۔ ۔ قرآن مجید یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہم تمام انبیاء اور پیغمبروں پر ضرور ایمان لائیں اور یہ یقین رکھیں کہ یہ تمام نفوسِ قدسیہ اللہ کے چُنے ہوئے بندے تھے، جن کو ابدی سچائی، “خدا”، نے انسانیت کی طرف اپنا تعارف کروانے کے لیے بھیجا۔ قرآن مجید نے بہت سے رسولوں اور نبیوں کا ذکر کیا ہے جن سے ہم اپنے گھروں اور سکولوں سے ہی شناسائی رکھتے ہیں۔ اس اللہ کی کتاب میں ہمیں حضرت ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ، داؤدؑ، ذکریاؑ، الیاسؑ، یعقوبؑ اور یوسفؑ علیہمالسلام کا ذکر ملتا ہے۔ لیکن رسولوں اور نبیوں میں ایک اہم فرق ہوتا ہے۔ نبی اس ذات کو کہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بناتے ہیں اور وہ لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتا ہے۔ جبکہ رسول کو اللہ تعالیٰ اپنی کتاب یا صحیفہ بھی دیتے ہیں۔ انبیاء اور رسول دونوں کا مقصد انسانیت میں خالقِ حقیقی کا تصور، تقویٰ اور خداترسی اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ رسولوں کے پاس چونکہ خدا کا نازل کردہ پیغام بھی ہوتا ہے تو وہ اس پیغام کو سکھلانے کے بھی ذمہ دار ہوتے ہیں تاکہ پیغام کا صحیح مطلب اور مفہوم لوگوں تک پہنچایا جائے۔ رسول اور پیغمبر اللہ کے پیغام کا چلتا پھرتا عملی نمونہ ہوتے ہیں، جن کو دیکھ کر انسانیت خدا کے پیغام کا حقیقی مفہوم سمجھ سکتی ہے۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وحیِ الٰہی انسان کو بتاتی ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور نبی یہ بتاتے ہیں کہ کیسے کرنا ہے۔ قرآن مجید میں محمد ﷺ کا اسمِ مبارک پانچ بار آیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کتاب جبریلؑ کے ذریعے سے آپ کے قلبِ اطہر پر نازل کی گئی۔ قرآن کریم نے صراحتاً یہ بتا دیا ہے کہ محمد ﷺ آخری نبی اور رسول ہیں۔ جب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا جائے کہ قرآن مجید ایک الہامی کتاب ہے تو یہ لازم آئے گا کہ یہ بھی مانا جائے کہ اس کا ایک ایک لفظ سچائی پر مبنی ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کے رسول ہیں اور ان پر وحی کا نازل ہونا حق ہے۔ مندرجہ بالا ثابت شدہ حقیقت کے ساتھ ساتھ حیاتِ نبوی ﷺ، ان کی تعلیمات اور ان کا اعلیٰ کردار بھی ہمیں یہ بتاتا ہے کہ حضور ﷺ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اگر ہم حیاتِ نبوی اور کردارِ ﷺ کا تجزیہ کریں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ، اگر یہ کہا جائے کہ معاذاللہ ﷺ غلط بیانی کرتے تھے اور اوہام کا شکار تھے، تو آج تک نسلِ انسانی میں کسی نے سچ نہیں بولا۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں کو یہ کہے اس نے اس کو نہیں جنا اور ایک کھلی حقیقت کا انکار کردے۔ حضور ﷺ کی تعلیمات معاشرت، روحانیت، معاشیات اور نفسیات جیسے مضامین کا احاطہ کرتی ہیں اور انسانیت کو رہنمائی مہیا کرتی ہیں۔ اگر محمدﷺ کی تعلیمات اور ارشادات کو صحیح اور مکمل طریقے سے دیکھا جائے تو کوئی بھی غیر جانبدار آدمی یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ذاتِ اقدس کوئی معمولی ہستی نہیں۔ معاملات کو دیکھا جائےتو ایک ایسا کردار اس کے سامنے آتا ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی رواداری، برداشت اور انکساری کا دامن نہیں چھوڑتا۔ یہ پیغمبرانہ اوصاف ایسے ہیں، جن کی نظیر تاریخ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حیاتِ محمد ﷺ نے نہ صرف عرب دنیا، بلکہ تمام دنیا اور اقوامِ عالم پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ آپ ﷺ کی ذاتِ اقدس انسانی ترقی، انصاف، رواداری کی وجہ بنی۔ جیسا کہ گزشتہ تحریر میں اس پر بحث پیش کی گئی کہ علم کا وہ واحد ذریعہ جس کے ذریعے انسان اس عورت کو اپنی ماں کہتے ہیں، جس نے انھیں جنا ہو،” گواہی” ہے۔ یعنی کسی نے آپ کو یہ بتایا ہے کہ یہ عورت تمہاری ماں ہے۔ اگرچہ آپ کے پاس ولادت کا سرٹیفکیٹ، ہسپتال کے ریکارڈ، DNA ٹیسٹ کا ریکارڈ ہو، تو بھی یہ روایت شدہ علم ہی کہلائے گا۔ کیونکہ آپ نے کسی کے کہنے پر یقین کرنا ہے۔ کسی بھی شخص کے پاس ایسا ثبوت نہیں ہے جو عملی طور پر یہ ثابت کرے کہ یہ عورت اس شخص کی ماں ہے۔ اگر وہ اپنا ٹیسٹ خود کرواتا ہے ،تو تب بھی اس کو کسی ماہر کی گواہی کو ہی ماننا ہوگا کہ فلاں عورت اس کی پیدائش کا سبب ہے۔ تو لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ خالص علمی نقطہٴ نگاہ سے اس شخص کا اپنی ماں کو تسلیم کرنا، چند گواہیوں پر دلالت کرتا ہے۔ پس علمیت کی شاخ، گواہی، کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ آپ کو آپکی ماں نے جنا ہے، صرف چند گواہیوں پر مبنی ہے۔ ہمارے پاس اس سے زیادہ مستند گواہیاں یہ نتیجہ نکالنے کے لیے موجود ہیں کہ محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول ہیں۔ تو یہ کہنا بالکل حق ہوگا کہ رسول ﷺ کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی حقیقی ماں کا انکار کردے۔ رسولِ خدا محمد ﷺ نے آج سے 1400 سال پہلے ایک نہایت ہی مختصر مگر جامعیت سے بھرپور پیغام کے ساتھ اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ وہ پیغام تھا “لا اِلہٰ اِلّا اللہ محمد الّرسول اللہ۔ ” آپ 40 برس کی عمر میں نبوت کے مقام پر فائز ہوئے۔اس سے پہلے وہ اپنا کچھ وقت غارِ حرا کی تنہائی میں غور و فکر اور مراقبہ میں گزارا کرتے تھے۔ آپ کی نبوت کا آغاز قرآن مجید کی کچھ آیات نازل ہونے کے ساتھ ہوا۔ قرآن کا پیغام نہایت مختصر تھا کہ ہمارا مقصدِ زندگی معبودِ حقیقی کی عبادت کرنا ہے۔ اسلام میں عبادت ایک نہایت جامع حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنی محبت، توجہ اور تمام اعمال کا مرکز اللہ ہی کی ذات کو رکھے۔ محمدﷺ کے لائے ہوئے پیغام اور ان کی نبوت کی سچائی کو جانچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم حقیقت پسندی سے اس ضمن میں موجود روایات اور تاریخی بیان کا بغور جائزہ لیں، تاکہ ایک متوازن نتیجے تک پہنچا جاسکے۔ قرآن پاک اسی حوالے سے ایک نہایت عقلی طریقہ بتاتا ہے، جس سے نبی کے دعوی کو جانچا جاسکتا ہے۔ قرآن یہ کہتا ہے کہ حضور ﷺ نہ جھوٹے تھے، نہ مجنوں اور دیوانے تھے اور نہ ہی اوہام کا شکار انسان تھے اور نا ہی وہ اپنی مرضی سے کچھ کہتے تھے۔بلکہ جو اللہ کا پیغام ان تک پہنچتا تھا، وہ بندگانِ خدا تک ویسا ہی پہنچا دیتے تھے۔ قرآن پاک گواہی دیتا ہے کہ وہ اللہ کے رسول ہیں اور وہ سچ بول رہے ہیں۔ “اورتمہارے ساتھ کے رہنے والے محمدﷺ مجنون نہیں ہیں۔” “یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے نہ راہ(حق) سے بھٹکے اور نہ غلط راستہ ہولئے۔” “محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں سخت ہیں اور آپس میں رحم دل، (اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ (خدا کے آگے) جھکے ہوئے سر بسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں۔ (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔ (وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدہی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔” ہم ان دلائل کا خلاصہ اس انداز میں بیان کر سکتے ہیں : اولین تاریخی ماخذ کا مطالعہ کرنے سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ محمدﷺ ایک مضبوط اور اعلیٰ کردار کے حامل انسان تھے۔ حتّیٰ کہ اپنے جانی دشمنوں میں بھی “صادق” کے لقب سے مشہور تھے ۔ لہٰذا یہ کہنا کہ (معاذ اللہ) حضور ﷺ نے کذب بیانی کی، ایک نہایت ہی بے بنیاد اور ناقابلِ یقین الزام ہے۔ حضور ﷺ کی دعوت نے اس وقت کے معاشرتی اور معاشی ڈھانچوں کی بنیاد ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ساتویں صدی میں مکہ کی معیشت کا انحصار تجارت اور کاروبار پر تھا۔ مکہ کے سردار کعبے میں موجود 360 بتوں کے ذریعے اس وقت کے بت پرست تاجروں کو اپنی طرف راغب کرتے تھے۔ پیغمبرِ خدا کا توحید پر مبنی پیغام سادہ تھا لیکن اس نے ساتویں صدی کے عربوں کے اس شرک کو بہت قوت کیساتھ چیلنج کیا، جس کی وجہ سے اس نظام کے پروردہ افراد آپ کے مخالف ہوگئے۔ اولاً یہ لوگ آپ کا مذاق اڑانے لگے اور یہ سوچنے لگے کہ حضور ﷺ کے پیغام کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ لیکن جب انھوں نے دیکھا کہ آپکا پیغام جڑ پکڑ رہا ہے اور عالی حسب و نسب کے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں، تو انھوں نے آپ ﷺ کو ذہنی اور جسمانی طور پر اذیت کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اس پیغام سے روکنے کے لیے آپ پر طرح طرح کے مظالم ڈھائے گئے، آپ کا معاشرتی مقاطعہ کیا گیا، آپ کو فاقہ کشی پر مجبور کیا گیا، آپ پر پتھربرسائے گئے ،یہاں تک ٰ کہ آپ کے نعلینِ َمبارک خون سے بھر گئے۔ آپ کو اپنے پیارے شہر سے ہجرت اور جلاوطنی پر مجبور کردیا گیا۔ آپ کے دوستوں پر بھی ظلم و ستم کیا گیا جس کی وجہ صرف اور صرف یہی خدائی پیغام یعنی توحید پرستی تھی۔ اسی پرآشوب دور میں آپ کی اولین رفیقہٴ حیات بھی وفات پاگئیں اور ان کے قریبی ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بہت تنگ کیا گیا ۔ آپ ﷺ نے شدید سے شدید تر مشکلات جھیلیں، یہی دیکھا گیا ہے کہ ایک جھوٹا شخص دنیاوی فوائد کے لیے جھوٹ بولتا ہے لیکن اس کے برعکس حیاتِ نبوی کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ، باوجود اس کے کہ آپ کو دنیاوی دولت اور مراتب کی پیشکش کی گئی اور آپ کو بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، لیکن آپ ﷺ نے توحید کا پیغام پھیلانا نہ چھوڑا۔ اسلامی علوم اور عربی کے مایہ ناز مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ اپنی کتاب میں یہ کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کو بہروپیا یا جھوٹا (معاذ اللہ) کہنا ایک خلافِ عقل اور نامعقول بات ہے: “ان کا عزم و استقلال جس کے ذریعے وہ کسی بھی مشکل کا سامنا کرنے کے لیے تیار تھے، ان پر ایمان لانےاور انکواپنا لیڈر ماننے والوں کا اعلیٰ اخلاقی کردار اور ان کی عظیم کامیابیاں۔ ۔ یہ سب کے سب محمدﷺ کے عظیم اور لازوال کردار کی دلیل ہیں اور یہ گمان کرنا کہ وہ (معاذاللہ) ایک بہروپیا ہیں مزید مشکلات کو جنم دیتا ہے نہ کہ حل کرتا ہے۔ ” یہ دعویٰ کہ آپ ﷺ مجنوں تھے ، کا آسان مطلب یہی ہے کہ وہ خود کو خدا کا پیغمبر بتلا کر لوگوں کو گمراہ کر رہے تھے۔ اگر کوئی مجنوں ہو تو اس کو بغیر کسی ثبوت کے اپنی بات کے سچ ہونے پر یقین کامل ہوتا ہے۔ جو بندہ مجنوں ہو وہ اپنی کی ہوئی ہر بات کو سچ سمجھتا ہے، چاہے اس کی بات حقیقت میں جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ آپ ﷺ کی زندگی میں بہت سے مواقع ایسے آئے کہ اگر آپ ﷺ واقعی معاذاللہ مجنوں ہوتے اور وہ ساری باتیں جو آپ ﷺ نے اسلام کی شکل میں پیش کیں، وہ آپ ﷺ کے اپنے ذہن کی اختراع ہوتیں، تو آپ ﷺ ان موقعوں کو اپنے حق میں ضرور استعمال کرتے، لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ جیسا کہ آپ ﷺ کے بیٹے ابراہیم کی وفات سورج گرہن والے دن ہوئی۔ اور بہت سے لوگوں نے کہا کہ سورج گرہن اس لئے ہوا کیونکہ آج نبی کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے۔ اگر آپ ﷺ چاہتے تو ان کی تائید کر سکتے تھے اور اس بات کا آپ ﷺ کو ہی فائدہ ہوتا۔ اور آپ ﷺ کے موقف کی تائید ہوتی۔ لیکن آپ ﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے ان کی باتوں کا یہ کہ کر رد کیا کہ “سورج اور چاند گرھن کسی کی وفات کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ جو بھی انھیں دیکھے قیام کرے اور نماز پڑھے۔ “ نبیﷺ نے بہت سی پیش گوئیاں ایسی کیں جو آپ ﷺ کے معاشرے میں آپ ﷺ کی وفات کے بعد واقع ہونی تھیں۔ اور وہ ساری باتیں ویسی ہی ہوئیں جیسا آپ ﷺ نے کہا تھا۔ کسی بہکے ہوئے مجنوں کیلئے یہ سب ممکن نھیں۔ مثلا: آپ ﷺ کی وفات کے تقریبا چھ سو سال بعد منگولوں نے مسلم سرزمین پر حملہ کیا اور لاکھوں لوگوں کو قتل کیا۔ بغداد کی تباہی اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان تھا۔ بغداد اس وقت علم و تہذیب کا عظیم الشان مرکز تھا۔ منگول 1258 میں بغداد پر حملہ آور ہوئے اور پورا ایک ہفتہ قتل و غارت کا بازار گرم کیے رکھا۔ گلیاں خون سے بھر گئیں۔ ہزاروں کتابوں کو جلا دیا، دس لاکھ لوگوں کو قتل کیا۔ یہ اسلامی تاریخ کا اندوہناک واقعہ ہے۔ منگول غیرعرب تھے، چپٹی ناک، چھوٹی آنکھیں کے مالک تھے اور بالوں سے بنے موزے پہنتے تھے۔ منگولوں کے حملے کی پیش گوئی آپ ﷺ نے ان کے حملے سے کئی سو سال پہلے ہی ان الفاظ میں کر دی تھی: ” قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ عجم کے شہروں میں خوذ اور کرمان پر تم حملہ آور ہوگے۔ وہاں کے باشندوں کے چہرے سرخ، ناک چپٹی اور آنکھیں چھوٹی چھوٹی ہوں گی۔ گویا ان کے چہرے تہ بہ تہ تیار شدہ ڈھالوں کی طرح ہیں، نیز ان کے جوتے بالوں سے بنے ہوئے ہوں گے۔ “ “کسی شخص نے پوچھا: قیامت کب قائم ہو گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس سے پوچھا گیا وہ سوال کرنے والے سے زیادہ نھیں جانتا۔ بولا: پھر اس کی نشانیاں بتا دیجیئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا :جب تم دیکھو گے کہ وہ بدو جن کو پہننے کے لئے جوتے اور کپڑے بھی میسر نہیں، اونچی اونچی عمارتوں کے بنانے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کریں گے۔ “ پیشگوئی کی تفصیلات پر غور کریں: ایک مخصوص قسم کے لوگوں کی نشاندہی کی گئی تھی؛ ننگے پاؤں ، بے لباس ، کنگال چرواہے۔ اسلامی علم کے مطابق یہ واضح طور پر عرب بدووں کا ذکر ہے۔ حالانکہ آپ ﷺ زیادہ محفوظ اور غیر مخصوص انداز میں بھی یہ بات کہہ سکتے تھے کہ “تم اونچی اونچی عمارتیں بنتی دیکھو گے۔ ” اس طرح یہ بات تمام دنیا کیلئے ہو جاتی اور اس کے سچا ہونے کے بھی زیادہ امکانات ہوتے۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ واقعی وہ عرب بدو جو اونٹ اور بھیڑ بکریاں پالتے تھے، وہ اونچی اونچی عمارتیں بنا رھے ہیں۔ دبئی کا برج خلیفہ 828 میٹر کی بلندی کے ساتھ دنیا کی سب سے اونچی عمارت ہے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد ہی سعودیہ کی ایک شاہی خاندان نے اس سے اونچی (1000 میٹر) عمارت کنگڈم ٹاور بنانے کا اعلان کیا جو 2019 میں مکمل ہو گی۔ اونچی عمارتیں بنانے کا مقابلہ عربوں میں جاری و ساری ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پچاس ساٹھ سالوں پہلے تک ان لوگوں کے پاس رہے کو گھر نھیں تھے۔ زیادہ تر لوگ خانہ بدوش تھے اور جھگیوں میں رہتے تھے۔ بیسویں صدی میں تیل کی دریافت نے اس علاقے کے حالات بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اگر تیل دریافت نہ ہوتا تو شاید اب بھی یہ علاقہ بنجر صحرا ہوتا جیسا کہ نزول قرآن کے وقت تھا۔ اگر واقعی آپ ﷺ اندازے یا تکے کی بنیاد پر بات کر رہے ہوتے تو کیا یہ زیادہ عقلی بات نہیں تھی کہ کہ آپ یہ پیشن گوئی اپنے وقت کی سپرپاورز، روم یا فارس کے بارے میں کرتے کیونکہ وہ اس وقت اس قابل تھے، کہ اونچی عمارتیں اور محلات بنا سکیں۔ ایسی سرنگوں اور عمارات کی تصاویر آپ انٹرنیٹ پر بآسانی دیکھ سکتے ہیں۔ اور بھی بہت ساری پیشگوئیاں ہیں جو حضرت محمد سے منسوب مستند روایتوں میں مل سکتی ہیں۔ ان میں سے کچھ آپ کے سامنے پیش کی گئی ہیں تاکہ ایک عقلی نقطہ اٹھایا جا سکے : مستقبل کی درست پیش گوئی کسی کی سچائی کی حمایت کرنے کا ثبوت ہے ، نہ کہ دھوکہ۔ آپ ﷺ کی تعلیمات، کردار، اور اس کے انسانی معاشرے پر گہرے اثرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ آپ ﷺ مجنون نہیں تھے، اللہ کے سچے نبی ہیں اور آپ نے ہمیشہ سچ بولا۔ کسی آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ جھوٹا بھی ہو اور مجنون بھی۔ جھوٹ ارادے سے بولا جاتا ہے جبکہ مجنون وہ ہے جو اس بات کے سچا ہونے پر یقین رکھتا ہے جو درحقیقت سچی نہیں ہے۔ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کا رد ہیں اور دونوں ایک ہی وقت میں درست نہیں ہو سکتیں۔ یہ بہتان کہ آپ ﷺ جھوٹے بھی تھے اور مجنوں بھی، منطقی لحاظ سے ناممکن ہے ۔کیونکہ آپ ﷺ جان بوجھ کر اپنے دعوے کے متعلق ایک ہی وقت میں جھوٹ اور یقین نہیں کر سکتے تھے۔ اوپر کی گئی بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سچے تھے اور ہمیشہ سچے ہی رہیں گے۔ یہ نتیجہ مشہور مورخ ڈاکٹر ولیم ڈریپر نے بھی بہت ہی معقول انداز میں پیش کیا ہے: “جسٹینین (مشہور رومی حکمران) کی وفات کے چار سال بعد، 569عیسویں عرب کے شہر مکہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جو اس دنیا کے سب سے عظیم انقلاب کا باعث بنا، بہت سی سلطنتوں کا مذہبی لیڈر، دنیا کی ایک تہائی انسانوں کی روزمرہ زندگی کے رہنما، شاید وہ پیغمبری کے عہدہ کی اہلیت رکھتے تھے۔” اس سے پہلے کہ ہم ان تعلیمات، غیر معمولی کردار، اور حیرت انگیز اثر جو کہ اللہ کے نبی ﷺ نے مرتب کئے ان کو زیر بحث لائیں، ضروری ہے کہ ہم ان اعتراضات کا جائزہ لیں جو کہ اللہ کے نبی ﷺ کی شان اقدس پر لگائے جاتے ہیں۔ ان دلائل کے خلاف جو اعتراض پیش کیا جاتا ہے اس میں ایک یہ بھی ہے کہ نبی ﷺ کی نبوت کے دعویٰ کی وضاحت کے لیے کوئی اور صورت بھی ہو سکتی ہے۔ یہ اضافی صورت یوں بیان کی جاتی ہے کہ نبیﷺ کا دعویٰ حکایات پر مبنی ہے۔ بہ الفاظ دیگر، معروف تاریخ میں اس کا کوئی حوالہ نہیں پایا جاتا۔ یہ اعتراض اس تاثر پر قائم ہے کہ وہ بیانیے اور گواہیاں جو نبی محمد ﷺ کی زندگی کا احاطہ کرتی ہیں، قابلِ یقین نہیں اور نہ ہی ان کی غیر جانبدارانہ /آزادانہ تصدیق کی جا سکتی ہے۔ قصہ مختصر، اس اعتراض کے حامی اسلامی تاریخ پر اعتبار نہیں کرتے۔ “حکایت” والا اعتراض نہ صرف غیر معقول ہے (کہ محمدی انقلاب اور اسکے دنیا پر پڑنے والے اثرات کو جھٹلانا دنیا کی پوری تاریخ کو جھٹلانا ہے، نبوی تعلیمات اور پھر اسکی بنیاد پر کھڑی ہونے والی اسلامی تہذیب جس نے ہزاروں سال تک دنیا کے اسی فیصد انسانوں پر حکمرانی کی، انھیں جینے کا سلیقہ و شعور سکھلایا، کیا اسکے اثرات اور نقوش صرف عربوں کی تاریخ اور خطے تک محدود ہیں؟) بلکہ نبی ﷺ کی زندگی کے ماخذوں کے حوالے سے محققین کی تاریخی حوالوں کی سند جانچنے کے پیمانے سے بھی ناواقفیت کا مظہر ہے۔ تاریخ کو محفوظ کرنے کے لیے اسلامی طریقہ کار دو عناصر پر مشتمل ہے: اسناد، جنھیں “روایت کا سلسلہ”بہی کہا جاتا ہے، اور متن، جس کا مطلب ہے حدیث یا بیان۔ کسی روایت یا بیان کے سلسلے کو جانچنے کے لیے ایک ٹھوس طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ اس جانچ کی اسلامی سائنس کی تفصیل میں جانے کا یہ مقام نہیں ( اسلامی علمی روایت میں اسے “علم الحدیث: روایتوں کا علم” کہا جاتا ہے)، تاہم اس کا ایک مختصر خلاصہ اس کے ٹھوس پیمانوں پر روشنی ڈالنے کے لیے کافی ہے۔ کسی روایت کے سلسلے کے مستند ہونے کے لیے لازمی ہے کہ ہر راوی کے حوالے سے بہت سے عقلی پیمانے پورے ہوں، ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: کسی بیان کی حدیث کو قبول کرنے کے لیے مختلف عقلی پیمانوں پر پورا اترنا لازمی ہے۔ ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: اس بحث میں جو ایک اور اعتراض سامنے آتا ہے وہ وہ دلیل کی موزونیت کے حوالے سے ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ نبی محمد ﷺ نے غیر اخلاقی پہلو سے جھوٹ نا بولا ہو، بلکہ وہ ایک بڑی بھلائی کے لیےجھوٹ بول کر خود کو نبی کہلوا نا چاہ رہے ہوں۔ ایک معاشرتی مصلح کے طور پر وہ یہ سمجھتے ہوں کہ وہ جس اخلاقی طور پر پست اور پسماندہ معاشرے میں رہ رہے تھے، اس کو بدلنے کے لیے یہ انتہائی قدم اُٹھانا ضروری ہے۔ اس طرح وہ مجنوں بھی نہیں ٹھہریں گے ۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ سچ نہیں بول رہے، اور اخلاقی طور پر بھی انھیں جھوٹا نہیں سمجھا جائے گا۔ وہ اخلاق کی اصلاح کرنے والے ہوں گے اور زیادہ تر فلاح کاروں کی طرح ایک بڑی بھلائی کے لیے دو برائیوں میں سے کم درجے والی برائی کا انتخاب کرنا ہو گا۔ یہ دلچسپ اعتراض کچھ وجوہات کی بنا پر بے موزوں ہے۔ اول تو یہ بات ہی غیر عقلی ہے کہ ضروری اخلاقی تبدیلی لانے کے لیے نبوت کا دعویٰ ضروری ہے۔ بلکہ حقیقت میں حضورﷺ کا یہ دعویٰ کہ ان پر وحی نازل ہوتی ہے، انکے لیے معاشرے میں کوئی مضبوط مقام حاصل کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوا۔ ان پر طنز کیا گیا، تمسخر اڑایا گیا اور گالیاں دی گئیں۔ ایک فلاح کار ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرے گا، خاص طور پر اس وقت، جب یہ دعویٰ مقصد کے حصول کی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا کرنے کا موجب ہو۔ دوسرا حضورﷺ کو سخت حالات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن پھر بھی انھوں نے اپنے پیغام کے حوالے سے نہ تو کوئی سمجھوتہ کیا اور نہ ہی اسے پسِ پشت ڈالا۔ انھیں مشروط سیاسی قوت کی پیشکش کی گئی، جس کے ذریعے وہ معاشرے کی اخلاقی صورت سنوار سکتے تھے، لیکن انھوں نے اس قوت کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔کیونکہ اسے قبول کرنے کا یہ مطلب تھا کہ وہ اپنے مقدس پیغام کو ترک کر رہے ہیں، جس کے مطابق سوائے اللہ کے دوسرا کوئی پرستش کے لائق نہیں۔ اگر وہ محض ایک اخلاقی فلاح کار ہوتے تو وہ اپنا لائحہ عمل تبدیل کرتے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ محمدﷺ کی تعلیمات ایسی نہیں ہیں جو کسی فریب میں مبتلا شخص یا کاذب کی ہوتی ہیں۔ اپنی دیگر بہت سی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انھوں نے انسانیت کو بھائی چارے، رحمدلی، عاجزی، امن، محبت اور دوسروں کے حوالے سے حقوق و فرائض بتائے۔ آپ ﷺ کا کردار مثالی تھا۔ آپ اچھائی کی انتہا پر پہنچے، دردِ دل رکھنے والے، عاجز، قوتِ برداشت سے بھرپور، منصف، اور انسانیت کی عظیم جھلک دکھلانے والے، پرہیز گار اور نیک تھے۔ آپ کی راہنمائی کی بدولت دنیا پر بے مثال اثرات مرتب ہوئے۔ آپ ﷺ کی پر اثر قیادت، برداشت کی متاثر کن تعلیمات، انصاف، ترقی، عقیدے کی آزادی اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں راہنمائی، اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ کسی فریب میں مبتلا نہیں تھے، بلکہ وہ سچے انسان تھے۔ جتنا زیادہ ہم پیغمبرانہ دانائی کا مطالعہ، اور غور و فکر کریں، اتنا ہی ہم محمدﷺ کی محبت اور تعریف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ محمد ﷺ کی تعلیمات اور کردار اس بات کی واضح نشانی ہے کہ وہ انسانیت کے لئے رحم دل اور عظیم مرتبت شخص تھے، جنھیں وحی عطا کی گئی تھی تاکہ وہ لوگوں کو اندھیرے سے حق کی روشنی کی طرف مائل کریں۔ ان کی تعلیمات جو ان کے کردار کی عظمت کی نشاندہی کرتی ہیں، وہ مندرجہ ذیل ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنی ترجمانی خود کریں گی۔ ہم جتنا زیادہ ان کے بارے میں تحقیق کریں، ہمیں موقع ملے گا کہ ہم اللہ کے نبی کی حکمت اور دانائی کے بارے میں کچھ نہ کچھ جان سکیں اور ہم ان کی محبت میں مزید گرفتار ہو جائیں گے۔ اللہ ان پر رحم کھاتا ہے جو خود رحمدل ہوں (دوسروں پر)۔ پس تم اہل زمیں پر رحم، کھاؤ آسمان والا تم پر رحم کھائے گا۔ ” “اللہ رحیم ہے اور رحم دلی کو پسند کرتا ہے” “وہ ہم میں سے نہیں جو بچوں پر شفقت اور بڑوں پر رحم نہ کرے” ” اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو بیچتے، خریدتے اور تقاضا کرتے وقت نرمی اور کشادہ دلی کا مظاہرہ کرے۔” “اللہ تمہارے مال اور صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔ “ “اللہ کے ذکر کے علاوہ بہت زیادہ باتیں مت کرو۔ بلاشبہ بہت زیادہ گفتگو دلوں کو سخت کر دیتا ہے اور بلاشبہ گمراہ لوگ سخت دل ہوتے ہیں۔ “ “اللہ کو یاد کرو، اور تم اسے اپنے سامنے پاؤ گے۔ آسانی اور خوشحالی کے وقت اللہ کو یاد کرنا، اور مصیبت کے وقت وہ تمھیں یاد رکھے گا۔ اور جان لو کہ جو چیز تمہارے ذریعہ گزر چکی ہے <اور تم اسے حاصل کرنے میں ناکام رہے>undefined وہ تمھیں نہیں پہنچنے والا تھا، اور جو تمھیں مصیبت پہنچی ہے وہ تم اسے بچ نہیں سکتے تھے۔ اور جان لو کہ فتح صبر سے ہے، تکلیف کے ساتھ راحت اور آسانی ہے۔ “ “اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم کی گئی ہے۔ اول گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔ “ “اللہ کہتا ہے: اے آدم کے بیٹے! جب تک تو مجھ سے دعائیں کرتا رہے گا اور مجھ سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ رکھے گا میں تجھے بخشتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ کسی بھی درجے پر پہنچے ہوئے ہوں، مجھے کسی بات کی پرواہ و ڈر نہیں ہے، اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے گناہ آسمان کو چھونے لگیں پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرنے لگے تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کسی بات کی پرواہ نہ ہو گی۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تو زمین برابر بھی گناہ کر بیٹھے اور پھر مجھ سے ( مغفرت طلب کرنے کے لیے ) ملے لیکن میرے ساتھ کسی طرح کا شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس اس کے برابر مغفرت لے کر آؤں گا (اور تجھے بخش دوں گا )۔” “اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بارے میں میرا بندہ جو گمان کرتا ہے میں ( اس کو پورا کرنے کے لیے ) اس کے پاس ہوتا ہوں۔ جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے ( بھری ) مجلس میں یاد کرتا ہے تو میں ان کی مجلس سے اچھی مجلس میں اسے یاد کرتا ہوں، اگر وہ ایک بالشت میرے قریب آتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب جاتا ہوں اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے قریب آتا ہے تو میں دونوں ہاتھوں کی پوری لمبائی کے برابر اس کے قریب آتا ہوں، اگر وہ میرے پاس چلتا ہوا آتا ہے تو میں دوڑتا ہوا اس کے پاس جاتا ہوں۔ “ “تم اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ رکھتے ہو اور تم ایمان والے نہ ہو گے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو۔ کیا میں تمھیں وہ طریقہ نہ بتاؤں کہ تم آپس میں محبت کرنے لگو؟ آپس میں سلام کو عام کرو۔ “ “تم میں سے کوئی بھی واقعی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز نہ پسند کرے جو وہ اپنے لئے کرتا ہے” “لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اپنے پڑوسیوں سے اچھا سلوک کرو اور تم اچھے مسلمان ہو جاؤ گے۔” “تمہارے اندر اگلی امتوں کا ایک مرض گھس آیا ہے اور یہ حسد اور بغض کی بیماری ہے، یہ مونڈنے والی ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سر کا بال مونڈنے والی ہے بلکہ دین مونڈنے والی ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم لوگ جنت میں نہیں داخل ہو گے جب تک کہ ایمان نہ لے آؤ، اور مومن نہیں ہو سکتے یہاں تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتا دوں جس سے تمہارے درمیان محبت قائم ہو: تم سلام کو آپس میں پھیلاؤ” “تم میں سے کوئی بھی ایمان والا نہیں ہو سکتا جب تک وہ لوگوں کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔” جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے بھائی کو اس سے مطلع کر دے۔” “انسانوں کے لئے وہی پسند کرو جو تم اپنے لئے کرتے ہو۔” اللہ پر ایمان لانے کے بعد افضل عمل یہ ہے کہ تم انسانیت سے محبت کرو۔” ایک دن ایک آدمی نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ “کون سا اسلام بہتر ہے؟” فرمایا کہ” تم کھانا کھلاؤ، اور جس کو پہچانو اس کو بھی اور جس کو نہ پہچانو اس کو بھی، غرض یہ کہ سب کو سلام کرو۔ “ ” جو شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرادے اور اس میں کوئی اچھی بات منسوب کردے یا اچھی بات کہہ دے تو وہ جھوٹانہیں ہے ۔ “ “جو لوگوں کا شکرگزار نہیں ہوتا وہ اللہ کا شکرگزار نہیں ہوتا۔” “اللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا کون: یا رسول اللہ؟ فرمایا وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔ “ “سب کے سب آدم کے بیٹے ہیں، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں نہ ہی کسی عرب کو کسی عجمی پر نہ ہی کسی عجمی کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقوی کی بنیاد پر” “مومن وہ نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ “ “اللہ فرماتا ہے: ‘اے ابن آدم خرچ کر اور میں تجھ پر خرچ کروں گا۔ “ “صدقہ مال کو کم نہیں کرتا۔ “ بیماروں کی تیمار داری کرو، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور اسیران کو آزاد کرواؤ۔ “ “آسانیاں پیدا کرو اور تنگی نہ کرو، خوش خبریاں پھیلاؤ اور متنفر نہ کرو اور لوگوں کو دور نہ کرو۔ “ “مزدور کو اس کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دو۔ “ “ہر نیکی صدقہ ہے۔ “ “مومن وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہو، اور تم میں سے بہترین وہ ہے جس کا اخلاق اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ہو۔ “ “بلاشبہ اللہ عزوجل نے مجھے وحی فرمائی ہے کہ تواضع اور انکسار اختیار کرو حتیٰ کہ کوئی کسی پر ظلم و زیادتی نہ کرے اور نہ کوئی کسی پر فخر کرے۔ “ “غصہ اور زیادتی کو اپنے اندر پنپنے نہ دو، نہ ہی بغض کو، آپس میں بھائی بھائی اور اللہ کے بندے ہو جاؤ۔ “ “جو واقعی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ اچھے بات کرے یا خاموش رہے۔ “ “تم میں سے اچھا وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے۔ “ بد گمانی سے بعض رہو بلاشبہ بد گمانی کذب میں سب سے بری چیز ہے۔ “ “تم میں سے پہلوان وہ نہیں ہے جو کشتی میں اچھا ہو بلکہ پہلوان وہ ہے جو اپنے غصے کو قابو میں رکھے۔ “ “اگر قیامت کی گھڑی آن پہنچے اور تم میں سے کوئی کھجور کا تنا بونے کو تیار ہو تو اسے اس کو بونے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے۔ “ “اگر کوئی مسلمان درخت لگائے اور اس سے کوئی جانور، پرندہ یہ انسان فائدہ حاصل کرے تو یہ اس کے لئے صدقہ کے ہے۔ “ “راہ سے پتھر ہٹانا صدقہ ہے۔ “ “اللہ کے نبی سے صحابہ نے استفسار کیا کہ ‘اے اللہ کے نبی ﷺ کیا جانوروں کا خیال رکھنے کا بھی اجر ہے؟’ حضور ﷺ نے فرمایا ‘ہر جاندار کی خدمت کرنے میں اجر ہے۔ “ اگر کوئی شخص بلا وجہ چڑیا یا اس کی مثل کسی چیز کو بلا وجہ مارتا ہے تو اللہ روز قیامت اس سے اس کا حساب لے گا۔” “ایک طوائفہ نے ایک کتے کو دیکھا کہ کتے کی زبان پیاس سے باہر کو آ رہی ہے تو اس نے کنویں سے پانی نکال کر اسے پلایا، اس کی اس نیکی کے سبب اللہ نے اسے معاف کر دیا۔ “ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سعد رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، وہ وضو کر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا:” یہ کیسا اسراف ہے؟، انھوں نے کہا: کیا وضو میں بھی اسراف ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: “ہاں چاہے تم بہتی نہر کے کنارے ہی کیوں نہ بیٹھے ہو۔ “ مندرجہ ذیل شہادتیں اور روایات حضور ﷺ کی شخصیت میں موجود خصوصیات کے بارے میں اشارہ فراہم کرتی ہیں: جب ایک جنگ کے موقع پرمسلمانوں اور غیر مسلم کا تحفظ کرتے ہوئے اللہ کے نبی ﷺ کے دانت ٹوٹ گئے، ایک صحابی نے عرض کیا کہ آپ کفار کو بد دعا دیجئے، انھوں نے فرمایا: “مجھے لوگوں کو ملعون کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا بلکہ میں رحمت للعالمین بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ اے اللہ میری قوم پر رحم کر بلاشبہ وہ نہیں جانتے۔ “ انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ” میں نے دس سال تک نبی ﷺ کی خدمت کی، آپ نے کبھی مجھے اف تک نہ کہا، اور نہ ہی میرے کسی ایسے کام پر جو میں نے کیا ہو یہ کہا ہو: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اور نہ ہی کسی ایسے کام پر جسے میں نے نہ کیا ہو تم نے ایسا کیوں نہیں کیا۔ “ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چل رہا تھا۔ نبی کریم ﷺ کے جسم مبارک پر ( یمن کے ) نجران کی بنی ہوئی موٹے حاشیے کی ایک چادر تھی۔ اتنے میں ایک دیہاتی آ گیا اور اس نے نبی کریم ﷺ کی چادر کو پکڑ کر اتنی زور سے کھینچا کہ میں نے نبی کریمﷺ کے مونڈھے پر دیکھا کہ اس کے زور سے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑ گیا تھا۔ پھر اس نے کہا: “اے محمد! مجھے اس مال میں سے دیئے جانے کا حکم کیجیئے جو اللہ کا مال آپ کے پاس ہے۔ ” نبی کریم ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور مسکرائے اور آپ نے اسے مال دیئے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک بار ایک شخص اللہ کے نبی ﷺ کے پاس آیا جو اپنا قرض واپس لینا چاہتا تھا، اس نے اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ بہت بد تمیزی کی۔ اللہ کے نبی ﷺ کے اصحاب نے اس شخص کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: “ہمیں تم سے کسی اور چیز کی طلب ہے۔ مجھے حکم دو کہ میں اس کی ادائیگی کروں اور اسے حکم دو کہ اچھے اخلاق سے پیش آئے۔ ” اس کے بعد اللہ کے نبی ﷺ نے اس کا قرضہ واپس کیا اور اسے کچھ زائد پیسے ادا کئے کیونکہ اس کو اصحاب نے برا بھلا کہا۔ اس شخص کا نام زید بن صعنا تھا جو بعد میں مسلمان ہو گئے۔ زید فرماتے ہیں: “صرف دو ایسی نشانیاں تھی جو میں اللہ کے نبی ﷺ میں دیکھنا چابتا تھا، درگزر اور غصہ پر قابو۔ میں نے ان کا امتحان لیا اور ان کو ویسا ہی پایا جیسا ان کے بارے میں بتایا گیا۔ “ انس بن مالک اللہ کے نبی ﷺ کی شفقت یاد فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ” میں نے نبی ﷺ سے زیادہ بچوں سے شفیق شخص نہیں دیکھا۔ “ نبی ﷺ کے بہت سے اصحاب کو قتل اور ظلم کیے گئے، ان کے ساتھ بھی تعلقات قطع کیے گئے، گالیاں دی گئیں، فاقہ کشی پر مجبور کیا گیا۔ آپ ﷺ اور ان کے اصحاب پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے گئے۔ لیکن جب آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کے ساتھ بلا جنگ و جدل مکہ پر قابو پایاتو انھوں نے اکثر کو معاف کر دیا۔ انھوں نے اس دن کو “تقوی، ایمانداری اور وفا داری” کا دن کہا۔ نبی ﷺ کے اصحاب آپ کے حلیے کے بارے میں بتاتے ہیں: عبداللہ ابن الحارث فرماتے ہیں: “میں نے اللہ کے نبی ﷺ سے زیادہ کسی اور کو مسکراتے نہیں دیکھا۔ “ براء ابن عازب فرماتے ہیں: ” رسول اللہ ﷺ کا چہرہ مبارک سب لوگوں سے زیادہ حسین تھا اور (باقی تمام اعضاء کی) ساخت میں سب سے زیادہ حسین تھے،آپ کا قد بہت زیادہ لمبا تھا نہ بہت چھوٹا ۔ “ جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ” میں نے ایک انتہائی روشن چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، پھر آپ کو دیکھنے لگا اور چاند کو بھی دیکھنے لگا ( کہ ان دونوں میں کون زیادہ خوبصورت ہے ) آپ اس وقت سرخ جوڑا پہنے ہوئے تھے اور آپ مجھے چاند سے بھی زیادہ حسین نظر آ رہے تھے۔” علی ابن طالب فرماتے ہیں: ” جو بھی آپ ﷺ کو پہلی مرتبہ دیکھتا آپ کے سحر مین مبتلاء ہو جاتا، جس کو بھی آپ ﷺ کی رفاقت ملی، اس کو آپ سے محبت ہو گئی۔ جو آپ کے بارے میں بتاتے ہیں انھوں نے نہ پہلے اور نہ بعد میں آپ سا دیکھا۔ “ ابن معبد الخزئیہ اپنے خاوند کو اللہ کے نبی ﷺ کا حال کچھ ہوں بتاتی ہیں: “ان کا چہرہ معصومیت سے روشن اور وسیع تھا۔ آپ کا اخلاق بہت اچھا تھا، آپ کا پیٹ ابھرا ہوا نہ تھا اور نہ ہی آپ کے سر پر بالوں کی کمی تھی۔ آپ کی آنکھیں سیاہ اور پر کشش تھیں۔ آپ کے بال سیاہ اور کچھ گھنگرالے تھے۔ آپ کا سر بڑا اچھی صورت میں اور اچھے سے گردن پر ٹکا ہوا تھا۔ آپ کے چہرے کے تاثرات فکرمندانہ، پر سکون، ارفع تھے۔ اجنبی دور سے ہی مسحور ہو جاتے اور بہت جلد اپنایت محسوس کرنے لگتے اور بہت جلد یہ سحر اپنایت و تکریم میں بدل جاتا۔ آپ کے تاثرات میں چاشنی اور۔ ۔ ۔ ۔ تھی۔ آپ کا لہجہ خوبصورت اور بیہودگی سے پاک جیسے تسبیح کے دانے پروئے گئے ہوں۔ آپ کا قد نہ بہت لمبا نہ بہت پست تھا، آپ ہمیشہ اپنے اصحاب کے ساتھ ہوتے، جب بھی آپ کچھ کہتے تو آپ کے اصحاب انتہائی توجہ سے سنتے، اور اگر کوئی حکم صادر فرماتے تو وہ اس کی تعمیل کی کوشش میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے، آپ ان کے استاد اور حاکم تھے، آپ ﷺ کا وجود حق کی گواہی اور ہر طرح کے کذب سے پاک تھا۔ “ آپ ﷺ کا فرمان ہے: “میرے شان مین ایسے مبالغہ نا کرنا جیسے عیسائیوں نے عیسی بن مریم کی شان میں کیا۔ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ “ حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا: “اللہ کے نبی ﷺ گھر پر کیا کیا کرتے تھے؟” آپ نے فرمایا: “وہ کسی عام شخص کی طرح گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتے تھے، اپنے کپڑوں پر پیوند لگاتے، اپنے جوتے سیتے، بکریوں کا دودھ دوہتے، اپنی اور اپنے اہل و عیال کی خدمت کرتے حتی کے آذان ہو جاتی اور وہ مسجد کی جانب چل دیتے۔ “ آپ ﷺ کی انکساری اس فرمان سے جھلکتی ہے جب آپ نے فرمایا: “میں تم لوگوں جیسا ہی بندہ ہوں میں اسی طرح بھول جاتا ہوں جیسے تم لوگ۔ “ جب آپ ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ خوف سے کانپ رہا ہے تو آپ اس کے پاس گئے اور فرمایا: “ڈرو مت! میں کوئی بادشاہ نہیں، میں بھی قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھا کر گزارا کرتی تھی۔ “ اللہ کے نبی ﷺ اللہ کو کچھ ایسے پکارتے: “اے اللہ مجھے عاجزی کے ساتھ زندہ رکھ اور عاجزی کے ساتھ موت دے اور مجھے عاجز لوگوں کے ساتھ قیامت کے روز جمع کر۔ “ ابو سعید خذری کہتے ہیں: “میں نے دیکھا کہ اللہ کے نبی ﷺ مٹی میں سجدہ کر رہے ہیں اور ان کے ماتھے پر مٹی لگی ہے۔ “ انس فرماتے ہیں کہ: “اللہ کے نبی ﷺ کو جو کی روٹی اور متعفن گوشت کی دعوت دی جاتی تو اللہ کے نبی ﷺ اس کو قبول فرماتے۔ “ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ: ” ہم آل محمد (ﷺ) ایسے تھے کہ ایک ایک مہینہ چولہانہیں جلاتے تھے، ہمارا گذر بسر صرف کھجور اور پانی پرہوتاتھا ۔ “ ایسی بہت سی مثالیں اللہ کے نبی ﷺ کی زندگی میں ملتی ہیں جو بظاہر سخت معلوم ہوتی ہیں لیکن جب ہم اس دور کے معاشرتی و سیاسی پہلو کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کے اخلاقی پیمانوں کا جائزہ لیتے ہیں ،تو ہم اس نتیجے سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ اللہ کہ نبی ﷺ انتہائی بردبار، درگذر کرنے والے، اعلی اخلاق کے حامل اور منصف انسان تھے۔ مثال کے طور پر، اللہ کے نبی ﷺ جنگ کے دوران بہادری سے لڑتے۔ کوئی بھی باشعور شخص سمجھ سکتا ہے کہ وہ اپنی قوم (جس میں مسلم و غیر مسلم شامل تھے) کا دفاع کر رہے تھے اور یہ جنگ بقاء کی جنگ تھی۔ یہ ہمیں ان کی بہادری و شجاعت کی داد دینے پر مجبور کرتی ہے۔ جب کہ ان کے بارے میں منفی سوچ کو ان سے منسلک کرنا احمقانہ بات ہو گی۔ یہ وہ مقام نہیں کہ یہاں اس کی تفصیل میں جایا جائے، لیکن مزید عمیق تحقیق ہمارے نتیجے پر شاہد ہو گی۔ اللہ کے نبی ﷺ واقعی رحمت للعالمین تھے۔ یہ محض ان کے پیغام اور ان کی تعلیمات سے اخذ کیا گیانتیجہ نہیں بلکہ یہ سب ان اثرات سے بھی ثابت شدہ ہے، جو انھوں نے ہماری دنیا پر مرتب کئے۔ اس کی دو وجوہات ہیں کہ کیونکر ان کی تعلیمات نے معاشرے پر اس قدر ضخیم اثرات چھوڑے۔ اسلام کا نظام عدل اور درگزر۔ درگزر اور عدل اسلام کی مرکزی اقدار ہیں، جو کہ اللہ کی توحید اور خلوص نیت کا ہی لازم و ملزوم نتیجہ ہے۔ اپنی ذات کا احتساب اور اللہ کی عبادت ہی وہ عوامل ہیں، جن کی مدد سے ایک مسلمان درگزر اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے تقویت حاصل کرتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد فرمایا گیا: “اے ایمان والو! تم اللہ کی خاطر حق پر قائم ہو جاؤ، راستی اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ، کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل پر آماده نہ کر دے، عدل کیا کرو جو پرہیز گاری کے زیاده قریب ہے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔” “اے ایمان والو! عدل وانصاف پر مضبوطی سے جم جانے والے اور خوشنودی موﻻ کے لئے سچی گواہی دینے والے بن جاؤ، گو وه خود تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ دار عزیزوں کے، وه شخص اگر امیر ہو تو اور فقیر ہو تو دونوں کے ساتھ اللہ کو زیاده تعلق ہے، اس لئے تم خواہش نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑ دینا اور اگر تم نے کج بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو کہ جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے” “اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا؟ کسی گردن (غلام لونڈی) کو آزاد کرنا۔ یا بھوک والے دن کھانا کھلانا۔ کسی رشتہ دار یتیم کو۔ یا خاکسار مسکین کو۔ پھر ان لوگوں میں سے ہو جاتا جو ایمان ﻻتے اور ایک دوسرے کو صبر کی اور رحم کرنے کی وصیت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں دائیں بازو والے (خوش بختی والے)۔ “ جب یہ اقدار عملی شکل میں معاشرے میں رائج ہو گئیں تو ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا کہ اس جو اس سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ دیکھا گیا۔ جب یورپ میں فرقہ ورانہ جنگیں، قومیت کی بنیاد پر تشدد اور نسل پرستی عروج پر تھی، اس وقت عرب سے اٹھنے والی روشنی، جس کی بنیاد محمد ؐ کی تعلیمات تھیں، سے دنیا استفادہ حاصل کر رہی تھی۔ آپ یہود و نصاریٰ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا مشاہدہ کر لیجئے۔ میثاق مدینہ کے وقت اللہ کے نبیؐ نے فرمایا: “یہ سب پر لازم ہے کہ وہ ان یہودیوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں جو ہمارے ساتھ معاہدے میں داخل ہوئے ہیں۔ نہ ہی ان پر کسی قسم کی زیادتی کی جائے گی اور نہ ہی ان کا دشمن اس کے خلاف مدد کیا جائے گا۔ “ مشہور تاریخ دان کیرن آرمسٹرانگ نشاندہی کرتا ہے کہ کیسے آپ ﷺ کے عہد میں ایسی ہم آہنگی کی مثال ملتی ہے جس کی کوئی نظیر نہیں۔ “مسلمانوں نے ایک ایسا نظام ترتیب دیا کہ تاریخ انسانی میں پہلی بار مسلمان یہود و نصاریٰ یروشلم میں اکھٹے رہنے لگے۔ “ اکادمیائی تاریخ دان امنین کوہن اس مثالی ہم آہنگی کی قدر کو جو عثمانی یروشلم میں یہودیوں کے ساتھ طے پائی، کو کچھ اس طرح بیان کرتا ہے: “کوئی کسی دوسرے کے داخلی اور خارجی معاشیات و معیشت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتا تھا۔ ۔ ۔ خلافت عثمانیہ کے دور میں یروشلم کے یہودی مذہبی و انتظامی آزادی سے فائدہ اٹھاتے رہے جو کہ ایک اسلامی ریاست کے تحت چل رہا تھا، اور اس کی بہبود و ترقی کے لئے وہ اس میں اپنا حصہ خوب ادا کرتے۔ “ حضور ﷺ کے صحابی و شاگرد حضرت عمر ابن الخطاب نے اپنے دور خلافت میں فلسطین کے یہود و نصاری کو مذہبی آزادی، تحفظ اور امن فراہم کیا۔ عیسا ئیوں سے کیے گئے معاہدے میں طے پایا: “یہ وہ تحفظ ہے جو اللہ کا غلام، وفاداروں کا امام فلسطین کے باسیوں کو مہیا کر رہا ہے۔ یہ تحفظ ان کی عبادت گاہوں، صلیب، بیمار و نادار اور مذہبی تشخص کے لیے ہے۔ اسی لیے نہ ہی ان کی عبادت گاہیں ڈھائی جائیں گی اور نہ ہی ان کو گھروں میں تبدیل کیا جائے گا۔ نہ ہی ان کو یا ان کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا، ان کی صلیب کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا اور ان کی اموال میں سے کسی قسم کی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ ان کی مذہبی رسومات میں روڑے نہیں اٹکائے جائیں گے۔ ” 869 صدی ہجری میں یروشلم کے پادری تھیوڈوسیس نے مسلمانوں کی اپنے نبی ﷺ سے حاصل کی گئیں اقدار کے ساتھ استواری کی تصدیق کی اور کہتا ہے”عرب مسلمانوں نے ہمارے ساتھ بہت اچھا رویہ روا رکھا۔ انھوں نے ہمیں ہماری عبادت گاہوں کی تعمیر اور ہماری مذہبی فرائض کو ادا کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں کھڑا کیا۔ “ یہ تاریخی شہادتیں محض حادثہ نہیں ہیں بلکہ اللہ کے نبی ﷺ کی لازوال تعلیمات کا نتیجہ ہے۔ ساتویں صدی کا یورپ ، اقلیتوں اور بیرون ملک سے آئے ہوئے افراد کے تحفظ کے اعتبار سے انتہائی ظلمت و جہالت کا شکار تھا۔ لیکن اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات، اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں تاکہ وہ امن میں زندگی بسر کر سکیں: “جس نے کسی ذمی کو زخمی کیا یا اس سے زیادہ وصولی کی تو کل قیامت کے روز میں اللہ سے اس کے خلاف استغاثہ کروں گا۔” “جس نے کسی غیر مسلم کو پناہ کے دوران تکلیف پہنچائی اس نے گویا مجھے تکلیف پہنچائی۔” 13 صدی کے فقہیہ القرافی نے مندرجہ بالا احادیث کی کچھ اس طرح تشریح کی: “ذمی، جب کہ وہ مسلمانوں کی حفاظت میں رہ رہا ہے، مسلمانوں پر کچھ ذمہ داریاں لازم کر دیتا ہے۔ وہ ہمارے ہمسائے، ہماری حفاظت میں ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اس دین کی پناہ میں ہیں۔ جو بھی ان ذمہ داریوں کی خلاف ورزی بذریعہ بد کلامی، ان پر الزام اور غیبت سے کرے گا یا ان کو زخمی کرے گا، اس نے اللہ کی اس کے رسول ﷺ کی اور اسلام کی دی ہوئی پناہ کی خلاف ورزی کی۔ “ مندرجہ بالا کی روشنی میں اس مین کوئی حیرانی کی بات نہیں رہتی کہ قرآن نے اللہ کے نبی ﷺ کو رحمت للعالمین کہا اور یہ کہ اللہ کی رحمت ہر شہ پر ہے۔ جب تاریخ نے اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کو رقم کیا، اور دیکھا کہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جا رہا تھا ، وہ امن میں رہ رہے تھے تو تاریخ مسلم منتظمین کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکی۔ مثال کے طور پر دانا برنارڈ، ایک راہب زائر، جب معتاز(866-9 صدی ہجری) کے عہد میں فلسطین اور مصر کی طرف جاتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے: “عیسائی اور کافر (مسلمان) میں ایسا اتحاد ہے کہ اگر میں سفر پر جا رہا ہوں اور میرا سامان ایک گدھے یا اونٹ پر لدھا ہوا ہو اور وہ مر جائے اور میں اپنا سامان چھوڑ کر شہر سے ایک اور سواری لینے جاؤں، تو واپس پلٹوں، تو اپنا سامان اسی جگہ پر محفوظ پڑا دیکھوں۔ “ ان بے مثال اسلامی اقدار کو دیکھ کر لوگ اسلام کی برداشت اور رحم کو ترجیح دینے لگے۔ مسلم اسپین (ہسپانیہ) کا تحقیق کار رین ہارٹ ڈوزی کہتا ہے: “…عربوں کی لا محدود برداشت پر بھی لازمی نظر کی جانی چاہیئے۔ مذہبی معاملات میں وہ کسی پر بھی دباؤ نہیں ڈالتے تھے۔ عیسائی، فرینک کی نسبت ان کے دور کو ترجیح دیتے تھے۔ “ پروفیسر ٹامس آرنلڈ اسلامی اسباب پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ عیسائی مسلمانوں سے اس قدر مطمئن اور امن میں تھے کہ انہوں نے “مسلمانوں کے لئے دعائے فضل و رحمت کیں۔ “ اس وقت جب آزادی عقیدہ ایک نایاب شے تھی، اس دور میں اللہ کے نبی ﷺ نے ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی، جہان کسی کو مذہب اسلام قبول کرنے پر زبردستی نہیں کی جاتی تھی۔ زبردستی قبول اسلام، ایک جرم اور اسلام میں حرام ہے۔ اس کی دلیل قرآن کی اس آیت سے ملتی ہے ” دین (اسلام) میں زبردستی نہیں ہے ہدایت (صاف طور پر ظاہر اور) گمراہی سے الگ ہو چکی ہے۔ “ مائکل بونر قدیم اسلام کا عالم ہے، وہ اس آیت کا تاریخی پس منظر بیان کرتے ہوئے کہتا ہے “میں اس سے آغاز کرتا ہوں کہ اس وقت کوئی بھی جبری قبول اسلام نہیں کروایا جاتا تھا، ایسا نہیں تھا کہ اسلام یا تلوار۔ اسلامی شریعت قرآن کے اس اصول پر عمل کرتا ہے (2:256) جس میں ذمیوں کے ساتھ ایسا برتاؤ حرام گردانا گیا ہے اور ان کو ان کی مذہبی رسومات ادا کرنے میں آزاد کیا گیا ہے۔ “ آپ ﷺ کی تعلیمات نے لوگوں کو معاشی آزادی مہیا کی۔ ٹیکس بہت کم تھے اور اگر کوئی ان کو ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، تو اسے وہ معاف کر دیے جاتے تھے۔ یہ حکام پر لازم تھا کہ وہ اس کا انتظام کریں کہ، مسلمان اور غیر مسلم دونوں کے کھانے پینے کا انتظام کافی ہو اور وہ اچھی زندگی بسر کر رہے ہوں۔ مثال کے طور پر عمر بن عبدالعزیزؒ، ایک مسلم خلیفہ، عراق کے وزیر کو لکھتے ہیں: “تم ایسے ذمیوں کو ڈھونڈو ،جو بوڑھے ہو چکے ہوں اور کمانے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور ان کو ماہ وار وظیفے دو اور ان کا خیال رکھو۔” اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کا اظہار اس ربی کے خط میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جو اس نے 1453 میں لکھا تھا۔ وہ اپنے ہم مذہبوں سے کہہ رہا تھا کہ یورپ میں ہونے والے یہودیوں پر مظالم اب برداشت سے باہر ہیں اور یہاں معاشی پابندیاں بڑھ گئیں ہیں۔ سو اب ہمیں مسلمانوں کے علاقوں کی طرف ہجرت کر جانی چاہیئے۔ “یہاں ترکوں کے علاقے میں ہمیں کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔ ہم اچھے حال میں رہ رہے ہیں: ہمارے پاس بہت سا سونا اور چاندی ہے۔ یہاں ہم پر ظلم نہیں ڈھائے جاتے اور ٹیکس بہت کم ہیں اور ہماری معیشت کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کی جاتی۔ اس زمیں میں پھلوں کی کثرت ہے اور ہر چیز سستی ہے اور ہم امن و آشتی سے رہ رہے ہیں۔ “ نسلی تعصب سے بہت دور اللہ کے نبی ﷺ نے ایک ایسا راستہ دیا جس میں نسلی ہم آہنگی تھی۔ قرآن کہتا ہے: “اے لوگو! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں با عزت وه ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے۔ “ اللہ کی نبی ﷺ نے یہ واضح کر دیا کہ اسلام میں نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں۔ “سب کے سب آدم کے بیٹے ہیں، کسی گورے کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں نہ ہی کسی عرب کو کسی عجمی پر نہ ہی کسی عجمی کو کسی کالے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں مگر تقوی کی بنیاد پر۔ “ جیسا کہ علم استشراق کا مؤرخ ھملٹن اے آر گب کہتا ہے: “لیکن اسلام نے انسانیت کی خدمت میں زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اسلام مغرب کی نسبت مشرق کے زیادہ قریب تھا، کیونکہ اس میں نسلی ہم آہنگی کا رواج بہت ارفع تھا۔ کسی اور معاشرے میں اس قدر برابری، اختیارات اور انسانیت کے لئے جدو جہد کا جذبہ کی مثال نہیں ملتی، جس قدر اسلام میں ہے۔ ۔ ۔ اسلام کے پاس اب بھی طاقت ہے کہ لوگوں کو ان مسائل پر جمع کر لے جن میں وہ نسلی اور رسومات کی بنیاد پر متفرق ہیں۔ اگر مغربی اور مشرقی معاشرے کے تفرقات کی مخالفت کا متبادل ہو سکتا ہے تو وہ صرف اسلام میں ہے۔ اسلام کے پاس ان مسائل کا حل ہے جو مغربی معاشرے کو مشرقی معاشرے سے تعلقات قائم رکھنے میں در پیش ہیں۔ اگر ان میں مصالحت ہو جائے تو امن کے قیام کی امید بہت زیادہ بڑھ جائے گی-لیکن اگر یورپ اسلام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہوتا اور اسے(مشرق کو) اپنے دشمن کے حوالے کر دیتا ہے تو یورپ اور مشرق دونوں تباہی کے دہانے پر آ کھڑے ہوں گے۔ ” معزز مؤرخ اے۔ جے۔ ٹوینبی نے بھی تصدیق کی: “نسل پرستی کا ذہنوں سے نکالنا اسلام کی ایک عظیم کامیابی ہے اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی ایسا ہوتا ہو،وہاں اسلام کے پیغام کو پھیلانے کی اشد ضرورت ہے۔ “ آپ ﷺ اس دنیا اور اخروی دنیا کا پیغام رکھنے والے قرآن کے حامل تھے۔ ان کے پیغام اور ان کی تعلیمات نے دنیا میں اس سکون، امن و آشتی اور برداشت کی ترویج کی، جس کی دنیا بہت عرصہ سے منتظر تھی اور ایک ایسا نظام وجود میں آیا جو مہذب ترین نظام تھا۔ جب یورپ جہالت کے گہرے اندھیروں میں غرق تھا، اس وقت اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا ،جو پوری دنیا کے لئے روشنی کا علم بردار تھا۔ سائنس کے مؤرخ وکٹر روبنسن نے بہت شاندار انداز میں اس فرق کو بیان کیا: “جب سورج طلوع ہوتا تھا تو یورپ اندھیرے میں ہوتا اور قرطبہ سڑکوں کے کنارے قمقمے روشن ہوتے۔ یورپ گندا تھا اور قرطبہ میں ایک ہزار سے زیادہ بیت الخلاء تھے، یورپ کیڑوں سے بھرا ہوا تھا اور قرطبہ روز صاف ہوتا تھا۔ یورپ کیچڑ سے لدا ہوا تھا اور قرطبہ کی سڑکیں پکی تھیں، یورپ کے شاہی لوگ دستخط کرنا نہیں جانتے تھے اور قرطبہ کے بچے سکول جاتے تھے۔ یورپ کے پادری بپتسمہ کی خدمات کو نہیں پڑھ سکتے تھے اور قرطبہ کے اساتذہ نے سکندر اعظم کے طرز پر ایک مکتب بنا لیا تھا۔” اسلامی تہذیب نے ریاضی، طب، علوم فلکیات کے مضامین میں ترقی پائی۔ ریاضی دان الخوارزمی کی ہی مثال لے لیجیئے، جس نے الجبرا کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، اسی وجہ سے انھیں بابائے کمپیوٹر سائنس کا لقب دیا جاتا ہے، کیونکہ الگورتھم کے بغیر کمپیوٹر وجود میں نہ آتے۔ ابو القاسم الزھراوی طب کے شعبہ میں جدت لانے کی وجہ سے قرون وسطی کے بہترین ماہر طب قرار پایے۔ وہ مسلمان اور عرب سائنسدان نے جنہوں اسلامی اقدار پر کو سمجھا اور اپنی زندگی کا حصہ بنایا کیا، وہی دماغی امراض کے علاج کے موجدین تھے۔ مثال کے طور پر8ویں صدی میں الراضی نے بغداد میں پہلا نفسیات کا ہسپتال بنایا۔ 11ویں صدی میں ابن سینا جو کہ ایک مشہور ماہر طب تھے، نے بتایا کہ زیادہ تر دماغی امراض کی بنیاد نفسیاتی مسائل ہیں۔ ابو زید بلخی جو 9ویں صدی کے معالج گزرے ہیں، انھوں نے ایک کتاب “روح کا قیام” لکھی اور اس میں اس کا ذکر کیا جو آج کل Cognitive Behavioral Therapy کہلاتی ہے جو کہ اس مضمون پر پہلی کتاب سمجھی جاتی ہے اور اس میں پہلی دفعہ اندرونی اور خارجی عوامل سے ہونی والی نفسیاتی مایوسی میں فرق ہے۔ مسلم دانشور اسلام کی اقدار سے بہت متاثر تھے۔ اس کی بنیادی وجہ اللہ کے نبی ﷺ کے الفاظ ہیں جو بیماریوں کا علاج تلاش کرنے میں معاون ہے: “اللہ نے کوئی ایسی بیماری نہیں پیدا کی مگر جس کا علاج نازل کیا ہو۔ “ اسلام نے علم و تدبر کے ساتھ تجرباتی سائنس کے حصول پر بھی زور دیا ہے۔ یہ ایسی کتاب ہے جس میں علم کے حصول اور عالم شہود پر تدبر کا تذکرہ کم و بیش سو بار ہوا ہے: “اس دنیاوی زندگی کی حالت تو ایسی ہے جیسے ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر اس سے زمین کی نباتات، جن کو آدمی اور چوپائے کھاتے ہیں، خوب گنجان ہوکر نکلی۔ یہاں تک کہ جب وه زمین اپنی رونق کا پورا حصہ لے چکی اور اس کی خوب زیبائش ہوگئی اور اس کے مالکوں نے سمجھ لیا کہ اب ہم اس پر بالکل قابض ہوچکے تو دن میں یا رات میں اس پر ہماری طرف سے کوئی حکم (عذاب) آپڑا سو ہم نے اس کو ایسا صاف کردیا کہ گویا کل وه موجود ہی نہ تھی۔ ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں۔ “ “پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا ره تیرا رب بڑے کرم واﻻ ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وه سکھایا جسے وه نہیں جانتا تھا۔ “ “بھلا جو شخص راتوں کے اوقات سجدے اور قیام کی حالت میں (عبادت میں) گزارتا ہو، آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہو، (اور جو اس کے برعکس ہو برابر ہو سکتے ہیں) بتاؤ تو علم والے اور بے علم کیا برابر کے ہیں؟ یقیناً نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقلمند ہوں۔ (اپنے رب کی طرف سے)۔ “ “کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ وه کس طرح پیدا کیے گئے ہیں۔ اور آسمان کو کہ کس طرح اونچا کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح گاڑ دیئے گئے ہیں۔ اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی ہے۔ ” “جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں وزمین کی پیدائش میں غوروفکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔ “ “بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے بدل بدل کے آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) خدا کو یاد کرتے اور آسمان اور زمین کی پیدائش میں غور کرتے (اور کہتے ہیں) کہ اے پروردگار! تو نے اس (مخلوق) کو بے فائدہ نہیں پیدا کیا تو پاک ہے تو (قیامت کے دن) ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچائیو۔” اللہ کی نبی ﷺ کی تعلیمات نے نہ صرف ایک ایسا ماحول بنایا جس میں دانشوری پروان چڑھے، بلکہ ایک ایسے نامور شخص کی پرورش کی بھی باعث بنی جس کی تاریخ شاہد ہے۔ اس کانام ابن الہیثم تھا۔ وہ دنیا کا پہلا سائنسدان تصور کیا جاتا ہے۔ یہ قول بہت سے مؤرخین کا ہے جیسا کہ ڈیوڈ سی لنڈبرگ کہتا ہے کہ ابن الہیثم پہلا سائنسدان ہے جس نے تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ ابن الہیثم نے “کتاب البصریات” لکھی جس کا یورپ پر بہت ثقیل اثر ہے۔ اگر وہ سائنسی طریقہ کار کو مرتب نہ کرتا تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ دنیا اس قدر سائنسی اعتبار سے ترقی نہ کر پاتی، جس قدر آج کر چکی ہے۔ ابن الہیثم اسلامی الہیات اور قرآن کا طالب علم بھی تھا۔ وہ وضاحت کے ساتھ یہ بیان کرتا ہے کہ سائنس اور عالم پر تدبر کے لئے اس کو دراصل قرآن سے ہی رہنمائی ملی تھی۔ “میں نے فیصلہ کیا کہ میں اس کا علم حاصل کروں جو مجھے اللہ کے قریب کر دے، اس کو کون سا عمل راضی کرتا ہے اور کس طرح ہم اس کی بندگی اور اس کی حکمت کے آگے جھک سکتے ہیں۔ “ بہت سے یورپی محققین، یورپ پر اس قرض کا اعتراف کرتے ہیں۔ پروفیسر جارج سالائیبا کہتے ہیں: “شاید ہی آپ کو اسلامی تہذیب یا عمومی سائنس کی تاریخ پر کوئی ایسی کتاب ملےجو اسلام کا سائنس کی ترویج اور انسانی زندگی کی نشو نما میں کردار کے بارے میں کم از کم کسی حیلے سے یہ اعتراف ضرور کرے ۔ “ پروفیسر ٹامس آرنلڈ کہنا ہے کہ دراصل یہ اسلامی اسپین تھا کہ جس نے یورپ کو نشاط ثانیہ کی راہ دکھائی: “۔ ۔ ۔ مسلم اسپین نے قرون وسطی میں دراصل تاریخ کے سنہرے ترین دن دیکھے۔ ۔ ۔ نئی جہت کی شاعری اور تہذیب، اور یہ دراصل اسلامی اسپین تھا کہ جس نے اس دور کے عیسائی محققین کو یونانی فلسفے اور سائنس کے انکی عقول پر نئے راز افشا کیے اور نشاط ثانیہ کی راہ ہموار ہوئی۔ “ بلکہ سب سے خوبصورت خلاصہ جو اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات کی بنیاد پر تہذیب کے بارے میں کیا، وہ ہیولیٹ پیکرڈ کے سابق صدر کارلے فیونا نے کیا: “ایک زمانہ تھا کہ جس کی تہذیب دنیا کی بہترین اور عظیم تہذیب تھی۔ ایک بہترین اور اعلی ریاست کا قیام کہ جس کا ظہور سمندر سے سمندر، شمالی پہاڑی علاقوں سے تپتے صحراؤں تک ہوا۔ اس کی پشت پر لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کا مسکن تھا، جو مختلف نسلوں، مختلف ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کی ایک زبان، اس دنیا کے اکثر ممالک کی آفاقی زبان بن گئی ،جو سینکڑوں علاقوں کے درمیان پل کے مانند ثابت ہوئی۔ اس ریاست کی فوج، بہت سی قومیت کے فوجیوں پر مشتمل تھی، اور اس کی فوجی حفاظت سے دنیا میں ایسا امن و سکون یقینی بنا جو اس سے پہلے پردہ تصور پر بھی نہ آ سکتا تھا۔ ” “اور اس تہذیب کی کامیابی کا راز ایجادات میں پوشیدہ تھا۔ اس کے ماہر تعمیرات کے ہاتھوں ایسی عمارات بنی کے جنھوں نے قانون کشش ثقل کو بھی پچھاڑ دیا۔ اس کے ریاضی دانوں نے الجبرا اور الگوردم مرتب کیے جن کی بنیاد پر کمپیوٹر وجود میں آئے اور انکرپشن ڈیزائن کرنے کا طریقہ وجود میں آیا۔ اس کے طبیبوں نے انسانی جسم کا تجزیہ کیا اور بیماریوں کے نت نئے علاج تلاش کیے۔ اس کے ماہر افلاک نے نئے ستارے تلاش کیے، ستاروں کو نام دیے۔ اس کے مصنفین نے ہزاروں کہانیاں لکھیں۔ بہادری، عشق و محبت اور جادوئی کہانیاں۔ “جب باقی تہذیبیں نئے خیالات کا ذہن میں ابھرنے کو رد کر دیتے تھے ،تو اس تہذیب نے ان کو تقویت بخشی اور ان کو زندہ کیا۔ جب علم دشمنوں نے علم کو ختم کرنے کی کوشش کیں تو اس تہذیب نے علم کو زندہ رکھا اور اسے منتقل کیا۔ مغربی تہذیب میں بھی اس تہذیب کی بہت ساری خصوصیات شامل ہیں ، میرا مقصود اسلامی دنیا کا وہ دور ہے جو 800 تا 1600 تک دنیا نے دیکھا، جس میں خلافت عثمانیہ، بغداد کی عدالتیں، دمشق اور قاہرہ اور شاہ سلیمان جیسے عظیم حاکم ہیں۔ ” ” ہم میں سے اکثر نہیں جانتے کہ ہم اور دیگر تہذیبیں اس تہذیب کے مقروض ہیں، اس کے تحائف ہماری میراث کا حصہ ہیں۔ آج کی ٹیکنالوجی انڈسٹری، عرب ریاضی دانوں کے بغیر وجود نہ رکھتی۔ شاہ سلیمان جیسے حکمرانوں کے بغیر ہم برداشت اور حکمرانی کے اصول نہ جان پاتے، جس کی حکمرانی کا معیار وراثت کے بجائے اہلیت تھی۔ یہ اس تہذیب کی قیادت تھی کہ جس نے اس قدر مختلف انواع کے افراد جن میں عیسائی، یہود و اسلامی تہذیبوں کی نشونما کی اور انھیں پھلنے پھولنے دیا۔ یہ وہ عقلمندانہ حاکم تھے کہ جن کی بصیرت سے امن و آشتی نے دنیا میں جگہ پائی، اور اس کا نتیجہ 800 سال پر محیط ایجادات اور خوشحالی تھا۔ ” بنیادی وجہ، جس کی بنیاد پر اللہ کے نبی ﷺ اس طرح کی اعلی تہذیب کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوئے، وہ اللہ کی توحید کا درس، اور اس کی خوشنودی کے لئے اعمال کرنے کا درس تھا اور یہی اخلاقیات کا پہلو، ان کی اور ان کے پیروکاروں کی زندگی کا معیار تھا۔ اس نے ایک ایسا لا زمان، غیر جانبدارانہ اخلاقی ماحول تیار کیا کہ 18 ویں صدی کا ماہر معاشیات ایڈم سمتھ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ یہ پہلی قوم تھی: “جس کے تحت دنیا کو اس حد تک سکون ملا جس کی سائنس کی ترقی کو ضرورت ہوتی ہے۔” آپ ﷺ صادق و امین اور اعلی اخلاقی صفات کے مالک تھے اور جو اثرات انھوں نے دنیا پر چھوڑے، وہ اس کی شہادت تھے کہ وہ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کی زندگی کا پر غور اور منصفانہ، بغیر کسی تعصب کے مطالعہ صرف ایک ہی نتیجے پر پہنچائے گا” وہ دنیا کہ لیے رحمت، اور اللہ کی طرف سے منتخب تھے، جو دنیا کو ظلمت سے نکال کر روشنی کی طرف بلانے کے لیے آئے تھے۔ In his book Muhammad at Mecca<1>undefined Montgomery Watt (late) William Draper Karen Armstrong Amnen Cohen Patriarch Thedosius Reinhart Dozzy Thomas Arnold Micheal Bonner Hamilton A.R. Gibb A. J. Toynbee Victor Robinson David C. Lindberg Professor George Saliba Professor Thomas Arnold CEO of Hewlett Packard, Carly Fiorina undefined The name Muhammad is mentioned four times and Ahmad (another one of his names) is mentioned once. See http://corpus.quran.com/search.jsp?q=muhammad and http://corpus.quran.com/search.jsp?q=ahmad