’’زندگی کے بارے میں یہ تصور اپنے اندر بڑی شان و شوکت رکھتا ہے جس کے مطابق اس کے آغاز میں خالق نے کئی قسم کی قوتیں چند مخلوقات یا کسی ایک مخلوق کو عطا کیں اور کشش کے اٹل ضابطوں کے زیرِ اثر ،یہ کرّہ جوں جوں اپنے محور پر گردش کرتا جاتا ہے ، یہ بے حد سادگی سے شروع ہو نے والی متناہی مخلوقات وجود میں آتی ہیں جو کہ بے حد حسین اور نہایت حیرت انگیز واقع ہوئی ہیں ، اور مزید ہوتی چلی جا رہی ہیں‘‘۔ (چارلس ڈارون )
’
’خدا پر ایمان اور ارتقا ء کے سائنسی نظریے کا آپس میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ خدا پر ایمان کا اصل اختلاف تو اس فلسفیانہ حاشیہ کاری یا من گھڑت اختراع سے ہے جو ارتقا ء کے سائنسی اصول پر تھوپا گیا ہے
میڈیا پر جاری ڈارون ازم اور کریشن ازم کی آئے دن کی بحثوں کے باعث یہ بالکل ممکن ہے کہ آپ جذباتی تقریروں میں ہی گم ہو کر رہ جائیں۔ لیکن ان لفّاظیوں سے ہٹ کر، اگر غور کیا جائے تو یہ سادہ سی حقیقت سامنے آجائے گی کہ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کا خدا کے وجود کے انکار سے کوئی لینا دینا نہیں۔ آپ سوچ رہے ہوں گے میری اس بات سے کیا مراد ہے؟ زندگی کے وجود میں آنے کی توجیہہ کے لیے ڈارون کے تجویز کردہ بے ترتیب تغیّر اور فطری چناؤ کے اندھا دھن عمل
’’ایک
خاص نقطہ نظر کے حامل افراد کے لیے اس میں اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ فطرت کی قوتوں اور اس کے افعال کو اندھا دھن تصور کیا جائے۔ زیادہ تر فطری افعال واقعی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ کمزور اور طاقتور نیوکلائی قوتیں ، برقی مقناطیسیت اور کششِ ثقل کے پاس کوئی ذہنی یا جسمانی آنکھیں تھوڑی ہیں جن سے وہ دیکھ سکتی ہوں۔ اور گھڑی، گاڑی، سی ڈی پلیئر یا کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک پر نظر ڈالیں ، وہ بھی آپ کو بصارت سے محروم ہی ملیں گے۔ اور اس سے بڑھ کر، وہ نا صرف دیکھ نہیں سکتے بلکہ ان کو کوئی شعور بھی نہیں، بلکہ زیادہ درست بات یہ ہوگی کہ ان میں شعور و فکر کی صلاحیت ہی نہیں کیونکہ ان میں دماغ نہیں پایا جاتا۔ یہ خودکار سلسلے جو اگرچہ کہ خود نابینا ہیں، لیکن یہ ایسے اشخاص کی تخلیق ہیں جن کے بارے میں نابینا ہونے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ یہ خودکار سلسلے بہت ذہانت کے ساتھ تخلیق کیے گئے ہیں۔حتیٰ کہ ایسے افعال جن کے اندر کسی درجے میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے ان پر بھی یہ بات پوری طرح ٹھیک بیٹھتی ہے “۔
لینیکس ب
طور مثال ایک سادہ سی ذہنی مشق پیش کرتے ہیں جسے میں کچھ یوں بیان کروں گا۔ ’’ تصور کیجیے گاڑیوں کی ایک ایسی فیکٹری ہے کہ جس میں تمام کام خودکار روبوٹ کرتے ہیں۔ کیا ہم یہ دیکھ کر کہ یہاں سارا کام خودکار روبوٹ کرتے ہیں یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ گاڑیاں تیار کرنے کا عمل ایک عقل و شعور سے عاری کام ہے؟ ۔ ایسا دعویٰ کرنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم پہلے یہ بھی تسلیم کریں کہ تمام روبوٹ، ان کو چلانے والے سافٹ ویئر پروگرام اور فیکٹری خود، کسی صاحبِ عقل کی تخلیق نہیں۔ لیکن کوئی ذرا بھی معقول شخص یہ جان سکتا ہے کہ اصلاً ایسانہیں ہے اور انسانی ذہانت اس میں واضح طور پر کارفرما ہے۔
یہ سوال
کہ آیا زندگی کو کسی ذہین ہستی نے وجود بخشا یا اس کا بنانے والا ذہانت سے عاری ہے، سائنس سے متعلق ہے ہی نہیں۔ بلکہ یہ سائنس سے ماوراء یا ما بعد الطبیعات * سے متعلق ہے۔
کیونکہ
بائیولوجی کا موضوع تو زندگی کے چلتے ہوئے سلسلے میں اسباب و علل سے متعلق مسائل ہیں نا کہ اس اوّلین سبب کا تعین کہ جس سے زندگی کی ابتداء ہوئی’ اس کا موضوع ہے ۔ دوسرے لفظوں میں سائنسی طریقوں کی مدد سے یہ دکھایا جا نا ناممکن ہوگا کہ فطرت کے قوانین اور افعال (جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کے عمل کی راہنمائی کرتے ہیں )کیسے وجود میں آئے۔ ان قوانین اور افعال کے وجود میں آنے کے سوال کا تعلق اس اوّلین سبب
(٭آنٹالو
جی (Ontology)ما بعد الطبیعات (جو کہ خود فلسفے کی ایک اہم ترین شاخ ہے )کی وہ شاخ ہے جو وجود کی فطرت سے بحث کرتی ہے
۔
٭’’ماوراء
سائنس ‘‘ کی اصطلاح ان اصولوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جو سائنس کے لیے اگرچہ بنیادی نوعیت کے حامل ہیں لیکن بذاتِ خود سائنس کے ذریعے ان کی تصدیق ممکن نہیں۔)
خدا کے و
جود پر یقین رکھنے والے ایسے افراد جو ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو تسلیم کرتے ہیں وہ اس کے ماورائے سائنس ہونے کا نظریہ
درحقیقت ایسے مذہبی حضرات کی کثیر تعداد ہےجو خدا پر ایمان رکھنے والے ہیں اور ڈارون کے نظریہ ارتقاء کو بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ جان لینکس ایسے کئی اشخاص کا ذکر کرتے ہیں۔
’’ برطانیہ میں مثال کے طور پر دنیا کی مشہور کیو گارڈنز(Kew Gardens) لندن کے سابق ڈائریکٹر سر گِلین پرانس(Ghillean Prance) فیلو آف دی رائل سوسائٹی (FRSٌ) )، سر برائن ہِیپ(Brian Heap) دی رائل سوسائٹی کے سابق نائب صدر(FRSٌ)، ، کیمبرج یونیورسٹی کے جیولوجی کے پروفیسر باب وہائٹ(Bob White)، (FRSٌ)، کیمبرج یونیورسٹی کے پالیو بائیولوجی
امریکہ میں انسانی جینوم کے پراجیکٹ(Human Genome Project) ڈائریکٹر فرانسز کولنز(Francis Collins) ہیں جو کہ خدائی تصور کے حامل ارتقاء کے عمل کو بائیولوگوس
بلکہ شاید چارلس ڈارون نے خود اس سلسلے میں پوری دردمندی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اپنی سوانح حیات میں وہ لکھتے ہیں:
’’ خدا کے وجود پر ایمان کی ایک اور دلیل مجھے کہیں زیادہ وزنی معلوم ہوتی ہے اور اس کا تعلق جذبات سے نہیں بلکہ عقل سے ہے ۔ یہ تصور کرنامحال ، بلکہ ناممکن ہے کہ یہ انتہا ئی زبردست کائنات ، اور یہ انسان کہ جس کے پاس دور دراز ماضی اور مستقبل میں کہیں آگے تک نظر ڈالنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے، محض ایک اندھے اتفاق، یا ضرورت کی پیداوار ہیں۔ اس زاویے سے غور کرتے ہوئے میں خود کو مجبور پاتا ہوں کہ اس اوّلین سبب ِتخلیق میں ایک انسانی ذہن سے کسی درجے مماثلت رکھنے والی ذہانت کی موجودگی کو تسلیم کروں اور اس طرح میں مستحق ہوں کہ میرا شمار بھی خدا پر یقین رکھنے والو ں میں کیا جائے”۔
ماہرِ فزکس اسٹیفن بَر
’’اگر باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ فطری سلسلہ افعال کے بارے میں سائنسی روداد
جو حضر
ات اس موضوع پر مزید گہرائی میں جانا چاہیں ، وہ یہ مکالمہ دیکھ لیں
Does
Evolution Undermine God? – Professor Pritchard & Subboor Ahmad
پروفیسر پریچرڈ یونیورسٹی آف برمنگھم میں لائف سائنس کے پروفیسر ہیں اور خود کو card-carrying Darwinist کہتے ہیں ۔ صبور احمد حمزہ اینڈرئیس کے دعوت پروجیکٹ کے ممبر ہیں ، بیالوجی میں سپیشلسٹ اور فلاسفی میں پوسٹ گریجویشن کررہے ہیں۔ اس مکالمہ میں خالص سائنسی حوالے سے ایوولوشن پر بحث کی گئی ہے اور یہ اتقاء کے متعلق عوامی سوچ اور اصل علمی حقیقت میں فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔ ایک اوراہم ویڈیو مکالمہ نظریہ ارتقاء کے الحاد کیساتھ تعلق اور نظریہ ارتقاء کے ذریعے انکار خدا کی معقولیت پر ہے جو صبور احمد کا ایتھیس الائنس آف امریکہ کے سابق صدر کیساتھ ہوا ۔ اس
لنک
سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مزید صبور احمد کی ہی ایک تقریر
نظریہ ارتقاء ، ڈارون ازم اور اسلام
کے موضوع پر ہے یہ بھی نظریہ ارتقاء کے متعلق جدید ذہن کے بہت سے اشکالات کو دور کرنے میں معاون ہے۔
تحریر سکاٹ ینگرن ترجمہ احسان محمدی، علی حارث