زلزلہ ٹیکٹانک پلیٹوں کی میکانکی حرکت کا مظہرہےیاخداکےغضب کا؟

سوال :یہ مذہبی ذہن کی ایک بہت بڑی الجھن ہے اور جدت پسندوں کی طرف سے اسے زیادہ تر طعنہ بھی اسی امر کا ملتا ہے کہ مظاہر فطرت کو بدستور الوہی تقدیس کا جامہ بھی اوڑھائے رکھنا چاہتا ہے اور انہیں دنیاوی، میکانکی امور کے طور deal کرنے سے جو فوائد ممکن ہیں، اس سے بھرپور استفادہ بھی چاہتا ہے۔سوال ابھرتا ہے کہ کیا اہل مذہب کے لئے مظاہر فطرت میں تفکر کی ایسی تعبیر ممکن نہیں جو مظاہر فطرت کو بدستور خدا کی نشانیوں کے طور پر دیکھنے اور اس زاویہ نگاہ کے اخلاقی مقاصد کو باقی رکھنے میں بھی معاون ہو، ساتھ ہی انہیں ایک میکانکی امر کے طور پر دیکھنے، ان کی ماہیت و نوعیت کی تفہیم اور انہیں انسانی تصرف میں لانے کی کوششوں کو بھی نہ صرف درست سمجھے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرے؟ اگر میں زلزلے کو بیک وقت قہر خداوندی کا مظہر بھی سمجھتا ہوں اور ٹیکٹانک پلیٹوں کے میکانزم پر یقین بھی رکھتا ہوں تو ان دونوں تصورات کے مابین تطبیق کیونکر ممکن ہے؟

جواب:

زلزلہ آتے ہی “مذہبی” و “سائنسی” نکتہ نظر رکھنے والے احباب کے مابین ہونے والی بحث ہمیشہ کی طرح “کیوں” اور “کیسے” کے خلط مبحث کا شکار ہوتی ہے۔

“زلزلہ کیوں آتا ہے” “اور زلزلہ کیسے آتا ہے” دو الگ سوالات ہیں۔ اول الذکر کا تعلق اس واقعے کی “مقصدیت” (انسان کے ساتھ اسکے تعلق) جبکہ مؤخر الذکر کا “پراسس” سے ہے۔ چنانچہ جب اہل مذہب کہتے ہیں کہ “یہ زلزلے انسانوں کو خدا کی طرف سے تنبیہہ ہیں” تو اسکی مقصدیت بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسکے مقابلے میں اہل سائنس کی طرف سے یہ کہا جانا کہ زلزلے زیر زمین تہوں میں ہلچل کی وجہ سے آتے ہیں تو درحقیقت یہ اسکی مقصدیت نہیں بلکہ پراسس کا بیان ہے۔ اپنی ماھیت میں یہ دعوی اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا یہ دعوی کہ زلزلہ گائے کا سینگ بدلنے کی وجہ سے آتا ہے (کہ دونوں ہی “کیسے” کا بیان ہے)۔ مقصدیت اس سوال میں پنہاں ہے کہ “زیر زمین یہ تہیں (یا گائے اپنا سینگ) کیوں بدلتی ہے؟ مقصدیت سے متعلق یہ سوال ایک مابعدالطعبیاتی سوال ہے۔ چنانچہ اس بحث میں عام طور پر جنہیں اھل سائنس کہا جاتا ہے انکا نکتہ نظر “خود بخود ہوجانے” کا ہے، گویا اسکا انسانی عمل سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔چنانچہ اھل مذھب و اھل سائنس کے مابین اصل نزاع اسکے پراسس کے حوالے سے نہیں کیونکہ اھل مذھب کو سلسلہ اسباب سے انکار نہیں بلکہ اس مابعدالطبعیاتی نکتہ ھائے نگاہ سے ہے جسکی رو سے اھل سائنس کائنات و ما فیہا میں معنویت یا مقصدیت دیکھتے ہیں۔

پس خوب سمجھ رکھنا چاھئے کہ زلزلہ زیر زمین تہیں ھلنے کی بنا پر آتا ہے یہ اس سوال کا جواب نہیں کہ یہ کیوں آتا ہے۔ !!کیوں کے سوال کو دونوں گروہ اپنی مخصوص مابعدالطبیعات سے حل کرتے ہیں نہ کہ مشاھدے میں آنے والے کسی طبعیاتی قانون سے۔ ایک مسلمان کے لئے سانسوں کا چلتا ہوا سلسلہ بھی خدا کے فضل کی علامت ہے جبکہ اھل سائنس کے لئے گیسوں کی آمد و رفت کا سلسلہ۔ لیکن ظاہر ہے یہ سائنسی بیان کسی بھی طرح میری زندگی کے قیام و بقا کی توجیہہ نہیں۔!!

اس اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی بھی فطری مظہر کے ایک میکانکی امر اور ایک الوہی امر ہونے میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔ البتہ ایک الوہی امر کی حیثیت سے ہم انہیں causation اور prediction کے عمل میں استعمال نہیں کر سکتے، الوہی امر کی حیثیت سے ان کا اصل function یاددہانی ہے۔ causation اور prediction کا عمل ان کی میکانکی حیثیت سے متعلق ہے۔

“زلزلہ خدائی تنبیہہ ہے” کے خلاف یہ عجیب استدلال بھی پیش کیا جاتا ہے کہ جاپان والوں نے تو پکا طرز تعمیر اختیار کرلیا مگر مسلمان اسے خدائی تنبیہہ وغیرہ سمجھ کر ھاتھ پر ھاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔اگر یہ طرز استدلال درست ہے تو پھر یہ صرف زلزلے تک نہیں رکے گا بلکہ بیماریوں (اور اس سے بھی آگے تک) جا پھیلے گا۔ کیا اس اصول کی رو سے اس بات کا انکار کردیا جائے کہ ناگہانی بیماری بھی انسان کے گناہ صاف کردینے، انسان کے صبر کا امتحان یا کسی عمل بد کی سزا ہوتی ہے؟ کیا اس اصول کی رو سے یہ مان لیا جائے کہ بیماری سے گلو خلاصی کے لئے دعا کرنا عمل عبث ہے کہ بیماری سے شفاء تو دوا سے ملنی ہے، دعا کا یہاں کیا کام؟ نیز کیا یہ کہا جائے کہ “دیکھو انگریزوں نے تو دوائیاں بنا لیں اور مسلمان دعا میں وقت برباد کرتا رہتا ہے؟”

غور کیجئے کہ کیا مسلمانوں نے اس تصور کے باعث کہ “ناگہانی بیماریاں درج بالا امور کا اظہار ہوا کرتی ہیں” علاج کرنا و کروانا چھوڑ دئیے؟ تو آخر زلزلے کے معاملے میں مسلمانوں کو کیونکر یہ سبق پڑھانے کی پرزور کوشش جاری ہے کہ “بس عمارت پکی کرو، اسکے سواء اس میں کوئی معنی نہیں؟” یاد رکھئے، کائنات و مافیہا کی توجیہہ کرنے کے “انداز فکر میں تبدیلی” کا یہ معاملہ صرف زلزلے تک محدود نہیں، یہ بہت دور تک جاتا ہے، بہت دور تک۔

مشہور عرب عالم شیخ عبدالعزیز بن فوزان لکھتے ہیں “آج کی اس مادیت نے دراصل ہمارے اس دور کے بہت سے فرزندوں کو بینائی سے محروم کردیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ان کےلئے ’اسباب‘ و ’مسببات‘ کے ساتھ ساتھ ’اعمال‘ و ’آثار‘ کے مابین تعلق قائم کرنا دشوار ہورہاہے۔آج آپ دیکھتے ہیں کہ ان تباہیوں کے حوالے سے ان لوگوں کے ’تجزیے‘ اس بات سے آگے نہیں جاتے کہ زمین کا ’چھلکا‘ کہیں سے ’بودا‘ ہوگیا تھا!یا یہ کہ زمین کے اندر کہیں کوئی ’رخنہ‘ یا ’خلا‘ پیدا ہوگیا تھا! یا یہ ’پلیٹوں ‘ کی حرکت تھی ! وغیرہ وغیرہ۔ان ’اسباب‘ کا انکار ہم بھی ہرگز نہیں کرتے۔واقعتا یہ اسباب ہیں ۔ مگر جو چیز جان لی جانا ضروری ہے وہ یہ کہ ان ’مادی اسباب‘ کے پیچھے دراصل کچھ ’شرعی اسباب‘ ہوا کرتے ہیں جو انسانی زندگی پر اتنے بڑے پیمانے پر ایک تباہی لے آنے پر منتج ہوتے ہیں ۔یہ مادی اسباب جو یہ لوگ ذکر کرتے ہیں اگر تجربہ و مشاہدہ کی دنیا میں پایۂ ثبوت کو پہنچ بھی لیں تو ان کی حیثیت اس سے زیادہ بہرحال نہیں کہ گناہوں اور عقوبتوں کے مابین جو ایک تعلق پایا جاتا ہے ان ’شرعی اسباب‘ کے ’شرعی نتائج‘ ظہور میں آنے کےلئے ان ’مادی اسباب‘ کو ایک ذریعہ بنا دیاگیا ہو۔ پس جب لوگ اپنے اخلاق کی پستی کو آجانے دیتے ہیں اور اپنی معاشرتی حالت کو بدتری کی جانب بڑھنے دیتے ہیں تو خدا بھی اپنی اس عافیت کو جو اس نے ان پر کر رکھی ہوتی ہے،اٹھ جانے دیتا ہے۔ تب وہ ان کے امن کو خوف سے، ان کی عزت کو ذلت سے،ان کی دولتمندی کوتنگ دستی سے،صحت کو امراض اور وباؤں سے اور سکھ چین کو آفتوں اور مصیبتوں سے بدل جانے دیتا ہے۔”(شیخ عبد العزیز بن فوزان الفوزان. بحوالہ ایقاظ)


اس سلسلے میں ایک اشکال یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ زلزلہ ہر صورت اور ہر حال میں اللہ کا عذاب ہے تو یہ سکول کے دس سالہ معصوم پر یا نیکو کاروں پر بھی کیوں آ جاتے ہیں۔اسکا جواب یہ ہے کہ کسی عمومی سزا میں انفرادی شناخت معنی نہیں رکھتی۔جب گناہ اجتماعی ہوتے ہیں تو دنیا میں عذاب بھی اجتماعی آتے ہیں البتہ آخرت میں نیک اور بد کو الگ کردیا جائے گا۔ بخاری میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے کسی حصے پر آنے والے عمومی عذاب کا ذکر فرمایا تو ام المومنین نے سوال کیا کہ کیا نیک لوگوں کی موجودگی میں ایسا ہوگا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہاں ! جب خباثتوں کی کثرت ہوجائے گی تو ایسا ہی ہوگا ۔۔دوسری بات قدرتی آفات (انفس و آفاق دونوں میں) کو لازمی طور پہ خدا کا قہر سمجھنا محلِ نظر ہے۔ ہر عمل خدا کے اذن سے تو ہو رہا ہے اور سائنس خدا کے عمل کی تفہیم ہی کی کوشش ہے مگر اس دنیا میں حتمی طور پہ یہ فیصلہ کرنا ممکن نہیں کہ کون سا قدرتی عمل لازمی طور پہ خدا کے قہر یا خوشنودی کا غماز ہے۔ ایک ہی عمل ایک کے حق میں سزا تو دوسرے کے لئے آزمائش تو کسی تیسرے کے لئے باعث رحمت بھی ھوسکتا ھے۔!کنفیوژن تب پیدا ہوتی ہے جب معاملے کو صرف ایک اینگل سے دیکھا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر آج کی تفہیم میں زلزلہ ٹیکٹانک پلیٹوں کی حرکت کے نتیجے میں ظہور پذیر ہونے والا ایک میکانکی مظہر ہےتو اہلِ مذہب کو اس سے کوئی الجھن ہےاور نہ ہی یہ ان کا موضوعِ بحث ہے۔ مگر جدید ذہن کی المیاتی کیفیت کہئے کہ اس کا ایمان علت و معلول کے مظاہر سے اوپر اٹھتا ہی نہیں ہے اور یہیں سے مذہب کا مقدمہ شروع ہوتا ہے کہ خالق علت و معلول اور مسبب الاسباب اپنے بھرپور علم و ارادے کے ساتھ ہر ذرہء کائنات میں مکمل تصرّف رکھتا ہے۔ان پلیٹوں کا ملنا اور زلزلہ آنا سب امر ربی ھی ھے۔ سائنسی توجیہہ تو صرف سبب اور طریقہ بتاتی ھے جو ایک موجود وقت کی قابل تغیر صداقت ھوتی ھے۔

استفادہ تحریر ڈاکٹر زاہد مغل، عبدالرؤف، عامر منیر