۔ ذرا تصوّر کیجیے کہ آپ ایک کمرے کے کونے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس دروازے سے آپ اندر تشریف لائے تھے، وہ اب مکمل طور پر بند ہوچکا ہے۔ اب کمرے میں کسی کا داخلہ اور خروج دونوں کے لیے کوئی راستہ نہیں ہے۔ کمرے کی تمام دیواریں، اندرونی چھت اور فرش سب پتھر سے بنایا گیا ہے۔ اب آپ کے پاس کرنے کا ایک ہی کام ہے کہ آپ ہوا میں گھوریں جسے چاروں طرف سے ٹھنڈی، سیاہ اور پتھریلی دیواروں نے گھیر رکھا ہے۔ چند گھنٹے گزرتے ہیں اور آپ نیند میں چلے جاتے ہیں ۔ جونہی آپ آنکھیں کھولتے ہیں تو کمرے کے وسط میں موجود ایک ڈیسک اور اس کی سطح پر رکھا کمپیوٹر آپ کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ آپ ڈیسک کے قریب آتے ہیں تو کمپیوٹر کی سکرین پر نمودار الفاظ آپ کو اپنی طرف متوجہ کرلتیتے ہیں: ’’یہ ڈیسک اور کمپیوٹر خودساختہ ہیں۔ انہیں کسی نے نہیں بنایا۔‘‘ پردہٴ سکرین پر نظر آنے والے جن کلمات کو آپ نے پڑھا ہے، کیا آپ ان پر یقین کرلیں گے؟ یقینی طور پر ہرگز نہیں۔ سب سے پہلے آپ اپنے ادراک پر یقین کریں گے اور سوچیں گے کہ بنا کسی عمل اور وجہ کے ڈیسک اور کمپیوٹر کا وجود میں آنا ناممکن ہے۔ پھر آپ ممکنہ صورتحال پر غور و فکر شروع کردیں گے۔ کچھ دیر کے تفکّر کے بعد آپ اس وقوعے کی چند وضاحتیں سوچ لیں گے۔ ان میں سے اوّلین یہی ہے کہ یہ اشیاء کسی سبب اور عمل کے بغیر وجود میں آئی ہیں دوسرے لفظوں میں کچھ نہیں سے۔ دوسرا خیال یہ ہوگا کہ یہ اشیاء خودبخود وجود میں آگئی ہیں۔ تیسرا خیال ہوگا کہ کسی وجود کے سبب یہ اشیاء بنی اور یہاں پہنچی ہیں۔ آپ کے فہم و ادراک کی صلاحیتیں تندرست اور ٹھیک کام کررہی ہیں تو آپ یقیناً ان تینوں وضاحتوں میں سے تیسری وضاحت کو زیادہ عقلی یا منطقی خیال کریں گے۔ سوچ کا یہ انداز عالمگیر ہے اور یہی دلائل بہت اچھے انداز سے قرآن مجید کی آیات میں بھی نظر آتے ہیں۔ قرآنی دلائل ہمیں بتاتے ہیں کہ کوئی بھی فانی وجود چار قسم کی وضاحتیں پس منظر میں رکھتا ہے۔ ایک یہ کہ اسے کسی نے بھی تخلیق نہیں کیا، اس نے اپنی تخلیق خود کی ہے، اسے کسی اور مخلوق نے تخلیق کیا ہے یا پھر اس کا کوئی خالق ہے جو مخلوق نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ میں اِن دلائل کا مزید تجزیہ کروں، غور کیجیے کہ قرآن مجید کے اکثر دلائل عقلی اور منطقی ہوتے ہیں۔ قرآن مجید کی آیات اپنے قاری کو پوری طرح اپنی طرف متوجہ کرتیں اور گھیر لیتی ہیں۔ یہ اپنے قاری کے دماغ اور اس کے دل کو مختلف سوالات سے متوجہ کرتی اور مضبوط دلائل سے متاثر کرتی جاتی ہیں ۔ اسلامیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسرروزالِنڈ وارڈ گائن (Rosalind -Ward -Gwynne)قرآن مجید کے اِس پہلو پر تبصرہ کرتے ہیں کہ ’’یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کا بہت سا حصہ ان دلائل پر مشتمل ہے جو انسانوں کو کسی عمل کے لیے ضروری حد تک چاہیے ہوتے ہیں۔۔ “(1)۔ گائن (Gwynne) لکھتے ہیں کہ قرآن مجید کے اِس پہلو نے مسلم سکالرز پر بھی اثر چھوڑے ہیں : ’’ عقل اور دلائل نصوصِ قرآن سے اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ انہیں علیحدہ نہیں کیا جاسکتا انہوں نے مختلف انداز میں قرآنی سکالرز پر بھی اثر چھوڑا اور انہیں اپنے رنگ میں رنگا ہے۔‘‘ (2) وحی اور عقلیات کا یہ تعلق مسلمان علماء روز اول سے ہی جان چکے تھے ۔ وہ یہ سمجھ چکے تھے کہ عقلی و منطقی اندازِفکر کے ذریعے سے بھی فکرِ اسلامی کی بنیادوں کا اثبات کیا جاسکتا ہے۔ چودھویں صدی عیسوی کے مسلمان عالم ابنِ تیمیہ نے لکھا ہے کہ پہلے مسلمان علماء ’’جان چکے تھے کہ ہر دو یعنی دلائلِ عقلی اور وحی دونوں سچے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں۔ جو بھی دلیل چاہے وہ اس معاملے کے انکشاف کے حقوق ادا کردیتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ عقل اسکے ساتھ متفق ہے جسکے متعلق انبیاء نے بتایا اور دونوں ہی اِن انبیاء و رُسل پر اور جو کچھ انہوں نے بتایا اس پر ایمان رکھنے کی ضرورت کو ثابت کرتے ہیں”۔(3) قرآن مجید خدا کے وجود پر ایک مضبوط آرگومنٹ پیش کرتا ہے: “Or- were -they- created -by- nothing? Or- were -they -the- creators -undefined ? Or -did -they -create -the -heavens- and- Earth? Rather, they- are- not- certain.” : ’’ کیا یہ کسی کے پیدا کیے بغیر ہی پیدا ہوگئے ہیں یا یہ خوداپنے آپ کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ کیا زمین اور آسمانوں کو انہوں نے پیدا کیا ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ یہ (اللہ پر)یقین نہیں رکھتے ۔‘‘(4) اگرچہ یہ دلائل انسانوں کی تخلیق کے بارے میں ہیں، لیکن ان کا اطلاق ایسی کسی بھی چیز پر کیا جاسکتا ہے جو وجود رکھتی ہے یا نمو رکھتی ہے۔ قرآن مجید نے لفظ ’’خُلِقُوا‘‘ استعمال کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے تخلیق کردہ، بنایا گیا، وجود میں لایا گیا۔ چنانچہ اس کا اطلاق ہر اُس چیز پر ہوگا جس کی تخلیق کی گئی ہے۔(5) چلیے، اب ہم دلائل کا تجزیہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے اس سلسلے میں چار ممکنات ذکر کیے ہیں کہ کوئی چیز کیسے تخلیق ہوئی یا وجود میں آئی: ۔عدم سے وجود undefined: (’’کیا انہیں کسی نے تخلیق نہیں کیا؟‘‘) ۔ خودکو بنایا undefined : (’’کیا انہوں نے اپنی تخلیق خود کی ہے؟‘‘) ۔ کسی دوسری مخلوق کی تخلیق ہیں undefined : (’’کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی ہے؟ یعنی کیاایک بنائی ہوئی چیز نے دوسری چیز کی تخلیق کی ہے؟‘‘) ۔ ایک خالق کی تخلیق undefined( نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ یہ (اللہ پر)یقین نہیں رکھتے”۔) یہ واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے وجود کا انکار بغیر کسی دلیل کے کیا گیا ہے اور اس کے لیے بیان دیا گیا ہے کہ خالق وہ ہے جو خود مخلوق نہیں۔ (6) یہ آرگومنٹ ایک عالمگیر فارمولے کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے جسے اپنے اثبات کے لیے کسی اُلوہی صحیفے کی ضرورت نہیں ہوتی: ۔ کائنات محدود ہے۔ ۔ محدود اشیاء بغیر کسی چیز کے تخلیق ہوسکتی ہیں، وہ اپنے آپ کو خود تخلیق کرسکتی ہیں، انہیں دوسری مخلوق اشیاء نے تخلیق کیا ہے یا پھر انہیں کسی خالق نے تخلیق کیا جو خود مخلوق نہیں ۔ ۔وہ بغیر کسی چیز کے بنائی نہیں جاسکتیں، وہ اپنی تخلیق خود کرسکتی ہیں ، یا پھر انہیں اس نے تخلیق کیا ہے جو خود بھی کسی دوسرے کی تخلیق کردہ ہے۔ ۔ انہیں کسی خالق نے تخلیق کیا ہے جو خود مخلوق نہیں ہے۔ فلسفیانہ دلائل کی ایک کثیر تعداد کائنات کی محدودیت ظاہر کرتی ہے۔ ان دلائل میں سے سب سے زور آور اور سادہ دلیل اس بات کے ثبوت پر مشتمل ہے کہ ایک حقیقی مادی undefined لامحدودیت کا وجود ناممکن ہے۔ جس قسم کی لا محدودیت کا میں یہاں ذکر کر رہا ہوں ایک ہیت والی undefined لامحدودیت ہے، جو مجرد undefined حصوں سے بنی ہے، جیسے مادی اشیاء ۔ ان مادی اشیاء میں جوہری ذرات ، کوارکس، گاڑی، زرافہ اور کوانٹم فیلڈ جیسی چیزیں شامل ہیں۔ البتہ بےہیت undefined لامحدودیت ایک ایسی لامحدودیت ہے جو مجرد حصوں پر مشتمل نہیں ہوتی۔ یہ لامحدودیت منطقی طور پرمعقول و مربوط ہے اور وجود رکھ سکتی ہے۔ مثلاً، خدا کی لامحدودیت ایک بے ہیت، غیر منقسم اور غیر متمیز لامحدودیت ہے، کیونکہ وہ مجرد حصوں سے مل کر نہیں بنا۔ اسلامی علمِ الٰہیات میں وہ “احد” اور ماورا ء ہے۔ حقیقی لامحد ودیت کے ثبوت کے لیے سب سے موٴثر اور بدیہی دلائل فکری تجرباتundefined کی شکل میں آتے ہیں۔ ابھی ہمارے پیشِ نظر مادی لامحدودیت undefinedکا ناممکن ہونا ہے۔ مادی لامحدودیت ریاضیاتی لامحدودیت سے مختلف ہے۔ اگرچہ وہ بھی منطقی طور پر معقول ہے، مگر وہ صرف ریاضیات کی دنیا میں پائی جاتی ہے، جو عام طور پر اصولوں اور مفروضوں پر قائم ہوتی ہے۔ ہمارا موضوع یہ ہے کہ آیا حقیقی مادی دنیا میں لامحدودیت وجود پذیر ہو سکتی ہے؟ مندرجہ ذیل مثالوں کو ملاحظہ فرمائیے : ۔ : فرض کیجیے کہ آپ کے پاس ایک تھیلے میں لامحدود تعداد میں گیند ہیں۔ اگر اس میں سے دو گیند آپ نکال لیں تو باقی کتنے گیند بچے؟ ریاضیاتی پہلو سے اب بھی آپ کے پاس لامحدود گیند ہیں۔ البتہ عملاً ،آپ کے پاس پہلے سے دو گیند کم ہونے چاہیے۔ اگر گیند نکالنے کی بجائے آپ دو گیند مزید تھیلے میں ڈال دیں تو؟ اب کتنے گیند ہوئے؟ اب تھیلے میں پہلے سے دو گیند زیادہ ہونے چاہیے۔ آپ کو گیندوں کی گنتی کرنے پر قادر ہونا چاہیے، مگر آپ یہ نہیں کر سکتے کیونکہ لامحدودیت صرف ایک تصور ہے اور حقیقی دنیا میں کوئی وجود نہیں رکھتا۔ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ مجرد فزیکل حصوں پر مشتمل لامحدودیت وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔ اس حقیقت کی روشنی میں مشہور جرمن ریاضی دان داؤد ہلبرٹ (David -Hilbert) نے کہا تھا، “لامحدودیت حقیقت میں کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ نہ فطرت میں کہیں پائی جاتی ہے اور نہ ہی کسی معقول نظریہ کیلئے اساس فراہم کرتی ہے۔۔۔لامحدودیت کیلئے جو کردار بچ جاتا ہے وہ صرف ایک تصور کا ہے۔”(7) : تصور کیجیے آپ کے پاس مکعب کا ایک ڈھیر ہے۔ ہر مکعب کو نمبر دیا گیا ہے۔ پہلے مکعب کا حجم ۱۰ مکعب سینٹی میٹر کیوب ہے۔ اس کے اوپر اگلے مکعب کا حجم ۵ مکعب سینٹی میٹر کیوب ہے اور اس سے اوپر اگلے مکعب کا حجم پہلے مکعب سے آدھا ہے۔ یہ سلسلہ بلا حدود چلتا رہتا ہے۔ اب اس ڈھیر کی چوٹی پر جائیے اور ایک معکب ہٹا لیجیے۔ یہ ناممکن ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اگر چوٹی پر کوئی معکب پایا جاتا تو اس کا مطلب ہوتا کہ مکعب لا محدود نہیں تھے۔ چنانچہ اگرچہ چوٹی پر کوئی مکعب نہیں پایا جاتا باوجود اسکے کہ ریاضیاتی لامحدودیت وجود رکھتی ہے (فرض کرکے)، حقیقت میں مجازی لامحدودیت وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔ چونکہ اس ڈھیر کی کوئی حد نہیں یہ ظاہر کرتی ہے ایسی لامحدودیت جو مجرد مادی جسم/ چیزوں سے مل کر بنی ہے (اس مثال میں مکعب) فزیکلی وقوع پذیر نہیں ہو سکتی۔ تصوراتی طور پر کائنات مذکورہ بالا گیندوں کے تھیلے یا مکعبات کے ڈھیر سے کچھ مختلف نہیں۔ کائنات حقیقی ہے یہ مجرد مادی حصوں سے مل کر بنی ہے۔ چونکہ ہیتی لامحدودیت اصلی دنیا میں وجود پذیر نہیں ہو سکتی، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کائنات لامحدود نہیں ہو سکتی اور لامحالہ محدود ہے اور چونکہ یہ محدود ہے اس لیے اس کی کوئی ابتدا لازم ہے۔ اس سائنسی تحقیق کا تذکرہ جو کائنات کی ابتدا سے متعلق ہے یہاں نہیں کیا جا رہا کیونکہ اس کی معلومات اس وقت مبہم ہیں۔ “ابہام “یہ ٰ ہے کہ کسی بھی سائنسی نظریہ کیلئے کم از کم ایک ایسا حریف نظریہ موجود ہو جس کی حمایت شواہد و مدارک سے یکساں طور پر ہوتی ہو۔(8)۔۔”۔ تکوینیاتی (Cosmological)مشاہدات کی وضاحت کرنے کیلئے بیک وقت ۱۷ حریف نظریات موجود ہیں۔ ان میں سے کچھ نظریات اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ کائنات محدود ہے اور اس کی کوئی ابتدا تھی اور دوسرے یہ کہتے ہیں کہ کائنات ازلی ہے۔ مشاہدات نتیجہ خیز نہیں، اور یہ ابہام نئے مشاہدات اور نظریات کی بنا پر ختم ہو سکتا ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے )۔ اب ہم اس مقام پر ہیں کہ کائنات کی ابتدا پر اوپر بیان کردہ ان چار منطقی امکانات کو منطبق کر سکیں اور ہر ایک کا جائزہ لیں۔ اس سے قبل کہ میں اس امکان کا جائزہ لوں’ عدم کی تعریف کرنا ضروری ہے۔ عدم کی تعریف تمام اشیاء کی غیر موجودگی ہے۔ اسے بہتر طور پر سمجھنے کیلیے تصور کیجیے کہ اگر ہر چیز، تمام مادہ، توانائی اور مضمرات غائب ہو جائیں ؛ تو یہ کیفیت عدم کہلائے گی۔ اسے الکمومی خلا (Quantum Vacuum)یا میدان سے خلط نہیں کرنا چاہیے، ان تصورات کی وضاحت آگے آئے گی۔ عدم کسی حالت عِلّی کی غیر موجودگی کو بھی کہتے ہیں۔ حالتِ عِلی کسی بھی قسم کی علت/ سبب کو کہتے ہیں جو کوئی معلول/ اثر پیدا کرے۔ یہ علت مادی بھی ہو سکتی ہے اور غیر مادی بھی۔یہ دعویٰ کرنا کہ چیزیں معدومیت (عدم) سے وجود پذیر ہو سکتی ہیں یہ معنی رکھتا ہے کہ چیزیں کسی مضمر توانائی، کسی مادے اور کسی بھی پہلے سے موجود چیز کے بغیر معرضِ وجود میں آ سکتی ہیں۔ ایسا دعویٰ عقلِ سلیم و وجدانی مشاہدات کے برخلاف ہے ۔ چنانچہ کیا کائنات عدم سے معرضِ وجود میں آ سکتی ہے؟ اس کا واضح جواب نفی میں ہے، کیونکہ عدم سے عدم ہی وجود پذیر ہو سکتا ہے۔ عدمیت کوئی بھی چیز پیدا نہیں کر سکتی(Nothing -can’t- Produce anything)۔ اس حقیقت کو ایک اور زاویہ سے سادہ ریاضی کی مدد سے سمجھا جا سکتا ہے۔ 0+ 0 + 0 = ؟ ۳ نہیں، یہ 0 ہی رہتا ہے۔ اس کے بدیہی /معقول ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ یہ ایک عقلی اصول پر مبنی ہے؛ کوئی چیز کسی لا چیز سے وجود میں نہیں آ سکتی۔ اس کے برعکس دعویٰ کرنے کو میں متضاد بیانیہ کہوں گا، اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ تمام کائنات عدم سے وجود میں آ سکتی ہے، تو اس کے مضمرات لا معقول اور مضحکہ خیز ہوں گے وہ کسی بھی چیز کا بغیر کسی سبب اور علت کے وجود میں آنے کا اثبات کر سکتے ہیں۔ کسی چیز کو عدم سے وجود پذیر ہونے کیلئے کسی نہ کسی قسم کی مضمر توانائی یا حالتِ علّی ضروری ہے۔ کیونکہ عدمیت ہر شے کی غیر موجودگی کا نام ہے، بشمول ہر قسم کی حالتِ عِلّی کے، چنانچہ کوئی چیز عدم سے پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس دعوے پر اصرار کرنا کہ عدم سے کوئی شے پیدا ہو سکتی ہے منطقی طور پر اس بات کے مترادف ہے کہ اشیاء بغیر کسی وجہ کے غائب ، زوال پذیر اور فنا ہو سکتی ہیں۔ان افراد کو جو یہ استدلال کرتے ہیں کہ عدم سے کوئی چیز معرضِ وجود میں آ سکتی ہے یہ بھی اقرار کرنا چاہیے کہ کوئی چیز بغیر کسی سبب کے غائب ہو سکتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی عمارت بالکل غائب ہو جائے، تو ان افراد کو حیران نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اگر چیزیں بغیر کسی سبب کے وجود پذیر ہو سکتی ہیں تو اس کا منطقی نتیجہ ہے کہ چیزیں بغیر کسی سبب کے غائب بھی ہو سکتی ہیں۔ بہر حال یہ استدلال کرنا کہ چیزیں بغیر کسی سبب کے غائب ہو سکتی ہیں منطقی طور پر غیر معقول ہو گا۔ ایک عام استدلال جو کیا جاتا ہے یہ ہے کہ کائنات عدم سے پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ الکمومی خلا (Quantum Vacuum)میں ذرات وجود پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ یہ استدلال فرض کر لیتا ہے کہ الکمومی خلا عدمیت ہے لیکن یہ درست نہیں ہے۔ الکمومی خلا کوئی شے ہے، یہ مکمل عدمیت نہیں ہے اور طبیعات کے قوانین کے ماتحت ہے۔ الکمومی خلا کسی سبک رو حالتِ توانائی کا نام ہے۔ چنانچہ یہ عدمیت نہیں، یہ کچھ مادی چیز ہے۔(9) پروفیسر لارنس کراس کی کتاب’ عدم سے ایک کائنات کی تخلیق'(A -Universe -from- Nothing)، نے لائبنیز (Leibnizian)کے اس سوال پر بحث کو دوبارہ زندہ اور مشہور کر دیا ہے کہ ” کچھ بھی موجود نہ ہونے کی بجائے کچھ موجود کیوں ہے؟undefined” (10)۔اپنی کتاب میں کراسundefined استدلال کرتے ہیں کہ یہ قرینِ قیاس ہے کہ کائنات عدم سے وجود میں آئی ہے۔ یہ بات جتنی ہی غیر منطقی لگے’ضروری ہے کہ اس استدلال کے سیاق کو واضح کرنے کیلئے کچھ توضیحات و مفروضات پیش کر دیے جائیں۔ کراس کی ‘عدمیت ‘undefined دراصل کچھ شے undefinedہے۔ اپنی کتاب میں وہ عدمیت کو ‘متزلزل'(unstable) کہتے ہیں۔(11) اور ایک اور مقام پر وہ اس بات کا اثبات کرتے ہیں کہ عدمیت مادیundefined ہے، جسے وہ “خالی لیکن پہلے سے موجود خلا”undefined کہتے ہیں۔(12) یہ دلچسپ لفظی انحراف ہے، کیونکہ لغت میں عدمیت کی تعریف عالمگیر نفی پر مبنی ہے، لیکن کراس کی عدمیت دراصل کسی مادی چیز کا نام ہے۔ اگرچہ ان کی تحقیق یہ دعوی کرتی ہے کہ عدمیت وقت، خلا اور ذرات کی غیر موجودگی کا نام ہے، وہ اپنے بھولے بھالے قارئین کو گمراہ کرتے ہیں اور اس چیز کی واضح طور پر تصدیق کرنے میں جان بوجھ کر کوتاہی برتتے ہیں کہ عدم کے باوجود بہر حال کچھ مادی چیز موجود رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر جیسا کہ کراس کا دعوی ہے، کوئی مادہ نہ بھی ہو، تو کسی فزیکل فیلڈ کا وجود لازمی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ ایسے خطے کا وجود ناممکن ہے جہاں کوئی فیلڈ نہ ہو کیونکہ کششِ ثقل undefined کو روکا نہیں جا سکتا۔ نظریہ الکم (Quantum -theory) میں، کشش ثقل حقیقت کی اس سطح پر کسی مادی undefined چیز کا وجود نہیں مانگتی لیکن کسی فزیکل سٹف کا ہونا لازمی ہے۔ چنانچہ کراس کی ‘معدمیت’ دراصل کوئی شے ہے۔ اپنی کتاب میں ایک دوسری جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ہر چیز الکمومی تغیرات (Quantum Fluctuations)سے وجود میں آئی ہے، جو عدم سے تخلیق کو واضح کرتی ہے، مگر یہ احتمال بھی الکمومی حالت (Quantum -State) کی پہلے سے موجودگی کو فرض کرتا ہے۔ (13) پروفیسر داود البرٹ (David Albert) مصنف کتاب ‘الکمومی میکانیات اور تجربہ ‘ (Quantum- Mechanics -and- Experience) نے کراس کی کتاب کا ریوو لکھا اور اسی نتیجے پر پہنچے : “لیکن یہ بالکل بھی درست نہیں۔اضافیتی نظریہ قدرکی حالت خلا (Relativistic-quantum-field-theoretical -vacuum- states)، زرافوں، ریفریجریٹروں اور شمسی نظام کی طرح کی ہی سادہ مادی اشیاء کی ایک مخصوص شیرازہ بندی کا نام ہے۔ ایک صحیح relativistic-quantum-field-theoretical کسی بھی فزیکل سٹف/ مادی چیز / فیلڈ کے نا ہونے کے مساوی ہے نا کہ ایسی ویسی کسی فیلڈ کی مخصوص شیرازہ بندی۔یہ محض فیلڈ کی غیر موجودگی ہے! اسکی حقیقت کہ فیلڈ کی کچھ ترتیبات مادی ذرات کے وجود سے ہم آہنگ ہیں اور کچھ نہیں ‘ اس حقیقت سے زیادہ پراسرار نہیں ہیں کہ میری انگلیوں کی کچھ ممکنہ ترتیبات ایک مُکے کے وجود سے متعلقہ ہیں اور کچھ ترتیبات ایسی نہیں ہیں۔ اور یہ حقیقت کہ جب وہ فیلڈ اپنی ترتیب بدلتی ہیں، ذرات وقت کے ساتھ معرضِ وجود میں آ جا سکتے ہیں اس چیز سے زیادہ پراسرار نہیں کہ وقت کے ساتھ مُکا معرضِ وجود میں آ جا سکتا ہے جب میری انگلیاں اپنی ترتیب بدلتی ہیں۔ اور یہ معرضِ وجود میں آنا، اگر صحیح طریقے سے دیکھا جائے تو عدم سے وجود میں آنے کے آس پاس بھی نہیں۔!” (14) دلچسپ بات یہ ہے کہ پروفیسر کراس نے لائبنیز کے قدیم سوال کا جواب دینے کیلئے عدم کی تعریف کو ہی بدل دیا ہے۔ کراس کی کی ہوئی تعریف نہایت واضح فلسفیانہ فرق کو مبہم کر دیتی ہے اور بحث کو الجھا دیتی ہے ۔ عدم سے مراد ہمیشہ سے عدم الوجود یا ہر شے کی غیر موجودگی لیا جاتا رہا ہے۔ (15) کراس عدم سے جو مراد لے رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوگا اب کسی کے لیے مندرجہ ذیل جملے کہنا معقول ہو سکتا ہے: ” میں نے کل نہایت لذیذ کھانا کھایا اور وہ کچھ بھی نہیں تھا۔” “میں ہال میں کسی سے نہیں ملا اور اس نے مجھے اس کمرے کا راستہ بتایا۔” “کچھ بھی نہیں نمک مرچ کے ساتھ نہایت خوش ذائقہ ہوتا ہے۔”(16) یہ جملے غیر منطقی ہیں اور اس لیے بے معنی باتوں پر اختتام پذیر ہوتے ہیں، ہاں جب تک کوئی عدم کی تعریف بدل نہ دے۔ یہ حیران کن بات نہیں کہ پروفیسر کراس یہ عندیہ دیتے ہیں کہ ان کی نظر میں عدم سے مراد عدم الوجود نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں: “ایک چیز البتہ یقینی ہے۔ اس ما بعد الطبیعیاتی اصول جسے وہ لوگ جن سے میں تخلیق کے مسئلہ پر بحث کر چکا ہوں ایک پختہ اعتقاد کے طور پر پکڑے ہوئے ہیں، یعنی “عدم سے صرف عدم پیدا ہوتا ہے” کی سائنس میں کوئی اساس موجود نہیں ہے۔”(17) اس کا صاف مطلب ہے کہ کراس نے عدم کا مطلب بدل کر کسی شے کاہونا رکھ دیا ہے، کیونکہ سائنس بحیثیتِ طریقہ کار مادی دنیا کی چیزوں کو مرکوز رکھتی ہے۔ سائنس صرف طبیعیاتی مظاہر اور اعمال کی اصطلاحات میں جواب فراہم کرتی ہے۔ جب ہم اس طرح کے سوال کرتے ہیں، زندگی کا کیا مطلب ہے؟ کیا روح موجود ہے؟ عدم کیا ہے؟ تو عام توقع ما بعد الطبیعیاتی جوابات کی جاتی ہے اور اس لیے کسی بھی سائنسی وضاحت کے دائرے سے خارج ہے۔ سائنس عدم اور عدم الوجود کے تصور سے بحث نہیں کر سکتی کیونکہ سائنس صرف ان مسائل تک محدود ہے جنہیں مشاہدات حل کر سکتے ہیں۔ سائنس کے فلاسفر ایلیٹ صوبر اس محدودیت کا اثبات کرتے ہیں۔ وہ اپنے مضمون تجربیت میں لکھتے ہیں کہ “سائنس اپنی توجہ ان مسائل تک محدود رکھنے پر مجبور ہے جومشاہدات حل کر سکتے ہیں۔(18)” چنانچہ پروفیسر کراس نے لفظ “عدم” کے معنی بدل دیے ہیں تاکہ سائنس وہ مسئلہ حل کر سکے جو اصلاً وہ حل کرنے کے قابل نہیں۔ یہ نتیجہ شکست کو ہی واضح کرتا ہے کیونکہ یہ اس کے مترادف ہے کہ کوئی جب کسی سوال کا جواب نہ دے پائے تو وہ شکست تسلیم کر نے کے بجائے کسی اور کی طرف وہ سوال موڑنے اور سوال کا مطلب ہی بدل دینے پر اتر آئے۔ یہ عقلی طور پر ذیادہ دیانتدارانہ بات ہوتی اگر صرف یہ کہہ دیا جاتا کہ عدم کا تصور ایک ما بعد الطبیعیاتی تصور ہے اور سائنس صرف مشاہدات سے واسطہ رکھتی ہے۔ اس سب سے قطع نظر پروفیسر کراس یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ‘عدم’ کی تحقیق مبہم ہے اور کسی قطعی ثبوت سے عاری ہے۔ وہ لکھتے ہیں، “میں یہ لفظ ‘سکتا ہے’ پر زور دیتا ہوں، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں کبھی بھی اتنی تجرباتی معلومات حاصل نہ ہو سکیں جو اس سوال کو قطعی طور پر حل کرنے کیلئے کافی ہوں۔(19)” اپنی کتاب میں ایک اور جگہ وہ اپنے استدلال کی غیر قطعیت کو تسلیم کرتے ہیں: “تفصیلات پر کام سے منسلک مشاہداتی اور متعلقہ نظریاتی مشکلات کی وجہ سے مجھے توقع ہے کہ ہم شاید اس بارے میں امکان سے ذیادہ کچھ حاصل نہ کر پائیں۔”(20) ان کی روشنی میں پروفیسر کراس کو لفظ عدم کی نئی تعریف کرنے کی بجائے صرف یہ کہہ دینا چاہئے تھا کہ کائنات خلائی حالتundefined جیسی کسی مادی چیز سے وجود میں آئی ہے۔ لیکن کراس اپنی لفظی کرتب بازی کی تشہیر پر مُصر نظر آتے ہیں ۔ انکے ساتھ اپنی بحث ” اسلام اور الحاد: کون ذیادہ معقول ہے؟، کے دوران میں نے انہیں یہ سمجھانے کیلئے کہ ان کی عدمیت کوئی شے ہے ‘ ان کی کتاب کا حوالہ دیا۔ وہ ردِ عمل میں آگئے اور بولے کہ ان کی عدمیت یہ ہے کہ “کوئی خلانہیں، کوئی وقت نہیں، کوئی قانون نہیں۔۔۔۔کوئی کائنات نہیں ہے، کچھ نہیں، صفر، ٕعدم، ہیچ۔”(21) کراس جان بوجھ کر ایک اہم مفروضے کو چھپا تے نظر آئے : ان کی معدومیت میں بہرحال کوئی مادہ موجود ہے، ایک ایسی بات جس کا وہ واضح طور پر اپنے عوامی لیکچرز میں اقرار کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ کسی چیز کا وجود اور عدمیت undefined “مادی قدریں” ہیں۔(22) خلاصہ یہ کہ پروفیسر کراس کی عدمیت دراصل کوئی شے ہے۔ کائنات کسی مادی چیز سے وجود میں آئی ہے جسے کراس “عدمیت” کہتے ہیں اور اس لیے لائبیز کے سوال کا جواب دینے سے قاصر رہتے ہیں: “کچھ نہ ہونے کی بجائے کچھ کیوں ہے؟” حقیقت میں، کراس صرف اس سوال کا جواب دیتے ہیں کہ” کسی چیز سے کوئی چیز وجود میں کیسے آئی؟ “یہ وہ سوال ہے جو سائنس حل کر سکتی ہے اور جس کیلئے لفظی کرتبوں کی ضرورت نہیں۔خدا کا وجود کراس کے عدمیت کے نظریہ سے کمزور نہیں پڑتا۔ انہوں نے جو پیش کیا وہ صرف یہ ہے کہ کائنات (وقت اور خلا) کسی چیز سے وجود میں آئی۔ چنانچہ، کائنات کے وجود کی توضیح ابھی بھی تشنہ ہے ۔ ٭اگر عدم سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا تو خدا نے عدم سے تخلیق کیسے کی؟ یہ نزاع باطل ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر ملتا کہ خدا خود عدم ہے جبکہ وہ ایک منفرد وجود ہے جو اپنی طاقت اور چاہت سے کسی بھی چیز کو تخلیق کرنے اور وجود میں لانے کی صلاحیت رکھتا ہے اسلئے یہ معاملہ عدم سے وجود کا نہیں بلکہ خدا کی طاقت اور چاہت وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ کائنات وجود میں آئی۔ عدم سے وجود نا ممکن ہے کیونکہ عدم کا مطلب ہے عدم طاقت عدم وجود اور عدم ارادہ ہونا ہے۔ اس بات پر زور دینا بالکل غیر معقول بات ہے کہ بالکل عدم سے کوئی چیز وجود میں آسکتی ہے بنا کسی صلاحیت یا سابقہ متعلقہ سرگرمی کے۔ خدا ہی اپنی طاقت اور چاہت سے یہ متعلقہ سرگرمی مہیا کرتا ہے۔ اگرچہ اسلامی روایات خدا کے عدم سے تخلیق کرنے کو بیان کرتی ہیں مگر وہاں عدم سے مراد کسی مادہ چیز کا نہ ہونا ہے۔ البتہ وہ بھی اس چیز کو نہیں مانتے کہ کوئی متعلقہ حالات یا صلاحیت موجود نہیں تھی۔ خدا کی چاہت اور طاقت وہ حالات بناتے ہیں جو کائنات کو وجود میں لاتے ہیں۔ کیا یہ کائنات خودبخود پیدا ھوسکتی تھی یا خود کو تخلیق کرسکتی ہے؟ لفظ تخلیق اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جو پیدا کی گئی ہومطلب وہ پہلے وجود نہیں رکھتی تھی دوسرے الفاظ میں وہ وجود میں لائی گئی۔یہ تمام الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ کوئی چیز جو محدود ہو کیونکہ تمام تخلیق شدہ چیزیں محدود ہوتی ہیں ۔ تخلیق کے تصور پرغور کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے خودبخود تخلیق ہونا عملی اور منطقی طور پر ناممکن ہے کیونکہ اس سےیہ پتہ لگتا ہے کہ کوئ چیز ایک ہی وقت میں وجود رکھتی تھی نہیں بھی رکھتی تھی جو کہ ناممکن ہے۔جوچیز بھی تخلیق ہوئی اسکا مطلب ہے کہ وہ پہلے وجود نہیں رکھتی تھی جبکہ خود پیدا ہونے کا یہی مطلب کے وہ پیدا ہونے سے پہلے وجود رکھتی تھی۔! اس سوال پر غور کریں کیا آپ کی والدہ خود کو پیدا کرسکتی تھی؟ اس بات کا دعویٰ کرنے کےلئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنی پیدائش سے بھی پہلے پیدا ہوں۔کیونکہ جب کوئ چیز تخلیق ہوتی ہے تو سکا مطلب ہوتا ہے کہ اس وقت سے پہلے وہ کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں رکھتی تھی۔اس لیے یہ دعویٰ کہ اس نے خود کو پیدا کیا غلط ہے کیونکہ وہ اپنی تخلیق سے پہلے کچھ بھی کرنے کی طاقت نہیں رکھ سکتی ۔یہ بات ہر محدود چیز پر لاگو ہوتی ہے جس میں یہ کائنات بھی شامل ہے۔ اسلامی سکالر الخطابی اس دعویٰ کے نقص کا یوں خلاصہ کرتے ہیں کہ”یہ دعویٰ اور زیادہ بے تکا ہے کیونکہ اگر کوئ چیز وجود ہی نہیں رکھتی تو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ طاقت رکھتی ہے اور وہ کوئ چیز کیسے پیدا کرسکتی ہے؟ یہ کچھ کیسے کرسکتی ہے؟ اگر ان دو باتوں کی تردید کی جاچکی ہے تو ثابت شدہ ہے کہ انکا ایک خالق موجود ہے، انہیں اس پر یقین رکھنے دیں”(23) اینڈریو کومپسن(Andrew Compson) جو برٹش ہیومنسٹ ایسوسی ایشن کے موجودہ چیئرمین ہیں ‘ کے ساتھ ایک دفعہ میرے ساتھ برمنگھم یونیورسٹی میں عوامی مناظرہ ہوا ۔ میں نے خدا کے وجود پر قرآنی دلیل دی- اس نے جواب میں میری اس دلیل کہ از خود تخلیق ناممکن ہے پر کہا کہ ازخود تخلیق ایک سیل والے جاندار میں پائی جاتی ہے جس کو علم حیاتیات میں (asexual -reproduction) غیرجنسی تولید بھی کہتے ہیں۔ اینڈریو کا اعتراض ان وجوہات پرغلط ہے پہلی یہ کہ ایک سیل والے جاندار میں اس نے جس چیز کا حوالہ دیا وہ ازخود تخلیق کا نہیں بلکہ تولید/ افزائش نسل کا ہے جس میں اولاد ایک ہی جاندار سے جنم لیتا ہے اور صرف اس سے ہی اپنے جینیاتی مواد حاصل کرتا ہے دوسری بات یہ کہ اگر ہم منطقی طور پر اس مثال کو کائنات پر لے جاتے ہیں تو یہ ماننا پڑے گا گا کہ کائنات پہلے سے وجود رکھتی تھی کیونکہ یک جنسی افزائش نسل کے لئے ایک والد کا ہونا ضروری جوکہ پہلے سے موجود ہو۔ اس لئے اس کا اعتراض اصل میں وہی نقطہ ثابت کرتا ہے جو میں بیان کر رہا تھا کہ کائنات کبھی وجود نہیں رکھتی تھی تو وہ اپنے آپ کو وجود میں نہیں لاسکتی۔ آپ شاید یہ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ بے تکہ اعتراض ہے اور اس پر یہاں بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی میں آپکی بات سے متفق ہو مگر میں نے اسے شامل کیا تاکہ بتا سکوں کہ کچھ ملحدوں کے جوابی دلائل کتنے غیر معقول ہوسکتے ہیں۔ آرگومنٹ کے طور پر اس سوال کا جواب “ہاں” میں دے دیتے ہیں کہ : کیا کائنات کسی مخلوق (خود تخلیق شدہ) نے تخلیق کی ہے؟ کیا یہ بات سوال کرنے والے کو مطمئن کرے گی؟ ظاہر ہے نہیں ۔ مقابل آدمی ضرور پوچھے گا “پھر کس نے تخلیق کیا”؟ اگر ہم جواب دیتے ہیں کہ “ایک اور مخلوق نے” آپ کے نزدیک پھر وہ کیا کہے گا؟ ہاں آپ سہی ہو اس کو کس نے تخلیق کیا؟ اگر یہ مضحکہ خیز گفتگو یوں ہی جاری رہی تو پھر ایک بات تو ثابت ہو جائے گی: ‘ایک غیر مخلوق خالق کی ضرورت’۔ کیوں؟ کیونکہ یہاں یہ معاملہ تو ہو نہیں سکتا کہ تخلیق شدہ چیز ہو جیسا کہ کائنات، جو تخلیق کی جائے ایک تخلیق شدہ چیز سے جس کو کوئی دوسری تخلیق شدہ چیز تخلیق کرے اور یہ ایک نا ختم ہونے والی چیز کی صورت میں ہمیشہ کے لئے پیچھے چلتا رہے (an- infinite- regress- of -causes) سادہ لفظوں میں یہ ایک بے مطلب بات ہے۔ مندرجہ ذیل مثالوں پر غور کریں۔ ۔تصور کریں کہ ایک نشانہ باز جس نے اپنا نشانہ حاصل کرلیا پھر ریڈیو سے اپنے ہیڈکواٹر سے گولی کی اجازت مانگی۔ مگر ہیڈکواٹر اسے کہتا ہے کہ وہ انتظار کرے جب تک ہم اپنے سے اوپر والوں سے اجازت لے لیں۔ اسکے بعد اوپر والے اپنے سے اوپر والوں سے اجازت لیں اور وہ اپنے سے اوپر والوں سے ۔۔ یہ سلسلہ چلتا رہے ۔اگر یہ سلسلہ چلتا رہا تو کیا نشانہ باز کبھی گولی چلاسکے گا ؟ظاہر ہے نہیں وہ ہمیشہ انتظار ہی کرتا رہے گا اور کوئی اور کوئی نا کوئی اپنے سے اوپر والے کے احکامات کا انتظار ہی کرتا رہے گا۔ ایک ایسی پوزیشن یا بندہ ہونا ضروری ہے جہاں یہ سلسلہ آکر رکے اور آڈر ملے:ایک ایسی جگہ جہاں سے اوپر کوئی نا ہو ۔ چنانچہ یہ مثال اس لامحدود مراجعت کی وجوہات کے نظریہ undefinedمیں موجود منطقی نقص کو واضح کرتی ہے۔ جب ہم اس کو کائنات پر لاگو کرتے ہیں تو ہمیں یہ ماننا پڑتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی ایسا خالق ضرور ہے جو کسی کا تخلیق شدہ نہیں۔ کائنات جو خود ایک تخلیق شدہ چیز ہے اسکو کو کوئی تخلیق شدہ چیز تخلیق نہیں کرسکتی اور یہ ہمیشہ کے لئے نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو کائنات کا وجود ہی ممکن نہیں ہوتا اب چونکہ کائنات وجود رکھتی ہے ہم اس نظریہ لامحدود مراجعت کی وجوہات کو غیر منطقی نقطہ یا خیال کے طور پر رد کرسکتے ہیں ۔ (24) ۔تصور کریں کہ ایک اسٹاک کا تاجر اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کار کی اجازت کے بغیر اپنے اسٹاک کی خرید و فروخت نہیں کرسکتا ۔ایک دفعہ جب وہ پوچھ لیتا ہےپھر اس سرمایہ دار کو اپنے اوپر سرمایہ دار سے پوچھناپڑتا ہے اوراسکو اپنے اوپر والے سے اور اگر ایسا ہوتا ہی چلا جائے تو کیا پھر کوئی تاجر خرید و فروخت کرسکےگا؟ ظاہر ہے نہیں۔ یہاں ایک سرمایہ دار ایسا ضرور ہوگا جو بغیر کسی کی اجازت کے دوسرے کو اجازت دے سکتا ہو۔ اسی طرح اگر اسکو ہم اس کو کائنات پر نافذ کریں تو ہمیں کائنات کے ایک خالق کو ماننا ہوگا جو خود مخلوق نا ہو۔! ایک دفعہ جب اوپر دی گئی مثالیں کائنات پر برائے راست نافذ کی جائینگی تو یہ چیز اس خیال کہ کائنات کسی ایسی چیز نے تخلیق کی جو خود مخلوق تھی ‘ کی حماقت کو واضح کرتی ہے ۔ مثلا یہ کائنات U1 ہےاسکی کی علت U2 تھی اسکی علت U3 تھی اور یہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہے تو پھر ہمارے پاس یہ U1ہوتی ہی نہیں۔ ذرا سوچئے تو سہی کہ U1کائنات کب وجود میں آئی ظاہر ہے U2کے بعد اور U2 وجود میں آئی U3 کے بعد ،یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے چلتا رہے گا۔ اگر U1 کا وجود ایک لامتناہی کائنات کی تخلیقوں پر منحصر ہو تاتو پھر U1 کا وجود بھی نا ہوتا ۔(25) ایک مسلم فلاسفر اور عالم ڈاکٹر جعفر ادریس لکھتے ہیں کہ “اصل علت کا کوئی سلسلہ نہیں ہو تا ، بلکہ صرف غیر موجود چیز وں کا سلسلہ ہوسکتا ہے ۔۔جبکہ یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اردگرد وجود اورتخلیق موجود ہے لہذا اس کا اسی طرح کا کوئی عارضی اور غیر موجود سبب نہیں ہوسکتا”۔ (26) تو متبادل کیا ہے؟ متبادل ہے پہلا سبب ۔ دوسرے لفظوں میں ایک بے سبب سبب یا ایک غیر مخلوق خالق۔ گیارہویں صدی کے ایک فلسفی اور فقیہ الغزالی نے اس بے سبب سبب یا ایک غیر مخلوق خالق کا کچھ اس طرح خلاصہ کیا ہے : ” اسی طرح کہا جاسکتا ہے کہ سبب کا سبب۔ اب یا تو یہ سلسلہ ہمیشہ کے لئے چلتا رہے گا جو کہ بے تکی سی بات ہے۔ یا اسکو کہیں رکنا ہوگا”۔ (27) مندرجہ بالا بحث بنیادی طور پر یہ کہہ رہی ہے کہ کچھ ضرور ہمیشہ سے وجود رکھتا ہے۔ اب صاف طور پر دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں۔ خدا یا کائنات۔ چونکہ کائنات کی شروعات ہوئی اور یہ خود مختار نہیں تو یہ ہمیشہ وجود نہیں رکھ سکتی ہے(تفصیل)۔ تو خدا وہی ہو سکتا ہے جو ہمیشہ وجود رکھتا ہے ۔ پروفیسر اینٹونی فلیو(Professor -Anthony) کی کتاب “خدا ہے”کے مقدمہ میں فلسفی ابراہیم ورغیش (Abraham- Varghese) اس نتیجے کو سادہ لیکن طاقتور انداز میں سمجھاتے ہیں۔ لکھتے ہیں “اب واضح طور پر مواحد اور ملحد ایک چیز پر اتفاق کرسکتے ہیں۔ اگر کوئی چیز واقعی وجود رکھتی ہے تو کوئی چیز تو ضرور ہے جو اس سے پہلے موجود تھی اور ہمیشہ سے تھی۔ اب یہ دائمی موجود حقیقت کس طرح وجود میں آئی؟ جواب یہ ہے کہ یہ وجود میں آئی نہیں ہمیشہ سے ہے۔ اپنا انتخاب کریں: خدا یا کائنات۔ کچھ تو ہمیشہ سے موجود ہے”۔(28) چنانچہ ہم یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ ہرتخلیق شدہ چیز کا ایک خالق موجود ہے۔ اس دلیل میں پوشیدہ طاقت کا اندازہ آپ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم جبیر بن متہم رضی اللہ عنہ کے ردعمل سے لگا سکتے ہیں۔ جب انہوں نے متعلقہ آیت سنی جو یہ دلیل بیان کررہی ہے تو کہا “میرا دل بڑھنا شروع ہوگیا”۔ (29)مشہور سکالر الخطابی نے لکھا کہ جبیر کے اتنا متاثر ہونے کی وجہ اس آیت میں موجود مضبوط ثبوت تھا جس نے انکی حساس طبیعت کو چھولیا اور انکی ذہانت نے اسے سمجھا۔(30) 18 صدی کے عالم شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس کا خلاصہ کیا کہ خدا نے عدم سے تخلیق کی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مستند روایات سے دلیل دی: “یاد رکھو کہ خدا کی تین صفات ہیں دنیا کی تخلیق کے متعلق ،ہر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک البدیع undefinedہے جس کا مطلب چیز کو بنا کسی چیز کے عدم سے وجود میں لانا یا ایسی چیز بنانے والا جسکا پہلے سے میٹیریل نہ ہو نہ ہی کوئی مثال۔۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا مخلوق کی شروعات کے متعلق تو آپ نے فرمایا کہ “جب کچھ بھی نہیں تھا اللہ تھا اور اس سے پہلے کچھ بھی نہیں تھا”۔ (31) ابھی تک جو ثابت ہوچکا ہے وہ یہ ہے کہ ایسے خدا کا وجود ضروری ہے جسے کسی نے تخلیق نہ کیا ہو ۔یہ خدا کے روایتی تصور کی نشاندہی نہیں ہے, البتہ جب ہم ایک ایسا خدا جسے کسی نے پیدا نہ کیا ہو’ کے بارے میں غور سے سوچیں تو ہم ایسے نتائج اخذ کرسکتے ہیں جو خدا کے روایتی تفہیم کی طرف جاتے ہیں۔ خدا کو کسی نے تخلیق نہیں کیا اسکا مطلب ہے خدا کا وجود ازلی ہے۔ایسی چیز جس کی ابتداء نا ہو ازلی ہوتی ہے اور ازلی وجود ابدی وجود پر دلالت کرتا ہے ۔ قرآن اسکو واضح کرتا ہے “خدا ہمیشہ سے ہے ،نہ اسے کسی نے جنا نہ ہی وہ جنا گیا “(32) خدا کی ابدیت پر ایک عام ردعمل ملحدین کی جانب سے یہ دیا جاتا ہے : خدا کو کس نے پیدا کیا ؟ یہ بچگانہ اعتراض ان دلائل کی منطق سے بےخبری اور روگردانی کی وجہ سے جو ہم نے اوپر بیان کیے ہیں ۔ اس مغالطے کے دو جواب حاضر پیش ہیں: پہلا، وہی تیسرا امکان جو ہم نے اوپر کائنات کی پیدائش کے متعلق زیربحث لایا کہ کیا اسے ایسی چیز تخلیق کرسکتی ہے جو خود مخلوق ہو ؟ اس ساری بحث سے واضح ہوا کہ یہ ممکن ہی نہیں کیونکہ یہ لامحدود مراجعت کی وجوہات کے نظریہ کی غیر منطقی بحث کھڑی کرنے کے علاوہ کچھ نہیں لاتا۔اس کو واضح کرنے کے لیے ہم نے کچھ مثالیں بھی دی تھی۔ دوسرا ، ہم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ خدا کا تصور کائنات کے قیام کے لئے سب سے بہترین وضاحت ہے تو پھر یہ کہنا غیر منطقی ہوگا کہ اسکو کسی نے پیدا کیا ہے ۔خدا نے کائنات کو پیدا کیا ہے اور وہ اسکے قوانین کا پابند نہیں ۔ وہ اپنی تعریف کے مطابق ایک غیر مخلوق ہستی ہے ، کس وقت وجود میں نہیں آئی۔جس کی ابتداء نا ہو تخلیق نہیں کی جاسکتی ۔پروفیسر جان لینکس اس کو یوں بیان کرتے ہیں : “میں نے اپنے آ ئرش دوست کو یہ کہتا سن سکتا ہوں: ٹھیک ہے یہ ایک بات ثابت کرتا ہے کہ اگر ان کے پاس اس سے مضبوط دلیل موجود ہوتی تو یہ پیش کر دیتے’۔ آپ جو بھی کہیں لیکن باربار یہ سوال پوچھنا کہ خدا کو کس نے بنایا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ سائل اپنے ذہن میں خدا کو تخلیق کرلیا ہے تو پھر یہ بات عجیب نہیں کہ کوئی اپنی کتاب کا نام خدائی مغالطہ (The -God -Delusion) رکھ دے۔ کیونکہ یہ واضح ہے کہ پیدا شدہ خدا عملی طور پر تعریف کے مطابق محض ایک مغالطے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا جو کہ ڈاکن سے صدیوں پہلے پپلی زینوفینس (Xenophanes) واضح کرچکے۔ لہٰذا ڈاکن کی کتاب کا بہتر نام ‘جنے گئےخداکامغالطہ’ ہونا چاہیے تھا ۔کتاب پھر ایک پمفلٹ جتنی رہ جاتی لیکن اس سے اسکی فروخت متاثر ہوجاتی۔۔ جس خدا نے کائنات بنائی اور اس پر گرفت رکھتا ہے وہ تخلیق شدہ نہیں ہے ‘ وہ ابدی ہے ۔ وہ پیدا نہیں کیا گیا اس وجہ سے وہ سائنسی قوانین سے بالا ہے: وہ وہ ہے جس نے کائنات کو اسکے قوانین کیساتھ پیدا کیا ۔ درحقیقت یہی وہ بنیادی فرق جو خدا اور کائنات میں ہے ۔ کائنات تخلیق شدہ ہے اور خدا نہیں۔(33) خدا جسے کسی نے پیدا نہیں کیا اپنی تخلیق کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ مثلاً ایک بڑھئی جو ایک کرسی بناتا ہے۔کرسی بنانے کے اس پراسیس میں وہ کرسی نہیں بنتا۔ وہ اس کا حصہ نہیں ہوتا بلکہ اس سے جدا ہوتا ہے ۔ اس مثال کو خالق پر بھی لاگو کیا جاسکتا ہے ۔ مشہو ر اسلامی سکالر ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہی دلیل پیش کی کہ ‘تخلیق شدہ’ کی اصطلاح واضح کرتی ہے کہ یہ خالق سے جدا ہے ۔(34) اگر خدا مخلوق کا حصہ تھا تو اسکا مطلب ہے کہ وہ اسکا محتاج اور محدود جسمانی خصوصیات پر مشتمل ہے، اس طرح اسے اپنے وجود کے لیے بھی وضاحت درکار ہوگی، اسطرح وہ خدا نہیں ہوگا۔(تفصیل)قرآن خدا کے ماوراء ہونے کو ان الفاظ میں واضح کرتا ہے: لیس کمثلہ شئی: اس جیسا کوئی نہیں ۔(35) اس خالق کا علیم ہونا ظاہر ہے کیونکہ اس نے جو کائنات بنائی قوانین پر مشتمل ہے، مثلا کائنات میں نمایاں فطری قوتیں ہیں کشش ثقل کا قانون، جوہری قوتیں، برقی قوتیں وغیرہ ۔(تٖفصیل کے لیے دیکھیے۔ وضع دار کائنات)یہ سب قوانین ایک مقنن کے وجود پر دلالت کرتے ہیں اور مقنن کا علم رکھنا ضروری ہے۔ قرآن کہتا ہے” بے شک خدا ہر چیز کا علم رکھتا ہے”۔(36) خالق کا طاقت ور ہونا بھی واضح ہے کہ کیونکہ اس نے کائنات کو تخلیق کیا اور کائنات میں قابل استعمال اور ممکن توانائی موجود ہے۔ مثلا قابل مشاہد ہ کائنات میں ایٹمز کی تعداد لگ بھگ دس کی طاقت آٹھ ہے۔(37) اگر آپ صرف ایک ایٹم کو توڑیں تو بے تحاشا نیوکلیر انرجی خارج ہوتی جو کہ ایٹمی انشقاق کہلاتا ہے ۔ ایک پیدا شدہ چیز اتنی قابل استعمال قوت اپنے آپ سے نہیں رکھ سکتی ۔ یہ چیز اسے خالق سے ملی ہے ۔ ایک طاقتور خالق ہی اس طرح کی بے پناہ انرجی کو ایک ایٹم میں سمو سکتا ھے. یہ اس بات کو عیاں کرتا ہے کہ یہ ساری قدرت اس ذات کی طرف سے ہے جو ہر چیز پر قادر ہے ۔ اگر خدا طاقت والا نا ہوتا تو اسکا مطلب تھا وہ ضعیف اور کمزور ہے۔چونکہ کائنات پیدا شدہ ہے ، تو اس کا بنانے والا لا محالہ طاقت کا سر چشمہ ہے۔ کائنات میں موجود بے پناہ انرجی خالق کے طاقتور ھونے پر دلالت کرتی ھے۔ قرآن اس بات اس طرح بیان کرتا ھے: اللہ جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے ، بے شک وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے”۔(38) خدا کی قدرت کے متعلق اسلامی موقف کا خلاصہ امام طحاوی نے اپنی کتاب میں پیش کیا ہے:” وہ ہر چیز پر قادر ہے، ہر چیز اسکی محتاج ہےاور کوئی بھی کام اسکے لیے مشکل نہیں”۔(39) ایک عام اعتراض جو خدا کی قدرت پر اٹھایا جاتا ہے وہ قادر مطلق متناقضہ undefined ہے۔ اس کا تعلق قادر مطلق ذات کی اپنی طاقت کو محدود کرنے کی صلاحیت سے ہے ۔ سوال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ اگر خدا ہر چیز پر قادر ہے تو کیا وہ ایک ایسا بھاری پتھر تخلیق کر سکتا ہے جسے وہ خود بھی نا اٹھا سکے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے قادر مطلق کے مطلب کی وضاحت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہر ممکن کام کرنے کی صلاحیت کو کہتے ہیں ، اس میں محالِ ناکامی undefined بھی شامل ہے ۔ یہ سوال کرنے والا یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ چونکہ خدا کے لئے ھر کام ممکن ھے تو ناکامی بھی ممکن ھے۔یہ غیر منطقی اور لایعنی بات ہے کیونکہ یہ کہنا ایسے ہی ہے کہ ‘ ایک ہر کام پر قادر ذات ہر کام پر قادر نہیں’! جو کوئی کام نا کرسکے وہ قادر مطلق ہی نہیں۔ قادر مطلق ہونے کے لیے لازم ہے کہ جو کچھ وہ تخلیق کرے وہ اسکے قبضہ قدرت میں ہو تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ خدا ایک پتھر تخلیق کرے جو اس کے قبضہ قدرت سے ماورا ہو ۔۔ایسا ممکن نہیں ہے کہ یعنی وہ قادر مطلق ہو بھی اور نہیں بھی ۔ اس لحاظ سے خدا کی یہ صلاحیت کہ ایسا پتھر پیدا کرے جسے خود بھی نا ہلا سکے درحقیقت ایسی بات بیان کرتا ہے جو ناممکن اور بے معنی ہے۔ یہ سوال ایک غیر ممکن چیز بیان کرتا ہے۔ جیسے ہم کہیں ‘ ایک سفید کالا کوا’، ایک گول ٹرائی اینگل ‘۔ ایسے جملے کچھ بھی بیان نہیں کرتے اور نا کوئی اہمیت اور مطلب رکھتے ہیں۔تو ہم پھر ایسے سوال کا جواب کیا دیں جسکا کوئی معنی ہی نہیں ؟ حقیقت میں یہ سوال سوال کہلانے کے بھی لائق نہیں۔ قرآن مجید کی اس آیت “خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے”(40) کی تفسیر میں مشہور عالم القرطبی لکھتے ھیں کہ” خدا کی طاقت ہر ممکنہ معاملات سے متعلق ہے: “یہ <آیت>undefined خدا کی صفت قدرت کی عام وضاحت ہے۔۔خدا ہر ممکن کام کرنے کی قدرت رکھتا ہے چاہے وہ وجود رکھتا ھے یا نہیں۔(41) حاصل بحث یہ ھے کہ خدا ایسا پتھر بنا سکتا ہے جو اتنا وزنی ہو جتنا ہم سوچ سکتے ہیں ، وہ اس پتھر کو حرکت دینے پر قادر بھی ھو گا کیونکہ وہ قادر مطلق ہے، ناکامی اسکی صفت نہیں۔ (42) بہت سی وجوہات ایسی ہیں جن کی وجہ سے خالق کے پاس چاہت کا ھونا لازم آتا ھے۔ وجہ: چونکہ خدا ابد سے موجود ھے اور کائنات کو معرض وجود میں لانے کا سبب ھے، تو پہلے خدا نے کائنات کو بنانے کا ارادہ کیا پھر اسے معرض وجود میں لایا کیونکہ کائنات ھمیشہ سے نہیں ھے بلکہ تخلیق کی گئی ھے۔ اب ایک چیز اگر ارادہ رکھتی ھے تو وہ خواھش یا چاہ کا بھی ضرور مالک ھو گا۔ وجہ: کائنات ایسی مخلوقات کا مجموعہ ہے جو مرضی اور چاہت رکھتی ہیں. لہذا جس نے کائنات کو چاہت رکھنے والی مخلوق کے ساتھ پیدا کیا ہے اسے بھی ضرور چاہت کامالک ھونا چاھئیے . کوئی کسی کو وہی چیز دے سکتا ھے جو اس کے پاس موجود ھو۔ لہذا، خالق مرضی یا چاہت رکھتا ہے. وجہ: کائنات کی تخلیق کے بارے میں دو طرح کی توجیہ پیش کی جا سکتی ھے۔ پہلی سائنسی اور دوسری ذاتی۔ آئے اس بات کو چائے کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ھیں۔ چائے بنانے کیلئے پانی ابالنا ھو گا، پھر چائے کی پتی ڈالیں گے اور آخر میں دودھ۔ اسی طریقہ کار کو سائنسی طور پر اس طرح بیان کریں گے: پانی کو 100 ڈگری تک گرم کریں اور ابلنے پر چائے کی پتی ڈالیں اور آخر میں دودھ۔ یہ سب کرنے کیلئے مجھے اپنے جسم میں موجود گلاکوجن انرجی کے استعمال سے مسلز کو حرکت دینی ھو گی تاکہ اپنے ھاتھوں سے یہ تمام کام سر انجام دے سکوں۔ ایک ماھر سائنسدان مزید گہرائی میں بھی جا سکتا ھے، لیکن امید ھے آپ میرا پوائنٹ سمجھ گئے ھوں گے۔ اسی طرح اس بات کی ذاتی وضاحت یہ ہوگی کہ چائے اس لئے بنائی گئی کیونکہ میں بنانا چاھتا تھا۔ آئیں اب اسی بات کا اطلاق کائنات کی تخلیق پر کرتے ھیں۔ ہمارے پا س شواہد نہیں کہ خدا نے کائنات کو کیسے بنایا، ھم صرف ذاتی وضاحت پر اعتبار کرسکتے ہیں کہ خدا چاھتا تھا تو اس نے کائنات بنا دی ۔ اگرچہ اس کائنات کی سائنسی توجیہ بھی ممکن ھے لیکن یہ ذاتی وضاحت (کہ خدا چاھتا تھا تو اس نے کائنات بنا دی) کو رد نہیں کرتی جیسا کہ ھم نے چائے کی مثال میں دیکھا۔ (43) قرآن اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ خدا ارادہ اور چاہت رکھتا ہے”خدا جو چاھتا ھے کر گزرتا ھے”(44)۔ اسلامی سکالر امام غزالی بھی اس بات کا فصیح خلاصہ لکھتے ھیں کہ سب کچھ خدا کی مرضی سے ھوتا ھے اور کوئی بھی چیز اس سے مبرا نہیں۔”ھم گواھی دیتے ھیں کہ تمام چیزیں اس کی مرضی کی وجہ سے موجود اور قائم ھیں اور وہ تمام عوامل جو اس کائنات میں وقوع پذیر ھو رھے ھیں اس کی مرضی سے ھو رھے ھیں اور وہ تمام کائنات کا مالک ھے۔ کوئی بھی چیز اس کی اجازت کے بغیر نہیں ھو سکتی چاھے وہ نظر آنے والی ھو یا پوشیدہ، چھوٹی ھو یا بڑی، اچھی ھو یا بری، فائدہ ھو یا نقصان، ایمان ھو یا کفر، علم ھو یا جہالت، کامیابی ھو یا ناکامی، اضافہ ھو یا کمی، اطاعت ھو یا نافرمانی۔ حتی کہ پلک کا جھپکنا یا دل میں آنے والا خیال یا وسوسہ بھی اس کی مرضی کا محتاج ھے۔ وہ خالق ھے اور جو چاھتا ھے کرتا ھے۔ کوئی اس کی حکم عدولی نہیں کر سکتا، نہ کوئی کسی کو اس کی بندگی سے روک سکتا ھے۔ سوائے اس کی مدد اور رحمت کے۔ اور کوئی بھی اس کی مرضی کے بغیر اس کی اطاعت کی صلاحیت نہیں رکھتا”۔(45) بہت سے مزید اشکالات جو اس حوالے سے اٹھائے جاسکتے ہیں، ہمارے خیال میں اگر انکا جواب نا بھی دیا جائے تو بھی اس آرگومنٹ کی معقولیت قائم رہتی ہے۔ بحرحال انکا بہت معقول جواب ایک مقالے میں دیا گیا ہے۔ریفرینس (46) خلاصہ یہ کہ اس باب میں ہم نے دیکھا کہ قرآن خدا کے وجود کا ایک بہت بامعنی اور طاقت ور آرگومنٹ پیش کرتا ہے۔ چونکہ کائنات محدود ہے ، اسکی ابتداء ہے ۔ اگر اسکی ابتداء ہے اسکی وضاحت ایسے ہوسکتی ہے کہ: یہ عدم سے وجود میں آئی، اس نے خود کو بنایا، اسکو کسی مخلوق نے بنایا یا اسکو کسی غیر مخلوق خالق نے بنایا۔ عقلی اور بہتر جواب یہی ہے کہ اسکو ایک غیر مخلوق خالق نے وجود میں لایا جو ابدی، ماوراء ، صاحب علم اور طاقت و چاہت رکھتا ہے۔اسکو خالق لازمی طور پر احد /اکیلا بھی ہونا چاہیے۔ اس پر بحث آگے ایک تحریر میں آئے گی۔ اس دلیل کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ کائنات محدود ہے، تاہم اگلی بحث سے واضح ہے کہ اگر کائنات کی ابتداء نا بھی ہو پھر بھی یہ خدا کے وجود کی ضرورت محسوس کرتی ہے۔ 1. Gwynne. R W. (2004) Logic. Rhetoric and Legal Reasoning in the Qur’an: God’s Arguments. Abingdon: Routledge. 2004. p. ix. 2. Ibid. p. 203 3. Cited in Hoover.]. (2007) Ibn Taymiyya’s Theodicy of Perpetual Optimism. Leiden: Brill. p. 31. 4. The Qur’an, Chapter 52, Verses 35 and 36. 5. Mohar, M. A. (2003) A word for word meaning of the Qur’an. Vol III. Ipswich:JIMAS, p.1713. 6. argument has been inspired by and adapted from Idris,]. (1994) The Contemporary Physicists and God’s Existence. Available at: http://www.jaafaridris.com/the-contemporary-physicists-and-gods-existence/ Philosophy of Mathematics: Selected Readings. Englewood Cliffs: Prentice-Hall, p. 151. 8. Quine: Terms explained. Available at: http://www.rit.edu/ cla/ philosophy / quine/underdetermination.html undefined. 9. American Physical Society. (1998) Focus: The Force of Empty Space. Available at: http://physics.aps.org/story/v2/st28 undefined. 10. Leibniz, G. W. (1714) The Principles of Nature and Grace, Based on Reason. 1714. Available at: http://www.earlymoderntexts.com/assets/ pdfs/leibniz1714a.pdf undefined. 11. Krauss, L. M. (2012) A Universe from Nothing: Why is there Something Rather Than Nothing. London: Simon & Schuster, p. 170. 12. Ibid. 13. Ibid, p. 105. 14. Albert, D. (2012) ‘A Universe From Nothing,’ by Lawrence M. Krauss. Available at: http://www.nytimes.comI20 12/03125/books/ review/ a-universe-from-nothing-by-lawrence-m-krauss.html?_r=O undefined. 15.Craig, W.L. (2012) A Universe from Nothing. Available at: http://www.reasonablefaith.orgla-universe-from-nothing undefined. 16. Analogies adapted from Craig, W.L. (2012) A Universe from Nothing. Available at: http://www.reasonablefaith.orgla-universe-from-nothing undefined. 17. Krauss, L. A (2012) Universe from Nothing, p. 174. 18. Sober, E. (2010). Empiricism. In: Psillos, S and Curd, M, ed, The Routledge Companion to Philosophy of Science. Abingdon: Routledge, pp. 137-138. 19. Krauss, L. (2012) A Universe from Nothing, p. xiii. 20. Ibid p. 147. 21. iERA. (2013) Lawrence Krauss vs Hamza Tzortzis – Islam vs atheism debate. Available at: http://www.yolltube.com/watch?v=uSwJuOPG4FI Richard Dawkins and Lawrence Krauss discuss. Available at: https://youtu.be/CXGyesfHzew?t=921 [Accessed 2nd October 2016. 23 Cited in Al-Bayhaqi, A. (2006) Kitab al-Asma was-Sifat. Edited by Abdullah Al-Hashidi. Cairo: Maktabatu al-Suwaadi. Vol 2, p. 271. 24. This example has been taken from Green, A. R. The Man in the Red Underpants. 2nd Edition. London: One Reason, pp. 9-10. 25. This example has been adapted from Idris,]. (2006) Contemporary Physicists and God’s Existence (part 2 00): A Series of Causes. Available at: http://www.islamreligion.com/articles/ 491 / undefined. 26. Idris,]. (2006) Contemporary Physicists and God’s Existence (part 2 00): A Series of Causes. Available at: http://www.islamreligion.com/articles/ 491/ undefined. 27. Cited in Goodman, L. E. (1971) Ghazali’s Argument From Creation (I). International Journal of Middle East Studies, Vol 2, Issue. 1,83. 28. Flew, A. (2007) There is a God: How the World’s Most Notorious Atheist Changed His Mind. New York: HarperOne. 2007, p.165. 29. Narrated by Bukhari. 30. Cited in Al-Bayhaqi, A. (2006) Kitab al-Asma was-Sifat. Vol 2, p. 270. 31. Wali_Allah, S. (2003) The Conclusive Argument from God (Hujjat Allah al-Baligha). Translated by Marcia K. Hermansen. Islamabad: Islamic Research Institute, p. 33. 32. The Qur’ an, Chapter 112, Verses 2 and 3. 33. Lennox,]. C. (2009) God’s Undertaker: Has Science Buried God? Oxford: Lion Books, p.183. 34. Hoover,]. (2004) Perpetual Creativity in the Perfection of God: Ibn Taymiyya’s Hadith Commentary on God’s Creation of this World. Journal of Islamic Studies 15(3): 296. 35. The Qur’ an, Chapter 42, Verse 11. 36. The Qur’ an, Chapter 58, Verse 7. 37 This is an estimate based on the number of hydrogen atoms that are contained in the estimated total number of stars in the observable universe. The number is higher if other atoms are included. 38. The Qur’ an, Chapter 24, Verse 45. 39. Al-Tahawi. (2007) The Creed ofImam Al-Tahawi. Translated from Arabic, Introduced and Annotated by Hamza Yusuf. California: Zaytuna Institute, p. 50. 40. The Qur’an, Chapter 2, Verse 20. 41. AI-Qurtubi, M. (2006) Al-]aami’ al-Ahkaam al-Qur’an. Edited by Dr. Adullah Al-Turki and Muhammad ‘Arqasusi. Beirut: Mu’assasa al-Risalah. Vol 1, pp. 338-9. 42. Inspired and adapted from Craig, W. L. The coherence of Theism – part 2. Available at: http://www.bethinking.orgl god/ the-coherence-of-theism/ part-2 undefined. 43. Swinburne, R. (2004) The Existence of God. 2nd Edition. New York: Oxford University Press, pp. 52-72. 44. The Qur’an, Chapter 11, Verse 107. 45. AI-Ghazali, M. (2005) Ihyaa ‘Ulum al-Deen. Beirut: Dar Ibn Hazm, p. 107. 46. Randhawa, S. (201l) The Kalam Cosmological Argument and the Problem of Divine Creative Agency and Purpose. Draft version. Available at: http://www.academia.edu!29016615/The_Kal%C4%81m_Cosmological_Argument_an d_the_Problem_oCDivine_ Creative_Agency_and_Purpose undefined.