ایک عزیز نے چند دن قبل ایک استفسار فرمایا جس کا خلاصہ طبیعی یا قدرتی شر (Natural Evil) اور اخلاقی شر (Moral Evil) کے حوالے سے ہے۔ سوال کی نوعیت قدرتی و اخلاقی شر اور خدا کے حوالے سے یہ ہے کہ کیا قدرتی شر اور اخلاقی شر کی موجودگی میں بھی ہم خدائے لم یزل کو رحیم و کریم کہہ سکتے ہیں؟ یعنی ایسا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایک خدا موجود ہے۔ اور وہ رحم و کرم والا بھی ہے، اس کے باوجود وہ معصوم بچوں کو مہلک بیماریوں میں مبتلا رکھے؟ بے گناہوں کی اموات اس کی موجودگی میں ہوتی رہیں؟
میرے خیال میں سب سے پہلے یہ طے کر لینا چاہیے اس اعتراض سے جو معترضین نتیجہ نکالتے ہیں آیا وہ درست ہے یا نہیں؟
کسی بچے کی یا کسی کی بھی انسان کی زندگی جو غیر فطری حالات کا شکار ہوتی ہے اس میں قدرتی آفات کی وجہ سے موت، یا بیماریوں کا لاحق ہونا یا دیگر تکالیف شامل ہیں۔ اسے ہم بطور مجموعی قدرتی شر (Natural Evil) کہتے ہیں۔قدرتی شر کی موجودگی کو دلیل بنا کر معترضین نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ چونکہ قدرتی شر موجود ہے، اس لیے خدا موجود نہیں ہے۔ہم پوچھتے ہیں قدرتی شر خدا کی غیر موجودگی پر دلالت کیسے کرتا ہے؟
جواب ندارد۔
اوپر سے ہمارے معصوم بھائی یہ سمجھتے ہیں کہ معترضین کے ان اعتراضات سے خدا کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہے۔
آپ ان سے کہیے کہ ٹھیک ہے جناب۔ قدرتی شر کی وجہ سے خدا محبت کرنے والا نہیں رہا۔ پھر؟ زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکیں گے کہ خدا انسانوں سے محبت نہیں کرتا۔ چلیں فرض کیجیے کہ یہ صحیح ہے۔ لیکن آپ کا مدعا پھر بھی حل نہیں ہوتا۔ خدا کو تو آپ نے پھر بھی ماننا پڑے گا۔ محبت کرتا ہے یا نہیں، یہ دوسرا مرحلہ ہے۔
چلیں ہمیں حسنِ ظن ہے کہ آپ خدا کے وجود کو تو مانتے ہیں۔ بس اس کی محبت میں آپکو شک ہے۔
اب اس سوال کی ترتیب کو الٹ دیجیے۔ آپ کہتے ہیں کہ انسانوں کا آفات کا شکار بن جانا خدا کے رحیم و کریم نہ ہونے کی دلیل ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کا استدلال درست ہے تو پھر جو کروڑوں انسان خوشحال زندگی بسر کر رہے ہیں کیا وہ خدا کی رحمت اور کرم کی دلیل نہیں ہیں؟اور یہ تو کوئی بھی بتا سکتا ہے کہ دنیا میں آفات کے شکار لوگوں کی تعداد نارمل لوگوں سے کتنی کم ہے۔۔ بتائیے اب اس کا کیا جواب ہوگا؟
مدعائے کلام یہ ہے کہ قدرتی شر ہو یا اخلاقی شر (Moral Evil)، دونوں خدا کے رحیم و کریم ہونے پر کوئی اعتراض پیدا نہیں کرتے۔ یہ اعتراض پیدا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم ان آفات اور بیماریوں کی سطحی کیفیت (superficial consequences) کو دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ان کے پیچھے پوری منصوبہ سازی کام کر رہی ہوتی ہے جس میں آفات اور بیماریاں بطور مجموعی نہ صرف انسانیت، بلکہ تمام جانداروں کے لیے کار آمد بن رہی ہوتی ہے۔
کسی بچے کا کسی بیماری کی وجہ سے مر جانا، کسی علاقے میں تباہی کی وجہ سے ہزاروں افراد کا بیک وقت خاتمہ ہوجانا در اصل کسی بھی نوعِ جاندار کے توازن (equilibrium) کو دوام بخشتا ہے۔ اگر یہ توازن برقرار نہ رہے تو وہ نوع صفحۂ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔ نظریۂ ارتقا کو معاشی تضمنات کے زیرِ نظر پڑھنے سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ چاہے طبی اموات ہوں یا پھر قدرتی آفات کی وجہ سے جانداروں کا مرنا ہو، ان سارے کے سارے معاملات کو انفرادی طور پر نقصان سمجھا جاسکتا ہے، لیکن اجتماعی طور پر یہ اس جاندار کی بقا ہی کا ایک سلسلہ ہوتا ہے۔
ہر تین سے چار سال بعد Lemmings کا خود کش مارچ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب لیمنگز کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ان میں ماحولیاتی تبدیلیاں اور غذائی مسائل رونما ہوتے ہیں جو انہیں مجبور کرتے ہیں کہ بڑی تعداد میں ہجرت کی جائے۔ اس دوران زیادہ تر لیمنگز مارے جاتے ہیں۔
اور ایسا تمام نوع کے جانداروں میں بشمول انسانوں کے ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جب کسی خاص نوع کے جانداروں کی تعداد دوسرے جانداروں سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو قدرت خود ان پر کلہاڑی گراتی ہے۔ اور اس میں صرف گناہگار نہیں، بلکہ بلا امتیاز کوئی بھی مارا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس “بظاہر شر” سے پیدا ہونے والی خیر (Evil for greater good) کا ایک عام انسان اندازہ نہیں کر پارہا ہوتا۔
یہ تو ہوا گفتگو کا ایک معروضی پہلو۔ اب موضوعی پہلو پر آتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ بطورِ مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر انسان جو ناحق مارا جائے گا، یا کوئی بھی معصوم بچہ جو کسی مرض میں مبتلا ہو کر یا کسی آفت کا شکار ہوکر مارا جائے گا، خدا تعالی نے اس کے لیے آخرت میں بہت کچھ سامان کر رکھا ہے۔ بطورِ مسلمان چونکہ دنیاوی زندگی کی حیثیت ہی کوئی نہیں، اس لیے آخرت کی زندگی ان معصوم لوگوں کے حصے میں بغیر آزمائش کے ہی آگئی۔ گویا جو معصوم انسان کسی آفت میں مبتلا ہوا ہے اس پر دنیا کے اعمال کی آزمائش ہی باقی نہیں رہی کہ جس پر حساب و کتاب ہو۔ تو یہ اس کی دائمی زندگی کے لیے ایک فائدہ مند چیز ہے۔
تحریر ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل