بنا کسی گہری یا فلسفیانہ بحث میں جائے خدا کے وجود کو ثابت کرنے لیے جب ہم بات کرتے ہیں تو یہ بدیہی استدلال اس طرح دیا جائے گا کہ
1۔ ہر چیز کا کوئی خالق ہے۔ (بدیہی مشاہدہ)
2۔ کائنات میں ہم جو بھی بنتا بگڑتا دیکھتے ہیں اس کے لیے کوئی نہ کوئی ذمہ دار ہے۔ کوئی کار خانہ، کوئی کشتی، کوئی عمارت، کوئی بھی گاڑی، اپنے آپ نہیں بنتی۔ ہر چیز بنائی جاتی ہے۔ (بدیہی مشاہدہ)
3۔ ایک پینڈو گنوار کے ہاتھ میں بھی اگر چاول یا گندم کی بوری لاکر رکھ دی جائے تو وہ یہ نتیجہ نکالنے میں قطعاً متردد نہیں ہوگا کہ ان چاول یا گندم پر کاشت سے لے کر کٹائی اور صفائی تک کا ایک دور گزرا ہے۔ (بدیہی مشاہدہ)
4۔ مرغی کے انڈے میں ایک بچے کی پیدائش کیونکر ممکن ہوئی؟
ان تمام مشاہدات کی روشنی میں ایک ہی توجیہہ بنتی ہے کہ کوئی نادیدہ طاقت ہے جو انڈے میں بچے کو بنانے کا کام کرتی ہے۔
واضح رہے کہ یہاں بحث یہ نہیں کہ وہ طاقت اس بچے کو بنانے کا کام کیسے کرتی ہے؟ لیکن کرتی ہے۔ یہ ضروری امر ہے۔
یہ تو بات ہوئی ایک انڈے کی۔
اب آجائیں کائنات پر۔
ایک پینڈو گنوار شخص یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ جس طرح ہر چیز کو بنانے والا کوئی ہے اس طرح کائنات بھی کسی نے بنائی ہے۔ یہ بات کتنی غیر منطقی ہوسکتی ہے اس میں نِزاع ہے۔ البتہ ایک بات ضرور ہے۔ وہ یہ کہ ایک سادہ سی منطقی تفہیم رکھنے والا شخص کم از کم اس بات پر خود کو آمادہ قطعاً نہیں کرسکتا کہ یہ کائنات اپنے آپ بن گئی۔ یہ اپنے آپ بننے والا فارمولا ہر کسی کو ہضم نہیں ہوتا۔ ایک بدیہی مشاہداتی علم کی موجودگی میں یہ اپنے آپ اور خود بخود والے مرحلے کو کس طرح سمجھایا جائے؟ دوسری طرف اے بائیو جینیسس کے نظریے میں جب یہ کہا گیا کہ مٹی اور کیچڑ میں مچھر اور مکھیاں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں تو یہاں ٹھنڈا ہوکر بیٹھنے کی بجائے مزید تحقیقات جاری رکھیں اور ثابت کیا گیا کہ ایسا نہیں ہوتا۔ خود بخود کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی جاندار تو چاہیے جو جاندار پیدا کرسکے۔
مسئلہ یہاں آکر پیدا ہورہا ہے کہ ہر چیز میں “مادی اسباب” کارفرما ہیں۔ اس وجہ سے اس نادیدہ طاقت یا “خدا” کا انکار کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک اور بات جو بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا یہ مادی اسباب خود بخود چل رہے ہیں؟ یا ان کو کوئی گائیڈ بھی کہیں سے مل رہی ہوتی ہے۔ اگر آپ اسے یہ کہیں کہ یہ مادہ کی خصوصیات ہیں تو سوال اٹھے گا کہ کیا مادہ کی “خصوصیات” کا کوئی حقیقی وجود ہے؟ یا یہ فرضی داستان ہے؟ اگر وجود ہے تو ان خصوصیات کا تعین کون کرے گا؟ ایک بات تو طے ہے کہ آپ مادی اسباب اور خصوصیات کی موجودگی کا جھانسہ دے کر جان نہیں چھڑا سکتے۔ پانی یونٹ ایٹموسفیرک پریشر پر سو درجہ حرارت سیلسیس پر ابلے گا۔ یہ قانون خود ہی طے ہوا یا اس “قانون” کا کوئی سبب ہوگا؟ اگر سبب ہوگا تو اس سبب کا کیا سبب ہوگا؟ اور یہ سبب کی کڑی کی شروعات کہاں ہوگی؟ یا پھر سوال یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ “سبب” اپنی ماہیت میں کیا چیز ہے؟ اور یہ کہاں سے اور کیسے وجود میں آئی؟ مادے کو کس نے اس “سبب” کا پابند بنایا؟
ایک بیج کو جرمنیشن کے لیے بنیادی طور پر تین چیزیں ضروری ہیں۔ پانی، آکسیجن اور مناسب درجہ حرارت۔ ان کی موجودگی میں وہ بیج جرمنیٹ کرتا ہے۔ لیکن لیکن لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن کیوں؟
انہی کی موجودگی میں کیوں؟
خدا کی غیر موجودگی کا مقدمہ لڑنے والے سائنس کو ہتھیار بنا کر خدا کا غیر دریافت شدہ ہونا اس کے غیر موجود ہونے پر محمول کرتے ہیں۔ لیکن وہ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں کہ سائنس کہیں بھی خدا کی غیر موجودگی کا مقدمہ نہیں لڑتی۔ ہاں یہاں یہ سوچ ضرور کام کرتی ہے کہ ہر چیز میں مادی اسباب کا دخل ہے۔ اس جھانسے کی بات اوپر گزر چکی ہے۔
اب اسی انڈے پر آجائیں۔ جی جی مجھے معلوم ہے، آپ کہیں گے انڈے سے بچے خدا نہیں نکالتا۔ اس کے سوتے ہوئے ایمبریو کو جگانا پڑتا ہے۔ مناسب آب و ہوا کی موجودگی میں جب بیضہ جاگتا ہے تو بچے کی پیدائش شروع ہوتی ہے۔
آپ ٹھیک ہیں۔ مجھے اس بات سے کوئی انکار نہیں۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ آپ خدا کے کسی چیز کے پیدا کرنے کو اس کے “ہاتھ” سے نقش و نگار کرنا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ نظریہ غیر ممکن ہے۔ یہاں نزاع لفظی یا پھر تصوراتی ہے۔ تخلیق (Creation) اور طریقۂ تخلیق (process of creation) کا ہے۔ آپ یہ کہیں گے کہ انڈہ بغیر کسی رہنمائی (Guidance) کے بچے میں بدل جاتا ہے۔ اور ہم کہتے ہیں اسے رہنمائی ملتی ہے اس خاص میٹا بولزم اور ری ایکشنز کے اس خاص ترتیب (Sequence) میں ہوتے رہنے کی۔ گویا آپ جسے سائنسی یا فطری عوامل کہیں گے اسے ہم طریقۂ تخلیق کہتے ہیں۔
تحریر: مزمل شیخ بسمل