ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. مگر
افسوس کہ جب بات سب سے اونچے حق یعنی مدبر کائنات کے وجود کی آتی ہے تو لوگ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میرا سارا پیسہ لٹ گیا اسلیے خدا نہیں ہے.
میری محبت مجھے چھوڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. میری اولاد مجھ سے بچھڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے.
سری لنکا میں سیلاب یا نیپال میں زلزلہ آگیا اسلیے خدا نہیں ہے. حکومتی نااہلی سے تھر میں بچے مر گئے اسلئے خدا نہیں ہے…پیارے سجنو .. الله کا وجود سب سے بڑا حق ہے اور اس کا ہونا ہمارے جذبات و حالات سے مشروط ہرگز نہیں ہے. آپ بھی اپنی عقل کو آواز دیں اور جس طرح دوسرے امور میں جذباتی ہوئے بناء کسی کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ، ویسے ہی یہاں بھی مہربانی فرمائیں اور خالق کے ہونے کو عارضی حالات و واقعات سے مشروط نہ کریں .
اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے…
ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزائے موت بھی نافدکردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟
قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجائے ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟
ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے..
دین نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس دنیا میں سب کو انصاف حاصل ہوگا. بلکے وہ تو بتاتا ہے کہ اس دنیا کو امتحان کے اصول پر بنایا گیا ہے. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کبھی تو قاتل صاف بچ نکلتے ہیں تو کبھی معصوم پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور کبھی ظالم مظلوم کا استحصال کرتے ہیں. دراصل یہی وہ بے انصافی ہے جو انسان میں اس فطری تقاضے کو پیدا کرتی ہے کہ ایک ایسی دنیا کا وجود ضرور ہو جہاں ہر اچھے کو اسکی اچھائی اور ہر برے کو اسکی برائی کا پورا پورا بدلہ ملے. دین اسی نئی دنیا کی بشارت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس آنے والی دنیا میں انصاف کے تقاضے اپنی کامل ترین صورت میں نافذ ہونگے.۔۔
(جس پر اعتراض ہے اسکے موقف کو معترض پڑھنا اور سمجھنا ہی نا چاہیے ، اسکا اعتراض کیسے ختم ہوسکتا ہے)دین کے اس واضح اور کھلے مقدمے کے بعد بھی اگر کوئی الله کے وجود کا اسلیے انکار کرتا ہے کہ موجودہ دنیا میں فلاں جگہ بھوک، جنگ یا نا انصافی ہے تو یہ اسکی لاعلمی اور کج فہمی کا ثبوت ہے، جس پر اس سے ہمدردی سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔
تحریر عظیم الرحمان عثمانی