خدا کا جاننا خیر کا جاننا ہے
ذرا تصور کیجئے کہ آپ اپنی دن بھر کی مصروفیات کے بعد تھکے ہارے گھر لوٹتے ہیں اور ٹی وی کے سامنے براجمان ہوجاتے ہیں۔ حسبِ معمول آپ مختلف چینلز کو کھنگالتے ہیں کہ اچانک ایک سرخی آپ کو حیران اور پریشان کردیتی ہے۔ اور اس سے بھی زیادہ تاسف اور بے چینی کا آپ شکار ہوتے ہیں، جب آپ کے سامنے یہ خبر چلتی ہے کہ ایک شخص نے پانچ سال کے ایک بچے کا سر تن سے جدا کردیا۔
اب میں آپ سے ایک سوال پوچھتاہوں کہ کیا اخلاقی طور پر اس شخص نے غلط کیا ؟ تو یقیناً اکثر لوگوں کی طرح آپ کا جواب بھی ہاں میں ہوگا۔ آپ سے اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا اس شخص نے معروضی طور پر بھی اخلاقی قبیح فعل سرانجام دیا ہے؟ تو تب بھی آپ ہاں میں جواب دیں گے۔
لیکن آخری سوال یہ ہے کہ معروضیت یا معروضی حقیقت کیا ہے؟ تو ادھر معاملہ تھوڑا نازک، اور پیچیدہ ہوجاتا ہے۔
معروضیت کی تعریف
اگر ہم لفظ معروضیت<1>undefined کی تعریف کریں تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لفظ مختلف حقائق کے بیان میں ذاتی تعصبات اور پسند و ناپسند سے بالاتر ہونا۔ اخلاقیات کے تناظر میں اس سے مراد اخلاقیات کا کسی کے ذہن پر منحصر نہ ہونا اور ذاتی احساسات، پسند و ناپسند سے ماورا ہونا ہے۔ اس کی مثال ریاضیاتی سچائی ‘ایک جمع ایک کا حاصل دو’ اور سائنسی حقیقت جیسا کہ ‘زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے’ سے بھی دی جاسکتی ہے، یہ جملے درست ہیں چاہے ہم جیسا مرضی محسوس کریں۔ چنانچہ اگر”اخلاق” ہم انسانوں سے نہیں بلکہ خارجی ہیں تو ان کی بنیاد کیا ہے؟ اگر معروضی اخلاقیات ہماری محدود سوچ اور خیالات پر منحصر نہیں ہیں، تو پھر ان سوالوں کے جواب چاہئیے ہیں: یہ کہاں سے آئے؟ انکی بنیاد کیا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے ایک منطقی بنیاد چاہیئے، اور وہی انکی معروضی حقیقت اور ماخذ کی وضاحت کرے گی۔ یہ تمام سوالات فلسفے کی ایک شاخ “علم الاخلاق” سے متعلق ہیں۔
معروضی اخلاقی سچائی کی وضاحت ایسے بھی کی جاسکتی ہے کہ یہ انسانی جانبداری اور ذاتیات سے ماورا ہیں۔ مثال کے طور پر ایک پانچ سالہ بچے کو مارنا ا خلاقی طور پر غلط ہے، ہمیشہ غلط ہی مانا جائے گا، چاہے پوری دنیا اس فعلِ قبیح پر متفق ہوجائے اور اس کو درست قرار دے دے۔ ہم انسان نہ صرف کچھ اخلاقی اصولوں کو معروضی مانتے ہیں بلکہ یہ معروضی اخلاق ہمارے اندر اخلاقی ذمہ داری اور فرائض کا جذبہ بھی پیدا کرتے ہیں۔ یہ ہمیں بتاتے ہیں کہ کچھ افعال ہمیں سرانجام دینے چائیے اور کچھ سے اجتناب، ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے، جن کا دارومدار ہماری یا کسی کی پسند نا پسند پر نہیں ہے۔ بلکہ وہ باہر سے ہیں۔ پروفیسر این مارخم<2>undefined کا بیان ہے کہ ہماری اخلاقی زبان ہماری ذات سے بالا تر اور ماورا کسی چیز کو ظاہر کرتی ہے: ” ‘ہمارے لیے مناسب ہے’ جیسے الفاظ میں ایک ایسی اخلاقی حقیقت پنہاں ہوتی ہے جو ہماری زندگی اور دنیا سے ماورا عالمگیریت کی حامل ہے۔ یہ ‘اخلاقی زبان’ فی نفسہ ایک خارجی اور آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ “undefined
ہمارا پیچیدہ سوال
اب ہم اس سوال کی طرف واپس آتے ہیں جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ آئیےسمجھنے کی کوشش کریں کہ اخلاقیات معروضی کیوں ہیں۔ اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے۔ جن اخلاقی اقدار کو ہم معروضی تصور کرتے ہیں، وہ معروضی اس لئے ہیں کیونکہ کوئی انسانوں سے بالا تر ہستی”خدا” موجود ہے
خدا ہی ہمیں یہ تصورِ اخلاق دیتا ہے کیونکہ وہ اس کائنات اور ہماری داخلی کیفیت سے ماورآ ذات ہے۔ پروفیسر این مارکھیم اس کی یوں وضاحت کرتے ہیں؛ “خدا ہی وہ ذات ہے جس نے ہم پر “چائیے” یا “یا ایسا ہونا چاہیئے” جیسی اخلاقی اقدار کے اسرار و رموز آشکار کئے ہیں اور اخلاقیات کو آفاقی حیثیت بخشی۔ کیونکہ خدا اس کائنات سے باہر ہے اور خالق ہے۔ وہی آفاقی احکامات دینے کی اہلیت رکھتا ہے”۔
اسلامی نقطہء نظر سے اللہ رب العٰلمین کی ذات کامل ترین ہے، وہ علیم ہے اور سب سے طاقتور اور اچھا ہے۔ کامل اچھائی اللہ تعالیٰ کی ظاہری فطرت ہے۔ اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام “البر”
“کہو کہ بےشک خدا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا۔ “
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہے کہ بہت سے ملحد اس بات کو مانتے ہیں کہ خدا کا انکار کرنے سے معروضی اخلاقیات کا وجود ممکن نہیں رہتا۔ معروف ملحد فلسفی جے ایل میکائی<3>undefined اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ “معروضی اخلاقی اقدار کا کوئی وجود نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ نہ صرف اخلاقی اچھائی جو بعض اوقات اخلاقی اقدار بھی کہلاتی ہیں۔ بلکہ صحیح، غلط، فرض، ذمہ داری اور کسی فعل کا برا ہونا اور قابلِ مذمت ہون،ا کچھ بھی معروضی حیثیت نہیں رکھتا۔ ”
گو کہ عقل و فہم کے بالکل خلاف ، میکائی نے الحاد کے عمومی نظریے کے برعکس یہ سمجھ لیا ہے کہ الحاد کا نظریہ اپنانے سے اخلاقیات کی معروضی حیثیت نہیں مانی جاسکتی۔ لہٰذا اگر خدا نہیں ہے تو کوئی معروضی اچھائی بھی نہیں ہے۔
یوتھائفرو کی الجھن(Euthyphro’s dilemma)
کچھ ملحد مفکرین اوپر پیش کردہ دلیل کا جواب افلاطون اور یوتھائفرو کے مغالطے سے دیتے ہیں۔ وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں کہ کیا کوئی چیز اخلاقی طور پر اس لیے اچھی ہے کہ اس کا خدا نے حکم دیا، یا خدا نے اس کا اس لیے حکم دیا کہ وہ اخلاقی طور پر اچھی ہے؟
یہ سوال ان لوگوں کے لئے ایک مسئلہ کھڑا کردیتا ہے، جو خدا کو ہر چیز پر قادر مانتے ہیں۔ کیونکہ یہ دو میں سے ایک بات پر یقین مانگتا ہے: یا تو یہ کہ اخلاقیات کی بنیاد خدا کا امر ہے یا یہ کہ وہ خدا پر انحصار نہیں کرتی۔ اگر تو خدا کا امر بنیاد ہے تو خیر اور شر کیا ہے؟ یہ خدا کی صوابدید ہے۔ اگر یہ معاملہ ہے، تو یہ لازمی نہیں کہ انسان معروضی طور پر خیر اور شر کو جان سکے۔ اس سے یہ بات لازم آئے گی کہ معصوم بچے کو قتل کرنا معروضی طور پر غلط نہیں ہوسکتا، کیونکہ خدا جس پر چاہے برا یا شیطانی ہونے کا ٹھپا لگا دے۔ اس مسئلے کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اخلاقیات خدا پر انحصار نہیں کرتیں بلکہ خارجی حیثیت کی حامل ہیں، اس سے خدا پر بھی یہ قید لازم آتی ہے۔ تاہم یہ خدا پرست کے لئے ناقابلِ قبول ہے کیونکہ اس کے ایمان کا حصہ ہے کہ وہ خدا کو ایک بے نیاز اور ہر چیز پر قادر ذات تسلیم کرے۔
سطحی طور پر تو یہ سوال اپنے اندر وزن رکھتا ہے۔ لیکن اگر تھوڑا غور کریں تو اس کا بودا پن واضح ہوجائے گا۔ کیونکہ ایک اور تیسرا رخ بھی ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ خدا اچھائی کا منبع ہے۔
فلسفہ کے پروفیسر شبیر اختر اپنی کتاب<4>undefined میں لکھتے ہیں: “ایک تیسری صورت بھی ممکن ہے کہ الہامی کتب میں بتایا گیا سراپا خیر ہی خدا ہے، ایک ذاتِ عظمیٰ جو اچھائی سے منسلک خیر، اور جنسی بے راہ روی سے جڑے شر، کو غیر منطقی طریقے سے تبدیل نہیں کرتا۔ خدا ہمیشہ اچھی ہی بات کا حکم دیتا ہے کیونکہ وہ خود اچھائی اور بھلائی کا منبع ہے۔ “
پروفیسر شبیر کے مطابق ایک اخلاقی معیارواقعی موجود ہے جو کہ مغالطے کی دوسری صورت کے برعک، خدا سے جدا نہیں ہے، بلکہ اس کا وجود خدا ہی کا عنایت کردہ ہے۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا کہ خدا پرست اور مسلمان عام طور پر یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا لازمی طور پر سراپا اچھائی ہے۔ وہی مکمل اور فطری اخلاقی معیار مہیا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی معصوم کا قتل بلاوجہ یا بغیر کسی بنیاد کے بُرا یا شیطانی نہیں کہا گیا بلکہ وہ ایک ضروری اور معروضی اخلاقی قاعدے کے نتیجے میں قابلِ مذمت قرار پایا ہے۔ اس کا مطلب قطعاً یہ بھی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قاعدے اور قانون کا پابند ہے بلکہ درحقیقت یہ قاعدہ خود اس کی ذاتِ عالی کی صفات کا مظہر ہے۔ یہ اللہ کی فطرت کی نمائندگی کرتا ہے اور یہ کسی بھی طرح سے اللہ کی ذات سے خارج نہیں ہے۔
ملحد یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ خدا کا اچھا ہونا ثابت کرنے کے لیے ہمیں پہلے یہ معلوم ہونا چائیے کہ، اچھائی کیا ہے، لہٰذا یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ اچھائی یا بھلائی کیا ہے، خدا ہی بتلائے گا کیونکہ اس کی ذات ہی کامل اور تمام اچھائی کی بنیاد ہے۔ قرآن اس بات کویوں بیان کرتا ہے:
“اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہی رحمان (اور) رحیم۔ “
“وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ غیب کا جاننے والا ہے اور حاضر کا بھی۔ وہی ہے جو بِن مانگے دینے والا، بے انتہا رحم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے (اور) کبر یائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اُس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ وہی اللہ ہے جو پیدا کرنے والا۔ پیدائش کا آغاز کرنے والا اور مصوّر ہے۔ تمام خوبصورت نام اسی کے ہیں۔ اُسی کی تسبیح کر رہا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ کامل غلبہ والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔ “
مختصراً یہ کہ تمام اخلاقی سچائیاں اور قاعدے اللہ کی ذات کی مرہونِ منت ہیں اور اللہ نے اپنی منشاء کا اظہار اپنے احکامات کے ذریعے کیا ہے اور یہ احکامات کامل ترین اور بہترین صفات کی حامل ذات عالی سے کسی بھی طریقے سے متصادم نہیں ہیں۔
کیامعروضی اخلاقیات کی کوئی متبادل بنیاد بھی موجود ہے؟
بہت سےملحدین یہ دلیل دیتے ہیں کہ خدا کے علاوہ اس سوال کے جواب میں اور توجیہات بھی ممکن ہیں اور بتا سکتی ہیں کہ کچھ اخلاقی قاعدے معروضی کیوں ہوتے ہیں، جن میں حیاتیات(Biology)، معاشرتی دباؤ اور اخلاقی حقیقت پسندی (Moral Realism)شامل ہیں۔
حیاتیات:
کیا حیاتیاتی علم، معروضی اخلاقیات کی وضاحت کرسکتی ہے؟ سادہ جواب نفی میں ہے۔ چارلس ڈارون نے ایک دلچسپ انتہائی مثال دی کہ اگر بیالوجی یا فطری انتخاب اخلاقیات کی بنیاد رکھتا تو اسکے مطابق اگر ہم مختلف قسم کے حیاتیاتی حالات سے دوچار ہوتے، جسے ہم معروضی اخلاقیات کہتے ہیں بالکل مختلف ہوتے۔ ” اگر انسانوں کو بھی شہد کی مکھیوں جیسے حالات درپیش ہوتے تو اس میں کسی کو شک نا ہوتا کہ ہماری غیر شادی شدہ عورتیں کام کرنے والی مکھیوں کی طرح سوچتیں کہ یہ ہمارا مقدس فرض ہے کہ اپنے بھائیوں کو ماردیں اور مائیں اپنی بیٹیوں کو مار دینے کی کوشش کریں اور کوئی اس میں دخل اندازی کرنے کا نہ سوچتا۔ “
دوسرے الفاظ میں اگر اخلاقیات حیاتیاتی تبدیلیوں پر منحصر ہوتیں تو وہ ان تبدیلیوں سے خارجی حیثیت نہ رکھ پاتیں, لہٰذا اپنی معروضیت کھو بیٹھتیں۔ ڈارون کی مثال کو مزید جانوروں تک بھی پھیلایا جاسکتا ہے۔ مثلاً، اگر ہمارا ماحول اور رنگ ڈھنگ “نرس شارک” کے ماحول جیسا ہوتا، تو ہم یہ سمجھتے کہ اپنے ساتھی و رفیق کے ساتھ جماع بالجبر کرنا قابل قبول ہے۔
کچھ لوگ اس کے جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ فطری چناؤ ہی ہے جو کہ ہمیں اخلاقی معروضیت کو سمجھنے کی صلاحیت کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ یہ بھی غلط بات ہے، تصوراتی طور پر فطری چناؤ یہ کرسکتا ہے کہ, ایسی صلاحیتیں دے سکتا ہے کہ ہم ایسے اخلاقی اصول بنائیں ,جو ہمارے زندہ رہنے اور افزائشِ نسل میں معاون ہوں۔ یہ معروضی اخلاقی قاعدے فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ اخلاقیات کے عالم فلسفی فلپ کچر<5>undefined لکھتا ہے: “فطری چناؤ زیادہ سے زیادہ ہمارے لئے یہ کرسکتا ہے کہ ہمیں کچھ معاشرتی نظام اور اس سے جڑے اخلاقی اصول بنانے کی صلاحیت فراہم کردے۔ ”
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ حیاتیات اخلاقی معروضیت کی بنیاد ہے تو لازمی طور پر ان کی حیثیت بے معنی سی ہو گی۔کیونکہ وہ ایک غیر عقلی اور غیر شعوری ارتقائی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہوئے ہونگے۔ اس کے برعکس یہ حقیقت کہ اخلاقیات الہامی احکامات سے آئی ،اس کو معروضیت اور معنویت اور حقیقیت بخشتی ہے۔ کیونکہ انسان اپنے آپ کو اس قاعدے اور قانون کے بارے میں خدا کے حضور جوابدہ سمجھتا ہے جو کہ نہایت معقول بات ہے نہ کہ چند خلیوں اور ارتقائی تبدیلیوں کے سامنے جوابدہ ہونے کا تصور!
معاشرتی دباؤ:
دوسری ممکن توجیہہ معاشرتی دباؤ یا اتفاقِ رائے ہے۔ لیکن یہ فلسفے کی رو سے انسانیت پرستوں اور ملحدین کے لئے مشکلات کھڑی کردیتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرتی اتفاقِ رائے یا دباؤ اخلاقیات کی معروضیت کو ختم کردیتا ہے۔ ان کو علاقائی اوراضافی حیثیت دے دیتا ہے۔ اس توجیہہ سے مختلف مسائل اور اخلاقی تضادات جنم لیتے ہیں۔ جیسا کہ نازیوں کے کیئے گئے مظالم کو ہم اس تناظر میں کیسے معروضی طور پرغلط ثابت کرسکیں گے۔ اگر ہم یہ کہہ بھی دیں کہ لوگوں نے مجموعی طور پر جرمن نازیوں کے خلاف بندوق اٹھائی اور ایک معاشرتی اتفاقِ رائے کا مظاہرہ کیا گیا لیکن دوسری طرف ہمیں ان کے کیے گئے مظالم پر بھی اتفاقِ رائے کے شواہد ملتے ہیں۔ تاریخ میں اور بہت سی مثالیں ہیں جن سے اس نظریے کی توثیق ہوتی ہے۔
اخلاقی حقیقت پسندی(Moral realism):
آخری ممکن توجیہہ اخلاقی حقیقت پسندی کی ہے۔ اس کو اخلاقی معروضیت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق اخلاق معروضی ہوتے ہیں اور ہمارے دل و دماغ سے خارجی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن ہمارے موجودہ موضوع، یعنی خدا کے بخشے ہوئے اخلاقی قاعدوں کے برعکس، اخلاقی حقیقت پسند کسی بنیاد کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک محبت و الفت، ہمدردی، رواداری اور انصاف جیسی اخلاقی سچائیاں اپنے تئیں خود معروضی طور پر موجود ہیں اور کسی بھی بنیاد کی محتاج نہیں۔
اس حقیقت پسندی کے نظرئیے میں کچھ سقم ہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اخلاقی اقدار اپنے تئیں خود وجود رکھتی ہیں یا انصاف خودبخود وجود رکھتا ہے؟ یہ خیال ایک بے معنیٰ اور مہمل سی بات ہے۔ ہم خودبخود موجود انصاف کو جان نہیں سکتے۔ نمایاں ہے کہ بندے کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر اخلاقیات معروضی(انسان کی ذاتی رائے سے بالاتر) ہیں تو انکی ایک منطقی وضاحت چاہیئے۔ ورنہ یہ سوال کہ ‘ اخلاق معروضی کیسے ہوتے ہیں ‘ بلاجواب رہے گا۔ اخلاقیات کی معروضی حیثیت کسی نہ کسی عقلی دلیل کی محتاج ہے ورنہ اخلاق معروضی کیسے ہیں، کا جواب نہ دیا جاسکے گا۔
دوسرا یہ کہ اخلاقیات صرف رحم دلی اور انصاف کی سچائیوں کے جان لینے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ اخلاقیات انسان کے اندر ذمہ داری اور جوابدہی کا احساس بھی پیدا کرتی ہیں کہ ہمیں روادار اور انصاف پسند ضرور ہونا چائیے۔ لیکن اخلاقی حقیقت پسندی کے تحت اس جوابدہی کا احساس پیدا ہونا ممکن نہیں، کیونکہ یہ اِس ذمہ داری کا احساس اور جوابدہی کی کوئی بنیاد فراہم نہیں کرتی کہ انسان کو کیوں انصاف پسند ہونا چائیے اور نہ ہونے کی صورت میں کیا ہوگا۔ ؟ کیونکہ محض یہ جان لینا کہ کوئی اخلاقی سچائی معروضی حیثیت رکھتی ہے، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم اس پر عمل کرنے کے بھی پابند ہیں۔ ان کا فائدہ تب ہے جب یہ احساس ذمہ داری بھی پیدا کریں۔ اخلاقی حقیقت پسند ی کا نظریہ اسکی کوئی وجہ بیان نہیں کرتا کہ انسان کو اخلاقی کیوں ہونا چاہیئے۔ مگر، اگر یہ معروضی اخلاقیات الہامی احکامات سمجھے جائیں تو یہ ناصرف انھیں معروضی بناتی ہیں بلکہ یہ اسکی بنیادبھی فراہم کرتی ہیں کہ انسان اخلاقی اصولوں کا پابند کیوں بنے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ خدا کی اطاعت اس پر فرض ہے۔ یہ انسان میں احساس ذمہ داری و جوابدہی کو اجاگر کرتا ہے جو اس کی ہمہ وقت اخلاقی اقدار پر کاربند رکھنے میں معاون اور مددگار ہوتا ہے۔
مندرجہ بالا بحث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ معروضی اخلاقیات کے لئے خدا کا وجود ہونا لازم ہے کیونکہ وہ اس کائنات سے ماورا ہے اور اپنے احکامات کے ذریعے ایک آفاقی اخلاقی قاعدہ دے سکتا ہے۔
اگر منکرین خدا اخلاقی معروضیت کا انکار کریں تو؟
آخری حربے کے طور پرکچھ ملحدین علمی ہزیمت سے بچنے کے لئے اخلاقیات کی معروضی حیثیت کو ماننے سے یکسر انکار بھی کردیتے ہیں۔ ٹھیک ہے ہم اسے مان لیتے ہیں ۔لیکن اخلاقیات کو معروضی ناماننے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ یہ دو دھاری تلوار کی طرح ہے۔ کیونکہ جیسے ہی انھوں نے یہ کہا کہ اخلاقیات کی کوئی معروضی حیثیت نہیں ہے، پھر انھیں کسی مذہب پر انگلی اٹھانے کا کوئی حق نہیں رہتا یا خصوصی طور پر اسلام پر کسی قسم کا اخلاقی اعتراض نہیں کر سکتے ۔ وہ داعش اور آر ایس ایس جیسی انتہا پسند تنظیموں، برما میں ہونے والی مسلم نسل کشی سمیت کسی ظلم و جبر کے خلاف بھی انگلی نہیں اٹھا سکتے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے باوجود ایسا کرنے سے باز نہیں آتے اور کرتے بھی معروضی اخلاقیات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کو ان تمام اخلاقی فیصلوں اور اعتراضات کے ساتھ یہ چھلا لگا دینا چاہیئے کہ “یہ میرا ذاتی مؤقف ہے۔ ” ایسا کرنے سے ان کی ساری تنقید اور اعتراضات بے معنی ہوجائیں گی کیونکہ ان کی حیثیت ایک شخص کی ذاتی رائے سے زیادہ کچھ نہیں ،جو مخالف کی رائے سے کسی بھی اعتبار سے برتری کا دعویٰ نہیں کر سکتی۔ حقیقت یہی ہے کہ انسان ہمیشہ بنیادی اخلاقیات جیسے کہ قتل، زیادتی اور چوری کے بُرا ہونے کو معروضی ہی سمجھتا ہے۔
دلیل کو سمجھنے میں غلطی
کچھ ملحدین اور حتیٰ کہ کچھ محققین نے اخلاقی علمیت(moral epistemology) کو اخلاقی علم الوجود (moral ontology)کے ساتھ خلط ملط کر دیا اور اس کو سمجھنے میں غلطی کر گئے۔ ہماری پیش کردہ دلیل اس بات سے متعلق نہیں ہے کہ ہم یہ کیسے جانتے ہیں کہ کیا چیز اچھی ہے؟ جو کہ اخلاقی علمیت سے متعلق ہے۔ بلکہ اس کا تعلق اس سے ہے کہ اخلاقی تصورات کہاں سے آئے اور انکی فطرت کیا ہے، جس کا تعلق اخلاقی علم الوجود سے ہے۔ خدا کے احکامات، اخلاقیات کو معروضی اور حقیقی بنانے کے لیے وجودی بنیاد(ontological foundation) فراہم کرتے ہیں۔
اس باب میں پیش کی گئی دلیل کا تعلق اخلاقی علمیت سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اخلاقی علم الوجود سے ہے، جسکا تعلق اخلاقیات کی بنیادوں اور اس کی خاصیت کیساتھ ہے۔ اس دلیل کو سادہ سے لفظوں میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی چیز اپنے اندر اچھائی یا بھلائی رکھتی ہے تو کیا وہ معروضی طور پر اچھی یا بھلی ہے؟ اگر یہ معروضی طور پر اچھی ہے تو یہ خدا کا وجود مانگتی ہے کیونکہ و ہی معروضی بھلائی کی واحد ممکنہ بنیاد ہے۔ اس کا تعلق اس سے نہیں کہ ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ کب کوئی چیز اچھی ہوتی ہے۔
معروضی(objective) بمقابلہ مطلق(Absolute)
ایک نہایت جائز اور معقول اعتراض کسی بھی ماہر الٰہیات کے ذہن میں یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اسلامی نظامِ انصاف اور دیگر نظام ہائے انصاف میں بعض اوقات قتل کرنا (اگر اپنے اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لئے ہو) جائز ہوتا ہے۔ لہٰذا کوئی بھی فعل بذات خود معروضی طور پر برا نہیں ہے۔ یہ ایک دلچسپ اعتراض ہے لیکن یہ اعتراض معروضی اخلاق کو مطلق اخلاقیات سے مخلوط کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ معروضی اخلاقیات اور مطلق اخلاقیات بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ مطلق اخلاقیات یہ کہتی ہے کہ اخلاقی عمل ہر حال میں اچھا یا برا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک شخص جو قتل کرنے کو مطلقاً غلط سمجھتا ہے، وہ ذاتی دفاع میں کئے گئے قتل کو بھی برا سمجھے گا اور اخلاقی غلطی جانے گا۔ جبکہ اس کے برعکس معروضی اخلاقیات کا کلیہ سیاق و سباق کی اہمیت اور نزاکت کا خیال رکھتی ہیں۔ معروضی اخلاقیات کے تحت اخلاقی سچائی یوں بیان کی جاتی ہے کہ کسی بھی انسان کو “بغیر کسی معقول وجہ کے” قتل کرنا غلط اور برا ہے۔ اس جملے میں سیاق و سباق کی حساسیت کسی عمل کو برا قرار دینے کے لئے یہ شرط ڈالتی ہے کہ اس کی کوئی قابل قبول توجیہ پیش نہ کی جاسکے۔ مثلا کسی ایسے شخص کو قتل کرنا اخلاقی طور پر درست اور جائز ہے جو کسی اسکول میں گھس کر معصوم بچوں کو گولیوں سے بھونتے ہوئے رد عمل میں قتل ہوا۔ ہماری یہ دلیل مطلق اخلاقیات سے تعلق نہیں رکھتی۔
اخلاقی اضافیت(ethical relativism) پر شرح
ایک اخلاقی اضافت پسند(ethical relativist) جو یہ سمجھتا ہو کہ اخلاقیات کا انحصار ثقافت اور معاشرتی اقدار پر ہوتا ہے اور علاقائی حیثیت رکھتی ہیں، یہ کہہ سکتا ہے کہ مطلق اور معروضی اخلاقیات پر یہ بحث اخلاقیات کا اضافی ہونا ثابت کرتی ہیں نہ کہ معروضی ہونا۔ جبکہ جو اخلاقیات کو معروضی حیثیت دیتے ہیں وہ یہ دلیل پیش کریں گے کہ لوگ کیا سمجھتے ہیں یا کرتے ہیں، ایک غیر متعلق بات ہے کیونکہ ان سے حقیقی اخلاقی سچائیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اضافت پسندوں کی دلیل اس تناظر میں بودی ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق معروضی اخلاقیات ثقافتی یا کلچرل رویوں سے بدل بھی سکتی ہے۔ یا ثقافتی رویے اخلاقیات کی معروضی حیثیت کو جھٹلاسکتے ہیں جو کہ ابتدء سے ہی ایک غلط مؤقف ہے۔ کیونکہ معروضی اخلاقیات کی تعریف ہی یہ ہے کہ یہ محسوسات، عقائد اور ثقافت سے ماورا ہوتے ہیں لہٰذا اضافت پسندوں کا اعتراض اس بنیاد پر بے معنی ہے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔
اس باب میں ہم نے ملحدین کے لئے قابلِ غور دلائل پیش کئے ہیں۔ اگر ملحد اخلاقی اقدار کو معروضی تسلیم کرتے ہیں تو ان کو خدا کا وجود بھی ماننا پڑے گا۔ کیونکہ صرف وہی معروضی اخلاقیات کی عقلی اور شعوری بنیاد ہوسکتا ہے یا انھیں پھر کوئی اور متبادل فراہم کرنا ہوگا۔ اگر وہ نہیں کر سکتے تو پھر ان کو اپنے ذاتی احساسات کو دبانا ہوگا جو معروضی خیر اور شر کو پہچانتا ہے۔ جب وہ ایسا کردیں گے تو پھر وہ کسی بھی صورت میں اسلام پر انگلی نہیں اٹھا سکیں گے اور نہ ہی اخلاقیات پر مبنی ایسے فیصلے صادر کرسکیں گے، جو اپنے اندر معروضیت کا عنصر رکھتے ہوں۔ ان کے تمام تر اعتراضات زیادہ سے زیادہ ان کی اپنی داخلی کیفیات کا اظہار ہی کہلایا جاسکے گا۔
اخلاقیات کے پس منظر سے اسلام کا الوہیت سے متعلق نظریہ بہت ہی واضح اور قابلِ فہم ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات کامل ترین ہے اور خیر وبھلائی کا منبع ہے۔ وہ ایک دانا اور حکیم ذات ہے اور اس کا کوئی بھی حکم اس کی ذاتِ عالی سے متصادم نہیں ہے۔ ایسے خدا کو جاننے اور ماننے سے ہی ہمیں معروضی اخلاقیات کی بنیاد مل سکتی ہے، جو انسانوں کے لئے رہنمائی اور روشنی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ لہٰذا خدا کا جاننا، خیر کا جاننا ہے۔
<1>undefined Objectivity
<2>undefined Ian Markham
<3>undefinedBy J. L. Mackie Ethics: Inventing Right and Wrong
<4>undefined Quran and the Secular Mind
<5>undefinedPhilip Kitcher
undefined Markham, I. S. (2010). Against Atheism: Why Dawkins, Hitchens, and Harris are Fundamentally Wrong. West Sussex: Wiley-Blackwell, p. 34.