مکالمۂَ ابراھیمؑ و’نمرود’ پرایک بڑےاعتراض کاجائزہ

“ خدا کو منوانے کے خواہش مند ایسی سبق آموز کہانیاں گھڑتے ہیں کہ نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نکلتا ہے۔ حالانکہ ذرا سی ایڈیٹنگ سے کہانی الٹی گلے پڑسکتی ہے۔۔۔ایک بات علامہ نیاز فتح پوری نے نگار میں لکھی تھی جسے ان کے مضامین کے مجموعے من و یزداں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے لکھا کہ حضرت ابراہیم نے نمرود سے کہا کہ میرا خدا مشرق سے سورج کو طلوع کرتا ہے۔ تو خدا ہے تو سورج کو مغرب سے نکال کر دکھا۔ اس پر نمرود لاجواب ہوگیا۔علامہ صاحب لکھتے ہیں کہ نمرود اگر الٹ کر کہہ دیتا کہ میں سورج کو مشرق سے نکالتا ہوں۔ تو اپنے خدا سے کہہ کہ وہ سورج کو مغرب سے نکالے تو حضرت ابراہیم کے پاس کوئی جواب نہ رہ جاتا۔۔۔۔افریقی کہاوت ہے کہ ‏Until the lion learns how to write, every story will glorify the hunter

یعنی جب تک ببر شیر لکھنا نہیں سیکھے گا، ہر کہانی کا ہیرو شکاری ہی رہے گا۔”

جواب:

مکالمۂَ ابراھیمؑ و ‘نمرود’

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آَتَاهُ اللَّهُ الْمُلْکَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي کَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ﴿258﴾ -سورۃ البقرۃ

ترجمہ:کیا تم نے اُس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اُس کے پروردگار کے معاملے میں محض اِس لیے حجت کرنا چاہی کہ اللہ نے اُسے اقتدار عطا فرمایا تھا، اُس وقت جب ابراہیم نے (اُس سے) کہا کہ میرا پروردگار تو وہ ہے جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے ۔ اُس نے جواب دیا کہ میں بھی زندگی اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے فوراً کہا : اچھا تو یوں ہے کہ اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے ، تم ذرا اُسے مغرب سے نکال لاؤ ۔ سو(یہ سن کر) وہ منکر حق بالکل حیران رہ گیا۔ اور (حقیقت یہ ہے کہ) اِس طرح کے ظالموں کو اللہ کبھی ہدایت نہیں دیتا۔

اوپر کی آیات میں اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کے اپنے دور کے کسی حاکم کے ساتھ ایک تقریر کے درمیان مکالمے سے ٹھیک ڈیڑھ مرتبہ کے تبادلے کو نقل کیا ہے؛ یہ بتانے کے لیے کہ اللہ کے وجود کے خلاف یا مقابل کھڑے ہونے والوں کے دلائل ہمیشہ کتنے مہمل اور ڈنگ ٹپاؤ نوعیت کے رہے ہیں، کہ اگر کبھی انہوں نے انبیا سے حجت بازی کی کوشش کی بھی تو کس سرعت سے خود کو لاجواب ہوتا دیکھ کر یا اپنے وقارو جھوٹی قدرت کے پھیلائے ہوئے تاثر کے زائل ہونے کے خوف سے بس کوئی بھی حیلہ بازی کر کے ‘مثالی سزاؤں’ میں پناہ لینے کی کوشش پر اتر آئے۔

تھوڑی دیر کے لیے اس واقعے سے متعلق روایات سے صرفِ نظر کر لیں تا کہ صرف آیات سے ہی جو بات اللہ تعالی سمجھانا چاہ رہے ہیں وہ سمجھ سکیں۔

کسی موقع پر حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کا تعارف کراتے ہوئے، جو تعارف ہمیشہ ایک سادہ ترین حقیقتوں کے تذکرے کی بحث سے ہی عبارت ہوتا ہے، جس لمحے یہ فرمایا کہ میں اس رب کی بات کر رہا ہوں جو زندہ کرتا اور موت دیتا ہے، اُس لمحے سامعِ مخالف نے معانی کے اشتراک اور حقیقی کے بجائے مجازی معنی کو بنیاد بنا کر اپنے تئیں اجارہ داری یا اشتراکِ اختیارات پر استدلال کرنے کی بودی کوشش کرنا چاہی۔ یعنی ابراہیمؑ نےيُحيٖی سے واضح طور پر زندہ کرنے کے معاملے کو مراد لیا، پر چونکہ یہ لفظ زندہ رکھنے یا ایک زندہ شخص کو نئی زندگی دینے جیسے مجازی معانی کے لیے بھی تقریباً ہر زبان میں ہی استعمال ہو جاتا ہے، پس اس نے اس دوسرے معنی سے اپنے لیے بھی اس اختیار کو ثابت کر کے آپؑ کے اس بیانِ حقیقت کو بے وقعت کرنا چاہا۔ کیونکہ ظاہر ہے حقیقی معنی سے اختلاف، یعنی کسی شے کو عدم سے وجود میں لانا یا کسی مردے کو زندہ کرنا تو اس کے بس میں کہاں تھا۔

اس preposterous حرکت پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دربار میں ہنسی پھوٹ نکلتی۔ پر یہ تو ہم سب جانتے ہیں کہ بادشاہوں کے درباروں میں ایسا ماحول نہیں ہوا کرتا۔ پس اگلا استدلال ابراہیمؑ نے بس سیدھا وہ کر دیا جس میں ذو معنویت سے استفادے کی گنجائش ہی نہ چھوڑی۔ یعنی سورج کو مغرب سے نکالنے کا چیلنج۔ پر یہ حجت دیتے ہوئے آپؑ نے بس اتنا ہی نہیں کیا، بلکہ check کے ساتھ mate بھی اسی میں کر دیا۔ وہ کیسے؟ آئیے منطقی انتہا تک اس کے ممکنہ راستوں کی پیروی کر کے دیکھتے ہیں۔

ایک امکان یہ ہے کہ وہ صاحبِ اقتدار خود خدائی کا مدعی تھا۔ اس صورت میں تو اس کے لیے اس چیلنج سے نبٹنےکی ایک ہی واضح صورت تھی کہ وہ اسے قبول کرے، جو کہ یقیناً محال تھا۔ دوسرا یہ کہ وہ اس طرح کا کوئی بہانہ بناتا کہ بھئی یہ سورج کو مشرق سے تو میں ہی نکالتا ہوں، تمہارا دعوی اگر یہ ہے کہ یہ تمہارے رب کے قابو میں ہے تو تم اسے مغرب سے نکال کر دکھا دو۔ اس میں تین مسائل تھے۔ ایک تو یہ کہ اس کا جب دعوی ہی یہ تھا کہ میں ہی خدا ہوں تو پھر مغرب سے سورج نکالنے سے پہلوتہی کے لیے یہ دلیل پھر بھی کافی نہیں تھی۔ بلکہ وہ کوئی بھی دلیل دے دیتا اس چیلنج کو قبول نہ کر کے کچھ نہ کچھ loss of face اسے بھگتنا ہی پڑتا۔ دوسرے یہ کہ ابراہیمؑ نے یہ تو کہا نہیں تھا کہ سورج میرے بس میں ہے، بلکہ یہ کہا تھا کہ میرے پروردگار کے بس میں ہے، اس لیے انؑ کے پاس ابھی بھی مزید دلائل دینے کی گنجائش بدستور باقی تھی۔ پر تیسرے اور سب سے اہم، اگر ابراہیمؑ وہ کر کے دکھا ہی دیتے جس کا انؑ سے اگر مطالبہ ہوتا تو اس کے نتائج کیا وہ بھگتنے کے لیے تیار تھا؟ کیا بادشاہ یوں ہی اپنی پوری جاہ و سلطنت ایک چیلنج میں داؤ پر لگانا گوارا کر سکتے ہوتے ہیں؟ خصوصاً ایسے بارعب اشخاص کے مقابلے میں جن کی body language کا رُواں رُواں اس بات کی شہادت دے رہا ہو کہ یہ گیدڑ بھپکیاں نہیں؟ بہت بعید از امکان! اسی لیے(موسیؑ کے سامنے) فرعون نے بھی خود کوئی چیلنج دینے یا قبول کرنے کی بجائے جادوگروں سے مقابلہ کرانے میں عافیت محسوس کی۔

دوسرا امکان یہ ہے کہ وہ بادشاہ کسی دیوتا کا اوتار ہونے کا مدعی ہو، جیسے ان زمانوں میں ‏عام طور پر ہوا کرتا تھا۔ اس صورت میں اگر وہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کرتا تو اسے یہ تو concede کرنا ہی پڑتا کہ ایسے مظاہرِ قدرت میری دسترس میں نہیں، بلکہ میرے دیوتا کی دسترس میں ہیں۔ دسترس کی حدود جبتک مبہم رہیں تب تک بات اور ہوتی ہے۔ پر جب یہ حدود نمایاں ہو جائیں تو بھی عوام کی نظر میں نقصِ جاہ سے چھٹکارا نہیں۔ دوسرے، وہ یہ کہہ سکتا تھا کہ میں اپنے دیوتا سے فریاد کرتا ہوں پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔ پر اس سے سوائے کچھ وقت حاصل کرنے کے وہ کچھ حاصل نہ کر پاتا، یہ اس سے بہتر کون جانتا ہو گا۔ آخرکار لوگوں کے سامنے یا تو یہ ماننا پڑتا کہ میں کوئی اوتار ووتار نہیں، اور یا یہ کہ میری دیوتا کے ساتھ آجکل terms کچھ خراب ہیں۔ بادشاہی کے فلسفوں سے آگاہ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ دونوں ہی صورتیں دراصل ناقابلِ تلافی نقصان پر منتج ہوتیں۔ اور رہ گئی آخری صورت، تو وہ وہی تھی کہ یہی چیلنج پلٹ کر ابراہیمؑ کو دے دیا جاتا، اور جس کی بحث اوپر ہو چکی۔ چنانچہ یہ ایک ایسی بند گلی تھی جس میں ہر راستے کا اختتام یا تو حضرت ابراہیمؑ کے premise یعنی اس پر کہ سورج دراصل میرا رب نکالتا ہے کی تصدیق پر منتج ہونا واضح تھا،اور یا اس کا بادشاہ کو شدید اندیشہ۔

الغرض حضرتِ ابراہیمؑ نے اپنے سادے سے جواب سے بادشاہ کی کٹ حجتی کی احمقانہ کوشش پر سدِّباب کر دیا۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بادشاہ نے ایک بے ہنگم سی دلیل سے حضرت ابراہیمِ کو interject کر کے ہی painted himself into a corner۔ اس کے لیے بھلا یہی ہوتا کہ انؑ کو اپنی تقریر مکمل کر کے جانے دیتا، یا کم سے کم کسی اور کے ذریعے یا کسی دوسرے چیلنج سے وقتی طور پر pivot کر جاتا، پر اتنا witty کوئی کوئی ہوا کرتا ہے۔ ورنہ فرعون کی طرح اپنے خدائی اختیارات کی بجائے مکالمے کو لوگوں کے جذبات بھڑکانے پر مرکوز رکھتا۔

اب اگر اسرائیلی روایات کو شاملِ عوامل کر لیا جائے تو اس بادشاہ کا نام نمرود تھا۔ اور زیادہ قابلِ اعتبار روایات وہ ہیں جن کے مطابق یہ سورج دیوتا کا اوتار ہونے کا دعویدار تھا۔ پس اگر ایسا ہی تھا تو اس صورت میں تو ابراہیمؑ کا سورج کو ہی بنائے استدلال بنانا مزید عقلمندی کا مظہر لگنے لگتا ہے۔ پھر مزید اگر یہ روایات درست ہیں تو یہ مکالمہ تب پیش آیا جب ابراہیمؑ کو بت شکنی والے مشہور واقعے کے بعد بادشاہ کے دربار میں پیش ہو کر وضاحت کا موقع دیا گیا۔ ان روایات کے مطابق بادشاہ نے زندگی اور موت پر قدرت کے عملاً ثبوت کے لیے دو قیدیوں کو بلا کر ایک کو موت کی سزا دے دی اور دوسرے کو آزاد کر دیا۔ اگر ایسا ہی ہوا تو اس سے بھی اس نے ناسمجھی اور شائید جلدبازی میں اپنے دعوے کے ثبوت کا معیار دراصل خود متعیّن کر دیا۔ پس جب حضرت ابراہیمؑ نے اگلا چیلنج دیا تو اب اپنے ہی مقرر کردہ معیار سے پلٹنا بھی اس کے لیے یقیناً ممکن نہ رہا۔ الغرض روایات کو ماننے کے نتیجے میں ابراہیمؑ کا اقدام مزید حتمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔ باایں ہمہ انہی روایات میں نمرود کا غصے میں آ کر اس مکالمے کو ختم کر کے انہیں قید کر دینا اور پھر آگ میں جلا دینے کی سزا کا اعلان کر دینا بھی مذکور ہے، کیونکہ اب بس اسی طریقے سے نقصِ جاہ کی تھوڑی بہت سہی پر recovery ممکن ہو سکتی تھی۔

ہمارے یہاں بعض اوقات آج کل کے پڑھے لکھے مسلمان، یا ملحدین، جب الہامی کتب میں مظاہرِ قدرت سے استدلال کی کوئی داستان پڑھتے ہیں تو کچھ وجوہات کی بنیاد پر اسے بچگانہ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ ایک اس لیے کہ وہ سادگی کی طاقت کو محسوس نہیں کرتے، حالانکہ simple بھی elegant ہوا کرتا ہے۔ دوسرے، وہ stage-setting کو پوری طرح باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، اور یہ کمزوری اکثر دیکھی گئی ہے۔ وہ اپنے دور کی سائنسی اور فلسفیانہ بحثوں کو ہزاروں سال پہلے کی بحثوں میں دیکھنا چاہتے ہیں، جو بذاتِ خود کم عقلی کی نشانی ہوتی ہے۔ تیسرے، وہ ایسے ہر مقام پر جس پر اللہ کے وجود کے متعلق کوئی بحث چل رہی ہو اس زاویے کو مقدر مان لیتے ہیں کہ انسان کو اللہ کے وجود کے متعلق کوئی ابدی استدلال پیش کیا جا رہا ہے۔ انہیں یہ گمان بھی نہیں گزرتا کہ داستان میں بحث کسی دلیل کے بودے پن اور اس بودے پن کے کھل کر سامنے آ جانے کے بعد دانستہ سرکشی کو واضح کرنے کے لیے بھی ہوا کرتی ہے۔ خصوصاً مذکورہ بالا مقام کی طرح جہاں بس یہ بتانا مقصود تھا کہ اللہ کے سے اختیارات یا اس سے رشتہ داری کا دعوی اگرچہ ماضی میں بادشاہوں کا چلن رہا ہے، پر تھا کس قدر بے اصل کہ ایک ٹھوکر کی مار۔

تحریر احمد بلال