’’یہ ایک حیران کن بات ہے کہ کوئی بندہ اتنا بیوقوف ہو کہ وہ اس بات کا قائل ہو کہ یہ خوبصورت زمین ایٹموں (atoms) کے اتفاقی ملاپ (concourse) کے ذریعے پیدا ہوئی یا ہوسکتی ہے۔ (جون رے John Ray، انگریز نیچری (1705-1627) جس کو بہت سے سائنسدان موجودہ علمِ حیاتیات کا بانی تصور کرتے ہیں)
ایک مزاحیہ کالم بعنوان ’’ جرم کے پانچ بڑے بیوقوفانہ بہانے‘‘ کے نام سے لکھا گیا، جس میں ہالی ووڈ فنکارہ ونونہ رائیڈر (Winona Ryder) کی مشہورِ زمانہ چوری کا بھی ذکر کیا گیا جس کی پاداش میں اس کو 2002ء میں تین سال ٹرائل اور 480 گھنٹے سماجی خدمات کی سزا سنائی گئی۔ اس (فنکارہ) کا دعویٰ تھا کہ اس نے یہ چوری فلم کا ایک کردار ادا کرنے کے لیے کی تاہم وہ کبھی اس فلم کا نام ظاہر نہ کرسکی جس کے لیے وہ مفروضہ تیاری کر رہی تھی۔ ادکارہ کے دلائل اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ چور کے خلاف دی جانے والی قانونی سزا بعض ’’خصوصی صورتوں‘‘ میں مشہور اداکاراؤں کے لیے ساقط ہوسکتی ہے۔ ایسے احمقانہ دلائل حیران کن نہیں ہونے چاہئیں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ یہ ہالی ووڈ سے آئے ہیں اور ایک ایسے شخص کے دلائل ہیں جو انتہائی شدت سے اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لیکن وہ خاص رعایتیں جن کا تقاضہ الحاد کرتا ہے، قدرے زیادہ مضحکہ خیز ہیں۔ جب کوئی اس بات پر غور کرتا ہے کہ الحاد بنیادی دلائل سے بھی خاص قسم کا استثناء چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے سائنسی ہونے کے دکھاوے کو برقرار رکھ سکے۔ کوئی بھی بحث جو اس قسم کے دلائل پر مبنی ہو ظاہر ہے عقلی طور پر مضبوط قرار نہیں دی جاسکتی۔اور اسی لحاظ سے الحاد کی حمایت میں دیے جانے والے بہت سے دلائل میں مسائل یا پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ملحد اکثر یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کے دلائل کو خصوصی رعایت یا استثناء مل سکتا ہے… بغیر یہ بتائے کہ کیوں؟
زندگی کی ابتداء اور ذہن:
مثلا یہ سوال زندگی بے جان مادے سے کس طرح وجود میں آئی؟اپنی تحریر’’زندگی خدا کے بغیر کیوں وجود میں نہیں آسکتی ‘‘ میں مَیں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ ماہرِ طبیعات پاوٴل ڈیوس (Paul Davis) اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ جینیاتی کوڈ (Genetic Code) کا زندگی کی دو زبانوں (آر این اے اور ڈی این اے )کے درمیان معلومات رسانی کا کام کرنا ایک معمّہ ہے۔ دماغ یا ذہن کے بغیر کوڈ اور زبانیں کیسے وجود میں آ سکتی ہیں؟
پیری مارشل (Perry Marshall) اپنی کتاب Evolution 2.0 میں اسکی سائنسی وضاحت کرتے ہیں کہ کیوں ڈی این اے لغوی طور پر ایک زبان ہے۔ یہ کوئی الپ ٹلپ کوڈ نہیں ہے ۔ لکھتے ہیں : “رٹگرز
جی (Ji) نے انسانی زبان کی تیرہ خصوصیات کی شناخت کی ہے۔ ان کے مطابق DNA میں ان تیرہ خصوصیات میں سے دس موجود ہیں۔ خلیے ڈی این اے میں تبدیلیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے سے بات چیت بھی کرتے ہیں اور حقیقی طور پر ایک زبان جس کو جی نے ’’cellese‘‘ کا نام دیا’ بولتے ہیں جو کہ مالیکیول کا خود کو منظم کرنے والا نظام ہے، ان میں کچھ جینیاتی بنیادوں پر خلیوں میں چلنے والے عمل کے لیے ضروری معلومات فراہم کرتے ہیں، کچھ علامت کا کام کرتے ہیں اور کچھ اِس سارے کھیل میں محرّک
انسانی زبان اور خلیوں کی زبان کے درمیان کیا جانے والا یہ موازنہ کوئی الپ ٹلپ مثال نہیں، یہ بلامبالغہ اور لغوی ہے۔ انسانی زبان اور خلیوں کی زبان دونوں تہہ بہ تہہ علامات کا استعمال کرتی ہے۔ ڈاکٹر جی (Ji) اپنے ایک پرچے میں اس مماثلت کو یوں بیان کرتے ہیں: ’’بیکٹیریائی جراثیموں کے درمیان ہونے والے کیمیائی مکالمے میں دوسرے کی بات یعنی الفاظ اور جملوں کو مطلب پہنانا بھی شامل ہوتا ہے اور اپنی پہنچانا بھی، جو کہ لسانیاتی پیغام رسانی کی بنیادیں ہیں۔‘‘ یہی بات جینیاتی مواد (genetic material) پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ خلیوں کے درمیان اشاروں کے ذریعے سے جو گفتگو ہوتی ہے وہ بھی اسی طرز کی ہوتی ہے۔
الحاد زندگی کی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے بے شعور کیمیائی اور طبیعاتی نظاموں کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن الحاد کے لیے ناقابلِ حل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے بے دماغ نظاموں کو اس ڈی این اے کا خالق نہیں ٹھہرایا جاسکتا جو کہ ایک زبان ہے جو اشاروں اور علامات کو منظم انداز میں بالکل انسانی زبان کی طرح استعمال کرتی ہے۔جس طرح اخبار جس سیاہی اور کاغذ کی کیمسٹری پر مشتمل ہوتا ہے وہ اخبار پر موجود الفاظ کے حروف کی ترتیب کی وضاحت نہیں کرسکتی اسی طرح ڈی این اے مالیکیول کی کیمسٹری بھی اس کے اندر الفاظ کی ترتیب کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی۔ مائیکل پولینی (Micheal Polany) جو کہ یونیورسٹی آف مانچسٹر (UK) میں شعبہٴ طبیعیاتی کیمیا (Physical Chemistry) کے سابق چیئرمین رہ چکے ہیں اور طبیعیاتی کیمیا کے ضمن میں نظری (theoratical) خدمات کے حوالے سے مشہور ہیں، اس بات پر زور دیتے ہوئے کہتے ہیں ’’جس طرح “جس طرح ایک پرنٹ شدہ صفحے کا اس صفحے کی کیمسٹری سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ، اسی طرح ڈی این اے مالیکیول کی بنیادی ترتیب اس میں کام کرنے والی کیمیائی قوتوں سے لاتعلق ہوتی ہے”۔
چنانچہ یہ سمجھنا یا فرض کرنا کہ بے دماغ کیمیائی اور طبیعیاتی عمل کے ذریعے کوئی اخبار لکھا جاسکتا ہے، اتنا ہی مضحکہ خیز ہے جتنا یہ کہنا کہ ایسے کسی بے دماغ عمل کے ذریعے ڈی این اے کا ایسا نظم وجود میں آ سکتا ہے۔!
اسی طرح الفاظ کی ترتیب کسی بھی زبان میں کوئی ایسی چیز نہیں جو اصولی طور پر کسی بے دماغ کیمیائی یا طبیعیاتی عمل کے ذریعے حاصل کی جاسکے۔ ورنر گٹ(Werner Gitt) جرمن وفاقی ادارہ برائے طبیعیات اور ٹیکنالوجی میں ڈائریکٹر، پروفیسر اور شعبہٴ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے صدر رہ چکے ہیں۔ اپنی کتاب ’’بغیر بہانے کے (Without Excuse) میں وہ اس چیز کے کردار کے بارے میں لکھتے ہیں جس کو وہ ’’عالمگیر معلومات‘‘ (Universal Information) گردانتے ہیں:
’’عالمگیر معلومات ہمیشہ کسی موجود چیز کی تجریدی نمائندگی ہوتی ہیں ۔ یہ معلومات کبھی بھی اپنے آپ سے کوئی چیز یا واقعہ نہیں ہوتی بلکہ بنائی گئی علامات ہوتی ہیں جو پیش کی جانی والی چیزوں کی نمائندگی کرتی ہیں ۔مختلف زبانیں عموما علامات کا مختلف مجموعہ استعمال کرتی ہیں اور ایک ہی شے یا نظریہ کو بیان کرنے کے لیے مختلف علامات کی ترتیب رکھتی ہیں ۔ ان مثالوں کو دیکھیں:
’’ایک ناول میں پائے جانے والے الفاظ جو کہ حروف پر مشتمل ہوتے ہیں، کرداروں اور ان کے اعمال کے متبادل کا کام دیتے ہیں۔‘‘
’’موسیقی کی لکیریں جو نوٹس پر بنائی جاتی ہیں اس موسیقی کا متبادل ہوتی ہیں جو بعد میں آلاتِ موسیقی کے ذریعے بجایا جاتا ہے ۔‘‘
’’بینزین (Benzene) کا کیمیائی فارمولا اس کیمیائی مادے کا متبادل ہے جو ایک صراحی میں علمِ کیمیا کے تجربہ خانے میں پڑا ہوتا ہے۔‘‘
’’ڈی این اے مالیکیول کے جینیاتی کوڈون (genetic codon) جو کہ تین حروف پر مشتمل ہوتے ہیں، مخصوص امینو ایسڈ (Amino Acid) کے متبادل کا کام کرتے ہیں جو کہ ایک مخصوص ترتیب میں جڑ کے پروٹین بنانے کا کام دیتے ہیں۔‘‘
کسی کوڈ یا زبان میں علامات کا متبادل کردار ایسی چیز ہے جو باشعور اور ذہین دماغ کی سرگرمی کے بغیر ممکن نہیں۔ورنر گٹ بڑی مہارت سے اس اہم نکتے کو بیان کرتے ہیں :
’’چند الفاظ کا مجموعہ کئی انداز میں مل کر لاتعداد یا بے شمار الفاظ بنا سکتا ہے۔ یہ الفاظ بے شمار جملے بنا سکتے ہیں اور یہی جملے کوئی بڑی عبارت بنانے کے کام آتے ہیں۔ مثال کے طور پر انگریزی زبان کے حروف a ، c اور t کو ایک لفظ ’’cat‘‘ بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ (ایک دودھ پلانے والا جانور جو خرخراتا ہے اور میاؤں میاؤں کرتا ہے)۔‘‘ ’’انہی حروف کو انگریزی زبان کا لفظ ’act‘ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے (ایک ایسا لفظ کہ جو سیاق و سباق کے پیشِ نظر کئی معنی اپنا سکتا ہے جیسے کہ ’’caught in the act‘‘ (رنگے ہاتھوں پکڑا گیا)، ’’the second act of the play‘‘ (کھیل / ڈرامے کا دوسرا کردار)، ’’act of Congress‘‘ (کانگریس کا قانون)، ’’perform a heroic act‘‘ (ایک بہادرانہ کام کرنا اور اسی طرح) قابلِ غور بات یہ ہے کہ حروف a ، c اور t کا اس چیز سے کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے جو یہ مل کر بناتے ہیں یا جو ان کے مرکب سے بنتی ہے۔ یہ حروف صرف اسی وقت بامعنی اور فائدہ مند بنتے ہیں یا ان حروف کو معنی اسوقت ملتا ہے جب کوئی ذہن ان کو طے شدہ معنی اورمتفقہ ترتیب میں ملاتا ہے۔
قصہ مختصر، ایک حرف یا علامت صرف اس چیز کی نمائندگی کرسکتی ہے جو کہ ایک باشعور اور ذہین دماغ نے پہلے سے طے کیا ہوتا ہے۔ علامتی نمائندگی یا علامتی اظہار کے لیے ذہنی کھپت لازمی ہے۔ وہ ماہرینِ حیاتیات جو الحاد سے انتہاء پسندانہ نظریاتی وابستگی نہیں رکھتے ‘ وہ یہ تسلیم کرنے میں بے تکلف واقع ہوئے ہیں کہ زندگی کی تخلیق کے پیچھے کوئی ذہن (باشعور اور ذہین دماغ) کارفرما ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی (Harvard University) کے نوبل انعام یافتہ ماہرِ حیاتیات جارج والڈ (George Wald) نے جو کہ اگرچہ نظریاتی طور پر مذہب سے منسلک نہیں ہیں ’’کائنات میں زندگی اور سوچ ‘‘ (Life and Mind in the Universe) کے عنوان سے منعقد ہونے والی کانفرنس برائے کوانٹم بیالوجی میں خطاب کرتے ہوئے کہا:
“مجھے حال ہی میں اس بات کا احساس ہوا ہے، اور مجھے اعتراف ہے کہ یہ میری سائنسی ادراک کے لیے ایک جھٹکا تھا کہ ان دونوں سوالوں (بے جان مادہ سے ذہن کی ابتداء اور زندگی کی ابتداء ) میں مناسبت/ہم آہنگی دیکھی جاسکتی ہے۔ البتہ اس میں یہ احتمال ہے کہ شعور، بجائے زندگی کے ارتقاء کے تسلسل میں آخر میں نمودار ہونے کی بجائے، ہمیشہ سے سانچے ڈھالنے والی قوت کی شکل میں موجود تھا، یعنی طبیعیاتی زندگی کے مبداء و کیفیت کی حیثیت سے- جس (شعور) کی طبیعاتی حقییقت اس طبعیاتی ذہن (دماغ) پر مبنی ہے۔ یہ شعور ہی ہے جس نے طبعیاتی کائینات بنائی ہے جس میں زندگی پلتی ہے اور یہاں تک ارتقاء کرتی ہے، وہ جاندار پیدا ہوتے ہیں جو: خود جانتے ہیں، تخلیق کرتے ہیں: سائنس، آرٹ ;اور ٹیکنالوجی بنانے والے ہیں۔”
مائیکروسافٹ کے بانی بل گیٹس لکھتے ہیں : ’’انسانی ڈی این اے ایک کمپیوٹر پروگرام کی طرح ہے لیکن اس سے بہت بہت زیادہ بہتر جو ہم نے اب تک بنایا ہے”۔ یہاں تک کہ دنیا کا سب سے من پھٹ ملحد ماہرِ حیاتیات رچرڈ ڈاکنز بھی اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ڈی این اے کمپیوٹر کی زبان سے بہت ملتی جلتی ایک زبان ہے۔ اپنی کتاب ’’جنت سے نکلا ہوا دریا : زندگی کا ڈارونی نقطہ نظر “‘‘ (River ouf of Eden : A Darwinian View of Life) میں ڈاکن لکھتا ہے: ’’جینیاتی ہدایات (یعنی جین کے کام کرنے کے لیے دی جانے والی ہدایات) پراسرار طور پر کمپیوٹر کو دی جانے والی ہدایات کی طرح ہیں۔ نہ سمجھ میں آنے والی اصطلاحات کا اختلافات ایک طرف، سالماتی حیاتیات (Molecular Biology) کے ایک شمارے کے صفحات کمپیوٹر انجنیئرنگ کے شمارے کے صفحات کے ساتھ بدلے جاسکتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح ایک اور جگہ ڈاکن لکھتا ہے: ’’کیا وجہ بنی کہ علمِ جینیات (Genetics) انفارمیشن ٹیکنالوجی (I.T) کی ایک شاخ بن چکی ہے۔ جینیاتی کوڈ حقیقت میں کمپیوٹر کے کوڈ کی طرح ڈیجیٹل ہے۔ یہ کوئی مبہم مثال نہیں، بلکہ واقعی حقیقت ہے۔‘‘
الحاد اس بات کی وضاحت نہیں کرسکتا کہ ایک کوڈ / زبان کسی ذہن کے بغیر کیسے بن سکتی ہے۔
اس چیز کو فرض کرنے کے لیے کہ ایک کوڈ یا زبان بغیر کسی ذہن یا سوچے سمجھے عمل کے بغیر پیدا ہوسکتی ہے الحاد اس اصول سے ایک خاص قسم کا استثناء چاہتا ہے جس کے مطابق علامات اور اشاروں پر مشتمل زبان صرف اور صرف سوچے سمجھے عمل اور ذہانت کے نتیجے میں وجود پا سکتی ہے اور ملحد اس بات کی وضاحت کرنے سے بھی قاصر ہیں کہ انہیں یہ استثنا کیوں دیا جائے۔ ؟ اگرچہ ویونہ رائڈر کی اپنی چوری کے متعلق دی جانے والی وضاحت (جو تحریر کے شروع میں پیش کی گئی ) مضحکہ خیز طور پر فضول ہے لیکن اس نے پھر بھی ’’کوئی دلیل‘‘ تو پیش کی۔
ملحد اس اصول سے استثناء چاہتے ہیں جس کے مطابق صرف دماغ کے ذریعے کوڈ اور زبانیں بن سکتی ہیں کیونکہ یہ قبول کرلینا کہ ڈی این اے کوڈ ( زبان) کسی دماغ کے ذریعے وجود میں آئی ، الحاد کے لیے تباہ کن ہےلیکن وہ اس استثنا کی کوئی معقول وجہ نہیں رکھتے۔
ڈی این اے کی زبان کا بغیر کسی ذہن یا سوچ کے وجود پا لینے کا مفروضہ گھڑنے کی منطقی ضرورت آخر کیوں پیش آئی؟ اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ ملحد کسی ابدی اور دائمی شعور کے وجود کو قبول کرنے کو تیار نہیں- اگرچہ یہ علوم کائنات آسٹروفزکس (astrophysics) اور کونیات (cosmology) سے سب سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے (جیسا کہ ان تحاریر میں تفصیل پیش کی گئی :زمین کے کسی اتفاق کے طور پر پیدا ہوجانے کے کیا امکانات ہیں؟ اور’’ جدید طبیعیات الحاد کو کیوں مسترد کرتی ہے”؟)
یہ انکار منطقی ضرورت نہیں بلکہ انکی نظریاتی ضرورت ہے جیسا کہ اپنی تحریر میں میں اس بات کا ذکر کرچکا ہوں کہ قابلِ ذکر اور مشہور ملحد ماہرِین حیاتیات بھی جیسا کہ فرانسس کرک (Francis Crick) جو کہ DNA Double Helix کی دریافت کی وجہ سے مشہور ہیں اور رچرڈ ڈاکن( (God Delusion کے مصنف بھی بہت اچھی طرح یہ بات سمجھتے ہیں کہ بے جان سے جاندار کا وجود کسی ذہن کی کاروائی ہے۔اس لیے وہ مختلف توجیہات کرنے پر مجبور ہیں اس مضمون میں اس پر تفصیل موجود ہے کہ کس طرح کرک (Crick) نے اپنی کتاب ’’Life Itself‘‘ میں اس مفروضے یعنی ’’Directed Panspennia‘‘ کی تصدیق کی ہے جس کے مطابق زندگی خلائی مخلوق (Aliens) نے بنائی اور اپنی اُڑن طشتری میں زندگی کو زمین پر لے آئے۔‘‘ اور ایک وڈیو میں رچرڈ ڈاکن بھی اسی نظریے کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں ‘دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
کیا آپ زندگی کی ابتداء کی وضاحت کے لیے خلائی مخلوق کا اُڑن طشتری میں زندگی کو زمین پر لے کر آنے والے نظریے سے متفق نہیں؟ پریشان مت ہوں۔ الحاد دوسری وضاحتیں بھی دیتا ہے جیسا کہ Piggyback side on crystals؟ عجیب لگتا ہے؟ مایہ ناز ملحد مائیکل روس (Michael Ruse) اپنے ایک انٹرویو میں اس مفروضے کو بیان کر رہے ہیں۔ وڈیو دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
مایہ ناز ملحد نظریاتی ماہرِ حیاتیات (theoratical biologist) سٹوارٹ کاوٴفمین (Stuart Kaufmann) بے جان سے جاندار کی تخلیق کوحرارتی مرکبات کے چوتھے فرضی قانون(fourth law of thermodynamics) کا نتیجہ گردانتا ہے( ابھی تک حرارتی مرکبات کے صرف تین قوانین موجود ہیں ) لیکن ہم دیکھیں گے کہ یہ مفروضہ بھی ایک نہایت خاص قسم کی چھوٹ کا تقاضہ کرتا ہے۔ ولیم ڈیمبسکی نے اپنی کتاب No free lunch… Why specified complexity can not be purchased without intelligence میں کاوٴفمین کے مفروضے کا جواب دیا ہے۔
’’۔۔ان مجوزہ (قوانین) سے کاوٴفمین کے اخذ کردہ نتائج سے جو چیز بڑی آسانی سے واضح ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ قوانین اپنی ساخت یعنی شکل اور کردار کے لحاظ سے روایتی تینوں قوانین برائے حرارتی مرکبات سے بہت مختلف ہیں۔ روایتی قوانین برائے حرارتی مرکبات مخصوص بات بیان کرتے ہیں، یعنی یہ صرف اس چیز کا تعین کرتے ہیں کہ ایک طبیعیاتی عمل (physical system) میں کیا نہیں ہوسکتا۔ پہلا قانون برائے حرارتی مرکبات بتاتا ہے کہ ایک آئسولیٹڈ سسٹم میں مکمل توانائی نہ بڑھتی ہے اور نہ کم ہوتی ہے۔ دوسرے قانون کے مطابق آئسولیٹڈ سسٹم کی انقطاعِ توانائی ( Entropy ) کم نہیں ہوسکتی۔ تیسرے قانون کے مطابق چند محدود کاروائیوں سے آئسولیٹڈ سسٹم کا درجہٴ حرارت بالکل صفر تک نہیں لے جایا جاسکتا ۔ کاوٴفمین نے جو قوانین جواز کے طور پر پیش کیے ہیں وہ بالکل بھی اس طرح نہیں ہیں۔ بلکہ یہ فطرت میں پیچیدگی کے ظہور کی کیفیتی وضاحت فراہم کرتے ہیں، تاہم کوئی ایسا میکانیزم/ تکنیکی پہلو نہیں بتاتے جو کہ اس پیچیدگی کے ظہور کی وضاحت کیلئے کافی ہو”۔
قدرتی قوانین
’’طبیعیات اور کیمیا کے قوانین بالکل فٹ بال کے اصولوں کی طرح ہیں۔ ریفری اس چیز کو دیکھتے ہیں کہ ان اصولوں پر عمل کیا جارہا ہے لیکن یہ اصول جیتنے والے کے متعلق کچھ نہیں بتاتے۔ کھیل کے اصولوں میں اتنی معلومات نہیں ہوتیں کہ وہ اس بات کی پیشن گوئی کریں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کھیل کھیلتے ہیں۔ ماہر ریاضی کائٹن (Chaitin) فزکس کے قوانین کی پروگرامنگ کرکے اس کو چیک کیا ، اسے یہ نظر آیا کہ ان کا معلوماتی مواد حیران کن حد تک کم ہے”۔
قصہ مختصر کاوٴفمین (Kaufman) کا حرارتی مرکبات کا چوتھا فرضی قانون اس اصل اصول سے خصوصی استثناء چاہتا ہے کہ فطری قوانین اپنے سے کچھ تخلیق نہیں کرتے بلکہ صرف یہ بیان کرتے ہیں کہ کیا ممکن ہے ۔ یہ فرض کرنا کہ کوئی قدرتی قانون کسی چیز کے بننے کا سبب بن سکتا ہے (وہ چیز کسی زبان یا کوڈ کی تخلیق سے بھی کم تر ہو) یہ واقعی ایک خاص قسم کی رعایت اور چھوٹ ہے۔ یہ مفروضہ کہ حرارتی مرکبات کا چوتھا فرضی قانون یا کوئی اور قانون بے جان سے جاندار پیدا کرسکتا ہے اتنا ہی احمقانہ ہے جتنا کہ یہ خیال کہ ریاضی کے قوانین رقوم کے بینک اکاؤنٹ میں نظر آنے کا بھی سبب بن سکتے ہیں ۔ ویونہ رائڈر (Wiona Ryder) کی چوری کے جواز کے طور پر پیش کی جانے والی دلیل بھی کسی قدر مناسب معلوم ہوتی ہے جب اس کا تقابل کاوٴفمین (Kaufmann) کی اس دلیل کو درکار خاص رعایت سے کیا جائے۔
ڈین کینیون (Dean Kenyon) دنیا میں کیمیائی ارتقاء کے مایہ ناز سکالروں میں سے ایک اور زندگی کی ابتداء کو بیان کرنے کے لیے کیمیائی ارتقا پر مشتمل ذیادہ فروخت ہونے والے متن کے مصنف بھی ہیں ۔ ان واضح ثبوتوں کی بڑی تعداد نے آخرکار کینیون کو مجبور کردیا تھا کہ وہ اس نیچری نظریہ کو ترک کردیں اور خدا کی موجودگی کو تسلیم کر لیں ۔ ویڈیو دیکھیے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی (Oxford University) کے فلسفی اینٹنی فلو (Antony Flew) جنہیں فلسفیانہ سطح پر الحاد کے نظریاتی محاذ کا ہراول سپاہی قرار دیا جا سکتا تھا، انکا پیپر Theology and Falsification اپنے وقت میں دنیا میں فلسفے کا سب سے زیادہ بار بار پرنٹ ہونے والا کتابچہ تھا۔ لیکن جیسا کہ اس وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے، علمِ حیاتیات کے حقائق نے فلو (Flew) کو 2004ء میں اپنے ذہن کو بدلنے پر مجبور کردیا تھا ۔ اس بارے میں مزید جاننے کے لیے دیکھیے فلو (Flew) کی کتاب ’’There is a God: How the World’s Most Notorius Atheist Changed His Mind‘‘ ۔
تحریر سکاٹ ینگرین، ترجمہ عمار صابر چیمہ