سائنس حسیاتی (طبیعیاتی) مشاہدوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تفہیم کا نام ہے۔ عقل ایک فریب ہے۔ ایک قضیہ بناتی ہے۔ درمیان میں چھوڑ کر دوسرے کی طرف ہاتھ بڑھاتی ہے۔ پھر تیسرے۔ اس کے بعد چوتھے۔ اور یہ سلسلہ شروع سے یونہی چلتا چلا جا رہا ہے۔ عقل ہمیشہ سے مقبولیت کے تابع رہی ہے۔ عقل سے تشکیل کردہ کوئی بھی نظریہ جب تک مقبولیت پکڑتا ہے تب تک عقل آگے جاچکی ہوتی ہے۔ فلاسفہ نئی تشریحات کے نئے میدانوں اور نئے زاویوں تک رسائی پاچکے ہوتے ہیں۔ پھر وقت ارتقائی منازل سے گزرتا ہے۔ تعقلات کے نئے دروازے کھلتے ہیں۔ بحث در بحث اور تردید در تردید کے بے پایاں ادوار کھولے اور بند کیے جاتے ہیں۔ کئی راہوں پر چل کر دیکھا جاتا ہے۔ لیکن منزل آنے سے پہلے ہی کسی دوسری، مزید دلچسپ، مزید پُر کشش راہ کی طرف رخ کر لیا جاتا ہے۔ منزل تک کسی کی رسائی کبھی نہیں ہو پاتی۔
یہ تو ہوا ایک مسئلہ۔اب سوال یہ ہے کہ کیا کوئی چیز حتمی ہے ؟ یا حتمیت ممکن ہے؟
جواب تھوڑا پیچیدہ ہے۔ در اصل عقل کا فریب اس طرح کا ہے کہ یہ اپنے آپ کی تردید کرکے خود اس تردید کی بھی تردید کردیتی ہے۔ گویا اگر میں کہوں کہ عقل غیر معتبر ہےتو جملہ بذاتِ خود ایک جملۂ محال ہے۔ کیونکہ اس جملے کی ترکیب میں خود تعقلاتی سرگرمی موجود ہے جو عقل کی تردید کرکے خود ہی جملے کو مشکوک کردیتی ہے۔ یہ عقل کا وہ کثیف ترین پہلو ہے جہاں آکر تمام قضیے غیر معتبر ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے پاس عقلی سرگرمیوں کو ناپنے اور ان کی تصدیق و تردید کا کوئی بیرونی ذریعہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہمارے پاس معلومات کا ماخذ بھی دماغ ہے، اور نتائج کا منبع بھی۔ اب کوئی ایسا عقلی نظام جس کو بیرونی روشنی ہی نہ مل سکے اس کی صداقت یا صحت پر اعتبار کرنا کہاں تک درست ہوگا؟ یا اگر اعتبار کیا جائے تو اس سے حتمی نتیجوں کی کتنی امید کی جاسکتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم اس حادث کائنات کے غیر معتبر مظاہر سے وجود میں آنے والے قضیوں کی تفہیم کرکے حتمی نتائج کا استنباط کبھی نہیں کرسکیں گے۔
اس بات کا مطلب کیا ہے؟
دیکھیے سادہ سی بات ہے۔ عقل اپنے قضیے حسیاتی مشاہدوں یعنی قوتِ باصرہ، سامعہ، لامسہ اور دوسرے حسی ذرائع سے پیدا کرتی ہے۔ ان سارے مشاہدوں کی کوئی حتمی تصدیق ہمیں اپنے دماغ کے علاوہ کہیں سے حاصل نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ حسیاتی مشاہدوں کی تخلیق کا مرکز بھی دماغ ہے، اور اس سے بننے والے قضیوں سے نتائج پیدا کرنے کی سرگرمی بھی دماغ ہی کا کام ہے۔ گویا ہمارے پاس تصدیق کا کوئی بیرونی ذریعہ سرے سے موجود ہی نہیں۔
اب اس سے آگے آتے ہیں۔ سائنس کے میدان کی حقیقتوں کا جائزہ لیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ طبیعیاتی قوانین خود اس حسنِ ظن پر کھڑے ہیں کہ کوئی بھی طبیعیاتی مظہر جس طرح اب تک رونما ہوا ہے وہ اسی طرح رونما ہوتا رہے گا۔ زمین سورج کے گرد کل بھی اسی طرح گھومتی رہے گی۔ سورج کل بھی مشرق ہی سے طلوع ہوگا۔ چیزیں کل بھی زمین کی طرف آکر گرتی رہیں گی۔ منفی کی کشش مثبت کی طرف ہمیشہ جاری رہے گی۔ منفی منفی کو اور مثبت مثبت کو ہمیشہ اسی طرح دور دھکیلتا رہے گا۔ الیکٹران دو ہزار سال بعد بھی مرکزے کے گردحجوم میں رہیں گے ۔ توانائی کی ناکارگی ہمیشہ جاری رہے گی۔ کوانٹم ویکیوم فلکچویشن اسی طرح رہے گی جس طرح اب تک رہی ہے۔ طبیعیاتی کائنات کے یہ سارے مظاہر اسی طرح ہوتے رہیں گے جس طرح ہوتے آئے ہیں۔ اسے فطرت کی مطابقت (Uniformity of Nature) کہا جاتا ہے۔ اور تمام انسان اس مطابقت پر اندھا یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ مطابقت اب تک دھوکہ دیتی نہیں پائی گئی۔ لیکن عین عقلی یا منطقی زاویے سے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ یا منطقی تضاد ہے۔ کیسا تضاد؟ یہ یقین کہ فطرت ہمیشہ اسی طرح برتاؤ کرے گی جس طرح اب سے ایک پائکو سیکنڈ پہلے کر رہی تھی۔ سائنس ہمیشہ اس مطابقت کے آگے سے اپنی بات رکھنا شروع کرتی ہے۔ اس سے پیچھے کے معاملات میں سائنس بھی ٹھیک عقائد ہی کی طرح اندھا یقین رکھ کر چلتی ہے۔ اور یہی وہ نکتہ ہے جہاں ہم سب بے بس، مجبور اور لاچار ہیں۔ اور یہی وہ مطابقت ہے جو ہمیں اس کائنات میں تنہائی اور کرب کی حالت میں چھوڑ دیتی ہے۔ اسی وجہ سے سٹیون ہاکنگ نے بیان دیا تھا کہ ہم کائنات کی کوئی حتمی تشریح کبھی نہیں کرسکیں گے۔ کیونکہ ہمیں اپنی اس کائنات میں فطرت کی اس مطابقت کے مقابلے پر متناقض مطابقت کہیں نہیں دکھائی دیتی۔ اور جب تک اس مطابقت کے مقابل کوئی مطابقت کا نظام دکھائی نہیں دیتا تب تک ہم اپنے اس نظامِ علم کی تفہیم کو مکمل کر ہی نہیں سکیں گے۔ طبیعیاتی مظاہر رونما ہوتے رہیں گے۔ ہم ہمیشہ قوانین پر قوانین اور نظریات پر نظریات ڈھونڈ کر دریافت کرتے چلے جائیں گے۔ یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوسکے گا۔ کیونکہ ہم کائنات کے آخری کونے سے غلاف کو اُٹھا کر باہر کا نظارہ کبھی نہیں کرسکتے۔
یہاں آکر دو باتیں طے ہوگئی ہیں۔ ایک تو یہ کہ عقل سے حتمی قضیوں کی امید بےکار ہے۔ دوسرا یہ کہ سائنس فطرت کی اس مطابقت کے تضاد سے کبھی باہر نہیں نکل سکتی۔ تو اب تیسرا مرحلہ خدا کی تلاش کا ہے۔ عام تعریف کے مطابق خدا کا وجود کائنات، قوانینِ کائنات، وقت اور طبیعی جہات وغیرھم سے ماورا ہے۔ گویا ہمیں خدا تعالی کے وجود کی تلاش کے لیے ان قیود سے آزادی نہ صرف یہ کہ ضروری ہے، بلکہ ناگزیر ہے۔ ہماری حالیہ منطق میں اب اور کوئی بڑی تبدیلی نہیں آنے والی۔ منطق کے جو بنیادی اصول صدیوں سے چلتے چلے آرہے ہیں وہ تقریباً مکمل ہیں۔ سائنس انہی کی بنیاد پر اپنی نظریات کی تعمیر کرکے نتائج کا استنباط کرتی ہے۔ لیکن تضادات سے پُر کائنات کے یہ داخلی مظاہر، ان سے حاصل ہونے والے “داخلی علم” کی روشنی، اور حسیاتی تجربات پر عقلی سرگرمیوں سے کشید کردہ نتائج کی یہ بہتات خدا کی تلاش کے لیے انتہائی طور پر ناکافی اور نامکمل ہے۔
ڈاکٹر مزمل شیخ بسمل