مسئلہ رویت باری تعالی اور قرآن

قرآن نے مشرکین مکہ کی بھی اس فرمائش کا ذکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتے کیوں نہیں نازل کیے جو ہمارے سامنے آکر آپﷺ کی نبوت و رسالت کی شہادت دیتے کہ یہ شخص دعوائے نبوت میں صادق ہے یا ہم بلاوسطہ اللہ کو دیکھتے اور بلاوسطہ خود اللہ تعالیٰ سے آپکی بابت پوچھ لیتے اور اللہ تعالیٰ ہم کو خود بتلا دیتا کہ یہ شخص میرا نبی ہے۔ اللہ ٰ نے ان کے اس جاہلانہ اور مغرورانہ سوال کے جواب میں یہ ارشاد فرمایا کہ یہ لوگ بڑے ہی سرکش اور متکبر ہیں کہ یہ اپنے آپ کو اس مرتبہ کا سمجھتے ہیں کہ خود اللہ تعالیٰ کو دیکھیں اور خود اللہ تعالیٰ سے آپکی بابت دریافت کرلیں یا کوئی فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر ان کے پاس آئے ۔

وَقَالَ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْمَلٰۗىِٕكَةُ اَوْ نَرٰي رَبَّنَا ۭ لَـقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِيْرًا (سورہ الفرقان آیت 21)

جن لوگوں کو یہ توقع ہی نہیں ہے کہ وہ (کسی وقت) ہم سے آملیں گے، وہ یوں کہتے ہیں کہ : ہم پر فرشتے کیوں نہیں اتارے جاتے ؟ یا پھر ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ہم خود اپنے پروردگار کو دیکھ لیں ؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں۔ (٦) اور انہوں نے بڑی سرکشی اختیار کی ہوئی ہے۔

وفی سورة الاسراء

اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاۗءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلٰۗىِٕكَةِ قَبِيْلًا (سورۃ الاسرا، آیت 92)

یا جیسے تم دعوے کرتے ہو، آسمان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اسے ہم پر گرا دو ، یا پھر اللہ کو اور فرشتوں کو ہمارے آمنے سامنے لے آؤ۔

گویا کفار و مشرکین نے ایمان لانے کے لیے فرشتوں اور خدا تعالیٰ کو اپنے سامنے لا کھڑا کرنے کی شرط عائد کی ۔ اللہ نے فرمایا کہ ان کو فرشتوں سے ملاقات کا شوق ہے تو ہم ان کا یہ شوق بھی پورا کردیں گے جب ان کی موت کا وقت قریب آئے گا ۔ جس دن یہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس وقت یہ لوگ کہیں گے (ویقولون حجراً مجوراً)کاش ہمارے اور اس خوفناک منظر کے درمیان کوئی آڑ ہوتی اور ہمیں یہ خوفناک منظر دیکھنا نہ ہوتا ۔(ابن کثیر ص ٤١٣ ج ٣ )ان لوگوں نے اپنے دل میں اپنے کو بہت بڑا سمجھ رکھا ہے جو وحی اور فرشتوں کے آنے کی تمنا رکھتے ہیں ، باوجود ایسی سیاہ کاریوں کے دنیا میں ان آنکھوں سے خداوند قدوس کو دیکھنے اور شرف ہم کلامی سے مشرف ہونے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

بالفرض فرشتے اگر اپنی اصلی صورت میں آتے ہیں ، تو ان کو دیکھنے کی یہ تاب ہی کہاں سے لاسکیں گے۔ اور اگر آدمی کی شکل میں آئیں گے ، جیسا بعض اوقات آدمی کی شکل میں آئے بھی ، تو یہ کیسے سمجھ سکیں گے کہ یہ فرشتے ہیں۔ پھر ان کو فرشتہ ثابت کرنے کے لئے دوسرے فرشتوں کی ضرورت ہوگی۔ جب یہ فرشتوں کو ان کی اصلی صورت میں دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے اور آدمی کی شکل میں ہونے کی صورت میں ان کو فرشتہ باور کرنے کی سمجھ نہیں رکھتے ، تو پھر یہ خدا کو کیسے دیکھ سکتے ہیں ، اس لئے کہ کوئی آنکھ نہ تو خدا کو دیکھ سکتی ہے اور نہ ہی اس کا ادراک کرسکتی ہے۔ انہوں نے رسول اللہ ؐ کے پیش کئے ہوئے معجزات کو اور اس قرآن کو کافی نہیں سمجھا ، جس کی نظیرلانے سے تمام انسان اور جن عاجز رہے ، تو پھر فرشتوں کو دیکھ لینا ان کے لئے کیسے کافی ہو سکتا تھا ؟


٭اللہ کی ذات ایسی ہے کہ :

لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ ۡ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ ۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ (سورۃ الانعام آیت 103)

نگاہیں اس کو نہیں پاسکتیں، اور وہ تمام نگاہوں کو پالیتا ہے۔ اس کی ذات اتنی ہی لطیف ہے، اور وہ اتنا ہی باخبر ہے۔

یعنی آنکھیں نہ ہی اسکی ذات کی حقیقت سے واقف ہوسکتی ہیں اور نہ ہی اسکی ذات کا ادراک کرسکتی ہیں۔ تمام مخلوق کی نگاہیں مل کر ‘ تمام خوردبین اور دور بین مل کر بھی اگر کوشش کریں تب بھی وہ نظر نہیں آسکتا۔ ” اے برترازگمان و قیاس و خیال و وہم “۔ تمام آنکھوں کی مجموعی طاقتوں سے بھی وہ اتنا عظیم ہے ‘اتنا مخفی ہے ‘ اتنا غیر مرئی ہے ‘ اتنا غیر محسوس ہے ‘ اتنا نزدیک یا دور ہے ‘ یا اتنا بلند ہے یا اتنا عمیق ہے کہ اس کو آنکھیں پا نہیں سکتیں۔ آنکھیں صرف ٹھوس یا سیال یا ایک خاص کیفیت کی اشیاء کو پاسکتی ہیں اور وہ بھی ایک خاص فاصلہ پر۔ نہ بہت زیادہ قریب نہ بہت زیادہ دور اور وہ ان سب حد بندیوں سے ورا ہے۔اسکی ذات وصفات لامحدود ہیں۔ مخلوقات کی بصارت ‘ بصیرت ‘ حواس اور قوت ادراک سب محدود ہیں۔ بھلا محدود میں لامحدود کیوں کر سما سکتا ہے۔چنانچہ تمام عقلا ‘ علماء اور صوفیا کا متفقہ عقیدہ رہا ہے کہ اس فانی زندگی میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ و ادراک ناممکن ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انسانی نظر ‘ انسان کے حواس ‘ اور انسان کا ذہنی ادراک یہ سب قوتیں اسے صرف اس لئے دی گئی ہیں کہ وہ اس کائنات کے ساتھ تعلق کی نسبت سے اپنے معاملات طے کرسکے اور اس کرہ ارض پر منصب خلافت کی ذمہ داریاں ادا کرسکے اور اس مخلوق کائنات کے صفحات میں وجود باری پر دلالت کرنے والے آثار سے اس کو پہچانے ۔ رہی ذات باری کی حقیقت تو وہ اس طاقت ہی سے محروم ہیں جس کے ذریعے وہ اس کا ادراک کرسکیں ۔ اس لئے کہ ایک حادث اور فانی وجود کے اندر وہ قدرت ہی نہیں ہے کہ وہ ازلی اور ابدی ذات کا ادراک کرسکیں ۔

معتزلہ اور خوارج نے اس آیت سے یہ اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار اس دنیا میں اور آخرت میں ناممکن ہے۔الفاظ پر یہ شبہ پیش کیا گیا ہے کہ جب انسانی آنکھیں حق تعالیٰ کی دید کر ہی نہیں سکتیں تو پھر جنت میں اس کی رویت مومنین کو کیسے ہوگی ؟ نیز معراج میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کیسے ہوئی ؟ مفسرین محققین نے شبہ کو نقل کرکے مفصل وشافی جوابات دیئے ہیں۔ ایک مختصر اور سیدھا جواب یہ ہے کہ یہاں ذکر اس مادی دنیا کے قوی کا ہے۔ جنت میں تو قوی ہی دوسرے ہوں گے عالم دنیا میں نفی دیدار سے جنت کے دیدار کو تعلق ہی کیا ؟ دنیا میں دیکھنے کے جو اصول ہیں ، آخرت میں رویت الٰہی کے ضابطے اس سے الگ ہیں ، الہٰذا ان دونوں میں ایک کو دوسرے پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو اپنے شرف دیدار سے مشرف کرنا چاہتا ہے تو اس میں ایسی قوت پیدا کردیتا ہے جس سے وہ دیدار کرسکتا ہے۔ مثلا آخرت میں مومنین کو حسب مراتب رویت ہوگی جیسا کہ نصوص کتاب و سنت سے ثابت ہے یا بعض روایات کے موافق معراج کی رات نبی کریم ؐ کو ۔ لیلتہ الاسراء میں رویت ہوئی علی اختلاف الاقوال لیکن ہمارا ذہن و فکر اس بات کا فیصلہ نہیں کرسکتا کہ آپ نے اللہ کے نور کا کس حد تک مشاہدہ فرمایا۔

عالم دنیا میں حق تعالیٰ کی ذات کا مشاہدہ اور زیارت نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب یہ درخواست کی کہ رَبِّ اَرِنِی ” اے میرے پروردگار مجھے اپنی زیارت کرا دیجئے “۔ تو جواب میں ارشاد ہوا کہ لَن تَرَانِی ” آپ ہرگز مجھے نہیں دیکھ سکتے “۔ پھروہ ایک تجلی کی بھی تاب نہیں لاسکے۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ الصلوٰة والسلام کو جب یہ جواب ملتا ہے تو پھر اور کسی جن و بشر کی کیا مجال ہے، البتہ آخرت میں مؤمنین کو حق تعالیٰ کی زیارت ہونا صحیح و قوی احادیث متواترہ سے ثابت ہے، اور خود قرآن کریم میں موجود ہے :

وجوہ یومئذ ناضرۃ الی ربھا ناظرۃ “۔ (آیت : ٢٢: ٢٣)

” قیامت کے روز بہت سے چہرے تروتازہ ہشاش بشاش ہوں گے اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے “۔

مفسرین سلف میں سے بعض نے ادراک کو احاطہ کے معانی میں لیا ہے یعنی نگاہیں کبھی اس کا احاطہ نہیں کرسکتیں۔ اور یہ ظاہر ہے کہ احاطہ صرف اس چیز کا کیا جاسکتا ہے جو محدود ہو اور کسی خاص سمت میں پائی جاتی ہو۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات نہ تو محدود ہے اور نہ کسی خاص جہت میں موجود۔ اس لئے اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔

دنیا میں انسان اور اس کی نظر میں اتنی قوت نہیں جو اس طرح کی رویت کو بھی برداشت کرسکے، اس لئے دنیا میں رویت مطلقًا نہیں ہو سکتی، اور آخرت میں قوت پیدا ہوجائے گی، تو رویت وزیارت ہوسکے گی، مگر نظر میں ذات حق کا ادراک /احاطہ اس وقت بھی نہ ہو سکے گا۔قیامت کے دن اللہ نظر آئے گا مگر صرف اس کا ایک خفیف رخ۔ اس وقت بھی نگاہیں اس کے جمال و جلال کا احاطہ نا کرسکیں گی ، صرف ایک جلوہ نظر آئے گا۔ دنیا میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک ہی تجلی میں بیہوش ہو کر گرپڑے تھے۔ آخرت میں لوگ بےہوش نہ ہوں گے چونکہ انہیں اتنی طاقت عطا کی جائے گی۔

صحیح مسلم میں حضرت صہیب (رض) کی روایت ہے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اہل ایمان جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جو نعمتیں تمہیں جنت میں مل چکی ہیں ان سے زائد اور کچھ چاہیے تو بتائو کہ ہم وہ بھی دیدیں۔ یہ لوگ عرض کریں گے یا اللہ آپ نے ہمیں دوزخ سے نجات دی ‘ جنت میں داخل فرمایا اس سے زیادہ ہم اور کیا چاہ سکتے ہیں۔ اس وقت حجاب درمیان سے اٹھا دیا جائے گا اور سب کو اللہ تعالیٰ کی زیارت نصیب ہوگی۔ اور یہ نعمت جنت کی تمام دوسری نعمتوں سے بڑھ کر ہوگی “۔

حضرت ابن عمر (رض) کی ایک روایت ترمذی اور مسند احمد میں ہے کہ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو جنت میں خاص درجہ عطا فرمائے گا ان کو ہر صبح و شام دیدار الٰہی نصیب ہوگا۔

مختصر یہ کہ اس دنیا میں اللہ کا نظارا ناممکن ہے۔ آخرت میں بھی اتناہی کچھ نظر آئے گا جتنی اجازت ہوگی۔ بصارت اور قوت ادراک دونوں اجازت کی حد سے ایک قدم آگے نہ بڑھ سکیں گی۔

کہا جاسکتا ہے کہ دیکھنا تو بغیر جہت اور سمت کے ناممکن ہے ‘ پھر آنکھ میں اور اس چیز میں جس کو دیکھا جا رہا ہو ‘ ایک محدود فاصلہ بھی ہونا چاہیے ‘ نہ بہت قرب ہو نہ انتہائی دُوری۔ پھر جس چیز کو دیکھا جائے اس کی کوئی خاص کیفیت بھی ہو ‘ ان شرائط کے بغیر دیکھنا ناممکن ہے اور خدا کی کوئی جہت نہیں ‘ وہ مکانی نہیں ‘ وہ ہر کیفیت اور مکانی قرب و بعد سے پاک ہے ‘ اس کو کیسے دیکھا جاسکتا ہے ؟ یہ حاضر پر غائب کا قیاس ہے ‘ ایسا نہ کرنا چاہیے۔ یہ شرطیں اس وقت دیکھنے کی ہیں اور مخلوق کو دیکھنے کی ہیں۔ خدا کو دیکھنا اور وہ بھی آخرت میں دیکھنا اپنی نوعیت جدا رکھتا ہے ۔

آج ملحد بھی ایٹم ، بجلی ، پروٹون اور نیوٹرون کی بات کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی نے اپنی زندگی کے اندر ایٹم ‘ کوئی برق ‘ کوئی نیوٹرون اور کوئی پروٹون نہیں دیکھا ہوا ‘ اس لئے کہ زندگی کی ماہیت کو دیکھنے کی دوربین ابھی تک وجود میں نہیں آسکی ۔ سائنس دانوں کے نزدیک یہ امور بہرحال مسلم ہیں اور وہ انکے وجود کو فرض کرتے ہیں ۔ اس لئے کہ انہوں نے ان چیزوں کے کچھ آثار متعین کر لئے ہیں ۔ جب وہ آثار پائے جاتے ہیں تو ان لوگوں کو یقین ہوجاتا ہے کہ وہ موجود ہیں اور کائنات بھی موجود ہے حالانکہ یہ صرف احتمال ہے کہ جس طرح انہوں نے فرض کیا ہے کائنات اسی طرح ہو ۔ تاہم جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ موجود ہے اس لئے کہ اس کے واضح آثار اور دلائل موجود ہیں تو پھر یہ لوگ وجود باری کے بارے میں بحث شروع کردیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اللہ ہوتا تو نظر بھی آتا ، ہمیں اللہ دکھا دو۔ ؟زیربحث آیت سے اگلی آیت میں ہی اللہ نے فرمایا :

قَدۡ جَآءَكُم بَصَآٮِٕرُ مِن رَّبِّكُمۡ‌ۖ فَمَنۡ أَبۡصَرَ فَلِنَفۡسِهِۦ‌ۖ وَمَنۡ عَمِىَ فَعَلَيۡهَا‌ۚ وَمَآ أَنَا۟ عَلَيۡكُم بِحَفِيظٍ۬ (١٠٤)

آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے کہہ دیجئے کہ) اب بلاشبہ تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے حق بینی کے ذرائع (یعنی توحید و رسالت کے حق ہونے کے دلائل عقلیہ و نقلیہ) پہنچ چکے ہیں سو جو شخص (ان کے ذریعہ سے حق کو) دیکھ لے گا وہ اپنا فائدہ کرے گا، اور جو شخص اندھا رہے گا وہ اپنا نقصان کرے گا اور میں تمہارا (یعنی تمہارے اعمال کا) نگران نہیں ہوں (یعنی جیسا نگرانی کرنے والے کے ذمہ ہوتا ہے کہ ناشائستہ حرکت نہ کرنے دے، یہ میرے ذمہ نہیں، میرا کام صرف تبلیغ ہے)۔