بچپن میں مجھے دادا ابو کی شراب پینے کی کوشش کرنے پر والدین کی طرف سے ہمیشہ ڈانٹ پڑتی تھی۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک تیز اور متجسس بچہ اپنے داد جان کو اس گاڑھی، سنہری، لطیف ریشمی جام کی چسکیاں لیتے ہوئے محوِ نظارہ ہو۔ مجھے بھی کچھ طلب ہوئی! تاہم جب بھی میں چھپ کر اس مرغوب مشروب کی جانب بڑھتا، میں بڑی مشکل میں پھنس جاتا۔ مجھے اس کی وجہ کبھی سمجھ نہ آتی۔ یوں میرے ذہن میں اپنے والدین کے خلاف منفی خیالات گردش کرتے۔ بہت سالوں کے بعد اب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مجھے دادا کی شراب پینے کیوں نہیں دیتے تھے؛ یہ میرے لیئے زہر ثابت ہو سکتا تھا۔ 40 فیصدی شراب کا محلول میرے ناتواں جگر کے لیئے خوشگوار نہ ہوتا۔ تاہم جب میں چھوٹا تھا تو مجھے اتنی دانائی حاصل نہ تھی کہ میں اپنے والدین کے فیصلے کی بنیاد کو سمجھ لیتا، لیکن میرا خیال تھا کہ ان کے متعلق میرے منفی خیالات بجا ہیں۔
یہ خدا کی طرف ملحد کے رویے کا خلاصہ ہے، جب وہ دنیا میں شر و الم کے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔اوپر کی کہانی سے لوگوں کے مصائب و الام کی بے آبروئی کرنا مقصود نہیں ہے۔ انسان ہونے کے ناطے ہمیں غمگسار ہونا چاہیئے اور لوگوں کی مشکلات کو آسان کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ تاہم اس مثال کو ایک فکری نقطۂ نظر کو اجاگر کرنے کے واسطے بیان کیا گیا ہے۔ انسانی و حیوانی ہمدردی کے حقیقی اور بجا احساس کے سبب، بہت سے ملحد، یہ استدلال کرتے ہیں کہ ایک قادر و رحمٰنundefined خدا کا وجود دنیا میں شر و الم کے وجود سے ناموافق ہے۔ اگر وہ ‘الرحمٰن’ ہے، تو اس کی خواہش ہو گی کہ دنیا میں شر و الم کا خاتمہ ہو جائے، اور اگر وہ قادرِ مطلق ہے تو یہ خاتمہ اس کے اختیار میں ہونا چاہیئے۔ مگر چونکہ شر و الم دنیا میں موجود ہیں، اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ یا اس کی رحمت کامل نہیں یا اس کی قدرت مطلق نہیں یا پھر دونوں۔
مسئلہ شر و الم کا یہ استدلال نہایت کمزور ہے کیونکہ اس کی بنیاد دو بڑے غلط مفروضوں پر ہے۔ پہلا مفروضہ خدا کی ماہیت سے متعلق ہے۔ یہ خدا کے صرف قادرِ مطلق اور رحیمِ کامل ہونے سے استدلال کرتا ہے اور اس طرح خدا کی ان دو صفات کو الگ کر کے دوسری تمام صفات کو نظر انداز کر دیتا ہے، جنھیں قرآن میں وحی کیا گیا ہے۔ دوسرا مفروضہ یہ ہے کہ خدا نے ہمیں دنیا میں شر و الم کے وجود کی کسی معقول وجہ سے مطلع نہیں فرمایا
مندرجہ ذیل سطور میں ان دونوں مفروضوں سے متعلق بحث کی جائے گی۔
کیا اللہ تعالیٰ صرف ‘رحیمِ کامل’ اور ‘قادرِ مطلق’ ہے؟
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ ‘القدیر’ ہے، یعنی قادرِ مطلق، اور ‘الرحمٰن’، یعنی رحیمِ کامل ہے, جس سے مراد نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ اسلام انسانوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ایک خدائے قوت و خدائے رحم و خیر پر ایمان لائیں۔ مگر ملحد اسلام کے خدا کے متعلق اس جامع تصور کو نہایت غلط انداز میں پیش کرتے ہیں۔ خدا محض قادرِ مطلق اور رحیم ِ کامل ہی نہیں ہے بلکہ اس کے اور بھی بہت سے اسماء و صفات ہیں۔ کلی طور پر ان اوصاف کو بذریعہِ وحدانیتِ خدا ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ مثلاً خدا کے ناموں میں سے ایک ‘الحکیم’ ہے یعنی حکمت ِ کامل رکھنے والا۔ چونکہ حکمت خدا کی ذات کا جزوِ لا ینفک ہے، چنانچہ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس کے تمام ارادے حکمتِ ربانی کے مطابق ہوتے ہیں۔ جب کسی چیز کی تشریح، اس میں مضمر حکمتِ ربانی سے کی جاتی ہے تو اس کے وجود کی کوئی معقول وجہ کا ہونا ناگزیر ہے۔ اس طرح، ملحدین کا خدا کو صرف دو صفات تک محدود کر دینا ایک یکطرفہ باطل مفروضہ کھڑا کرنے کا موجب بنتا ہے۔
‘نوجوان ملحد کی دستی کتاب’<1>undefined کا مصنف الوم شاہا، خدائی حکمت کے ذریعہ دنیا میں شر و الم کے وجود کی توجیہ کو ایک “عقلی حیلہ” گردانتے ہوئے کہتا ہے:
“مسئلہ شر، عام معتقدین کی اکثریت کو واقعتاً لا جواب کر دیتا ہے۔ میرے تجربے میں، ان کا جواب عموما ً ان خطوط پر ہوتا ہے، “خدا پراسرار طریقوں سے کام کرتا ہے۔ ” کبھی وہ کہتے ہیں، “رنج و الم ہماری آزمائش کا خدائی طریقہ ہے” جس کا واضح جواب یہ ہے کہ، “خدا کو اس طریقہِ شر سے ہی ہماری آزمائش کیوں لینا تھی؟” جس کا جواب ہوتا ہے “خدا پراسرار طریقوں سے کا م کرتا ہے”۔ آپ کو سمجھ تو آ ہی گئی ہو گی
الوم باقی ملحدین کی طرح مغالطہ بوجہ جہالت<2>undefined کا شکار ہے۔ خدائی حکمت تک کسی شخص کی رسائی نہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اس حکمت کا کوئی وجود ہی نہیں۔ یہ ایک بچگانہ استدلال ہے۔ بہت سے بچوں کو ان کے والدین ان کی کسی طلب پر ڈانٹ دیتے ہیں، مثلاً بہت زیادہ مٹھائی کھانے پر۔ بچے عام طور پر رو پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں کیونکہ ان کی دانست میں ان کے ماں باپ ان پر زیادتی کر رہے ہیں، لیکن بچے کی رسائی اس اساسی حکمت تک نہیں ہوتی۔ جب میں بچہ تھا، میرے والدین مجھے اپنے دادا کی شراپ پینے کی کوشش کرنے پر ہمیشہ ڈانٹ دیتے تھے۔ علاوہ ازیں، یہ دعوی خدا کی ذات کی ایک غلط تعریف پر مبنی ہے۔ چونکہ خدا ایک ماورا، عالمِ ُکل اور حکیم ہستی ہے، اس کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ محدود انسان، خدائی حکمت کا احاطہ نہیں کر سکتے۔ محض یہ بھی کہنا کہ ہم خدا کی حکمت کو مکمل سمجھ سکتے ہیں، خدائی صفات کا دعوی ہے اور یہ بات خدا کی ماورائیت کے برخلاف ہے یا یہ نتیجہ برآمد کرتی ہے کہ خدا بھی انسانوں کی طرح محدود ہے۔ یہ استدلال کسی بھی ایمان والے کو متاثر نہیں کرتا، کیونکہ کوئی بھی مسلمان اس طرح کے تخلیق شدہ محدود خدا پر ایمان نہیں رکھتا۔ مزید خدائی حکمت کی طرف رجوع کرنا ہرگز کوئی عقلی حیلہ نہیں ہے کیونکہ یہ کسی پراسرار لا معلوم شے کی طرف رجوع نہیں۔ بلکہ یہ استدلال خدا کی فطرت کو صحیح معنوں میں سمجھتے ہوئے، منطقی نتیجے تک پہنچتا ہے۔ جیسے کہ میں ذکر کر چکا، خدا کے پاس مکمل تصویر ہے اور ہمارے پاس صرف اس کا ایک جزو۔
مسئلہ شر و الم عموما ایک ذہنی تعصب کو آشکار کرتا ہے جسے “انانیت” کہا جاتا ہے۔ ایسا شخص اپنے سوا کسی اور کے نقطہ نگاہ سے کسی بھی مسئلہ پر غور نہیں کر سکتا۔ کچھ ملحدین اسی ذہنی تعصب میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ فرض کر لیتے ہیں کہ چونکہ دنیا میں شر و الم کی کوئی معقول توجیہ ان کی سمجھ سے بالاتر ہے چنانچہ باقی تمام لوگ بشمول خدا، اسی مشکل سے دوچار ہوں گے۔ لہذا وہ خدا کے منکر ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک خدا کی دنیا میں شر و الم کو پنپنے کی اجازت دینے کی کوئی وجہ نہیں۔ اور اگر خدا کے پاس کوئی معقول وجہ نہیں، تو خدا کی رحمت اور قدرت فقط ایک وہم ہے۔ پس خدا کے روایتی تصور کی نکیر ہو جاتی ہے۔ جبکہ اس طرح یہ ملحدین جو کچھ بھی کر پائے، وہ فقط یہ ہے کہ اپنے خود ساختہ نظریات کو خدا پر صادر کر دیا۔ یہ ایسا ہے جیسے کوئی اصرار کرے کہ خدا کو لازماً ویسا ہی سوچنا چاہیئے جیسا انسان سوچتے ہیں۔ یہ بات اس لیے ناممکن ہے کہ خدا اور انسانوں کا تقابل نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ خدا ماورا ہستی ہے جو با تمام و کمال علم و حکمت رکھتا ہے۔ بندے کا خدا سے موازنہ کرنا چیزوں کو مجموعی طور پر سمجھنے کی صلاحیت سے ان کی محرومی کو عیاں کرتی ہے۔
اگرچہ میں ان کے با شعور مخلوق کے رنج و تکالیف پر جذبہ ِ ہمدردی کا قدردان ہوں، لیکن اسکے ساتھ کچھ ملحد ایک پوشیدہ قسم کی نفس پرستی اور انانیت کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی وہ خصوصی کوشش کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو اپنے سوا کسی اور کے نقطہء نظر سے نہ دیکھنے پائیں۔ البتہ ایسا کرتے ہوئے، وہ ایک جذباتی اور روحانی مغالطہ سر زد کرتے ہیں۔ وہ خدا کو انسانی لباس پہنا کر ایک محدود انسان بنا ڈالتے ہیں۔ وہ از خود فرض کر لیتے ہیں کہ خدا اسی طرح دیکھتا ہو گا جس طرح ہم، چنانچہ اسے شر کا خاتمہ کر دینا چاہیئے۔ اگر وہ اسے پنپنے کی اجازت دیتا ہے، تو اس کی تشکیک و تردید کر دینی چاہیئے۔
اس مقام پر شاید ملحد، ردِعمل میں، مذکورہ بالا جواب کو اصل مسئلہ سے کنی کترانے کا ایک ذہین طریقہ قرار دے۔ اگر ایک ایمان والا خدائی حکمت کا حوالہ دے سکتا ہے:یہ کہہ کر کہ اس کی حکمت اتنی عظیم ہے کہ اسے سمجھا نہیں جا سکتا، تو پھر ہم کسی بھی ‘پر اسرار’ چیز کی توضیح اسی حکمتِ ربانی سے کر سکتے ہیں۔ مجھے اس جواب سے کچھ ہمدردی ہے۔ تاہم مسئلہ شر و الم کے سیاق و سباق میں یہ ایک غلط دلیل ہے۔ یہ ملحد ہی ہیں جو اس معاملے میں خدا کی صفات سے استنباط شروع کرتا ہے؛ یعنی اس کی قدرت اور رحمت سے۔ ان سے صرف یہ کہا جا رہا ہے کہ انھیں خدا کی دوسری صفات مثلاً حکمت کو بھی محلِ نظر رکھنا چاہیئے، وگرنہ ان کا استدلال معتبر نہ ہو گا۔ اگر وہ خدائی حکمت کو شاملِ بحث کریں تو انھیں یہ ثابت کرنا ہو گا کہ حکمت ِ ربانی شر و الم سے بھری دنیا سے کیونکر متصادم ہے۔ یہ ثابت کرنا ناممکن ہو گا کیونکہ ہماری عقلی اور عملی زندگی ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہیں جن میں ہم اپنی عقلی کمتری کو قبول کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ایسے بہت سے مواقع آتے ہیں جن میں ہمیں ایسی حکمت کا اقرار کرنا پڑتا ہے جو ہماری سمجھ سے بالاتر ہوتی ہے۔ ہم روزمرہ ایسی حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہیں جو ہماری پہنچ سے بعید ہوتی ہیں۔
مثال کے طور پر، جب ہم کسی طبیب کے پاس جاتے ہیں، ہم طبیب کو ایک ماہر اور مختار تسلیم کر لیتے ہیں۔ ہم طبیب کی تشخیص پر اسی بنیاد پر بھروسا کرتے ہیں۔ ہم بلا کسی جھجک طبیب کی تجویز کردہ دوا بھی لے لیتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کی اور بہت سی مثالیں یہ واضح طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ خدا کی حکمت کی طرف اشارہ کرنا، مسئلہ سے جان چھڑانا نہیں ہے۔ بلکہ یہ خدا کا درست تصور پیش کرنا اور خدا کو صرف دو صفات تک محدود کرنے سے اجتناب کرنا ہے۔ کیونکہ وہ الحکیم ہے، اور اس کے نام اور صفات کاملِ مطلق ہیں۔ چنانچہ یہ لازم ہے کہ اس کے ہر عمل کے پیچھے حکمت کارفرما ہوتی ہو، قطع نظر اس کے کہ ہمیں اس حکمت کا پتا یا سمجھ ہو یا نہ ہو۔ ہم میں سے بہتوں کو نہیں معلوم کہ جراثیم کس طرح کام کرتے ہیں، لیکن محض ہماری ناسمجھی کسی چیز کے وجود کی نفی نہیں کر دیتی۔
قرآن اس بات کو سمجھانے کے لئے نہایت پر غور واقعات اور قصے بیان کرتا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کی خضر علیہ السلام سے دورانِ سفر ملاقات کے قصے کو ہی لےلیجیے۔ موسیٰ علیہ السلام ان کو ایسی چیزیں کرتے دیکھتے ہیں جو بظاہر بہت ظالمانہ اور مضر ہوتی ہیں، لیکن سفر کے اختتام پر اس حکمت کو واضح کر دیا جاتا ہے، جسے سمجھنے سے موسیٰ علیہ السلام قاصر رہے:
“موسیٰ نے کہا یہی تھا جس کی تلاش میں ہم تھے چنانچہ وہیں سے اپنے قدموں کے نشان ڈھونڈتے ہوئے واپس لوٹے۔ پس ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا، جسے ہم نے اپنے پاس کی خاص رحمت عطا فرما رکھی تھی اور اسے اپنے پاس سے خاص علم سکھا رکھا تھا۔ اس سے موسیٰ نے کہا کہ میں آپ کی تابعداری کروں؟ کہ آپ مجھے اس نیک علم کو سکھا دیں جو آپ کو سکھایا گیا ہے۔ اس نے کہا آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکتے ۔ اور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو اس پر صبر بھی کیسے کر سکتے ہیں؟ موسیٰ نے جواب دیا کہ انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور کسی بات میں، میں آپ کی نافرمانی نہ کروں گا۔ اس نے کہا اچھا اگر آپ میرے ساتھ ہی چلنے پر اصرار کرتے ہیں تو یاد رہے کسی چیز کی نسبت مجھ سے کچھ نہ پوچھنا جب تک کہ میں خود اس کی نسبت کوئی تذکرہ نہ کروں۔ پھر وه دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک کشتی میں سوار ہوئے، تو اس نے کشتی کے تختے توڑ دئیے، موسیٰ نے کہا کیا آپ اسے توڑ رہے ہیں تاکہ کشتی والوں کو ڈبو دیں، یہ تو آپ نے بڑی (خطرناک) بات کر دی۔ اس نے جواب دیا کہ میں نے تو پہلے ہی تجھ سے کہہ دیا تھا کہ تو میرے ساتھ ہرگز صبر نہ کر سکے گا۔ موسیٰ نے جواب دیا کہ میری بھول پر مجھے نہ پکڑیے اور مجھے اپنے کام میں تنگی میں نہ ڈالیے۔ پھر دونوں چلے، یہاں تک کہ ایک لڑکے کو پایا، اس نے اسے مار ڈالا، موسیٰ نے کہا کہ کیا آپ نے ایک پاک جان کو بغیر کسی جان کے عوض مار ڈالا؟ بےشک آپ نے تو بڑی ناپسندیدہ حرکت کی۔ وه کہنے لگے کہ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ ره کر ہرگز صبر نہیں کر سکتے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا اگر اب اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا، یقیناً آپ میری طرف سے (حد) عذر کو پہنچ چکے۔ پھر دونوں چلے ایک گاؤں والوں کے پاس آ کر ان سے کھانا طلب کیا تو انھوں نے ان کی مہمان داری سے صاف انکار کر دیا، دونوں نے وہاں ایک دیوار پائی جو گرا ہی چاہتی تھی، اس نے اسے ٹھیک اور درست کر دیا، موسیٰ (علیہ السلام) کہنے لگے اگر آپ چاہتے تو اس پر اجرت لے لیتے۔ اس نے کہا بس یہ جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان، اب میں تجھے ان باتوں کی اصلیت بھی بتا دوں گا جس پر تجھ سے صبر نہ ہو سکا۔ کشتی تو چند مسکینوں کی تھی جو دریا میں کام کاج کرتے تھے۔ میں نے اس میں کچھ توڑ پھوڑ کرنے کا ارادہ کر لیا کیونکہ ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا۔ اور اس لڑکے کے ماں باپ ایمان والے تھے۔ ہمیں خوف ہوا کہ کہیں یہ انھیں اپنی سرکشی اور کفر سے عاجز و پریشان نہ کر دے۔ اس لئے ہم نے چاہا کہ انھیں ان کا پروردگار اس کے بدلے اس سے بہتر پاکیزگی والا اور اس سے زیادہ محبت اور پیار والا بچہ عنایت فرمائے۔
خدائی حکمت کا ہماری محدود حکمت سے موازنہ کے علاوہ یہ قصہ ہمیں کلیدی اسباق اور باطنی بصیرت بھی فراہم کرتا ہے۔ پہلا سبق یہ ہے کہ مشیتِ ایزدی سمجھنے کیلے عاجزی ضروری ہے۔ موسیٰ خضر سے یہ جانتے ہوئے ملے کہ ان کے پاس کچھ ایسا الہامی علم تھا جو خدا نے موسیٰ کو نہیں دیا تھا۔ موسیٰ نے ان سے علم سیکھنے کی عاجزانہ گزارش کی مگر خضر علیہ السلام نے جواباً ان کی صبر کی استطاعت پر شک کا اظہار کیا۔ بہرحال موسیٰ علیہ السلام نے اصرار کیا کہ وہ سیکھنا چاہتے تھے۔ (اسلامی روایات میں موسیٰ علیہ السلام کا روحانی مقام و مرتبہ نہایت بلند ہے۔ وہ ایک نبی اور رسول تھے، اس کے باوجود وہ خضر علیہ اسلام کے پاس عاجزی سے گئے)۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ دنیا میں شر و الم کے معاملے سے جذباتی و نفسیاتی طور پر نبرد آزما ہونے کیلئے صبر درکار ہے۔ خضر کو معلوم تھا کہ موسیٰ علیہ السلام ان کے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر پائیں گے کیونکہ انھیں ایسے کام کرنے تھے، جو موسیٰ کے نزدیک شر تھے۔ موسیٰ نے صبر کرنے کی کوشش کی، مگر ہر بار ان کے اعمال پر سوال اٹھائے اور اپنے ادراک میں شر پر غصے کا اظہار کیا۔ بہر حال واقعہ کے اختتام پر خضر علیہ السلام نے یہ کہنے کے بعد کہ موسیٰ صبر نہیں کر پائے ،اپنے اعمال کے پسِ پردہ حکمتِ ایزدی سے پردہ اٹھا دیا۔ اس کہانی سے ہمیں جو سبق ملتا ہے وہ یہ ہے کہ، دنیا میں شر و الم اور اسے سمجھنے کی صلاحیت سے محرومی سے نبرد آزما ہونے کے لیے ہمیں لازماً عاجزانہ و صابرانہ رویہ اختیار کرنا ہونا ہو گا۔
مذکورہ بالا آیات کی تفسیر کرتے ہوئے، مفسر حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ خدا نے خضر علیہ السلام کو دنیا میں ظاہری شر و الم کی مخفی حقیقت کے علم سے نوازا تھا، جبکہ موسیٰ علیہ اسلام کو یہ علم نہیں دیا گیا تھا۔ اس آیت کے متعلق کہ “آپ میرے ساتھ ہرگز صبر نہیں کر سکتے”، ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اس سے مراد ہے: “آپ میرا ساتھ نہیں نبھا سکتے، میرے کام آپ کو اپنے علم کے خلاف نظر آئیں گے، میرا علم آپ کو نہیں اور آپ کو جو علم ہے، وہ اللہ نے مجھے نہیں سکھایا”۔
در اصل خدا کی حکمت لا متناہی اور کامل ہے جبکہ ہمارے پاس علم و حکمت کا ایک محدود سا حصہ ہے۔ یا یوں کہیے کہ خدا کے پاس کامل علم و حکمت ہے جبکہ ہمارے پاس اس کے کچھ جزئیات ہیں۔ ہم چیزوں کو اپنے جزوی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ نفس پرستی کے جال میں پھنس جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی پہیلی کے ایک حصے کو دیکھ کر یہ سمجھ لینا کہ آپ کو پوری پہیلی سمجھ آ گئی۔ چنانچہ حافظ ابن کثیرؒ بیان کرتے ہیں کہ آیت “اور جس چیز کو آپ نے اپنے علم میں نہ لیا ہو اس پر صبر بھی کیسے کر سکتے ہیں؟” کا مطلب ہے کہ ایسی الٰہی حکمت موجود ہے جس تک ہم رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ “ناممکن ہے کہ آپ اپنی معلومات کے خلاف میرے افعال دیکھیں اور پھر صبر کر سکیں۔ اور واقعہ میں آپ اس حال میں معذور بھی ہیں۔ کیونکہ خدائی حکمت اور مصلحت آپ کو معلوم نہیں “۔
یہ نظریہ کہ ہر چیز حکمت الٰہی کے مطابق ظہور پذیر ہوتی ہے، بہت تقویت بخش اور مثبت ہے۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کی ذات کے دوسرے پہلووں سے متصادم نہیں ہے، جیسے اس کی صفت خیر و کمال۔ چنانچہ شر و الم بالآخر ایک باطنی مقصد کے تابع ہیں۔ چودھویں صدی کے عالم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے یہ نقطہ نہایت جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے: “اللہ تعالیٰ خالص شر تخلیق نہیں کرتا۔ بلکہ اس کی ہر تخلیق میں ایک پر حکمت مقصد کارفرما ہوتا ہے جو بالآخر خیر پر ہی منتج ہوتا ہے۔ البتہ اس میں کچھ لوگوں کے لیے کچھ شر ہو سکتا ہے، اور یہ جزوی و نسبتی ہوتا ہے۔ جہاں تک تعلق ہے کل شر یا مطلق شر کا، تو اللہ تعالیٰ اس سے بری ہے۔ “
اس سے گزشتہ باب میں مذکور معروضی اخلاقی حقیقتوں کے تصور کی نفی نہیں ہوتی۔ با وجود اس کے کہ ہر چیز انجام کار خیر کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور شر کی اصلیت محض جزوی ہے، اس سے شر کی واقعی تصور پر آنچ نہیں آتی۔ جیسا کہ بیان ہوا، شرِ واقعی اپنی اصلیت کے اعتبار سے شرِ مطلق کے ہم معنی نہیں ہے، بلکہ یہ کچھ خاص سیاق و سباق اور متغیرات پر مبنی شر ہے۔ چنانچہ کوئی چیز کچھ متغیرات یا سیاق کی بنا پر حقیقی شر ہو سکتی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ وہ کسی پرُ حکمت اور اچھے باطنی مقصد سے ہم آہنگ بھی ہو سکتی ہے۔
یہ رویہ معتقدین میں ایک مثبت نفسیاتی ردِعمل پیدا کرتا ہے کیونکہ پیش آنے والے تمام شر اور مصائب کسی باطنی مقصد کیلئے ہوتے ہیں۔ ابن تیمیہؒ اس نقطے کا نہایت عمدہ خلاصہ بیان کرتے ہیں: “اگر اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے، تو وہ خیر و شر کی تخلیق اس پرُ حکمت مقصد کیلئے کرتا ہے جس بنا پر اس کے احکام خیر اور کامل ہوتے ہیں۔ “
ہنری لاؤسٹ بھی اپنے مقالے<3>undefined میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کا یہی موقف بیان کرتا ہے: “اللہ تعالیٰ دراصل پیش بین و مدبر ِ کامل ہے۔ شر کا دنیا میں کوئی حقیقی وجود نہیں۔ جو کچھ اللہ کی منشا ہوتی ہے وہ ایک بلند تر انصاف اور لا متناہی خیر کے مطابق ہوتی ہے، مگر صرف اس صورت میں کہ اس کا جائزہ کلی اور جامع نقطہ نظر سے لیا جائے نہ کہ حقیقت کے متعلق اس ناقص اور نامکمل علم سے جو مخلوق کے پاس ہے…”
کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی وجہ بتائی ہے کہ اس نے شر و الم کے رونماء ہونے کی اجازت کیوں دی؟ کیا اللہ تعالیٰ شر و الم کا کوئی جواز فراہم کرتا ہے؟
دوسرے مفروضے کا مدلل اور شافی جواب یہ ہو گا کہ اس بات کی دلیل فراہم کی جائے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بارے میں کچھ وجوہات بتائی ہیں کہ شر و الم کا دنیا میں وجود کس لیے ہے۔ اسلام کی بھر پور فکری میراث ایسی معقول وجوہات سے بھری پڑی ہے:
ہمارا مقصد عبادت ہے
انسانوں کا بنیادی مقصد صرف وقتی خوشی کے عارضی احساس سے لطف اندوز ہونا نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور عبادت کے ذریعہ ایک گہرا باطنی اطمینان حاصل کرنا ہے۔ اس مقصد کی تکمیل ایک ابدی سعادت اور حقیقی خوشی پر منتج ہو گی۔ چنانچہ اگر یہی ہمارا بنیادی مقصد ہے تو باقی تمام انسانی تجربات ثانوی ہیں۔ قرآن کہتا ہے، ” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ میری عبادت کریں۔”
ایسے شخص کا تصور کیجئے جس کو کبھی کسی دکھ یا تکلیف سے واسطہ نہیں پڑا، اس کے برعکس وہ ہر وقت عیش کی حالت میں رہتا ہے۔ یہ شخص اپنی تن آسانی کی وجہ سے خدا کو بھول گیا ہے لہذا اس مقصد کو پورا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے، جس کیلئے اسے پیدا کیا گیا تھا۔ اس کا موازنہ کیجئے اس شخص سے، جس کے تلخ تجربات اسے خدا تک پہنچا دیتے ہیں اور وہ اپنے زندگی کے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اسلام کی روحانی روایت میں، وہ شخص جس کے تلخ تجربات اسے خدا تک لے گئے، اس شخص سے کہیں بہتر ہے جسے دنیا میں کبھی کوئی پریشانی در پیش نہ آئی اور جس کی عیش و آسائش زندگی اسے خدا سے دور لے گئی۔
زندگی ایک امتحان ہے
خدا نے ہمیں ایک امتحان کیلئے بھی تخلیق کیا ہے، اور شر و الم کے یہ تجربات اسی امتحان کا حصہ ہیں۔ اس امتحان میں کامیابی ہماری جنت کی ابدی زندگی کی ضامن ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موت اور زندگی کو تخلیق کیا “تاکہ وہ تمہارا امتحان لے کہ تم میں سے کون بہترین اعمال کرتا ہے، وہ نہایت زبردست اور بہت معاف کرنے والا ہے”۔
اصل میں ملحد دنیا میں ہمارے وجود کے مقصد کو سمجھنے میں غلطی کرتا ہے۔ اس دنیا کو آزمائش و ابتلا کا اکھاڑا بنایا گیا ہے کہ جس میں ہمیں مکمل آزادی دے کر پرکھا جا سکے اور ہمارے اندر کی اچھائیوں کو پروان چڑھایا جا سکے۔ مثال کے طور پر، ہم صبر کو کیسے پروان چڑھا سکتے، اگر ہم صبر آزما حالات سے نبرد آزما ہی نہ ہوتے؟ ہم دلیر کیسے بن سکتے، اگر کوئی خطرات ہی در پیش نہ ہوتے؟ ہم مہربان کیسے ہو سکتے، اگر کسی کو رحمت کی ضرورت ہی نہ ہو؟ زندگی کا ایک امتحان ہونا ان سوالات کا جواب ہے۔ ہمیں اپنی اخلاقی اور روحانی ترقی کیلئے ان آزمائشوں کی ضرورت ہے۔ ہم یہاں تفریح کرنے کے لیے نہیں ہیں، اس کیلئے جنت ہے۔
تو پھر زندگی ایک امتحان کیوں ہے؟چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات خیر ِ کامل ہے، وہ چاہتا ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی ایمان لے آئے اور اس کے نتیجہ میں جنت کی سعادت بھری ابدی زندگی پائے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ہم سب کیلئے ایمان ہی پسند کرتا ہے: “اور وہ اپنے بندوں کیلئے کفر پسند نہیں کرتا۔ “
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ کوئی بھی انسان دوزخ میں جائے۔ تاہم اگر وہ اس کا اندھا اطلاق کر دے اور ہر ایک کو جنت بھیج دے تو یہ انصاف کے اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہو گی کہ اللہ تعالیٰ موسیٰ اور فرعون اور ہٹلر اور عیسیٰ سے یکساں سلوک کرے۔ ایسی کسی ترکیب کی ضرورت ہے جس کے تحت لوگ لیاقت کی بنا پر جنت میں داخل کیے جائیں۔ یہ وہ مقصد ہے جس وجہ سے زندگی کو ایک امتحان بنایا گیا ہے۔ زندگی صرف ایک ترکیب ہے جس سے پرکھا جا سکتا ہے کہ ہم میں سے کون ابدی مسرت کا حقدار ہے۔ اس وجہ سے زندگی آزمائشوں سے بھری پڑی ہے جس سے ہمارا امتحان ہوتا ہے۔
اس ضمن میں اسلام نہایت امید افزا ہے کیونکہ یہ رنج و الم اور تکالیف کو امتحان قرار دیتا ہے۔ ہم اس دنیا کی نعمتوں سے لطف اندوز بھی ہو سکتے ہیں، لیکن بنیادی طور پر ہمیں کسی خاص مقصد کیلئے تخلیق کیا گیا ہے اور وہ مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے۔ قوت بخش اسلامی نظریہ یہ ہے کہ آزمائشوں کو اللہ کی محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا، “جب خدا اپنے کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے۔ “
اپنے محبوب بندوں کو آزمانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ آزمائشیں اللہ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں اور اللہ کی محبت اور رحمت کا نتیجہ جنت میں داخلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں اسے واضح کرتا ہے: “کیا تم یہ گمان کر بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے، حالانکہ اب تک تم پر وہ حالات نہیں آئے جو تم سے اگلے لوگوں پر آئے تھے۔ انھیں بیماریاں اور مصیبتیں پہنچیں اور وہ یہاں تک جھنجوڑے گئے کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہنے لگے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن رکھو کہ اللہ کی مدد قریب ہی ہے۔ “
اسلامی روایات کی خوبصورتی یہ ہے کہ ہمارا پروردگار، جو ہمیں ہم سے بہتر جانتا ہے، پہلے ہی ہمیں خبر دیتا ہے کہ ہمارے پاس ان آزمائشوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت موجود ہے: “اللہ تعالی کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ ”
تاہم، اگر ہم اپنی بھر پور کوشش کے باوجود ان آزمائشوں سے کامیابی سے نبرد آزما نہیں ہو پاتے، تو اللہ کی رحمت اور عدل کا تقاضا ہے کہ وہ ہمیں اس زندگی یا ہماری منتظر ابدی زندگی میں اس کا پورا بدلہ ضرور دے گا۔
خدائے علیم
رنج و الم ہمیں اللہ تعالیٰ کی صفات سے روشناس کراتی ہیں جیسے الحافظ اور الشافی۔ مثلاً، بیماری کی تکلیف کے بغیر ہم اللہ کی شافی ہونے کی صفت کی قدر نہ کر پاتے۔ اللہ کی معرفت اسلامی روحانی روایت میں ایک بہت بڑا خیر ہے، جو ان تکالیف اور مصائب کا جواز پیدا کرتا ہے۔کیونکہ یہ ہمیں اپنے بنیادی مقصد کو حاصل کرنے کا ضامن ہے جو ہمیں بالآخر جنت میں لے جائے گا۔
برتر خیر
شر و الم، برتر خیر کا جواز بنتے ہیں، اس لیے انھیں دوسرے درجے کی خیر بھی کہا جاتا ہے۔ خیر کا اول درجہ مادی لذتیں اور خوشیاں ہیں، اور شر کا اول درجہ مادی تکالیف اور دکھ درد ہیں۔ دوسرے درجے کی خیر میں شجاعت، عاجزی اور صبر شامل ہیں۔ تاہم اس دوسرے درجے کی خیر کو حاصل کرنے کے لئے پہلے درجے کے شر کا ہونا لازمی ہے (مثلاً بزدلی)۔ قرآن کے مطابق برتر اچھائیاں جیسے شجاعت اور عاجزی کی قدر و قیمت شر کے برابر نہیں ہو سکتی: “آپ فرما دیجیے(اے نبی) کہ ناپاک اور پاک برابر نہیں گو آپ کو ناپاک کی کثرت بھلی لگتی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو! تاکہ تم کامیاب ہو۔ ”
آزادئ ارادہ
اللہ تعالیٰ نے ہمیں آزادئ ارادہ عطا فرمائی ہے، اور آزادئ ارادہ میں برے اعمال کا انتخاب کی اجازت بھی شامل ہے۔ یہ ذاتی شر کی وضاحت ہے، جو کہ وہ شر ہے جو انسان کرتے ہیں۔ پوچھا جا سکتا ہے: “ہمیں خدا نے ارادے کی آزادی سے اصلاً کیوں نوازا؟۔ ” دنیا میں امتحان صرف آزادئ ارادہ کی صورت میں ہی معنی خیز ہو سکتا ہے۔ ایسا امتحان بے معنی ہے جس میں طالبِ علم کو ہر سوال کا درست جواب دینے پر مجبور کر دیا گیا ہو۔ اسی طرح، زندگی کے امتحان میں، انسانوں کو یہ آزادی دینا ضروری ہے کہ جو چاہیں کریں۔ اگر خدا یہ یقینی بنا دیتا کہ ہم ہمیشہ خیرکو اختیار کریں تو خیر و شر اپنا مطلب کھو دیتے ۔ ذرا سوچیے: کوئی آپ سے بندوق کی نوک پر صدقہ کروائے۔ آپ پیسے تو دے دیں گے پر کیا ان کی کوئی اخلاقی حیثیت ہو گی؟ بالکل نہیں ۔کیونکہ اس کی قدر صرف تب ہو سکتی ہے جب کوئی آزاد بندہ اپنی مرضی سے صدقہ دے۔
دنیا سے استغنا
اسلامی روایات کے مطابق خدا نے ہمیں اس لیے تخلیق کیا ہے تاکہ ہم اس کی عبادت کریں اور اس کا قرب حاصل کریں۔ اس کا ایک بنیادی اصول یہ ہے ہم اس فانی دنیا سے بے پروا ہو جائیں۔ ‘دنیا’ جو کہ رزیل اور نیچی ہے۔ حدود و قیود، شر و الم اور خواہشات و نفس پرستی کی جاہ ہے۔ تکالیف، دنیا کی اس بے وقعتی کو واضح کرتی ہیں، ان سے ہمیں دنیا سے علیحدگی میں مدد ملتی ہے اور ہم خدا سے اور قرب حاصل کر سکتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:” دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔ “
دنیا کے اس تصور کو تخلیق کے مثبت پہلوؤں سے خلط نہیں کرنا چاہیئے ،جسے عربی میں عالم اور خلق سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ تصورات خدا کی تخلیق کی خوبصورتی اور حسن سے متعلق ہیں۔ ان کا مقصد لوگوں کو فکر و تدبر پر ابھارنا ہے جو خدا کی قوت، رحمت اور حکمت کو جاننے کا ذریعہ بنتا ہے۔
معصوم لوگوں کی تکالیف عارضی ہوتی ہیں
اگرچہ بہت سی برتر بھلائیوں کا حصول مدِ نظر رکھا گیا ہے، یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ بہت سے لوگ بغیر کسی تشفی کے مسلسل تکالیف میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس لیے اسلام کے مطابق خدا نہ صرف دنیا میں شر و الم کا جواز ہی نہیں دیتا بلکہ ان کی جزا بھی بتاتا ہے۔ بالآخر، تمام ان تمام مومنین کو جنھوں نے معصوم ہونے کے باوجود مصائب جھیلے، انہیں ابدی راحت بھری زندگی دی جائے گی، جو انھیں وہ تمام مصائب بھلا دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “۔ ۔ ۔ ایک شخص جنتیوں میں سے ایسا لایا جائے گا جس کی زندگی سب سے زیادہ تکلیف میں گزری ہو گی، اس کو جنت میں ایک غوطہ دیا جائے گا پھر اس سے پوچھا جائے گا: آدم کے بیٹے! کیا تو نے کبھی کوئی دکھ دیکھا ہے، کیا کوئی دور تجھ پر تکلیف کا گزرا ہے؟ وہ اللہ کی قسم کھا کر کہے گا کبھی نہیں میرے رب! کبھی کوئی تکلیف مجھ پر نہیں گزری اور میں نے کبھی کوئی تکلیف نہیں دیکھی۔ “
روحانی زاویہ
دہریت کے مطابق شر کا کوئی مقصد نہیں۔ یہ دنیا کی اور بہت سی اندھی قوتوں میں سے ایک ہے جو اپنا شکار بغیر کسی تمیز و تخصیص کے چنتی ہے۔ چنانچہ شر و الم کا شکار ہونے والے ان لوگوں کے پاس کوئی ایسا جذباتی و عقلی زاویہ نظر نہیں جو ان کی تکالیف کو کم کرنے میں ممد ہو اور ان کے تجربات کو ایک موزوں سیاق میں ڈھال سکے۔ کوئی پوری زندگی تکالیف میں رہ کر بالآخر بس قبر میں پہنچ جاتا ہے اوراسکے پاس کوئی امید نہیں ہوتی، اس کی تمام تر تکالیف، قربانیاں اور دکھ بالکل بے معنی ہو کر رہ جاتی ہیں۔ شر کو پہلے کئے ہوئے مادی و جسمانی اعمال کا نتیجہ سمجھا جاتا ہے، اور شر کا شکار ہونے والوں کے پاس کوئی راہ نہیں بچتی۔ وہ کسی قسم کے ارادے کو اس سے منسوب نہیں کر سکتے، چاہے وہ انسانی ہو یا خدائی۔ کیونکہ ہر چیز بس ایک اندھی، بے ترتیب اور غیر منطقی مادی واردات و واقعات تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے۔ چنانچہ الحاد کے منطقی نتائج نہایت مایوسانہ ہیں۔
اسلامی روایات میں ایسے نظریات، اصولوں اور افکار کی بہتات ہے، جو ایک مومن کی زندگی کو سہل بناتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے مومنین کو امید اور صبر کی تلقین کی۔ تمام تکالیف جو ہمیں پیش آتی ہیں ہماری روحانی طہارت کا سبب بنتی ہیں، جو ہماری ابدی نجات کا سبب بنتی ہیں، جہاں ہم وہ تمام تکالیف بھول جائیں گے: “جو مصیبت بھی کسی مسلمان کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہ کا کفارہ کر دیتا ہے ( کسی مسلمان کے) ایک کانٹا بھی اگر جسم کے کسی حصہ میں چبھ جائے۔ ”
“مومن کا ہر معاملہ عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے بھلائی کا ہے۔ اور یہ بات مومن کے سوا کسی اور کو میسر نہیں۔ اسے خوشی اور خوشحالی ملے تو شکر کرتا ہے۔ اور یہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچے تو (اللہ کی رضا کیلے ) صبر کرتا ہے، یہ (بھی) اس کیلے بھلائی ہوتی ہے۔ “
یہاں تک کہ قدرتی آفات اور جان لیوا بیماریوں کو بھی امید، رحمت اور مغفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اسلام کا بیماریوں کے متعلق نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ ایک صورت کی طہارت ہیں جو بیمار کیلے جنت کی ابدی زندگی میں ممد ہیں۔ رسولِ اکرم ﷺ نے بیماروں کی عیادت کی تلقین کی: “بھوکوں کو کھلاؤ، بیماروں کی عیادت کرو اور غلاموں کو آزاد کر۔ ”
محمد ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ جو بیمار کی تیمار داری کرے گا خدا کو اپنے ساتھ پائے گا: “اللہ تبارک و تعالیٰ روز قیامت ارشاد فرمائیں گے اے ابن آدم میں بیمار تھا تو نے میری مزاج پرسی نہ کی؟ وہ عرض کرے گا باری تعالیٰ! میں بھلا کیسے آپکی مزاج پرسی کرتا آپ تو ربّ العٰلمین ہیں(بیمار ہونے سے منزّہ ہیں بیمار ہونا تو مخلوق کی صفت ہے)۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کیا تمھیں معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا تو نے اسکی مزاج پرسی نہیں کی، اگر تم اسکی عیادت کرتے تو اسکو( اسکے اجر کو) میرے پاس پاتے۔ “
حتی کہ سونامی کی طرح قدرتی آفات کی صورت میں بھی، مومن جو اس کا شکار ہوں جنتی گردانے جائیں گے کیونکہ ڈوبنے کی وجہ سے وفات کو اسلام میں شہادت کا درجہ حاصل ہے۔ حضور ﷺ نے اس بارے میں فرمایا: “جو بھی ڈوب جائے شہید ہے۔ “
لیکن خدا شر و الم کے بغیر دنیا تخلیق کر سکتا تھا
ایک کلیدی اعتراض جو کیا جاتا ہے یہ ہے کہ “لیکن خدا شر و الم کے بغیر بھی تو دنیا تخلیق کر سکتا تھا۔ ” یہ اصل استدلال کی ہی ایک دوسری شکل ہے۔ دوسرے لفظوں میں “خدا نے دنیا میں شر و الم کو اجازت کیوں دے رکھی ہے؟” چنانچہ اس پر وہی جواب منطبق ہو گا: خدائی حکمت۔ جو یہ اعتراض کرتا ہے صرف اس لیے کرتا ہے کہ اولاً، اسے اس بات کا علم ہی نہیں کہ دنیا میں شر و الم کیوں ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایک رحیم اور قدیر خدا کو شر و الم کا خاتمہ کر دینا چاہیئے۔ بہرحال اس بات پر پہلے ہی اس مقالہ میں بحث ہو چکی ہے۔
‘مسئلہ’ شر و الم کسی مومن کے لیے دراصل مسئلہ ہی نہیں، کیونکہ شر و الم کو خدا کی برتر حکمت، کمال اور خیر پر منتج کیا جاتا ہے۔ اسلام کی روحانی تعلیمات امید، صبر اور امن کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ الحاد کا منطقی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ ناامیدی میں ڈوب جاتا ہے اور اس کے پاس شر و الم کے وجود کا کوئی تسلی بخش حل موجود نہیں رہتا۔ یہ جہالت ان کی اس انانیت کا نتیجہ ہے جو انھیں چیزوں کو دوسروں کے نقطہ نظر سے دیکھنے سے محروم رکھتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے میں اپنے والدین کو برا خیال کرتا تھا جب وہ مجھے اپنے دادا کی شراب پینے سے باز رکھتے تھے۔
<1>undefinedThe Young Atheist’s Handbook by Alom Shaha
Argumentum ad ignorantum <2>undefined
<3>undefined Henri Laoust. Essay sur les doctrines sociales et politiques de Taki-al-Din Ahmad b. Taimiya
undefined The problem of evil and suffering argument has been expressed in a number of different ways. Some of the arguments use the words good, merciful, loving or kind interchangeably. Despite the varying use of words, the argument remains the same. Instead of using the word good, terms such as merciful, loving, kind, etc., can also be used. The problem of evil assumes that the traditional concept of God must include an attribute that would imply God does not want evil and suffering to exist. Hence, using alternative words such as merciful, loving and kind do not affect the argument.