اعتراض :سائنس ہمارے اسلام کے عین مخالف ہے، ہم خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں، سائنس کسی خدا کے وجود کو نہیں مانتی، ہم فرشتوں، جنات اور موت کے بعد زندگی کو مانتے ہیں جبکہ سائنس اس سب کی نفی کرتی ہے۔
جواب:
ایک قسم کا علم وہ ہوتا ہے جس کی تحقیق تجربات اور مشاہدات کے ذریعے سے ممکن ہو اور دوسری قسم کا علم وہ ہے جس میں اصل حصہ ظن و تخمین کا ہی ہوتا ہے۔ چونکہ مغرب میں یہ بات بہت پہلے ہی سمجھ لی گئی تھی کہ علمی تحقیق میں ہرچیز کا مطالعہ مشاہدات اور تجربات سے کرنا قطعاً ناممکن ہے اسی بنا پر سائنس کو دو انواع میں منقسم کیا گیا ہے:
1۔ طبعی سائنس (Natural science): اس سے مراد فطرت کے ان حقائق کا علم حاصل کرنا ہے جس کی تحقیق مشاہدات اور تجربات سے کی جاسکتی ہے۔اس سائنس کا تعلق ان فطری قواعد اور کلیوں سے ہے جس کے تحت مادہ (Matter)اور قوت (Energy) تعامل کرتے ہیں۔اس زمرے کے تحت طبعیات (Physics)، کیمیا(Chemistry) حیاتیات (Biology) وغیرہ آتے ہیں۔
2۔سماجی سائنس (Social science): اس سے مراد علم و تحقیق کا وہ میدان ہے جس میں انسان کے انفرادی اور اجتماعی مزاج اور برتاؤ اور اُس سے منتج صورتحال کا تجزیہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس قسم کی تحقیقات میں ظن و تخمین اور قیاسات کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا جاسکتا۔یہاں پر اگر آپ تجربات کرنا چاہیں تو کئی نسلوں کے بعد مشکل سے کوئی نتیجہ اخذ ہوسکتا ہے۔ ان علوم میں فلسفہ ،علم نفسیات(Psychology)، عمرانیات (Sociology) ، معاشیات (Economy) علم بشریات (Anthropology) وغیرہ آتے ہیں ۔
ابکسی بھی چیز کو زیربحث لانے کے لیے اس چیز سے متعلق علم کی شاخ کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا: ہم ریاضی کے سوال کا جواب بایولوجی کے سبجیکٹ میں نہیں دیکھتے، کیمسٹری کے فارمولے معاشیات کے سبجیکٹ میں زیربحث نہیں لاتے۔ گردے کی پتھری کی تشخیص فلسفہ سے نہیں کرتے۔ انسانی علم اب اس مقام پر پنہچ چکا ہے جہاں ہر چیز کا الگ شعبہ اور مضمون مقرر کردیا گیا ہے، جہاں اس چیز کو سمجھنے، پرکھنے، تحقیق کرنے اور نتائج اخذ کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
اسی کلیہ کے تحت ہم خالق کائنات اور مذہب کو سائنس کے مضمون میں رکھ کر بحث نہیں کرسکتے۔ یہاں سائنس سے میری مراد نیچرل سائنس، جیسا کہ فزکس، کیمسٹری، بایولوجی وغیرہ ہے۔ مذہب فلسفہ کا موضوع ہے جہاں اس چیز پر گفتگو کی جاتی ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے، ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں، انسان مرنے کے بعد کہاں جاتا ہے، موجودہ دنیا کی زندگی میں انسان کو کیا کیا معاشی، تمدنی، سیاسی، اخلاقی چیلنجز درپیش ہوتے ہیں اور وہ ان سے کس طرح بہتر طریقہ سے نبردآزما ہوسکتا ہے یا یہ چیزیں انسانوں کی زندگی پر کس طرح اور کیا اثرات مرتب کرتی ہیں۔ قومیں کیوں ترقی کرتی ہیں یا قومیں کیوں تباہ ہوتی ہیں۔ قوموں کے اندر بگاڑ کس طرح پیدا ہوتا ہے وغیروغیرہ۔
ا
گر آپ یہاں تک میری بات سے متفق ہیں تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ سائنس کے علاوہ بھی کچھ علوم ایسے ہیں جن کو انسان استعمال کر رہا ہے اور تحقیق کے میدان میں آگے بڑھ رہا ہے۔ صرف سائنس ہی علم کی وہ واحد شاخ نہیں ہے جو انسان کے جملہ امور کا احاطہ کرسکے۔ فزیکل سائنس کا تعلق مادے اور اس کے متعلقات سے ہے اور یہ تو ہم مانتے ہی ہیں کہ زندگی میں انسان کا واسطہ صرف مادے ہی سے نہیں کچھ غیرمادی چیزوں سے بھی پڑتا ہے۔ مثلا: مقصد حیات، انسانی اقدار، دوستی، دشمنی، رشتہ داری، حکمرانی، اندازسیاست و معیشت، تہذیب و تمدن، سچ، چھوٹ، ظلم، رحمدلی، راست گوئی، عدل، محنت، کاہلی اور اس طرح کی بے شمار چیزیں۔ اب اگر کوئی ان مندرجہ بالا چیزوں کو کسی لیبارٹری میں بیٹھ کر تجربات شروع کردے تو آپ اس کو کیا کہیں گے۔ اگر کسی معاشرے میں جھوٹ، دھوکہ، فریب، ظلم بڑھ جائے تو آپ کو سائنس کی کون سی شاخ بتائے گی کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟اسی اصول کے تحت دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی پہچان انسانی مشاہدے، عقل، منطق اور فلسفہ سے کی جاسکتی ہے نہ کہ فزکس یا کیمسٹری کے کسی قانون کے تحت۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہمارے ایتھیسٹ بھائی، خدا کو ہبل دوربین کے ذریعہ ہی دیکھنے پر بضد ہیں۔
نیچرل
سائنس کا تو دائرۂ کار یہی ہے کہ وہ مادے کے برتاؤ اور اس کے عمل کرنے کے طبیعی اصولوں سے بحث کرتی ہے، اور بس۔ اس دائرے سے ہٹ کر کوئی گفتگو کرنا سائنس کے بس کی بات ہی نہیں ہے، کجایہ کہ وہ اپنے دائرے سے باہر کسی شے کے ہونے یا نہ ہونے کا دعوٰی کرتی پائی جائے ، البتہ کوئی سائنسدان اگر اپنے طور پر اس موضوع پر اظہارِ خیال کر دیتا ہے تو اِس میں بے چاری سائنس کا کیا قصور؟
سائنس
ی طریقۂ مطالعہ تو اپنی حدود سے باہر کسی موضوع پر لب کشائی کی ذمہ داری اپنے سر لینے کا رودار نہیں ہے۔ نہ یہ اپنے علاوہ کسی اور دائرے کا اِحاطہ کرنے والے،کسی دوسرے طریقۂ مطالعہ وتفکیر کا انکار یا اس سے تصادم ہی کرتا ہے۔عالم غیب ( جو مشاہدے میں نہیں اور جہاں ”حقیقت “ چھپی ہوئی ہے) کے بارے میں فزیکل سائنس جو ہمیشہ سے خاموش ہے تو کوئی اس لیے نہیں کہ وہ اس عالم کی منکر ہے، بلکہ درحقیقت سائنس کی اتنی ”اوقات“ ہی نہیں ہے کہ وہ عالم غیب کی بابت مثبت یامنفی کوئی بات کرسکے۔ وہ تو اس کا انکار کرسکتی ہے نہ اقرار، کہ وہ اس کے حیطۂ انکار واقرار سے ہی باہر ہے۔ سائنسی طریقۂ مطالعہ میں ایک مؤمن اور ایک ملحد شخص برابر ہوسکتے ہیں ۔ اس فرق کے ساتھ کہ ممکن ہے کہ آخرالذکر شخص سائنسی دریافتوں سے اپنے کفر والحاد پر شواہد لیتا ہو جبکہ پہلا شخص انہیں اپنے ایمان بالغیب کے لئے ایک نشانی کے طور پر لیتا ہو جس کی وجہ خود سائنس نہیں بلکہ وہ نظر (Vision) ہوگی جس کے تحت سائنس بلکہ ہر ایک شے کو دیکھا اور برتا جارہا ہو ، اور جو قلب وذہن میں پہلے سے پائی جاتی ہو۔
تحریرابو
محمد مصعب، ابوزید