کی بنیاد پر سزائے موت بھی نافذ کر دیتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟ قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا، جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا، اس کی پوری زندگی اس کے سامنے تھی۔ ممکن ہے کہ اس کی اچانک موت سے اس کی بیوی بےگھر ہوجائے، اس کے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں۔ کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اس کی بدی کا اور نیک کو اس کی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے۔ دین اسی عدالت کی خبر ‘روز حساب’ کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے۔
ایک آخری زاویہ یہ بھی دیکھ لیجیے کہ یہ کائنات مجموعہ اضداد ہے۔ یہاں ہر شے کا وجود اس کی ضد سے ہے۔ اگر تاریکی نہ ہو تو روشنی کا کیا تصور؟ اگر تکلیف نہ ہو تو راحت کے کیا معنی؟ اگر بدصورتی نہ ہو تو خوبصورتی کو کون سراہے گا؟ اگر بیماری کا وجود نہ ہو تو صحت کو نعمت کون تسلیم کرے گا؟ اور اگر موت ہی نہ ائے تو زندگی کی تمنا کسے ہوگی؟ ہر چیز کا وجود اس کی ضد سے منسلک ہے۔ اگر اس دنیا میں ضد موجود نہ ہو تو آپ کو یہ دولت، طاقت، صحت وغیرہ نعمت ہوکر بھی نعمت محسوس نہ ہوں۔
یہ بھی دھیان رہے کہ شرعی اعتبار سے اس دارالاسباب میں ہر ایک کوشش کا مکلف ہے۔ گویا فراخی رزق کی کوشش کیے بنا غربت سے نکلنے کی امید اتنی ہی غلط ہے جتنی بنا دوا لیے کینسر یا دیگر مہلک بیماری کے دور ہوجانے کی تمنا۔
تحریر عظیم الرحمان عثمانی