سادہ ترین جواب اس سوال کا یہ ہے:
“چونکہ خدا، جیسا کہ اسے تعریف کیا گیاہے، خالقِ کائنات اور خالقِ زمان و مکان ہے، اس لیے لازم ہے کہ وہ اپنی مخلوق یعنی زمانہ کی جہت سے آزاد ہے اور اس کی کوئی ابتدا نہیں۔ اور جس کی کوئی ابتدا نہیں اس کا نہ تو کوئی تخلیق کار ہے نہ کوئی علت۔”
یہ ایک عام اور سادہ جواب ہے جو بغیر کسی پیچیدہ بحث میں جائے ایک عام انسان کے لیے صد کفایت کا حامل ہے۔
کروڑوں لوگ اسی جواب پر مطمئن ہیں اور وہ اس سے آگے کسی تسلسل کو بے جا مانتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ کائنات خود ہی بن جائے، اس میں یہ نظم و ضبط کے قوانین اپنے آپ ہی بن جائیں۔ مادہ اتنا شعور دار نہیں ہے کہ اپنے لیے خود ہی قوانین مقرر کرسکے۔ تو اس صورت میں ایک ہی جواب بنتا ہے کہ کائنات کو بنانے والا ایک خالقِ برتر ہے جو اسے قوانین کی ایک زنجیر میں باندھے ہوئے چلا رہا ہے۔ اور اس خدا سے بڑھ کر اوپر کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی برتری سب پر حاوی اور غالب ہے۔
تاہم یہ سوال قدیم زمانوں سے منطقیین اور فلاسفہ میں ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھرتا رہا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا بھی جاچکا ہے لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس میں دونوں ہی ایک دوسرے کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں آکر انسانی عقل ایک عقیدہ کی محتاج ہوجاتی ہے جس میں عقلی دلائل دونوں ہی جانب کسی حتمی ثبوت کے حامل نہیں ہوتے۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر شے کو خدا نے بنایا اور خدا کو کسی نے نہیں بنایا ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر ہر شئے پر علت و معلول یا خالق ومخلوق کا قانون لگتا ہے تو خدا پر کیوں نہیں؟ اور جو مخالفین کہتے ہیں کہ کائنات اپنے آپ ہی بن گئی ہے ان پر یہ اعتراض ہے کہ مادہ میں شعور اور قوانین کی پابندی کہاں سے وجود میں آئی؟ غرض یہ کہ ہر دو فریقین کا دعوہ کسی مشاہداتی ثبوت کا حامل نہیں ہے۔
یہ اعتراض گو کہ بہت پرانا ہے، برٹرینڈ رسل نے اسے اپنے مضمون “Why I am not a Christian” میں بطور پہلے اعتراض کے پیش کیا ہے۔ اور غالباً اسی کے بعد ہر دوسرے ملحد اور معترض نے یہی سوال پوچھ کر خدا کے وجود پر یقین کرنے والے کو لاجواب کردینا اپنا شعار بنا لیا۔ رسل نے مِل (Mill) کی ذاتی سوانحِ عمری کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ “مجھے کس نے بنایا؟” یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب موجود نہیں۔ کیونکہ اس کے فوراً بعد یہ سوال آجاتا ہے کہ “خدا کو کس نے بنایا؟”۔ یہاں رسل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ “پہلی علت” کا سارا مقدمہ ہی بے کار ہے۔ کیونکہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی بھی علت ہونا ضروری ہے۔ رسل نے یہاں جو بات بیان کی اس میں سب سے بڑا مغالطہ استدلال کے قضیے کی غلط بیانی تھی۔ یعنی “اگر ہر چیز کی علت ہے ۔۔۔۔۔۔ الخ” اصول تو یہ ہے کہ “ہر چیز جو وجود رکھنا شروع کرے، یا وقوع پذیر ہو، اس کی کوئی علت ہے”۔ اب خدا، جیسا کہ اسے تعریف کیا گیا ہے اس کے مطابق خدا نے وجود رکھنا کبھی “شروع” نہیں کیا۔ کیونکہ وہ ازل سے ہے اس لیے اس کی کوئی شروعات نہیں۔ اب استخراجی طور پر خدا کی تعریف کے مطابق اسے علت کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ وہ (خدا) کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا، یا اس نے کسی دور میں وجود رکھنا شروع نہیں کیا۔ اس لیے یہ اصول اس تعریف کردہ خدا کی ذات پر عقلی طور پر بھی لاگو نہیں ہوتا۔
در اصل جب ہم یہ مان کر چل رہے ہوتے ہیں کہ “ہروقوع پذیر ہونے والی شئے کی کوئی علت موجود ہے” تو یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات منطق اور فلسفہ میں یہ طے کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں کہ کیا کوئی پہلی علت ممکن بھی ہے؟ ایسے سوالات میں دورِ قدیم و جدید کے فلاسفہ نے بہت ٹھوکریں کھائی ہیں۔ ہر کسی نے اپنی اپنی تعریفات اور توجیہات کو پیش کیا ہے۔ مذکورہ بالا برٹرینڈ رسل کی مثال دینے کا مقصد یہی ہے کہ اگر علت و معلول کو مانا جائے اور پہلی علت کو نہ مانا جائے تو ایک قسم کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اگر علت و معلول کا سرے سے انکار کردیا جائے تو دوسرے قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ رسل زیادہ سے زیادہ وہی کچھ کہنے میں حق بجانب تھے جو مِل نے کہا تھا۔ یعنی ایسے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن انہوں نے اپنے استدلال کو قوی کرنے کے لیے آگے یہ بات بھی کہہ دی کہ اگر کوئی بھی چیز بغیر علت کے ہوسکتی ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں تو وہ کائنات ہی کیوں نہیں؟ کائنات کو ازلی کہنے میں دقت ہے؟
اتفاق کی بات یہ ہے کہ جس دور میں رسل کا یہ مضمون لکھا گیا ہے تقریباً اسی دور میں بگ بینگ کا نظریہ وجود میں آرہا تھا۔ جس کے آنے کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ کائنات کم از کم ازلی تو نہیں ہے۔ بعد میں کائنات کی عمر وغیرہ کا بھی اندازہ لگا لیا گیا۔ یہ استخراجی نہیں بلکہ ایک استقرائی نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون نے اس بات کی مزید تائید کی کہ کائنات ازل سے نہیں بلکہ کسی خاص وقت میں وجود میں آئی ہے۔ اس لیے یہ تو طے ہوا کہ کائنات پہلی علت نہیں ہے۔ کیونکہ کائنات پر خود ہی علت و معلول کا قانون لائقِ اطلاق ہے۔
اگلا مرحلہ منطق میں جدید ترقی کی صورت میں سامنے آیا۔ شروعات تو اس کی کافی پہلے سے ہوچکی لیکن اصل قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ منطق کو کسی بھی صورت میں لسانی مجبوریوں سے آزاد کیا جائے۔ اس میں انسان کو کافی حد تک کامیابی ہوئی۔ یہ وہ نقطہ تھا جہاں انسان نے منطقی محالات اور چیستانوں کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے ایک نئے طریقے سے آغاز کیا۔
آخر وہ وقت بھی ۱۹۳۰ کی دھائی کے آخر میں ہی آگیا جب کرٹ گرڈل (Kurt Godel) نے منطقی جبر اور منطقی چیستانوں کی ایک اہم گتھی سلجھا دی۔ گرڈل نے اس ضمن میں ریاضیاتی منطق کے تحت دو تھیورم پیش کیے جنہوں نے سائنس، پروگرامنگ اور فلسفہ پر ایک بہت گہرا اثر چھوڑا۔
میں یہاں ان تھیورمز کو آسان الفاظ میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور کوشش کروں گا کہ دقیق اصطلاحات سے حتی المقدور پرہیز کیا جائے۔
گرڈل کا پہلا تھیورم یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی مطابقت کی دنیا (consistent system) جس میں بنیادی ارتھمیٹکس ممکن ہو، ہمیشہ ناتمام رہتی ہے۔
دوسرے تھیورم کے مطابق کسی بھی مطابقت کی حامل دنیا میں رہتے ہوئے اس کی مطابقت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں چند نکات یوں بنتے ہیں:
1۔ کوئی بھی مطابقت کی دنیا ناتمام ہوگی۔ یعنی اس خاص دائرے میں ایسے بہت سے مسائل( یا کم از کم ایک مسئلہ) پیدا ہوں گے جنہیں ثابت نہیں کیا جاسکے گا جبکہ وہ درست بھی ہوں۔
2۔ کسی بھی دنیا میں اگر تمام مسائل کا حل موجود ہوگا تو وہ مکمل تصور کی جائے گی۔ اور اس تکمیل کے باعث اس میں “عدم مطابقت” ضروری ہوگی۔
3۔ اگر کسی بھی دنیا کی مطابقت کو اسی دنیا میں رہتے ہوئے ثابت کیا جاسکے تو وہ پھر” مکمل” تصور کی جاسکتی ہے۔ اور ایسے میں یہ دنیا پھر “عدم مطابقت” پر پہنچ جائے گی۔
نوٹ: یہاں دنیا سے مراد عام مفہوم کی دنیا نہیں بلکہ ایک خاص سسٹم، یا قضایا کی ایک خاص حد یا علم کا کوئی بھی خاص دائرہ ہے۔ یہ ایک ایٹم سے لے کر پوری کائنات کو محیط بھی ہوسکتا ہے۔ اور استخراجی منطق کا کوئی خاص استنتاج بھی۔
گرڈل نے جہاں ریاضی دانوں کو ایک راہ ہموار کرکے دی وہاں فلاسفہ کو بھی ایک نئی راہ مل گئی اور کئی پہیلیاں سلجھ گئیں۔ مثلاً اگر کوئی کہے “میں جھوٹ بول رہا ہوں”۔ تو یہ جملہ متناقضہ (paradoxical) ہے۔ یعنی اگر اس جملے کو سچ مانا جائے تو وہ جھوٹ بول رہا ہے، اور جھوٹ مانا جائے تو سچ بول رہا ہے۔ یا پھر یہ کہ “کائنات میں سب کچھ جھوٹ ہے”۔ اگر اسے سچ مانا جائے تو یہ جملہ بھی اپنا شکار ہو کر جھوٹ ہوجاتا ہے۔ الغرض ایسے جملے خود ہی اپنی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو گرڈل سین ٹینسز (گرڈلی جملے) کہلاتے ہیں۔
دونوں تھیورم کے مجموعی اطلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جن میں کمپیوٹر سائنس، نیورو سائنس، فزکل سائنسز، ریاضی اور منطق وغیرہ شامل ہیں۔
نظری طبیعات (Theoretical Physics) کے مشہور سائنس دان سٹیون ہاکنگ (Stephen Hawking) نے گرڈل کے ان تھیورمز کے ضمن میں طبیعات کے حوالے سے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں جس میں ان کا اخذ کردہ نتیجہ یہ ہے کہ انسان کائنات کا حصہ ہے اور اس میں رہتے ہوئے نوعِ انسان قوانین کے کسی محدود عدد کی صورت میں کائنات کی کوئی حتمی تشریح کبھی نہیں کرسکے گا۔ نوعِ انسان کی یہ دوڑ کبھی ختم نہیں ہوسکے گی۔ ہمیشہ نئے قوانین کی دریافت طبیعات دانوں کی منتظر رہے گی۔ اور ریاضی دان اپنے دھندوں میں ہمیشہ لگے رہیں گے۔
یہاں ایک بات یہ سمجھ لیجیے کہ قوانین جو کائنات کے اندر پائے جاتے ہیں وہ چاہے کتنی ہی مطابقت رکھتے ہوں، اور بظاہر کتنے ہی حتمی لگتے ہوں،وہ بہر حال اضافی ہوتے ہیں۔ کائنات کے اندر کسی بھی مطابقت کاحامل قانون کائنات کے دائرے میں رہتے ہوئے کبھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ اسے کہیں نہ کہیں ٹوٹنا ضرور پڑے گا۔ ورنہ وہ نامکمل ہی رہے گا۔ اور جب تک نا مکمل رہے گا تب تک اس میں مطابقت پائی جاتی رہے گی۔
ایک آسان سی مثال لیجیے۔ ہم قانون بقائے مادہ یا توانائی کے تحت جانتے ہیں کہ مادہ یا توانائی نہ تو فنا ہوسکتے ہیں، نہ بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ قانون تب تک نا مکمل ہے جب تک اس بات کا جواب نہیں مل جاتا کہ مادہ یا توانائی کی شروعات کہاں سے ہوئی؟ یا پھریہ کہ کیا مادہ اور توانائی کبھی بنے بھی ہیں یا نہیں؟ جواب دونوں سوالوں کا اس قانون کے تحت میں نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ عام منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اگر مادہ یا توانائی بن نہیں سکتے تو پھر ان کا کوئی نقطۂ آغاز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مادہ ازل سے نہیں ہے، تو اس منطقی تضاد کا جواب دینے کے لیے ایسی دنیا میں جانا ہوگا جو ان قوانین کی پاسداری سے اوپر ہو۔ جہاں سے اس قانون کی ابتدا ہوئی ہو۔ ایسی دنیا اکثر ہمارے مشاہدے میں ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ بعض وقت ہمارے مشاہدے میں بیک وقت بہت سی دنیائیں ہوتی ہیں جو بذاتِ خود مطابقت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ہم چونکہ ان سے اوپر ہوتے ہیں تو اس مطابقت کی نفی بھی ہمارے مشاہدے میں ہوتی ہے۔
علت و معلول اور اس پر علتِ اولی کے اعتراض کی بھی یہی حقیقت ہے۔ پہلی علت کا انکار کرنے والے در اصل اسی منطقی تضاد کی وجہ سے اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی پہلی علت موجود ہوسکتی ہے۔ حالانکہ گرڈل کے تھیورمز کے بعد یہ مسئلہ اور اس میں پایا جانے والا منطقی تضاد کسی اہمیت کا حامل نہیں رہتا۔ اگر کائنات کے اندر موجود رہ کر پہلی علت کا ثبوت دیا جاسکے تو یہ قانون مکمل تو ہوسکتا ہے لیکن اس میں مطابقت کی کیفیت برقرار نہیں رہے گی۔ اور اگر ثابت کرنا ہے تو اس کے لیے کسی ایسے سسٹم کو ڈھونڈنا ہوگا جو اس قانون سے بالا تر ہو۔ جہاں سے اس قانون کی تمام جہات کو دیکھا جاسکے۔ ایسا کرنے کے لیے یا تو زمانے سے اوپر جانا ہوگا جہاں علت و معلول بیک وقت ہی رونما ہورہے ہوں۔ یا پھر ایسی دنیا میں جہاں علت و معلول کی نفی اور اثبات دونوں پائے جاتے ہوں۔
اس وقت تک کسی بھی چیز کا انکار کردینا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اس سسٹم میں علت و معلول کا ثابت نہ کیا جاسکنا در اصل اس کی نفی نہیں ہے بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ اس کا اثبات اس سسٹم میں رہتے ہوئے نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہو ضرور سکتا ہے۔ اس سسٹم میں نہیں تو کہیں اور۔ لیکن اگر اسکا اثبات کہیں نہیں ہوسکتا تو اس کا مشاہدہ بھی کہیں نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ چونکہ اس کا مشاہدہ موجود ہے تو اسکا اثبات بھی ضرور موجود ہے۔
مزمل شیخ بسمل