زوال،انحراف،نشاۃ ثانیہ اورجدیدیت پرست ازڈاکٹرحسین نصر

ڈاکٹر سید حسین نصر ، پروفیسر اسلامک سٹڈیز، جارج واشنگٹن یونیورسٹی ، امریکہ مشہور اسلامی فلاسفر اور معتدل فکرو مزاج دینی سکالر ہیں۔ انکا مقالہ Traditional Islam in the Modern World جدیدیت کے موضوع پر ایک بلیغ تبصرہ اور مفید تجزیہ ہے۔ اس میں سے ایک تحریر ڈاکٹر سہیل عمر نے ترجمہ کرکے اپنی کتاب ‘حرف بہ حرف’ میں پیش کی۔ یہ تحریر ہمارے اس عہد میں زوال، انحراف اور نشاۃ الثانیہ کاعمل کیوں کر جاری ہے۔ ؟ یہ اصطلاحات اپنے درست مفہوم میں کیا ہیں اور ان کا غلط اطلاق کیسے کیا جاتا ہے۔؟ معاصر اسلامی فکر اور مغربی افکار میں ان کو کیسے برتا گیا ہے اور ان کی اوٹ میں عہدجدید کے کون سے رویے کام کر رہے ہیں۔؟ ‘کا مختصر بیان ہے۔ہم ڈاکٹر صاحب کے شکریہ کیساتھ اسے اپنے اس سلسلہ میں جگہ دے رہے ہیں ۔(ایڈمن)

***************

جدیدیت کی نمو کے بعد سے مختلف اسلامی ممالک کے ان جدیدیت زدہ مسلمانوں کے ذہنوں میں چند مخصوص مسائل پیدا ہوئے ہیں جو جدید بن جانے کے باوجود اسلام اور اس کی تاریخ سے سروکاررکھے ہوئے ہیں۔روایتی اسلامی علوم میں تمام شعبہ ہائے فن کی تعریف واضح اور متعین رہی ہے اور ان کو ذہن میں ایک مخصوص معنی رکھ کر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔اس کے برعکس گزشتہ ایک صدی میں جدید مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد میں اپنی روایت کی متعلق بات کرتے ہوئے کئی اہم اصطلاحات کو لا پرواہ ہو کر مبہم انداز میں برتنے کا رجحان اُبھرا ہے۔ اس رجحان سے اور کچھ نہ بھی ہو تو ذہنی پراگندگی Confusion ضرور جھلکتی ہے۔ان میں سے بہتیرے لوگوں نے الفاظ و تراکیب کچھ اس طرح سے استعمال کیے ہیں کہ ثقافتی تصادم اور مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کی جو کیفیت وہ جھیل رہے ہیں وہ آشکار ہو گئی ہے۔ ان کی تحریروں میں سب سے زیادہ عیاں چیز مغربی تہذیب کے معیارات اور آرا کی ایک ذہنی غلامی ہے۔ مزید براں، یہ معیارات بالعموم ایک ایسے ’’اسلام‘‘ کے لبادے میں پنہاں ہوتے ہیں جس میں صرف نام اور چند جذباتی بندھن باقی رہ گئے ہوتے ہیں؛ وہ اسلام جو اس عقلی اور روحانی حقیقت سے محروم ہو چکا ہوتا ہے جو وحیِ اسلام کے قلب میں واقع ہے۔ زیر نظر تجزیے میں ہمارا ارادہ ہے کی تین بکثرت مستعمل الفاظ’’زوال و انحطاط‘‘، ’’انحراف‘‘ اور ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ (نہضۃ) Renaissance پر بحث کی جائے جو اسلامی تاریخ اور آج کی اسلامی دنیا کے حوالے سے اکثر برتے جاتے ہیں اور جو ایک قسم کے جدیدیت زدہ مسلمانوں کے اس رویے کی دور رس عکاسی کرتے ہیں جو انھوں نے پورے اسلام کو بحیثیت ایک دین اور بحیثیت ایک تاریخی حقیقت کے دیکھتے ہوئے اختیار کیا ہے۔

زوال:

’’زوال‘‘ کی اصطلاح سے شروع کرتے ہیں۔ جدید مسلمان مصنّفین کی تحریروں میں یہ اصطلاح اکثر ملتی ہے جو جدیدیت کے آغاز سے قبل اسلامی دنیا کے حالت کی طرف بار بار ’’زوال پذیر‘‘ کے لفظ سے اشارہ کرتے ہیں، اس قدری فیصلے Value Judgement سے فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’زوال کس لحاظ سے یا کس معیار کے حوالے سے؟‘‘

ہر چیز کے لیے ایک معیار ضروری ہے جس سے اسے جانچا جائے یا جس کے حوالے سے اس کے زوال پذیر ہونے نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے۔ اس مقام پر گو بعض لوگوں نے اسلام کے قرونِ اولیٰ کو معیار قرار دیا ہے مگر اکثر و بیشترمغرب جدید سے شعوراً یا غیر شعوری طور پر اپنا یا ہوا نظام اقدار ہی حالتِ زوال و انحطاط کے تعین کے لیے ڈھکے چھپے انداز میں معیار اور کسوٹی فراہم کرتا ہے۔ اس کی سب سے اچھی تشریح سائنس کے مسئلے سے ہو سکتی ہے اگر سائنس کو اس کے موجودہ مغربی معانی میں لیا جائے۔ دوسرے مشرقی لوگوں کی طرح بہت سے جدید مسلمان بھی سائنس اور تہذیب کو ایک برابر سمجھتے ہیں اور کسی بھی انسانی معاشرے اور اس کی ثقافت کی قدر و قیمت کا فیصلہ یہ دیکھ کر کرتے ہیں کہ اس کے ہاں سائنس کی پیداوار ہے یا نہیں اور ایسا کرتے ہوئے خود تاریخ سائنس کے دئیے ہوئے سبق فراموش کردیتے ہیں۔(تفصیل کے لیے دیکھیے ، اسلام میں سائنس اور تمدن، سیّد حسین نصر اور تعارف صفحہ ۲۱۔ Science and Civilisation in Islam)

چنانچہ اسلامی تہذیب کے زوال کا نقطۂ آغاز اس وقت کو فرض کر لیا جاتا ہے جب سے اس نے ممتاز سائنسدان پیدا کرنے بند کر دئیے (سائنسدان کے منصب کا تصور بھی وہی ہوتا ہے جو آج مغرب میں ہے) اکثر مسلمان مصنّفین تو اس عمل کے منقطع ہو جانے کی تاریخ تک مغربی مآخذ سے لیتے ہیں جن میں حالیہ زمانے تک، اسلام کی عقلی زندگی سے ساری دلچسپی اس دور تک محدود تھی جب اسلام نے مغرب کو متاثر کیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسفے سے لے کر ریاضی تک، اسلام میں ہر چیز ساتویں تیرھویں صدی کے لگ بھگ اچانک پر اسرار طور پر ’’زوال‘‘ کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ عین وہی زمانہ ہے جب مغرب اور اسلام کے عقلی روابط عملاً ختم ہو گئے تھے۔جدیدمسلمان مصنّفین نے جو اس رائے کے حامل ہیں، نہ تو کبھی ذاتی تحقیق کی زحمت کی ہے نہ ہی مغربی ماہرین کی حالیہ اور کم معروف تحقیقات پر غور کیا ہے جنھوں نے دکھایا ہے کہ نویں،پندرھویں صدی میں اسلامی علم فلکیات کتنا اہم رہا ہے یا یہ کہ طبِ اسلامی ایران اور ہندوستان میں ۱۲ویں ،۱۸ویں صدی تک کتنی فعال رہی ہے۔( فلسفۂ اسلام کی صورتحال اور بھی حیران کن ہے اس لیے کہ فلسفہ اسلام اور اسلامی ماوراء الطبیعیات کا فی الحقیقت کبھی زوال ہوا ہی نہیں۔ دیکھیے : سیّد حسین نصر ، ،ایران میں اسلامی فلسفے کی روایت اور جدید دنیا کے لیے اس کی معنویت‘‘ نیز حسین نصر، ایران اور اسلام فلسفے کا مستقبل۔ Studies in Comparative Religion, Winter 1972, pp. 31-42. (برصغیر پاک و ہند میں اس مثال کے لیے دیکھیے اسلام اور عقلیات از مولانا اشرف علی تھانوی مقالات ایوبی از ایوب دہلوی، خدا شناسی کے میلوں میں حضرت قاسم نانوتوی کی تقاریر اور درس نظامی کی متداول کتاب شمس بازغہ) (مترجم)۔

زوال کا یہ تصور، جو ’تہذیب‘ کے دنیاوی پہلو کے بارے میں جدید مغربی معیارات پر مبنی ہے،روایتی اسلامی تناظر سے بالکل جدا ہے جو اہل مدینہ کو کامل ترین انسانی معاشرہ گردانتا ہے ۔ ایسا معاشرہ جس کے معیار پر باقی تمام اسلامی، معاشروں‘‘ کو پرکھا جاتا ہے ___ اور اسی غلط تصورِ زوال کا نتیجہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں کے ذہن سکڑ کر مضمحل ہوگئے ہیں اور ان کا اپنے اوپر اور اپنی ثقافت پر اعتماد جاتا رہاہے۔ اسلامی دنیا پر زوال آیا ہے مگر یہ ’’بڑھاپے‘‘ کے تدریجی اور طبعی عمل اور وحی کے مبدا سماوی سے باعتبار زمانہ دور سے دور تر ہو نے کی وجہ سے ہوا ہے۔ مذکورہ مصنّفین زوال کی اس طرح تصویرکشی کرنے کی بجائے اور یہ بتانے کی بجائے کہ اس زوال کی نوعیت بالکل حالیہ ہے، اسلامی دنیا کے ساتویں، تیرھویں صدی تک زوال پذیر ہونے کا موہوم اور گھنائونا نظریہ فرض کرلیتے ہیں۔وہ اس چیز سے بالکل غافل رہتے ہیں کہ اگر یہی بات رہی ہوتی تو اسلام کا تا امروز ایک وسیع تہذیب کی پرورش کرنا اور ایک زندہ قوت کے طور پر باقی رہنا ناممکن تھا۔ تصوف میں موجود اسلام کی زندئہ جاوید روحانی روایت کو تو ذکر ہی کیا ہے، جو آج تک عظیم اولیا اور حکما کو جنم دیتی رہی ہے، یہ لوگ تو اصفہان کی مسجد شاہ، استنبول کی نیلی مسجد یا تاج محل جیسے فن تعمیر کے شاہکاروں، صائب تبریزی اور جامی کے ادبی شاہپاروں اور شیخ احمد سرہندی اور ملاصدرا کی ماوراء الطبیعیات اور علم کلام تک کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

یہ جدیدیت زدہ مسلمان مصنّفین، جنھوں نے مغربی معیاراتِ تنقید پورے پورے اپنا رکھے ہیں، جس نقطۂ نظر سے زوال کو دیکھ رہے ہیں اگر زوال وہی ہوتا اور اگر اسلامی دنیا کو زوال نے اسی تاریخ سے گرفت میں لے لیا ہوتا جو اس گروہ نے فرض کر رکھی ہے تو آج اسلامی تہذیب کے نام کی کوئی چیز یقیناباقی نہ ہوتی جس میں یہ لوگ حالیہ صدی میں جان ڈالنے کی کوشش کرتے۔ اسلامی تہذیب بہت پہلے کی مَرکر آثارِ قدیمہ والوں کی دلچسپی کا موضوع بن چکی ہوتی جیسا کہ بعض مستشرقین اسے دیکھنا چاہتے ہیں۔


انحراف


جہاں تک ’’انحراف‘‘ کے لفظ کا تعلق ہے تو اس کو جدیدیین (جدیدیت پرست) شاذو نادر ہی استعمال کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح زیادہ صاحب ِاستقامت مسلمان مصنّفین کی تحریروں میں نظر آتی ہے جو اس روحانی اور مذہبی معیار کی موجودگی سے اب بھی آگاہ ہیں جس پر ان کے اپنے معاشرے سمیت کسی بھی انسانی معاشرے کو جانچا پر کھا جا سکتا ہے کیونکہ’’ الدین‘‘ کے لفظ کے وسیع ترین معانی میں ’’روایت‘‘ کا ذکر امکانِ انحراف کے ذکر کے مترادف ہے۔ فی الحقیقت اس اصطلاح کا اگر کوئی بر محل استعمال ہے تو وہ مغربی تہذیب کے حوالے سے ہو سکتا ہے جو شیخ عبدالواحد یحییٰ (رینے گینوں) کے الفاظ میں بذاتہٖ ایک مہمل عجوبہ نہ بھی ہو تو بھی ایک بڑا انحراف اور بے قاعدگی ہے۔ (دیکھیے: دنیائے جدید پر گینوں کی دو بنیادی تصانیف : Crisis of the Modern World, Reign of Quantity and the Signs of Times. نیز دیکھیے F. Schuon کا ماہرانہ تجزیہ Light on the Ancient Worlds.) مگر ہمارے پیش نظر جدید مصنّفین کا جو گروہ ہے وہ اسی حوالے سے اس لفظ کو برتتے ہوئے شرماتے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے معروضی معیار سے محروم ہیں جس کے ذریعے کسی بھی مخصوص ’’دنیا‘‘ کے خاص زمانی و مکانی حالات و آثار کے تعین کرنے والے زمانی تغیر Temporal Flux پر حکم لگایا جا سکے، ایسا معیار جو اس تغیر سے لازماً منزہ ہو۔یہ بات اوربھی ششدر کر دینے والی ہے،اس لیے کہ روایتی اسلامی مصادر میں وہ سارا مواد فراہم ہے جو ایسے معیار کی دریافت اور معاصرین کے لیے قابل فہم زبان میں ایسی تنقید وضع کرنے کے لیے ضروری ہے۔

نشاۃ ثانیہ:


نشاۃ ثانیہ (نھضۃ) Renaissance کے لفظ کی طرف آئیے تو ادب اور آرٹ سے لے کر سیاست تک تقریباً ہر سیاق و سباق میں اس اصطلاح کے اندھا دھند بے لگام استعمال کی افراط پائی جاتی ہے۔جدیدیت پرست لوگ اسلامی دنیا میں واقع ہونے والے کم و بیش ہر نوع کے عمل کو نشاۃ ثانیہ کانام دیتے نہیں تھکتے۔ اس لفظ کا عربی ترجمہ ’’النہضۃ‘‘ تو معاصر عربی ادب میں ایسا پھیل گیا ہے کہ کیا کہیے۔ اس لفظ کے اس بے فکری سے استعمال میں بھی کچھ فریب کاری ہے کیونکہ اس سے فوراً مغرب میں ہونے والی نشاۃ ثانیہ کا خیال آتا ہے جب یونان و روما کی وثنیت Paganism کے وہ عناصر دوبارہ زندہ ہو گئے جو روحانی نقطۂ نظر سے مہلک تھے (نہ کہ اس قدیم روایت کے مثبت عناصر جو قبل ازیں قسیسین کلیسا Church-Fathers خصوصاً سینٹ آگسٹائن نے عیسائیت میں شامل کر لیے تھے)اور ان عناصر سے عیسوی تہذیب کو ایسا دھچکا لگا کہ وہ عیسوی تہذیب کی حیثیت سے پھلنے پھولنے کے طبعی دور تک پہنچ ہی نہ سکی۔ اسی طرح نشاۃ ثانیہ کے ضمن میں اس تطاول Promethean اور استکبار Titanesque کی روح کا دوبارہ اُبھرنا بھی یاد آئے بغیر نہیں رہ سکتا جو اسلام کے بالکل متضاد ہے۔(ہر وہ مسلمان جس کا ذوق فن پوری طرح نہیں تباہ ہو چکا، نشاۃ ثانیہ کے اور ۱۷ویں اٹھارویں صدی کے بے ڈھنگے آرٹ اور فن تعمیر کی دنیاوی نوعیت سے گھن کھائے گا، خواہ یہ فن مذہبی قسم کا ہی کیوں نہ رہا ہو۔ یہ آرٹ پر جو مسلمان نظارہ کنندہ کو اتنا غیر روحانی اور دنیاوی لگتا ہے، صرف رب السمٰوات کے خلاف اس بغاوت کا عکس ہے جو نشاۃ ثانیہ کی انسان پرستی میں رچی ہوئی تھی اور جو مغرب میں انسان کو مظہر الٰہی (Imago Die) سمجھنے والے روایتی تصور انسان کو تباہ کرنے میں کامیاب ہو گئی)۔

آج کل مسلمان اکثر اوقات جس چیز کو نشاۃ ثانیہ سمجھ لیتے ہیں وہ عموماً ایک نہ ایک شکل میں صرف انھی قوتوں کی حیاتِ نو سے عبارت ہوتی ہے جن کی بیخ کنی کے لیے اسلام آیا تھا، وہ قوتیں جن کو روایتی اسلامی تصورات میں عہدِ جاہلیت سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی خاص جزئی میدان میں’’احیا‘‘ کا امکان نہیں رہا بلکہ مثال کے طور پر کسی بڑے ولی کا اُبھرنا اسلامی دنیا کے کسی خاص حصے میں روحانیت کے ’’احیا‘‘ کا باعث ہو سکتا ہے،اسلامی فنون کاکوئی عظیم ماہر کسی خاص فنی ہیئت کو حیات نو دے سکتا ہے، کوئی قوی دانشور اسلامی فکری زندگی کے کچھ پہلوئوں کو جلادینے کا باعث بن سکتا ہے بشرطیکہ وہ خود اسلام کی عقلی روایت میں سچا رسوخ رکھتا ہو۔ (دیکھیے: H. Corbin, The Force of Traditional Philosophy in Iran Today.) مگر آج کل ’’احیا‘‘ کے نام پر جو کچھ دکھاوا ہو رہا ہے وہ احیاء نہیں ہے۔ بارہا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک کھلی ہوئی خلافِ اسلام طرزِ فکر کا استقبال اسلامی فکر کی’’نشاۃثانیہ‘‘ کَہہ کر کیا جاتا ہے اور شریعت کی تعلیمات کے صریحاً مخالف طرزِ عمل کو اسلام کی سماجی نشاۃِ ثانیہ قرار دے دیا جاتا ہے!

فکری دیانت کا تقاضا اتنا تو ہونا چاہیے کہ اگر ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کی اصطلاح کو کسی نہ کسی وجہ سے استعمال کرنا ضروری ہی ہو تو کم از کم ’’اسلامی‘‘ کا اسمِ صفت چپکانے سے تو گریز کیا جائے۔ یہاں بھی وہی معروضی اسلامی معیاروں کی بصیرت سے محرومی ہے جس کی وجہ سے جدید دنیا کی گمراہیوں کے شکار لوگ اسلامی دنیا میں ہونے والے کسی بھی عمل یا کسی بھی تبدیلی کو نشاۃ ثانیہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے کہ لا دین مغربی دنیااور دوسرے براعظموں میں اس کے تابعین میں ہر تبدیلی کو ’’تقدم‘‘ اور ’’ترقی‘‘ کے مساوی سمجھا جاتا ہے خواہ وہ تبدیلی ہر طرح سے انسانی زندگی کے جوہر کی تذلیل اور تقلیل ہی کیوں نہ ہو۔

ان تمام مثالوں میں جو مشترکہ غلطی ہے وہ معروضی، غیر متغیر اور متعال Transcendent اسلامی اُصولوں کی بصیرت ضائع ہو جانے سے پیدا ہوئی ہے۔ صرف یہی ایک ایسی چیز تھی جس کی مدد سے ہم اسلامی نقطۂ نظر سے کسی خاص ہیئت ،عمل یا انسانی معاشرے کے کسی دور کے بارے میں یہ فیصلہ کرنے کے قابل ہو سکتے تھے کہ زوال پذیر ہے منحرف ہے یا اس کی نہضۃ Renaissanceسچی اسلامی نشاۃ و احیاء کے اوصاف لیے ہوئے ہے۔ ذات مطلق (یعنی الاحد) کے بغیر مقید یا اضافی کو کبھی بھی پوری طرح سمجھا نہیں جا سکتا اور غیر متغیر کے بغیر اس چیز کے بہاو کا رُخ جانچنا محال ہے جو بدلتی رہتی ہو۔ مگر ایک ’’ماوراء الطبیعیاتی ضعفِ بصر‘‘ Metaphysical Myopia اور اس مغرب کی حماقتوں کی اندھی فرمانبرداری نے جو خود بھی القیوم The Immutable کی بصیرت سے عاری ہو چکا ہے،مل جل کر جدیدیت زدہ مسلمانوں کے اس زیر بحث گروہ کے پاس نہ تو وہ عقلی بصیرت رہنے دی ہے جس سے وہ اشیا کے غیر متغیر جواہر (اعیان ثانیہ) کا ادراک کر سکیں (قرآن کی اصطلاح میں ان کا ملکوت) نہ وہ راسخ ایمان جس کے ذریعے وہ روایت نبویہ (سنت اور حدیث) سے قائم ہونے والی مثال یا معیار پرثابت قدم رہ سکیں۔ اشیا کے غیر متغیر اُصولوں تک رسائی کے طریقوں میں سے پہلا طریقہ چونکہ عقلی اور روحانی نوعیت کا ہے لہٰذ اسے پس پشت ڈالنے میں مذکورہ قسم کے جدیدیت پرستوں کو عوام الناس کی طرف سے کسی خاص مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا اور ان کی توانائی روایتی اسلام کی غیر متغیر ساخت پر پائے جانے والے عام ایمان کی تخریب پر مرکوز ہو جاتی ہے۔

چونکہ اس مہم کا انداز صاف مذہبی ہوتا ہے اس لیے صاحبِ ایمان مسلمانوں کی طرف سے اس کی کہیں زیادہ مخالفت ہونا لازمی ہے۔تاہم دونوں صورتوں میں ان کا حتمی مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ان معروضی اسلامی معیارات یا اُصول ہائے تنقید کو برطرف کر دیاجائے جن کے مطابق آج کے اسلامی معاشرے اور دنیائے جدید پر بحیثیت عمومی محاکمہ کیا جا سکتا ہو۔

ان خداداد اور معروضی اُصولوں کو برطرف کر دینے کی انھیں جو خواہش ہے وہ اُن کی ان کوششوں میں مجتمع ہو جاتی ہے جو وہ ایمان دار مسلمانوں کی نگاہ میں سنت نبویہ اور حدیث نبوی کی عبر التاریخی Trans-historical معنویت کو کمزور کرنے کے لیے کرتے ہیں۔اس کے لیے وہ ان پر ’’تاریخی تنقید‘‘ Historical Criticism کا طریقہ عائد کرتے ہیں جس کے مطابق کسی چیز کا تحریری اندراج نہ ہونا عموماً خود اس چیز کے نہ ہونے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح مسلمانوں کو ان کی شخصی اور اجتماعی زندگیوں کے لیے کامل نمونہ دیا ہے(قرآن مجید کا اسوۃ حسنہ) جب تک آپؐ کی سنت کا احترام ہوتا ہے اور اسے محفوظ رکھا جاتا ہے تب تک ملت اسلامیہ میں ایک خدا کا مقرر کردہ معیار باقی رہتا ہے جس کے حوالے سے انسانی رویہّ پرکھا جاتا ہے اور جو کتاب اللہ کے ساتھ مل کر انسانی معاشرے کی اجتماعی زندگی کے ساتھ اس کے افراد کی داخلی مذہبی زندگی کی نیو رکھنے کے وسائل فراہم کرتا ہے۔( حدیث نبوی کی معنویت اور اس کے جدید ناقدین کے روکے لیے دیکھیے۔ S. H. Nasr, Ideals and Realities of Islam, pp.79 ff. ، F. Schuon, Understanding Islam, Ch3. ، S. M. Yusuf, An Essay on the Sunnah, Lahore, 1966.)

ذخیرئہ حدیث کی صحت پر کیے جانے والے حملے کا ایک بڑا مقصد جس کا خواہ شعوری احساس نہ رہا ہو یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو پرکھنے کے لیے خدا کی نافذ کردہ کسوٹی کوہٹا دیا جائے اور لوگوں کے لیے جدیدیت کی نقالی میں سہولت اور اپنی خواہشات یا زمانے کے آتے جاتے فیشنوں کے سامنے ہتھیار ڈال دینے کا دروازہ کھل جائے خواہ وہ کیسے ہی ابلیسی کیوںنہ ہوں اور پھر یہ سب کچھ ایک ’’اسلامی نشاۃ ثانیہ‘‘ کے نام پر کیا جاتا ہے اور ہر اس گروہ پر رجعت پرست اور زوال پذیر کَہہ کر تنقید کی جاتی ہے جو مغربی تہذیب کی گھٹیا ترین پیداواروں کی اندھی تقلید کرنے سے انکار کرتا ہو۔ جدیدیت پرست لوگ اسلام کے ماضی و حال کے بارے میں جو مبہم اور بالعموم رکیک فیصلے دیتے ہیں ان کا اور انسانی زندگی کے لیے قرآن و سنت کی فراہم کردہ واضح مثال اور معیار کو دھندلا دینے کی کوشش کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس کے برعکس بہت سے متدین اور اہل استقامت Orthodox مسلمانوں کو اسلام کی سالمیت کے دفاع کے لیے حدیث اور سنت میں پائے جانے والے معیار نبوی کی معنویت پر بار بار زور دینا ضروری محسوس ہوا ہے کہ اس کے بغیر خود قرآن کے پیغام کے کئی حصے لوگوں کے لیے ناقابل فہم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

اسلامی نشاۃ ثانیہ، انحراف اور زوال کا حقیقی مفہوم:


اس کے بعد یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ ’’زوال، انحراف اورنشاۃ ثانیہ جیسی اصطلاحات کے رائج الوقت استعمال پر تنقید بجا لیکن اگر ہم قرآن و سنت کو سندمان کر اور روایت کے آج تک تدریجی، مرحلہ وار ظہور Unfoldingکو تسلیم کرکے چلیں تو ان اصطلاحات کی حقیقی معنویت کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ اس سوال کا ہم صحیح جواب دے سکتے ہیں تاہم یہ جواب اپنے مقدمات اور مقام آغاز کے اختلاف کی وجہ سے زیر نظر جدیدیت پرست طائفے کے پیش کردہ جواب سے بہت مختلف ہو گا۔

اسلام کے حوالے سے نشاۃ ثانیہ کے معنی صرف اسلامی اُصولوں اورمعیارات کے از سرِنو پیدا ہونے (لفظی معنی میں نشاۃ ثانیہ) کے ہیں نہ کہ کسی بھی اوٹ پٹانگ چیز کی حیاتِ نو کے۔ ہر جنبشِ حیات ،حیاتِ روحانی کے آثار میں سے نہیں ہوتی اور ہر وہ عمل جو مسلمان اقوام میں واقع ہو لازماً اسلامی عمل نہیں ہوتا خصوصاً آج کے دور میں جب الحق کے کتنے ہی پہلو دھندلا چلے ہیں۔ اسلامی معنی میں نشاۃ ثانیہ تجدید یا کایا پلٹ کرنے کے متوافق ہے جو اپنے روایتی سیاق و سباق میں مجدد کے منصب سے متعلق ہے۔ تاریخ اسلام سے عالم اسلام کے کتنے ہی حصوں میں ایک مجدد کے کارِتجدید سے صحیح معنوں میں ہونے والی کئی نشاۃ ہائے ثانیہ کی شہادت ملتی ہے۔ مگر ایسا مجدد ہمیشہ ان اسلامی اُصولوں کی کامل تجسیم ہوتا ہے جن کو وہ بحال کرکے کسی خاص صورت حال پر عائد کرنا چاہتا ہے اس میں اور جدید معنی میں ’مصلح‘‘er Re-form میں بڑا گہرا فرق ہے کیونکہ یہ مصلح اکثر مصلح نہیں بلکہ مفسدer De-form ہوا کرتے ہیں جو اسلامی روایت کے کسی نہ کسی پہلو کو فلاں یا فلاں عارضی مصلحت پر قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں ا ور اس مصلحت کے عنصر کو ناقابل مزاحمت بنا کر دکھا نے کے لیے کہا جاتا ہے کہ ’’یہ زمانے کی وہ ناگزیر ضرورت ہے جس سے مفر نہیں۔‘‘اگر ایسے ’’مصلحین‘‘ تاتاریوں کی یلغار کے دور میں اور اس کے بعد اُبھرتے تو نہ جانے اسلام پر کیا گزرتی ؟ وہ مصلحین جو اسلام کو اس وقت کی واقعی سب سے زیادہ ناگزیر ’’ضرورتِ زمانہ‘‘ یعنی منگول فاتحین اور ان کی زندگی کے طور طریقوں کی تعمیل اور پابندی کا مشورہ دیتے۔ چنانچہ ایک سچی اسلامی نشاۃ ثانیہ ہر اس چیز کی پیدائش یا حیاتِ نو کا نام نہیں ہے جو انسانی تاریخ کے کسی مخصوص لمحے میں رائج اور فیشن کے مطابق ہو بلکہ اس کا مطلب ہے کھری اسلامی نوعیت کے اُصولوں کا ازسر نو اطلاق۔

یہاں آ کر اصلی اسلامی فلسفہ کے لیے ابتدائی شرط واضح ہو جاتی ہے۔ ہمارے زمانے کے لیے یہ شرط مغرب کے اثر سے آزاد ہونے میں اور اس سب کچھ سے آزاد ہونے میں مضمر ہے جو مغرب کا خاصہ ہے۔ جدیدیت کے اثرات سے دور پرے رہنے والے ایک مسلمان کو شاید روحانی تجدید کا تجربہ ہو سکتا ہے خواہ وہ دنیائے جدید میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے بے خبر ہو مگر ایک مسلمان دانشور یا مذہبی رہنما کے لیے جو اسلامی دنیا کی فکری اور سماجی زندگی کی تجدید کرنا چاہتا ہو، جدیدیت اور جدید دنیا پر دور رس تنقید کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر وہ مغرب اور جدیدیت کے عمومی اور ایسے بھاری دباو کی شکار اسلامی دنیا کی عقلی یا سماجی سطح پر نشاۃ ثانیہ کی امید نہیں کر سکتا۔

اسلامی نشاۃ ثانیہ کی بات کرنا اور ساتھ ہی وہ سب کچھ بلا امتیاز و احتیاط قبول کر لینا جس کی نمائندگی جدید دنیا کرتی ہے نرا وہم ہے اور خواب پریشان۔ ایسا خواب جو آخر کار کابوس بن کر رہے گا۔ جدید دنیا کے لیے دور رس تنقیدی رویے اور اس دنیا کے گہرے فہم کے امتزاج ہی سے آج خالص اسلامی عمل، خصوصاً فکری سطح پر، وقوع پذیر ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فقہ اسلامی کے میدان میں بھی اجتہاد اور فتویٰ اس ذہن کے لیے ناممکن ہے جو عقائدِ جدیدیت کے ہاتھوں قلبِ ماہیت کروا چکا ہو۔ گزشتہ ایک صدی سے مسلمان جدیدیت پرست ایک اسلامی نشاۃ ثانیہ کے بارے میں بڑیں ہانک رہے ہیں مگر ابھی تک ایسی کوئی چیز عمل میں نہیں آئی، کم از کم جدید یوں کے ہاں سے تو بالکل نہیں آئی۔ اس کی وجہ بالصراحت یہ ہے کہ وہ اس مذکورہ تنقیدی نظر سے جدید دنیا کے گہرے علم سے اور ان وسائل سے بے بہرہ ہیں جو دنیائے جدید کی آنی جانی، روز بدلتی اقدار کو اسلام کے ابدی اُصولوں کی روشنی میں جانچنے پرکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ اسلام کے اہل دانش کی طرف سے خطاب کرنے والے اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ بروئے کار لانے کے متمنی لوگ مغرب کے مقابلے میں احساس کمتری کے نقطۂ نظر سے بات کرنا چھوڑ دیں اور خود آگے بڑھ کر جدید دنیا پر اس ماوراء الطبیعیاتی فرقان کی تلوارلگائیں جو اپنی خالص ترین شکل میں کلمۂ شہادت میں موجود رہے۔

اس تناظر میں زوال اور انحراف کے معنی بھی واضح ہو جاتے ہیں۔ زوال ہمیشہ ایک کامل معیار سے گر جانے سے عبارت ہوتا ہے بشرطیکہ آپ ہنوز اسی معیار سے متعلق راستے پر گامزن ہوں، جب کہ انحراف کا مطلب ہے کہ آپ اس معیار کو بالکل ہی ترک کر دیں۔مزید براں زوال کی دو قسمیں ہیں۔

۱

– زوال فعالActive Decadence

۲

– زوال منفعل Passive Decadence

ایک وہ جو گزشتہ چند صدیوں میں مشرق کی تہذیبوں پر طاری ہوا ہے(یعنی زوال منفعل) اور دوسرا وہ جس کی پیروی اسی دور میں مغرب نے کی ہے اور جو مغرب کی حرکی اور فعال خاصیت کی وجہ سے صحیح معنوں میں انحراف بن گیا ہے۔( زوال سب تہذیبوں پر آتا ہے مگر اس زوال کے انداز الگ الگ رہے ہیں، مشرق کا زوال انفعالی ہے اور مغرب کا حرکی۔ مشرق کا زوال اس کی لغزش سے ہوا کہ اس نے سوچنا چھوڑ دیا ہے : مغرب کا زوال زیادہ سوچنے اور غلط سوچنے سے ہے۔’’مشرق حقائق پر محوِ خواب؛ مغرب گمراہیوں میں زندہ ہے۔‘‘) بہت سے مسلمانوں اور دوسرے مشرقیوں نے اس فعالیت کو غلطی سے سچی زندگی سمجھا ہے صرف اس لیے کہ انھوں نے اسے مشرق کی روایتی دنیا کی نسبتاً کم فعالیت اور عمل کے متضاد پایا ہے۔ تعجب یہ ہے کہ آج بہت سے جدیدیت زدہ مشرقیوں کی چشمِ حیراں کے سامنے مغرب کا یہ انحراف زوال کی ایسی شکل اختیار کر رہا ہے جس کی شناخت خود ان کے لیے بھی آسان ہے۔ بلکہ فی الحقیقت یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید مغربی تہذیب کی زندگی کی قوس جس کا آغاز قرونِ وسطی میں مغرب کی روحانی Normalcy فسخ کرنے سے ہوا تھا، ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ سے ہو کر انحراف اور زوال کو پہنچ رہی ہے اور یہ آخری مرحلہ گزشتہ دو دہائیوں میں پہلے سے کہیں زیادہ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ جدید یت پرستوں کے مذکورہ گروہ نے اسلام کی جو تعبیر کر رکھی ہے اگر اس کی قوس بنائی جائے تو وہ زوال سے نشاۃ ثانیہ اور وہاں سے انحراف تک جائے گی اور اس انحراف کے بعد زوال کا ایک اورمرحلہ بھی یقینا ہوگا مگر یہ زوال اس قسم کے زوال سے مختلف ہوگا جس کے علاج سے جدیدیت پرستوں نے آغاز کیا تھا تاہم اسلامی روایت کی کلیت خوش قسمتی سے اس عمل سے بلند ہی رہی ہے۔

زوال تک پہنچانے والے اس پر فریب سلسلۂ انحراف سے بچنے کا صرف ایک راستہ ہے۔ اسلام کے ابدی اورغیر متغیر اُصولوں کا وفادار رہا جائے جو تمام رفت وبود سے بالاتر ہیں اور پھر ان اُصولوں کا اطلاق ہر اس صورتحال پرکیا جائے جس کا مسلمانوں کو سامنا ہو اور ہر اس ’’دنیا‘‘ پر کیا جائے جو ان کے سامنے آئے۔ کسی فانی ’دنیا‘ یا زمان و مکان کے آتے جاتے مجموعہ حالات کو اسلام کی تعلیمات اور اُصولوں کی حقانیت کی کسوٹی بنا لینا اشیا کی فطری ترتیب کو اُلٹ دینے کے مترادف ہے۔ جیسے گاڑی گھوڑے کے آگے جوت دی گئی ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے وقتی اور حادث کو قدیم کے لیے معیارِ نقد بنا لیا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس مہلک راہ کے لیے دَر وا ہوجائے گا جس پر مغرب روانہ ہوا تھا اور جس کا انجام وہ ناقابل حل پیچیدہ صورت حال ہے جس کا آج مغربی تہذیب کو سامنا ہے اور جو کرئہ ارض پر انسان کی ہستی کے لیے خطرہ بن گئی ہے۔

مسلمان دانشوروں کے لیے اس سے بہتر کرنے کا کام اورکیا ہو گا کہ وہ جدید مغرب کی تاریخ کے ان مراحل کے عمیق تر مطالعہ سے حاصل ہونے والے سبق سے فائدہ اُٹھائیں جو اسے اس کے موجودہ بحران تک لے آئے ہیں۔ اگر وہ اسلام کی وکالت کرنا چاہتے ہیں اور اس کی زندگی کی تجدید چاہتے ہیں تو انھیں سوچ لینا چاہیے کہ ان کے لیے یہ انتہائی کٹھن ذمہ داری ہو گی۔ انھیں یاد ہونا چاہیے کہ باطل کی زندگی سے حق کی موت بہتر ہے، اور اگر کوئی ملتِ اسلامیہ کی تجدیدِ حیات چاہتا ہو تو یہ تجدید ایسی زندگی کی ہونی چاہیے جس کی جڑیں عالمِ قدس میں گہری پیوست ہوں۔ زوال و انحراف سے بچنے اور ایک سچی نشاۃ ثانیہ تک رسائی کا اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں کہ وحی اسلام میں پائے جانے والے ان اُصولوں اور حقائق کا از سر نو اطلاق کیا جائے جو ہمیشہ سے مستند اور صحیح ہیں اور ہمیشہ صحیح رہیں گے۔ ان اُصولوں کا خارج کی دنیا پر اطلاق کرنے کے لیے پہلے ان کا اپنے اوپر اطلاق کرنا لازمی ہے۔ انسان اپنے گردو پیش کی دنیا کو پھر سے زندہ کرنے کے قابل تب ہوتا ہے جب وہ خود روحانی طور پر حیاتِ نو حاصل کر چکا ہو۔ آج کے تمام سچے مصلحین جدیددنیا کے ناکام مصلحین (جن میں نیک نیت بھی تھے) کی ناکامیوں سے جو سبق حاصل کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ دنیا کی حقیقی اصلاح کا آغاز اپنی اصلاح سے ہوتا ہے۔ جس نے اپنا آپ فتح کر لیا اس نے دنیا کو فتح کر لیا اور جس کے اندر اسلام کے اُصولوں کو پوری وسعت کے ساتھ تجدید ہوگئی اس نے اسلام کی ’’نشاۃ ثانیہ‘‘ کے لیے سب سے بنیادی قدم اُٹھا لیا کیونکہ صرف وہی شخص اپنے گردو پیش کی دنیا کے تنِ مردہ میں جان ڈال کر اسے حیاتِ نو بخش سکتا ہے جو خود الحق تعالیٰ میں پھر سے زندہ ہو چکا ہو۔ اس ’’دنیا‘‘ کی حدود کیا ہوں گی، یہ مشیت الٰہی پر منحصر ہے۔