سوال: سُناہے اللہ پتھر میں چھپے کیڑوں تک کو رزق پہنچاتا ہے، پھر اسے افریقہ و تیسری دنیا کے قحط زدہ و مفلوک الحال لوگ کیوں نہیں دکھائی دیتے جو بھوک سے مررہے ہیں؟
جواب:
چند بنیادی باتیں سمجھ لیں، اسکے بعد اشکال نہیں رہے گا:
1. دنیا کے طول و عرض میں اللہ ربّ العزّت نے اوّل دن سے ہی مختلف صورتوں میں رزق حیات وافر مقدار میں ناصرف یہ کہ مہیا کررکھا ہے بلکہ ہرگزرتے دن کے ساتھ ٹیکنالوجی اور علم کی وسعت سے نئے نئے زرائع روز کی بنیاد پر دریافت ہورہے ہیں۔ ایک طرف جہاں ارض و سماء انگنت زرائع رزق و روزگار سے مالامال ہیں تو دوسری طرف انسان کو عقل کی صورت میں ایسی نعمت دی گئی ہے کہ نا صرف اپنے لیے رزقِ کثیر حاصل کرسکتا ہے بلکہ نوع انسانی کے محروم طبقوں حتیٰ کہ جانوروں تک کے لیے بھی انتظام و انصرام کی زمہ داری انجام دےسکتا ہے۔ اسی رزق کا وعدہ قرآن مجید میں بھی کیا گیا ہے:زمین میں چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمےنہ ہو۔ وہ اس کی قرار گاہ کو بھی جانتا ہے اور دفن ہونے کی جگہ کو بھی۔ یہ سب کچھ واضح کتاب (لوح محفوظ) میں لکھا ہوا موجود ہے۔ (ہود ۶:۱۱(
یعنی کائنات کی تمام مخلوقات کا رزق اللہ ہی کے ذمّے ہے، اور بلاشبہ پتھر میں چھپے کیڑے ہوں یا سمندروں کی اتھاہ گہرائیوں اور چٹانوں کےاندر پلنے والی سمندری مخلوق سبھی کو رزق دینے والی ذات اکیلے اللہ رب العزت ہی کی ہے۔ اس آیت کا عموما غلط مطلب لیا جاتا ہے، یہاں خدا کا دعویٰ یہ نہیں کہ اللہ ہر ایک جاندار کو اس کا رزق اس کے دامن میں ڈال کے دے گا، بلکہ اس آیت کا مطلب ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں جاندار پیدا کرکے یونہی نہیں چھوڑدئیے بلکہ ان کے رزق کا پورا سامان رکھ دیا، پورا بندوبست کردیا اورسارے اسباب مہیا کردئیے۔ یہ انسان کا کام ہے کہ اس رزق کے حصول کے لیے جدوجہد کرے اور اپنے مقدر کا رزق حاصل کرے۔
2.دوسری بات اسلام کے بنیادی مقدمے کے مطابق اس دنیا کو اللہ نے انسانوں کے لیے اک آزمائش کے طور پر بنایاہے۔ آزمائش تبھی ممکن ہوسکتی ہے جب انسان کو خیر اور شر دونوں کو اختیار کرنے کی برابر آزادی ہو ، چنانچہ انسان کو یہاں خیر اور شر اختیار کرنے کی آزادی دی گئی ہے اور ساتھ خیر کا رستہ بتلانے کے لیے انبیاء کے ذریعے ہدایات کا بھی پورا انتظام کیا گیا، اسکے فوائد بھی کھول کر بیان کیے گئے ہیں اور شر کو اختیار کرنے پر جو انجام ہونا ہے اسکا بھی بتادیا گیا ہے۔
3.دنیا میں انسان کے لیے خیر و شر کی آزادی اور رزق کی فراہمی کا وعدہ، یہ دونوں باتیں پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم مذکورہ سوال پر غور کریں تو یہ بات باسانی واضح ہوجاتی ہے کہ افریقہ یا تیسری دنیا کے وہ ممالک جہاں غربت و افلاس اور بھوک و ننگ نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، یا انکے علاوہ کہیں کوئی بھوک سے مررہا ہے تو وہ دنیا میں رزق کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اکثر شر کا راستہ اختیار کرنے والوں انسانوں کی وجہ سے ہے جنہوں نے انکے لیے رزق کا حصول مشکل بنادیا ہے ، آپ دیکھیں گے کہ انکی اکثریت سرمایہ داروں ، صاحبِ مال و ثروت خودغرض انسانوں کی حرص و ہوس کے سبب محرومیت سے دوچار ہے ۔( اس پوائنٹ پر ہم نے دورحاضر کے حوالے سے تفصیلا لکھا ہے، لنک ) اگر خدا کے احکامات کے مطابق رزق کمایا جائے، رزق کی منصفانہ تقسیم (جس کی زمہ داری انسانوں کی ہے) کی جائے تو روئے زمین پر کوئی ذی روح بھوک سے نا مرے! ۔
سید اسرار احمد