سائنسی استدلال:
مذہب کی مخالفت میں کئی استدلالات اس بات کے ثبوت کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور انکی بنیاد پر یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ دور جدید نے مذہب کے لئے کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک بے بنیاد دعویٰ ہے ، جدید طریق فکر نے مذہب کو کسی بھی درجہ میں کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے،. یہاں مذہب کے خلاف مقدمے میں پیش کیے گئے دلائل پر ایک عمومی تبصرہ پیش کیا جاتا ہے۔
۱۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس دلیل کو لیتے ہیں جو طبعیاتی تحقیق کے حوالے سے پیش کی گئی ہے یعنی کائنات کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوا کہ یہاں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ ایک متعین قانون فطرت کے مطابق ہو رہے ہیں اس لئے ان کی توجیہہ کرنے کیلئے کسی نامعلوم خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ معلوم قوانین خود اس کی توجیہہ کیلئے موجود ہیں اس استدلال کا بہترین جواب وہ ہے جو ایک عیسائی عالم نے دیا ہے اس نے کہا ہے۔
“Nature is the fact not an explanation”
یعنی فطرت کا قانون کا ئنات کا ایک واقعہ ہے وہ کائنات کی توجیہہ نہیں ہے تمہارا یہ کہنا صحیح ہے کہ ہم نے فطرت کے قوانین معلوم کرلئے ہیں مگر تم نے جو چیز معلوم کی ہے وہ اس مسئلے کا جواب نہیں ہے جس کے جواب کے طور پر مذہب وجود میں آیا ہے مذہب یہ بتاتا ہے کہ وہ اصل اسباب و محرکات کیا ہیں جو کائنات کے پیچھے کام کر رہے ہیں جب کہ تمہاری دریافت صرف اس مسئلہ سے متعلق ہے کہ کائنات جو ہمارے سامنے کھڑی نظر آتی ہے اس کا ظاہری ڈھانچہ کیا ہے .جدید علم جو کچھ ہمیں بتاتا ہے وہ صرف واقعات کی مزید تفصیل ہے نہ کہ اصل واقعہ کی توجیہہ سائنس کا سارا علم اس سے متعلق ہے کہ جو کچھ ہے وہ کیا ہے؟ یہ بات اس کی دسترس سے باہر ہے کہ جو کچھ ہے وہ کیوں ہے؟ جب کہ توجیہہ کا تعلق اسی دوسرے پہلو سے ہے۔
اس کو ایک مثال سے سمجھئے مرغی کا بچہ انڈے کے مضبوط خول کے اندر پرورش پاتا ہے اور اس کے ٹوٹنے سے باہر آتا ہے یہ واقعہ کیوں کر ہوتا ہے کہ خول ٹوٹے اور بچہ جو گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں ہوتا وہ باہر نکل آئے پہلے کا انسان اس کا جواب یہ دیتا تھا کہ خدا ایسا کرتا ہے مگر اب خوردبینی مشاہدہ کے بعد معلوم ہوا کہ جب ۲۱ روز کی مدت پوری ہونے والی ہوتی ہے اس وقت ننھے بچے کی چونچ پر ایک نہایت چھوٹی سی سخت سینگ ظاہر ہوتی ہے اس کی مدد سے وہ اپنے خول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے سینگ اپنا کام پورا کرکے بچہ کی پیدائش کے چند دن بعد خود بخود چھڑ جاتی ہے۔
مخالفین مذہب کے نظریے کے مطابق یہ مشاہدہ اس پر انے خیال کو غلط ثابت کر دیتا ہے کہ بہ کو باہر نکالنے والا خدا ہے کیونکہ خوردبین کی آنکھ ہم کو صاف طور پر دکھا رہی ہے کہ ایک ۲۱ روزہ قانون ہے جس کے تحت وہ صورتیں پیدا ہوتی ہیں جو بچہ کو خول کے باہر لاتی ہیں یہ مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں جدید مشاہدہ نے جو کچھ ہمیں بتایا ہے وہ صرف واقعہ کی چند مزید کڑیاں ہیں اس نے واقعہ کا اصل سبب نہیں بتایا اس شاہدہ کے بعد صورت حال میں جو فرق ہوا ہے وہ اس کے سوا اور کچھ نہیں ہےکہ پہلے جو سوال خول کے ٹوٹنے کے بارے میں تھا وہ سینگ کے اوپر جا کر ٹھہر گیا بچہ کا اپنی سینگ سے خول کو توڑنا واقعہ کی صرف ایک درمیانی کڑی ہے وہ واقعہ کا سبب نہیں ہے واقعہ کا سبب تو اس وقت معلوم ہو گا جب ہم جان لیں کہ بچہ کی چونچ پر سینگ کیسے ظاہر ہوئی دوسرے لفظوں میں اس آخری سبب کا پتہ لگائیں
جو بچہ کی اس ضرورت سے واقف تھا کہ اس کو خول سے باہر نکلنے کیلئے کسی سخت مدگار کی ضرورت ہے اور اس نے مادہ کو مجبور کیا کہ عین وقت پر ٹھیک ۲۱ روز بعد وہ بچہ کی چونچ پر ایک ایسی سینگ کی شکل میں نمودار ہو جو اپنا کام پورا کرنے کے بعد چھڑ جائے۔ گویا پہلے یہ سوال تھا کہ خول کیسے ٹوٹتا ہے اور اب سوال یہ ہو گیا کہ ” سینگ کیسے بنتی ہے“ ظاہر ہے کہ دونوں حالتوں میں کوئی نوعی فرق نہیں اس کو زیادہ سے زیادہ حقیقت کا وسیع تر مشاہدہ کہہ سکتے ہیں حقیقت کی توجیہہ کا نام نہیں دے سکتے۔
یہاں میں ایک امریکی عالم حیاتیات ”سیسل بوائے حامانن“ کے الفاظ نقل کروں گا
”غذا ہضم ہونے اور اس کے جزو بدن بننے کے حیرت انگیز عمل کو پہلے خدا کی طرف منسوب کیا جاتا تھا اب جدید مشاہدہ میں ہو کیمیائی رد عمل کا نتیجہ نظر آتا ہے مگر کیا اس کی وجہ سے خدا کے وجود کی نفی ہو گئی آخر وہ کون طاقت ہے جس نے کیمیائی اجزا کو پابند کیا کہ وہ اس قسم کا مفید رد عمل ظاہر کریں غذا انسان کے جسم میں داخل ہونے کے بعد ایک عجیب و غریب خود کار انتظام کے تحت جس طرح مختلف مراحل سے گزرتی ہے اس کو دیکھنے کے بعد یہ بات بالکل خارج از بحث معلوم ہوتی ہے کہ یہ حیرت انگریز انتظام محض اتفاق سے وجود میں آگیا ۔حقیقت یہ ہے کہ اس مشاہدہ کے بعد تو اور زیادہ ضروری ہو گیا ہے کہ ہم یہ مانیں کہ خدا اپنے ان عظیم قوانین کے ذریعہ عمل کرتا ہے جس کے تحت اس نے زندگی کو وجود دیا ہے“۔
The evidence of God in Expanding Universe p221
یہ صحیح ہے کہ سائنس نے کائنات کے بارے میں انسان کے مشاہدے کو بہت بڑھا دیا ہے اس نے دکھا دیا ہے کہ وہ کون سے فطری قوانین ہیں جن میں یہ کائنات جکڑی ہوئی ہے اور جس کے تحت وہ حرکت کر رہی ہے مثلاً پہلے آدمی صرف یہ جانتا تھا کہ پانی برستا ہے مگر اب سمندر کی بھاپ اٹھنے سے لے کر بارش کے قطرے زمین پر گرنے تک کا وہ پورا عمل انسان کو معلوم ہو گیا ہے۔
جس کے مطابق بارش کا واقعہ ہوتا ہے مگر یہ ساری دریافتیں صرف واقعہ کی تصویر ہیں وہ واقعہ کی توجیہہ نہیں ہیں سائنس یہ نہیں بتاتی کہ فطرت کے قوانین کیسے قوانین بن گئے وہ کیسے اس قدر مفید شکل میں مسلسل طور پر زمین و آسمان میں قائم ہیں اور اس صحت کے ساتھ قائم ہیں کہ ان کی بنیاد پر سائنس میں قوانین مرتب کئے جاتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ وہ فطرت جس کو معلوم کر لینے کی وجہ سے انسان یہ دعوی کرنے لگا ہے کہ اس نے کائنات کی توجیہہ دریافت کر لی وہ محض دھوکا ہے یہ ایک غیر متعلق بات کو سوال کا جواب بنا کر پیش کرنا ہے یہ درمیانی کڑی کو آخری کڑی قرار دینا ہے یہاں پھر میں مذکورہ عالم کے الفاظ دہراؤں گا۔
Nature does not explain, she her self is in need of an explanation
یعنی فطرت کائنات کی توجیہہ نہیں کرتی وہ خود اپنے لئے ایک توجیہہ کی طالب ہے۔
اگر آپ کسی ڈاکٹر سے پوچھیں کہ خود سرخ کیوں ہوتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ خون میں نہایت چھوٹے موٹے سرخ اجزا ہوتے ہیں (ایک انچ کے سات ہزارویں حصے کے برابر) یہی سرخ ذرات خون کو سرخ کرنے کا سبب ہیں۔
”درست مگر یہ ذرات سرخ کیوں ہوتے ہیں“
”ان ذرات میں ایک خاص مادہ ہوتا ہے جس کا نام ہیمو گلوبن ہے یہ مادہ جب پھیپھڑے میں آکسیجن جذب کرتا ہ تو گہرا سرخ ہو جاتا ہے“۔
”ٹھیک ہے مگر ہیموگلوبن کے حام سرخ ذرات کہاں سے آئے ہیں“
”وہ آپ کی تلی میں بن کر تیار ہوتے ہیں “
”ڈاکٹر صاحب ! جو کچھ آپ نے فرمایا وہ بہت عجیب ہے مگر مجھے بتایئے کہ ایسا کیوں ہے کہ خون سرخ ذرات تلی اور دوسری ہزاروں چیزیں اس طرح ایک کل کے اندر باہم مربوط ہیں اور اس قدر صحت کے ساتھ اپنا اپنا عمل کر رہی ہیں“
”یہ قدرت کا قانون ہے“
”وہ کیا چیز ہے جس کو آپ قدرت کا قانون قدرت کہتے ہیں“
اس سے مراد
Blind interplay of physical and chemical forces
طبیعی اور کیمیائی طاقتوں کا اندھا عمل ہے۔
مگر کیا وجہ ہے کہ یہ اندھی طاقتیں ہمیشہ ایسی سمت میں عمل کرتی ہیں جو انہیں متعین انجام کی طرف لے جائے ؟ کیسے وہ اپنی سر گرمیوں کو اس طرح منظم کرتی ہیں کہ ایک چڑیا اڑنے کے قابل ہو سکے، ایک مچھلی تیر سکے ایک انسان اپنی مخصوص صلاحتیوں کے ساتھ وجود میں آئے ۔؟
میرے دوست مجھ سے یہ نہ پوچھو سائنس داں صرف یہ بتا سکتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہے ؟ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے۔؟
یہ سوال وجواب واضح کررہا ہے کہ سائنسی دریافتوں کی حقیقت کیا ہے بلا شبہ سائنس نے ہم کو بہت سی نئی نئی باتیں بتائی ہیں مگر مذہب جس سوال کا جواب ہے اس کا ان دریافتوں سے کوئی تعلق نہیں اس قسم کی دریافتیں اگر موجودہ مقدار کے مقابلے میں اربوں کھربوں گنا بڑھ جائیں تب بھی مذہب کی ضرورت باقی رہے گی کیوں کہ یہ دریافتیں صرف ہونے والے واقعات کو بتائی ہیں یہ واقعات کیوں ہو رہے ہیں اور ان کا آخری سبب کیا ہے اور اس کا جواب ان دریافتوں کے اندر نہیں ہے یہ تمام کی تمام دریافتیں صرف درمیانی تشریح ہیں جبکہ مذہب کی جگہ لینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ آخری اور کلی تشریح دریافت کر لے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی مشین کے اوپر ڈھکن لگا ہوا ہو تو ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ چل رہی ہے اگر ڈھکن اتار دیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ باہر کا چکر کس طرح ایک اور چکر سے چل رہا ہے اور وہ چکر کسی دوسرے بہت سے پرزوں سے کر حرکت کرتا ہے۔ یہاں تک کہ ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے سارے پرزوں اور اس کی پوری حرکت کو دیکھ لیں مگر کیا اس علم کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے مشین کے خالق اور اس کے سبب حرکت کا راز بھی معلوم کر لیا کیا کسی مشین کی کارکرردگی کو جان لینے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ خود بخود بن گئی ہے اور اپنے آپ چلی جارہی ہے اگر ایسا نہیں ہے تو کائنات کی کارکردگی کی بعض جھلکیاں دیکھنے سے یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ یہ سارا کارخانہ اپنے آپ قائم ہوا اور اپنے آپ چلا جارہا ہے ہیریز نے یہی بات کہی تھی جب اس نے ڈارو نزم پر تنقید کرتے ہوئے کہا۔
“nature selection may explain the survival of fittest, but cancnot explain the arrival of the fittest”
Revolt Against Reason by A.lunn p.133
یعنی انتخاب طبیعی کے قانون کا حوالہ صرف زندگی کے بہتر مظاہر کے باقی رہنے کی توجیہہ کرتا ہے وہ یہ نہیں بتاتا کہ یہ بہتر زندگیاں خود کیسے وجود آئیں۔
فلسفیانہ استدلال:
ایک مشہور دعوی:
“مذہب کے جو دعوے ہیں ان کی بنیاد کسی دلیل پر قائم نہیں ہے مذہب خالص اعتقادی چیز ہے۔ مذہب کی صداقتوں کو اس طور پر خارج میں (demonstrate) نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لئے مذہب صرف ایک دعویٰ یا عقیدہ ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت حاصل نہیں ہے۔”
اس میں جس بنیاد پر مذہب کو رد کیا گیا ہے وہ ‘مشاہدہ’ ہے ۔ کہ چونکہ مذہبی نظریات کا مشاہدے سے کوئی تعلق نہیں اس لیے قابل قبول بھی نہیں ۔ جبکہ دوسری طرف جس کو مذہب کے مقابلے میں پیش کیا جاتا ہے یعنی سائنس اسے دیکھا جائے تو ادھر بھی کئی ایسے نظریات تسلیم شدہ جو کبھی مشاہدہ یا تجربہ میں نہیں آتے۔ بلکہ بعض خارجی تجربات یا مشاہدات کی بنا پر کچھ نظریات قائم کر لئے گئے ہیں ۔ مثلا بجلی کو ہی دیکھ لیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ENERGY MEANS FLLOW OF ELECTRON
یہ نہیں کہ کسی نے بجلی کے کسی تار میں خوردبین سے الیکٹران کو دوڑتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ یہ درحقیقت اس مشہور واقعہ کی ایک توجیہہ ہوتی ہے کہ جب بٹن دباتے ہیں تو کیوں بلب جل جاتا ہے پنکھا گھومنے لگتا ہے کارخانے متحرک ہو جاتے ہیں، اسی طرح ٹیلیفون نمبر جو بلا شبہ صاحب ٹیلی فون سے متعلق ہے مگر وہ خود صاحب ٹیلی فون نہیں ہے۔ گویا یہاں بھی سائنس داں کے مشاہدہ یا تجربہ کو جو چیز اصل حقیقت سے جوڑتی ہے وہ صرف ایک ایسی چیز ہے جو اس کے ذہن میں ہے۔ یعنی استنباط نہ کہ خود مشاہدہ یا تجربہ ۔
گویا ریسرچ میں معیار صرف تجربہ یا مشاہد ہ نہیں بلکہ اور بھی کچھ چیزیں ہیں جن سے حقیقت کا پتا لگا جاتا ہے۔ان کو دیکھتے ہوئے جو جدید معیار استدلال سامنے آتا ہے وہ یوں ہے
۱۔ جو چیز زیر بحث ہے خود وہ چیز براہ راست ہمارے اپنے تجربے او مشاہدے میں آجائے۔
۲۔ دوسرا درجہ وہ ہے کہ جب کہ دعویٰ پورا کا پورا تو نظر نہ آئے مگر اس کے کچھ اجزاء دکھائی دے رہے ہوں۔
۳۔ وہ استدلال بھی صحیح معیار ہے جس میں اگرچہ اصل حقیقت کو براہ راست دکھایا نا گیا ہو مگر اسکے کچھ ایسے پہلو ہمارے تجربہ میں آتے ہوں جن سے قیاس کیا جاسکے کہ ایسی کوئی حقیقت یہاں پائی جارہی ہے۔ معیار استدلال میں اس تیسرے اضافہ کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ وہ معنی خیز حقائق دسترس میں آجاسکے جن کا دوسرا نام جدید طبعیات یا نیو کلیر سائنس ہے۔
۴۔ وہ مشاہدات و تجربات اصل دعویٰ کے حق میں جائز قرینہ پیدا کرتے ہوں یا ان کی توجیہہ کے لئے کوئی بہتر تصور۔ جو چیز اس معیار پر واقعی طور پر پوری اترے، اس کو بھی ایک ثابت شدہ چیز سمجھا جائے گا۔
مذہب کا مقدمہ بھی اس تیسرے اور چوتھے پوائنٹ سے متعلق ہے۔اس کی وضاحت کے لئے میں یہاں دو مثالیں دینا چاہتا ہوں۔ ایک منفی اور دوسری مثبت۔
منفی مثال کے ذیل میں جدید ذہن کے خلاف ِمذہب نظریات کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ مذہب کے سلسلہ میں جدید ذہن کا کہنا صرف یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے لئے قابل فہم نہیں ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑ کر خود مذہب کی واقعیت کے بارے میں اس نے ایک بیان دے دیا ہے۔ اور وہ یہ کہ مذہب ایک سراسر غٖلط اور بے بنیاد چیز ہے۔
مذہب کے خلاف دور جدید کا مقدمہ بیک وقت دو متضاد پہلوؤں کا حامل ہے۔ ایک طرف جدید ذہن کا کہنا ہے کہ مذہب چونکہ ایسے عقائد کے مجموعہ کا نام ہے جس کا مظاہرہ ممکن نہیں ہے، اس لئے وہ شخصی عقیدہ کی چیز ہے۔ دوسروں سے اس کے ماننے کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔ دوسری طرف فلسفیوں اور سائنس دانوں کی ایک فوج یہ بھی کہ رہی ہے کہ جدید دریافتوں نے مذہبی عقائد کو باطل ثابت کر دیا ہے۔
یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ کیونکہ مذہب اگر ایک ایسے دائرے کی چیز ہے جس کو دوسرے شخص کے سامنے علمی طور پر ثابت نہیں کیا جاسکتا ، تو جس طرح اس کا ثابت کرنا ناممکن ہو گا، اسی طرح اس کا رد کرنا بھی ناممکن ہونا چاہئے ۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو دور جدید کے موقف کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم مذہب کو علمی طور پر مدلل کرنا چاہیں تو وہ کہیں گے کہ تم فضول کوشش کر رہے ہو کیونکہ مذہب ثابت کرنے کی چیز ہی نہیں۔ لیکن جب وہ خود مذہب کے خلاف دلیل قائم کرنا چاہیں تو مذہب ایک ایسے دائرے کی چیز بن جاتا ہے جہاں علمی دلائل قائم کئے جاسکتے ہوں۔
اس تضاد کی وجہ حقیقۃ یہ نہیں ہے کہ مذہب واقعی ایسے دائرہ سے تعلق رکھتا ہے جہاں دلائل قائم نہ کئے جاسکتے ہوں۔ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ مخالفین مذہب یہ نہیں چاہتے کہ جس اصول استدلال کے تحت انہوں نے مذہب کا رد کرنا چاہا ہے اسی اصول استدلال کو اہل مذاہب اس کے اثبات کے لئے استعمال کریں، کیونکہ اگر ایسا ہوا تو انہیں مذہب کی معقولیت کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی عدالت میں سرکاری وکیل تو اپنا فرج انجام دے رہا ہو مگر ملزم کواپنا وکیل رکھنے کی اجازت نہ ہو ۔ سرکاری وکیل کا ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس اصول کو تسلیم کرتی ہے کہ مقدمہ کی وضاحت کے لئے وکیل ہونا چاہئے ۔ مگر اس اصول کو جب ملزم استعمال کرنا چاہے تو حکومت اس کی مخالف ہو جاتی ہے کیونکہ اس سے اندیشہ ہوتا ہےکہ اس فائدہ کہیں ملزم کو نہ پہنچ جائے۔
اگر اصول یہ ہے کہ حقیقت صرف مشاہدہ اور تجربہ سے حاصل شدہ چیز کا نام ہے تو مذہب کے مخالفین کا موقف اسی وقت صحیح ہو سکتا ہے جب کہ انہوں نے مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ براہ راست طور پر یہ معلوم کر لیا ہو کہ فی الواقع مذہب کوئی چیز نہیں ہے۔ مثلاً ان کا مشاہدہ اس حد تک مکمل ہو چکا ہو کہ وہ کہہ سکیں کہ عالم کے اندر اور عالم کے باہر جو کچھ ہے وہ سب ہم آخری حد تک دیکھ چکے ہیں اور اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں نہ خدا ہے، نہ فرشتے ، نہ جنت نہ دوزخ بالکل اسی طرح جیسے ۱۰ فٹ چوڑے اور ۱۰ فٹ لمبے ایک خالی کمرے کے اندر ایک بینا شخص ہو تو وہ اس میں نظر دوڑا کر یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے کہ اس کے اندر کوئی ہاتھی یا شیر موجود نہیں ہے۔
ظاہر ہے کہ مخالفین مذہب اس موقف میں نہیں ہیں۔ پھر استدلال کا وہ کون سا طریقہ ہے جس سے انہوں نے مذہب کے خلاف مواد حاصل کیا ہے۔ یہ مذہب کا براہ راست مشاہدہ نہیں بلکہ بعض مشاہدات کی توجیہہ ہے۔ (مثال عالم افلاک میں باہمی کشش کو دریافت کرنے کے بعد یہ کہنا کہ کوئی خدا نہیں ہے جو کائنا ت کو سنبھالے ہوئے ہو۔ کیونکہ قانون کشش اس کی توجہہ کے لئے موجود ہے) ظاہر ہے کہ یہاں جس مشاہدہ کی بنیاد پر دلیل قائم کی گئی ہے ، وہ خود خدا کا عدم وجود نہیں ہے یعنی کسی دور بین نے آخری طور پر ہمیں یہ خبر نہیں دی ہے کہ یہ کائنات خدا سے خالی ہے بلکہ اس خارجی مشاہدہ کی بنیاد پر یہ استنباط کیا گیا ہے کہ خدا کو نہیں ہو نا چاہئے گویا مشاہدہ یا تجربہ خود عدم وجود کا نہیں ہوا بلکہ ایک اور واقعہ کا ہوا ہے جس سے عدم وجود کو قیاس کر لیا گیا ہے۔
یہ اصول استدلال جس کو موجودہ زمانہ میں مذہب کے رو کے لئے صحیح سمجھا گیا ہے وہی مذہب کی صداقت کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔غلطی اصول استدلال میں نہیں بلکہ اصول استدلال کے انطباق میں ہے۔ اگر اس کو صحیح طور پر منطبق کیا جائے تو نتیجہ بالکل بر عکس بر آمد ہو گا۔
اوپر ہم نے چوتھے معیار استدلال کی منفی مثال دی تھی۔ مثبت مثال کے ذیل میں عضو یاتی ارتقاء کو پیش کیا جاسکتا ہے جس کو جدید دنیا میں اس طرح تسلیم کر لیا گیا ہے کہ آج علم کی تمام شاخوں میں اس کے اثرات پھیل چکے ہیں۔ نظریہ ارتقا کی صداقت کا ثبوت پہلے اور دوسرے و تیسرے معیار کے مطابق حاصل نہیں ہوتا ۔ اس کی صداقت کا واحد ثبوت صرف اس معیار استدلال میں ملتا ہے نمبر ۴ کے تحت بیان کیا گیا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ عضو یاتی ارتقا ء جدید دنیا کے لئے ایک سائنٹفک حقیقت ہے۔نظریہ ارتقا کے حق میں وہ کون سے دلائل فراہم ہوئے ہیں جن کی وجہ سے دور جدید کے اہل علم نے اس کی صداقت تسلیم کر لیا ہے۔ یہاں میں اس کے چند پہلوؤں کا ذکر کروں گا تاکہ اندازہ ہو سکے کہ ان دلائل کی نوعیت کیا ہے۔
۱۔ حیوانات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ان میں ادنیٰ اور اعلٰی اقسام پائی جاتی ہیں۔ واحد الخلیہ جانوروں سے لے کر اربوں خلیات رکھنے والے جانور اسی طرح صلاحتیوں کے اعتبار سے حیوانات میں ادنٰی اور اعلٰی درجات کا فرق ہے۔
۲۔ اس ابتدائی مشاہدہ کو جب اس کہانی کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے جو زمین کی تہوں میں نقش یے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس فرق میں باعتبار زمانہ ایک ارتقائی ترتیب ہے ۔ کرڑوں برس پہلے زمین پر زندگی کی جو شکلیں اباد تھیں اس کے پنجر قدرتی عمل کے تحت پتھرائی ہوئی حالت میں اب بھی زمین کے نیچے دبے ہوئے ہیں جن کو فاصل کہا جاتا ہے۔ یہ فاصل بتاتے ہیں کہ زمین پر زیادہ قدیم دور میں حیوانات کی جو قسمیں یہاں آباد تھیں وہ سادہ قسمیں تھیں اور اس کے بعد دھیرے د ھیرے زیادہ پیچیدہ اور ترقی یافتہ قسمیں آباد ہوتی ترہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی زندگی کی موجودہ قسمیں سب کی سب بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ سادہ قسمیں وجود میں آئیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے ترقی یافتہ قسمیں۔
۳۔ اس کے بعد ایک اور حقیقت ہمارے آتی ہے وہ یہ کہ مختلف حیوانات کے درمیان نوعی اختلاف کے باوجود ان کے جسمانی نظام میں بہت سی مشابہتیں پائ جاتی ہیں مثلا مچھلی چڑیے یہ ملتی جلتی ہے اور گھوڑا کا ڈھانچہ انسان کے مشابہ ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ سارے ذی حیات ایک ہی خاندان کی پیدوار ہیں اور سب کے اجداد بالاخر ایک ہی تھے۔
۴۔ ایک نوع سے دوسری نوع کیسے نکلی یہ اس وقت معلوم ہوجاتا ہے جب ہم ایک اور واقعہ کو دیکھتے ہیں۔ وہ یہ کہ ایک جانور کے بطن سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ سب کے سب یکساں نہیں ہوتے بلکہ ان کے مختلف بچوں میں کچھ فرق ہوتا ہے ۔ یہی فرق اگلی نسلوں میں مزید ترقی کرنا ہے اور انتخاب طبعی کے عمل کے تحت آگے بڑھتا رہتا ہے۔ یہ فرق لاکھوں سال کے بعد اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ایک چھوٹی گردن والی بکری لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کر لیتی ہے اس نظریہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ” انیمل بیالوجی“کے مصنفین (ہالڈین اور بکسلے) نے ارتقاء کو تبدیلیوں کے انتخاب کا نام دیا ہے۔
نظریہ ارتقا کے حامیوں کے دلائل جس معیار استدلال پر اترتے ہیں وہ کون سا معیار ہے وہ وہی معیار ہے جس کو ہم نے اوپر نمبر ۴ کے تحت بیان کیا ہے یعنی دعویٰ یا اس کے اثرات کا براہ راست تجربہ ہونا۔ البتہ ایسے مشاہدات کا حاصل ہونا جن سے ان کی صداقت کا منطقی قرینہ معلوم ہوتا ہے۔
نظریہ ارتقاء کے حامی ابھی تک ان میں سے کسی چیز کا بھی مشاہدہ یا تجربہ نہیں کر سکے ہیں جن کے اوپر ان کے نظریہ کی بنیاد قائم ہے ۔ مثلاً وہ کسی لیبارٹری میں یہ نہیں دکھا سکتے کہ بے جان مادہ سے زندگی کیسے پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سلسلہ میں ان کے دعوی کی بنیاد صرف یہ ہے کہ طبعیات ریکارڈ بتانا ہے کہ وہ پہلے بے جان مادہ تھا ۔ پھر کائنات میں زندگی رینگنے لگی ۔ اس سے وہ قیاس کر لیتے ہیں کہ زندگی بے جا ن مادہ سے اسی طرح نکل آئی ہے جیسا ماں کے پیٹ سے بچہ نکلتا ہے۔ اسی طرح ایک نوع کا دوسرے نوع میں تبددیل ہونا بذات خود کوئی تجربہ اور مشاہد کی چیز نہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی چڑیا خانہ میں ایسے تجربات کیے جاسکیں جہاں بکری زرافہ بنتی ہوئی نظر آئے۔ بلکہ بعج خارجی مشاہدات مثلا ً مختلف انواع میں مشابہت اور ایک نسل کے کئی بچوں میں باہم فرق سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ نو عیں الگ الگ موجود میں نہیں آئیں بلکہ ہر نوع دوسری نوع سے برآمد ہوتی چلی گئی ہے ۔ اسی طرح جبلت کا ذہانت کی شکل میں ترقی کرنے کا معاملہ ہے جسکا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان بھی حیوان ہی کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سلسلہ میں بھی ابھی تک کوئی ایسا مشاہدہ سامنے نہیں لایا جاسکا جہاں فی الواقع جبلت ذہانت میں تبدیل ہوتی نظر آرہی ہو ۔ یہ بھی محض ایک قیاس ہے جس کی بنیاد صرف ایک واقعہ پر ہے کہ ارضیاتی تحقیق میں جبلت والے جانوروں کے آثار نچلے طبقات میں ملتے ہیں اور ذہانت والے جانوروں کے آثار اوپر کے طبقات میں۔
اس قسم کے تمام دلائل کی نوعیت یہ ہے کہ دعویٰ اور دلیل کے درمیان جو ربط ہے وہ صرف قیاسی ربط ہے نہ کہ تجرباتی یا مشاہداتی ربط۔ مگر اس قسم کے دلائل کی بنیاد پر ارتقا کی بنیاد پر ارتقا کے تصور کو موجود وہ زمانہ میں ایک سائنٹفک حقیقت قرار دے دیا گیا ہے۔ گویا جدید ذہن کے نزدیک علمی حقائق کا دائرہ صرف انہیں واقعات تک محددو نہیں ہے جو براہ راست تجربے سے معلوم ہوں۔ بلکہ تجربات اور مشاہدات کی بنیاد پر جو منطقی قرینہ حاصل ہوتا ہے وہ بھی اتنا ہی سائنٹفک حقیقت ہو سکتا ہے جتنا وہ حقیقت جس کا یا جس کے اثرات کا براہ راست تجربہ کیا جاسکتا ہو۔
یہاں مجھے نظریہ ارتقا کی صداقت یا عدم صداقت سے بحث نہیں ہے کیونکہ یہاں جو سوال ہے وہ اصلاً معیار استدلال سے متعلق ہے اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ خواہ کوئی بھی معیار استدلال ہو اس سے ثابت کی ہوئی چیز صحیح بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی ۔
سر آرتھ کیتھ کے الفاظ میں ارتقا مذہب عقلیت کا ایک بنیادی عقیدہ ہے ایک سائنسی انسائکلو پیڈیا یں ڈار و نزم کو ایک ایسا نظریہ کہا گیا ہے جس کی بنیاد تو جیہہ بلا مشاہدہ پر قائم ہے۔
پھر ایک ایسی چیز جس کا لیبارٹری میں تجربہ نہ کیا جاسکتا ہو جو صرف عقیدہ ہو اس کو کس بنا پر علمی حقیقت سمجھا جانا ہے۔
یہ استدلال جو نظریہ ارتقا کو حقیقت قرار دینے کے لئے معیار استدلال کے اعتبار سے کافی سمجھا جاتا ہے۔ یہی استدلال بدر جہا زیادہ شدت کے ساتھ مذہب کے حق میں موجود ہے۔ اے ای مینڈر کے الفاظ جو اس نے نظریہ ارتقاء کے حق میں کہے مذہب کے لیے ذیادہ مضبوطی کےساتھ پیش کیے جاسکتے ہیں کہ:
۱۔ یہ نظریہ تمام معلوم حقیقتوں سے ہم آہنگ ہے۔
۲۔ اس نظریہ میں ان بہت سے واقعات کی تو جیہہ مل جاتی ہے جو اس کے بغیر سمجھی نہیں جاسکتی۔
۳۔ دوسرا کوئی نظریہ ابھی تک ایسا سامنے نہیں آیا جو واقعات سے اس درجہ مطابقت رکھتا ہو۔
ایسی حالت میں جدید ذہن کے پاس کوئی وجہ جواز نہیں ہے کہ وہ کیوں ارتقا کو سائنسی حقیقت قرار دیتا ہے اور مذہب کو سائنسی ذہن کیلئے ناقابل قبول ٹھہراتا ہے۔
نفسیاتی استدلال:
فرائڈ لکھتا ہے کہ بچپن میں انسان کے لاشعور میں کچھ ایسی چیزیں بیٹھ جاتی ہیں ‘ جو بعد میں غیر عقلی رویے کا باعث بنتی ہیں ، یہی صورت مذہبی عقائد کی ہے ، مثلا دوسری دنیا اور جنت دوزخ کا تصور دراصل ان آرزووں کی صدائے بازگشت ہے جو بچپن میں آدمی کے ذہن میں پیدا ہوئیں مگر حالات سازگار نہ ہونے کی وجہ سے پوری نہیں ہوئیں اور دب کر لاشعور میں باقی رہ گئیں ۔ بعد کو لاشعور نے اپنی تسکین کے لیے ایک ایسی دنیا فرض کر لی جہاں وہ اپنی آرزووں کی تکمیل کرسکے گا، بالکل اسی طرح بچپن کی بہت سی باتیں جو لاشعور میں تہ نشین ہوکر بظاہر حافظہ سے نکل گئیں تھیں ‘ وہ غیر معمولی حالات مثلا جنون یا ہسٹریا میں یکایک زبان پر جاری ہوگئیں تو سمجھ لیا کہ یہ کوئی ماورائی طاقت ہے جو انسان کی زبان سے کلام کررہی ہے۔
فرائڈ کا یہ کہنا خدا اور دوسری دنیا کا تصور کوئی حقیقی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ انسانی شخصیت اور انسانی آرزؤں کو کائناتی سطح پر قیاس کرنا ہے’ہمارے لیے ناقابل تصور ہے کہ اس میں استدلال کا پہلو کیا ہے ؟کس بنیاد پر یہ فرض کیا گیا ہے ؟اس کے جواب میں اگر ہم کہیں کہ فی الواقع انسانی شخصیت اور انسانی آرزوئیں کائناتی سطح پر موجود ہیں تو مجھے نہیں معلوم کہ مخالفین کے پاس وہ کون سی حقیقی معلومات ہیں جن کی بنیاد پر وہ اس کی تردید کر سکیں گے۔
جب ایک ناقابل مشاہدہ ایٹم میں وہ نظام پایا جاتا ہے جو شمسی نظام کی سطح پر اربوں میل کے دائرے میں گردش کر رہا ہے پھر وہ شعور جس کا ہم انسان کی صورت میں تجربہ کر رہے ہیں وہ اگر کائناتی سطح پر زیادہ مکمل حالت میں موجود ہو تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اسی طرح ہمارا ضمیر اور ہماری فطرت جس ارتقایا فتہ دنیا کو چاہتے ہیں وہ اگر ایک ایسی دنیا کی باز گشت ہو جوفی الواقع کائنات کے پردہ میں موجود ہے تو اس میں آخر استحالہ کا کیا پہلو ہے۔؟
الف۔ علمائے نفسیات کا یہ کہنا بجا ہے خود صحیح ہے کہ بچپن میں بعض اوقات ایسی باتیں ذہن میں پڑجاتی ہیں جو بعد کو غیر معمولی شکل میں ظاہر ہو تی ہیں مگر اس سے یہ استدلال کرنا کہ انسان کی یہی وہ خصوصیت ہے جس نے مذہب کو پیدا کیا بالکل بے بنیاد قیاس ہے ۔یہ ایک معمولی سا واقعہ سے غیر معمولی نتیجہ اخذ کرنا ہے یہ ایسی ہی بات ہے جیسے میں کسی کمہار کو مٹی کی مورت بنا تے ہوئے دیکھوں تو پکارا ٹھوں کہ بس یہی وہ شخص ہے جو ذی روح انسان کا خالق ہے ۔
جدید طرزِ فکر کی یہ عام کمزوری ہے کہ وہ معمولی واقعہ سے غیر معمولی استدلال کرتا ہے حالانکہ منطقی اعتبار سے اس استدلال میں کوئی وزن نہیں اگر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص لا شعور میں دبے ہو ئے خیالات کے تحت کبھی غیر معمولی باتیں بڑ بڑانے لگتا ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ انبیاء کی زبان سے کائنات کے جس علم کا انکشاف ہوا ہے وہ بھی اسی قسم کی ایک بڑ بڑاہٹ ہے پہلے واقعہ کو تسلیم کرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سے دوسرے واقعہ کے بارے میں استدلال کرنا ایک غیر علمی اور غیر منطقی روز کا مظاہرہ کرنا ہے ۔یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ توجیہہ کرنے والے کے پاس نبی کے غیرمعمولی کلام کو سمجھنے کے لئے کوئی معیار موجود نہیں تھا اس کو ایک ہی بات معلوم تھی یہ کہ بعض مرتبہ کوئی شخص خواب یا جنون بے ہوشی کی حالت میں کچھ ایسی باتیں زبان سے نکالنے لگتا ہے جو عام طور پر ہوش کی حالت میں کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوتیں اس نے فوراً کہہ دیا کہ بس یہی وہ چیز ہے جو مذہبی قسم کی باتوں کی ذمہ دار ہے۔۔!
حالانکہ کسی کے پاس حقیقت کو نا پنے کا ایک ہی معیار ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ بطور واقعہ بھی حقیقت کو نا پنے کا ایک ہی معیار ہو گا۔
فرض کیجئے دور کے کسی سیارہ سے ایک ایسی مخلوق زمین پر اترتی ہے جو سنتی تو ہے مگر بولنا نہیں جانتی وہ صرف سماعت کی صفت سے آشنا ہے تکلم کی صفت کی اسے کوئی خبر نہیں ہے وہ انسان کی گفتگو اور تقریریں سن کر یہ تحقیق شروع کرتی ہے کہ ”آواز“ کیا ہے اور کہاں سے آتی ہے اس تحقیق کے دوران اس کے سامنے یہ منظر آتا ہے کہ درخت کی دو شاخیں جو باہم ملی ہوئیں تھیں اتفاقا ہوا چلی اور رگڑ سے ان میں آواز نکلنے لگی پھر جب ہوا رکی تو آواز بند ہو گئی یہ واقعہ بار بار اس کے سامنے آتا ہے اب ان میں کا ایک ماہر بغور اس کا مطالعہ کرنے کے بعد اعلان کرتا ہے کہ کلام انسانی کا راز معلوم ہو گیا اصل بات یہ ہے کہ انسان کے منہ میں نیچے اور اوپر کے جبڑوں میں دانت کی موجود گی اس کا سبب ہے جب یہ نیچے اوپر کے دانت باہم رگڑ کھارت ہیں تو ان سے آواز نکلتی ہے اور اسی کو کلام کہا جاتا ہے۔ دو چیزوں کی رگڑ سے ایک قسم کی آواز پیدا ہونا بجارہے خود ایک واقعہ ہے مگر اس واقہ سے کلام انسانی کی تشریح کرنا جس طرح صحیح نہیں ہے اسی طرح غیر معلولی حالات میں لا شعور سے نکلی ہوئی باتوں سے کلام نبوت کی تشریح نہیں کی جاسکتی ۔
ب۔اس استدلال کا دوسرا حصہ پہلو یہ ہے کہ لاشعور میں خیالات دبا دیئے جاتے ہیں وہ اکثر اوقات ایسی ناپسندیدہ خواہشیں ہوتیں ہیں جو خاندان اور سماج کے خوف سے پوری نہیں ہوسکیں مثلاً کسی کے اندر اپنی بہن یا لڑکی کے ساتھ جنسی جذبہ پیدا ہو تو وہ اس خیال سے اسے دبا دیتا ہے کہ اس کا ظاہر کرنا رسوائی کا باعث ہو گا اگر ایسا نہ ہو تا تو وہ شاید اس کے ساتھ شادی کرنا پسند کرتا کسی کو قتل کرنے کا خیال ہو تو آدمی اس کو اس ڈر سے اپنے ذہن میں دفن کر دیتا ہے کہ اس کو جیل جانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ ۔
گویا لا شعور میں دبی ہوئی خواہشیں اکثر اوقات وہ برائیاں ہوتی ہیں جو ماحول کے خؤف سے بروئے کار نہ آسکیں اب اگر ایسے کسی شخص میں ذہنی اختلال ”مینٹل ڈسارڈر“ پیدا ہو اور اس کا لا شعور ظاہر ہونا شروع کرے تو اس سے کیا ظاہر ہو تا ہے ؟ظاہر ہے کہ وہی برے جذبات اور غلط خواہشیں اس کی زبان سے نکلیں گی جو اس کے لا شعور میں بھری ہوئی تھیں وہ شرکا پیغمبر ہو گا خیر کا پیغمبر نہیں ہو سکتا۔ اس کے برعکس انبیاء کی زبان سے جس مذہب کا ظہور ہوا ہے وہ سرتا پا خیر اور پاکیزگی ہے ان کا کلام اور ان کی زندگی خیر اور پاگیزگی کا اتنا اعلٰی نمونہ ہے کہ انبیاء کے سوا کہیں اس کی مثال نہیں ملتی یہی نہیں بلکہ ان کے خیالات میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ وہی سماج جس کے خوف سے انہوں نے کبھی اپنے خیالات اپنے ذہن میں چھپا لئے تھے وہ اس پر دل و جان سے فریفتہ وہ جاتا ہے اور صدیوں پر صدیاں گزر جاتی ہیں پھر بھی انہیں نہیں چھوڑتا۔
ج۔ نفسیاتی نقطہ نظر سے انسان کا لاشعور اصلاً خلا ہے اس میں پہلے سے کوئی چیز موجود نہیں ہوتی بلکہ شعور کی راہ سے گز ر پر پہنچتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ لا شعور صرف انہیں واردات اور معلومات کا گودام ہے جو کبھی انسان کے علم میں آیا ہو وہ نا معلوم حقائق کا خزانہ نہیں بن سکتا لیکن یہ حیرت انگیز بات ہے کہ انبیاء کی زبان سے جس مذہب کا اعلان ہوا ہے وہ ایسی حقیقتوں پر مشتمل ہے جوو قتی نہیں دائمی ہیں وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو نہ تو انہیں پہلے سے معلوم تھیں نہ ان کے وقت تک پوری نسل انسانی کو معلوم ہو سکی تھیں ،اگر ان حقائق کا سرچشمہ لا شعور ہوتا تو وہ ہرگز ایسے نامعلوم حقائق کا اظہا رنہیں کر سکتا تھا۔
انبیا ء کی زبان سے جس مذہب کا اظہار ہو ا ہے اس میں فلکیات طبعیات حیاتیات نفسیات تاریخ تمدن سیاست معاشرت معاشرت غرض سارے ہی علوم کسی نہ کسی اعتبار سے مس ہوتے ہیں ایسا ہمہ گیر کلام لاشعور تو درکنار شعور کے تحت بھی اب تک کسی انسان سے ظاہر نہیں ہوا جس میں غلط فیصلے خام انداز ے غیر واقعی بیانات اور ناقص دلائل موجود نہ ہوں مگر مذہبی کلام (قرآن)حیرت انگیز طور پر اس قسم کے تمام اغلاط سے بالکل پاک ہے۔ وہ اپنی دعوت اپنے استدلال اور اپنے فیصلوں میں تمام انسانی علوم کو چھوتا ہے مگر سیکڑوں ہزاروں برس گزر جاتے ہیں اگلی نسلوں کی تحقیق پچھلی نسلوں کے خیالات کو بالکل بے بنیاد ثابت کر دیتی ہے مگر مذہب کی صداقت پھر بھی باقی رہتی ہے آج تک حقیقی معنوں میں اس کے اندر کسی غلطی کی نشاندہی نہ ہو سکی اگر کسی نے ایسی جرأت کی ہے تو وہ خود ہی غلط کار ثابت ہوا ہے۔
تاریخی نظریہ:
مذہب کو اقرار خدا سے انکا ر خدا تک پہنچانے میں نام نہاد ارتقائی مطالعہ کا بھی دخل ہے یہ حضرات یہ کرتے ہیں کہ پہلے ان تمام چیزوں کو جمع کر لیتے ہیں جو کبھی مذہب کے نام سے منسوب رہی ہیں پھر اس کے بعد اپنی مرضی کے مطابق ان کے درمیان ایک ارتقائی ترتیب قائم کر لیتے ہیں جس میں ایسے تمام پہلوؤں کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سےان کی مزعومہ ارتقائی ترتیب مشتبہ ہو سکتی ہو مثلاً کہتے ہیں
“انسانیات اور سماجیات کے ماہرین نے زبردست مطالعہ اور تحقیق کے بعد یہ دریافت کیا ہے کہ خدا کا تصور کئی خداؤں سے شروع ہوا اور بتدریج ترقی کرتے کرتے ایک خدا تک پہنچا ۔لیکن یہ ترقی ان کے نزدیک الٹی ہوئی ہے کیونکہ خدا کے تصور نے ایک خدا کی شکل اختیار کر کے اپنے اپ کو تضاد میں مبتلا کر لیا ہے ۔کئی خدا کا تصور کم از کم اپنے اندر یہ قدررکھتا تھا کہ مختلف خداؤں کو ماننے والے ایک دوسری کو تسلیم کرتے ہوئے باہم مل جل کر رہیں مگر ایک خدا کے عقیدے نے قدرتی طور پر تمام دوسرے خداؤں اور ان کو ماننے والوں کو باطل ٹھہرا یا اور برتر مذہب کا تصور پیدا کیا جس کی وجہ سے قوموں اور گروہوں میں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں شروع ہو گئیں، اس طرح خدا کے تصور نے غلط سمت میں ارتقا کرکے خود ہی اپنے لئے موت کا سامان مہیا کر دیا ہے کیوں کہ ارتقا کا کا قانون یہی ہے”۔
Man in the Modern World p.112
اس ارتقائی ترتیب میں صریح طور پر اصل واقعہ کو نظر انداز کر دیا گیا ہے کیوں کہ معلوم تاریخ کے مطابق سب سے پہلے پیغمبر حضرت نوحؑ تھے اور ان کی دعوت کے متعلق ثابت ہے کہ وہ ایک خدا کی دعوت تھی اس کے علاوہ تعدد الہ(Polytheism) کا مطلب بھی مطلق تعدد نہیں ہے کبھی کوئی قوم ان معنوں میں مشرک نہیں رہی ہے کہ وہ بالکل یکساں نوعیت کے کئی خدا مانتی ہو ۔اس کے برعکس تعدد آلہ کا مطلب ایک بڑے خدا کو مان کر کچھ اس کے مقربین خاص کا اقرار کرنا ہے جو ذیلی خداؤں کے طور پر کام کرتے ہیں ۔شرک کے ساتھ ہمیشہ ایک خدا یا متعد خدا نگان کا تصور پایا جاتا رہا ہے ۔ایسی حالت میں اوپر پیش کیا گیا ارتقائی مذہب کا استدلال ایک بے دلیل دعوی کے سوا اور کیا ہے۔
اشتراکی مارکسی نظریہ تاریخ اور زیادہ لغو ہے یہ نظریہ اس مضرو ضہ پر مبنی ہے کہ اقتصادی حالات ہی وہ اصل عامل ہیں جو انسان کی تعمیر و تشکیل کرتے ہیں، مذہب جس زمانے میں پیدا ہوا وہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کا زمانہ تھا اب چونکہ جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام استحصال اور لوٹ کھسوٹ کا نظام ہے اس لئے اس کے درمیان پیدا ہونے والے اختلاقی و مذہبی تصورات بھی یقینی طور پر اپنے ماحول ہی کا عکس ہوں گے وہ لوٹ کھسوٹ کے نظریات ہوں گے مگر یہ نظر یہ علمی حیثیت سے کوئی وزن رکھتا ہے اور نہ تجربہ سے اس کی تصدیق وتی ہے۔
یہ نظریہ انسانی ارادہ کی بالکلیہ نفی کر دیتا ہے اور اس کو صرف معاشی حالات کی پیدا وار قرار دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں جس طرح صابن کے کارخانے میں صابن ڈھلتے ہیں اسی طرح آدمی بھی اپنے ماحول کے کارخانے میں ڈھلتا ہے وہ الگ سے سوچ کر کوئی کام نہیں کرنا بلکہ جو کچھ کرتا ہے اسی طرح مطابق سوچنے لگتا ہے اگر یہ واقعہ ہے تو مارکس جو خود بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر پیدا ہوا تھا اس کے لئے کس طرح ممکن ہوا کہ وہ اپنے وقت کے معاشی حالات کے خلاف سوچ سکے؟ کیا اس نے زمین کا مطالعہ چاند پر جاکر کیا تھا اگر مذہب کو پیدا کرنے والی چیز وقت کا اقتصادی نظام ہے تو آخر مار کسزم بھی وقت کے اقتصادی نظام کی پیداوار کیوں نہیں ہے؟ مذہب کی جو حیثیت مارکسزم کو تسلیم نہیں ہے وہی حیثیت اس کے اپنے لئے کس طرح جائز ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ اشتعال انگریز حد تک لغو ہے اس کے پیچھے کوئی بھی علمی اور عقلی دلیل موجود نہیں۔
تجربے سے بھی اس نظریئے کی غلطی واضح ہو چکی ہے۔ روس کی مثال اس کو سمجھنے کے لئے کافی ہے جہاں تقریباً آد ھی صدی سے اس نظریہ کو مکمل غلبہ حاصل رہا ۔ طویل ترین مدت سے زبردست پروپیگنڈا ہو ا کہ روس کے مادی حالات بدل گئے ہیں۔ وہاں کا نظام پیدا وار نظام بتا دلہ اور نظام تقسیم دولت سب غیر سرمایہ دار انہ ہو چکا ہے ۔مگر اسٹالن کے مرنے کے بعد خود روسی لیڈروں کی طرف سے تسلیم کیا گیا ہے کہ اسٹالن کے زمانہ حکومت میں روس کے اندر ظلم وجبر کا نظام رائج تھا اور عوام کا اسی طرح استحصال کیا جارہا تھا جیسے سرمایہ دارانہ ملکوں میں ہوتا ہے۔ اور اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ روس میں پریس پر حکومت کا مکمل کنٹرول ہونے کی وجہ سے اسٹالن کے لئے یہ ممکن ہو سکا کہ وہ اپنے ظلم اور استصال کو دنیا کے سامنے عدل و انصاف کے نام سے مشہور کرے ۔ پریس کا یہی کنٹرول اب بھی وہاں جارہی ہے تو یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ آج بھی خوبصورت پرپیگنڈے کے پس منظر میں روس کے اندر وہی سب کچھ ہو رہا ہے جو اسٹالن کے زمانے میں ہوتا تھا روسی کمیونسٹ پارٹی کی بیسویں کانگرس (فروی ۱۹۵۶) نے اسٹالن کے مظالم کا انکشاف کیا تھا اس کے بعد اگر پارٹی کی کوئی اور کانگرس خروشچیف کی درندگی کا راز فاش کرے تو اس میں ہر گز اچنجھے کی کوئی بات نہ ہو گئی۔(اکتوبر ۱۶۶۴ء میں خروشچیف کی برطرفی اور اس کے بعد کے واقعات سے اس کی تصدیق ہو چکی) آدھی صدی کے اس تجرے سے جو نتیجہ نکلا ہے اس کا مطلب صاف طور پر یہ ہے کہ پیدا وار ا اور تبادلہ کی نام نہاد تبدیلی سے انسان نہیں بدل جاتے اگر انسانی ذہن نظام پیدا وار کا تابع ہوتا اور اسی کے مطابق خیالات پیدا ہو ا کرتے تو اشتر کی حکومت میں ظلم اور استحصال کی ذہینت بھی یقینی طور پر پیدا نہیں ہونی چاہئے تھی۔
جولین ہکسلے لکھتا ہے ” خدا کا تصور اپنی افادیت کے آخری مقام پر پہنچ چکا ہے ‘ اب مزید ترقی نہیں کرسکتا۔ مافوق الفطری طاقتیں دراصل مذہب کا بوجھ اٹھانے کے لئے انسانی ذہن نے اختراع کی تھیں’ پہلے جادو پیدا ہوا، پھر روحانی تصرفات نے اسکی جگہ لی ، پھر دیوتاؤں کا عقیدہ ابھرا اور اسکے بعد ایک خدا کا تصور آیا ، اس طرح ارتقائی مراحل سے گزر کر مذہب اپنی آخری حد کو پہنچ کر ختم ہوچکا ہے۔ (Man in the Modern world, page 130)
اسی طرح اشتراکی فلسفہ کے نزدیک مذہب ایک تاریخی فریب ہے ۔ اشتراکیت چونکہ تاریخ کا مطالعہ ا قتصادی پوائنٹ آف ویو سے کرتی ہے اس لیے اس کے نزدیک مذہب کو جن تاریخی حالات نے پید ا کیا وہ دور قدیم کا جاگیرادارنہ اور سرمایہ دارانہ نظام ہے، اب چونکہ یہ فرسودہ نظام اپنی موت آپ مررہا ہے اس لیے مذہب کو بھی اس کے ساتھ ختم ہونا ہے۔
تاریخ یا سماجی مطالعہ کے حوالے سے استدلال کرنے والوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ صحیح رخ سے مذہب کا مطالعہ نہیں کرتے اس لئے پورا مذہب ان کو اصل حقیقت کے خلاف ایک اور ہی شکل میں نظر آنے لگتا ہے ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چو کور چیز کوئی شخص ترچھا کھڑا ہو کر دیکھے ظاہر ہے ایسے شخص کو وہی چیز جو حقیقۃً چوکور ہے تکونی نظر آسکتی ہے۔
ان حضرات کی غلطی یہ ہے کہ وہ مذہب کا مطالعہ ایک معروضی مسئلہ کے طور پر کرتے ہیں۔ یعنی ظاہری طور پر مذہب کے نام سے جو کچھ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے ان سب کو مذہب کے اجزا سمجھ کر یکساں حیثیت سے جمع کر لینا اور پھر ان کی روشنی میں مذہب کے بارے میں ایک رائے قائم کرنا ۔اس کی وجہ سے پہلے ہی قدم پر ان کی پوزیشن غلط ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذہب ان کی نظروں میں محض ایک سماجی عمل بن جاتا ہے نہ کہ کوئی انکشاف حقیقت۔
ایک چیز جو انکشاف حقیقت کی نوعیت رکھتی ہو وہ بذاب خود ایک آئیڈیل ہوتی ہے اور اس کے اپنے آئیڈیل کی روشنی میں اس کے مظاہر اور اس کی تاریخ کا مطالعہ کیا جاتا ہے اس کے برعکس جو چیز سماجی عمل کی حیثیت رکھتی ہو اس کا اپنا کوئی آئیڈیل نہیں ہوتا بلکہ سماج کا عمل ہی ا سکی حقیقت کا تعین کرتا ہے۔ کوئی چیز جو سماجی آداب یا سماجی روایات کی حیثیت رکھتی ہو اس کی یہ حیثیت صرف اس وقت تک قائم رہتی ہے جب تک سماج نے بالفعل اس کو یہ حیثیت دے رکھی ہو۔ اگر سماج اس کو چھوڑ کر اس کی جگہ کوئی اور طریقہ اختیار کر لے تو پھر وہ ایک تاریخی چیز ہو جاتی ہے اور سماجی
روایت کی حیثیت سے اس کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
مگر مذہب کا معاملہ اس سے مختلف ہے مذہب کا مطالعہ ہم اس طرح نہیں کرسکتے جس طرح ہم سواری ،لباس اور مکان کا مطالعہ کرتے ہیں کیوں کہ مذہب اپنی ذات میں ایک حقیقت ہے جس کو سماج اپنے ارادہ سے قبول کرتا ہے یا اسے قبول نہیں کرتا یا قبول کرتا ہے تو ناقص شکل میں۔ اس کی وجہ سے مذہب اپنی اصولی حیثیت میں تو ہمیشہ یکساں رہتا ہے مگر سماج کے اندر رواج یا فتہ ا ہلیت کے اعتبار سے اس کی شکلیں مختلف ہو جاتی ہیں اس لئے سماج کے اندر رواج یافتہ مذاہب کی یکساں فہرست بندی کرکے ہم مذہب کو سمجھ نہیں سکتے۔
مثال کے طورپر جمہوریت کو لیجئے جمہوریت ایک مخصوصی سیاسی معیار کا نام ہے اور کسی حکومت کو اس معیار کی روشنی ہی میں جمہوری یا غیر جمہوری کہا جاسکتا ہے یعنی جمہوریت کے اپنے معیار کی رو سے تمام ملکوں کو دیکھا جائے گا اور صرف اسی رویہ کو جمہوری قرار دیا جائے گا جو حقیقۃً جمہوری ہو اس کے برعکس اگر جمہوریت کا مطالعہ اس طرح کیا جائے کہ ہر وہ ملک جس نے اپنے نام کے ساتھ جمہوری ک لفظ لگا رکھا ہے اس کو حقیقۃً جمہوری فرض کرکے جمہوریت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو پھر جمہوریت ایک بے معنی لفظ بن جائے گا کیونکہ ایسی حالت میں امریکہ کی جمہوریت چین کی جمہوریت سے مختلف ہو گی ،انگلینڈ کی جمہوریت مصر کی جمہوریت سے ٹکرائے گی، ہندوستان کی جمہوریت کا پاکستان کی جمہوریت سے کوئی جوڑ نہیں ہو گا ۔اس کے بعد جب ان سارے مشاہدات کوارتقائی ڈھانچہ میں رکھ کر دیکھا جائے گا تو وہ اور زیادہ بے معنی ہو جائے گا کیوں کہ فرانس جو جمہوریت کا مقام پیدائش ہے اس کا مطالعہ بتائے گا کہ جمہوریت اپنے بعد کے ارتقائی مرحلہ کے مطابق نام ہے جنرل ڈیگال(۱۸۹۰۔۱۹۷۰) کی فوجی آمریت کا۔
مذہب متعلق جدید استدلال کی غلطی:
یہ ہے مخالفین مذہب کا وہ جدید مقدمہ جسکی بنیاد پر دور جدید کے بہت سے لوگ عضویات کے ایک امریکی پروفیسر کے الفاظ میں کہتے ہیں :
“سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ مذہب تاریخ کا سب سے ذیادہ دردناک اور سب سے بدترین ڈھونگ تھا “۔
(C.A. Coulson, Science and Christian Belief, Page 4))
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے خلاف دور جدید کا یہ پورا استدلال ایک قسم کا علمی سقط ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں ۔اس نام نہاد علمی استدلال کی حقیقت صرف یہ ہے کہ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا ۔یہ صحیح ہے کہ واقعات کے مطالعہ کے لئے علمی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے مگر علمی طریقہ محض ایک طریقہ ہو نے کی وجہ سے صحیح نتائج تک نہیں پہنچا سکتا اسی کے ساتھ دوسری ضروری پہلووں کو ملخوظ رکھنا ناگزیر ہے مثلاً ادھوری اور یک رخی معلومات پر اگر علمی طریقہ کو آزمایا جائے تو وہ بظاہر علمی ہونے کے باوجود ناقص اور غلط نتیجہ تک ہی پہنچا ئےگا۔
ایک زندہ مثال حاضر ہے۔ جنوری ۱۹۶۴ء کےے پہلے ہفتہ میں نئی دہلی میں مستشرقین کی ایک بین الاقوامی کانگرس ہوئی جس میں بارہ سو علمائے مستشرقیات شریک شریک ہوئے اس موقع پر ایک صاحب نے ایک مقالہ پڑھا جس میں کئی مسلم یادگاروں کے بارے میں دعوی کیا گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کی بنوائی ہوئی نہیں ہے بلکہ ہندو راجاؤں کی بنوائی ہوئی ہیں مثلاً قطب مینار جو قطب الدین ایبک کی طرف منسوب ہے وہ دراصل و شنور دھوج ہے جس کو اب سے ۲۲ سو سال سمندر گپت نے بنوایا تھا بعد کے مسلم مورخین نے اس کو غلط طور پر قطب مینار کے نام سے پیش کیا اس کی دلیل یہ ہے کہ قطب مینار میں ایسے پتھر لگے ہوئے ہیں جو بہت پرانے ہیں اور قطب الدین ایبک سے بہت پہلے تراشے گئے تھے۔
بظاہر ایک علمی استدلال ہے کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ قطب مینار میں ایسے کچھ پتھر موجود ہیں مگر قطب مینار کے مطالعہ کے لئے صرف اس پرانے پتھروں کا حوالہ دینے سے علمی استدلال کا حق ادا نہیں ہوتا ۔اسی کے ساتھ اور بہت سے پہلوؤں کو سامنے رکھنا ضروری ہے اور جب ہم ایسا کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ توجیہ قطب مینار پر پوری طرح چسپاں نہیں ہوتی ۔اس کے بجائے یہ دوسری توجیہ ذیادہ قرین قیاس ہے کہ اس کے پرانے پتھر دراصل پرانی عمارتوں کے کھنڈر سے حاصل کئے گئے جس طرح دوسری قدیم سنگی عمارتوں میں کثرت سے اس کی مثالیں مو جود ہیں پھر جب اس دوسری توجیہ کو قطب مینار کی ساخت اس کے نقشہ تعمیر پر انے پتھروں کا انداز نصب مینار کے ساتھ نا تمام مسجد اور جوابی مینار کے بقیہ آثار نیز تاریخی شہادتوں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو ثابت ہو جاتا ہے کہ یہی دوسری توجیہہ صحیح ہے اور پہلی توجیہہ ایک مغالطہ کے سوا اور کچھ نہیں۔
مخالفین مذہب کا مقدمہ بھی بالکل ایسا ہی ہے جس طرح مذکورہ بالا مثال میں چند پتھروں کو ایک خاص رنگ دے کر سمجھ لیا گیا ہے کہ علمی استدلال حاصل ہو گیا ، اسی طرح چند جزوئی اور اکثر اوقات غیر متعلق واقعات کو ناقص رخ سے پیش کرکے یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ علمی طریق مطالعہ نے مذہب کی تردید کر دی حالانکہ واقعہ کے تمام اجزاء کو صحیح رخ سے دیکھا جائے تو بالکل دوسرا نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مذہب کی صداقت کا یہ بذات خود ایک کافی ثبوت ہے کہ اس چھوڑنے کے بعد بہترین ذہن بھی الپ شلپ باتیں کرنے لگتے ہیں اس کے بعد آدمی کے پاس مسائل پر غور و فکر کے لئے کوئی بنیاد باقی نہیں رہتی ۔مخالفین مذہب کی فہرست میں جو نام ہیں وہ اکثر نہایت ذہین اور ذی علم افراد ہیں ۔بہترین دماغ وقت کے بہترین علوم سے آراستہ ہو کر اس میدان میں اترے ہیں مگر ان اہل دماغ نے ایسی ایسی مہمل باتیں لکھی ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ ان کو لکھتے وقت آخر ان کا دماغ کہاں چلا گیا تھا یہ سارا لٹریچر بے یقینی ،تضاد ،اعتراف ناواقفیت اور عجیب و غریب استدلال سے بھرا ہوا ہے، کھلی ہوئی حقیقتوں کو نظر انداز کرنا اور معمولی تنکے کے سہارے دعووں کے پل کھڑے کرنا یہ ان کا کل کارنامہ ہے ۔
مذہب کی صداقت اور مخالفین مذہب کے نظریے کی غلطی اس سے بھی واضح ہے کہ مذہب کو مان کر زندگی اور کائنات کا جو نقشہ بنتا ہے اور ایک نہایت حسین و جمیل نقشہ ہے وہ انسان کے اعلٰی افکار سے اسی طرح مطابق ہے جیسے مادی کائنات ریا ضیاتی معیاروں کے عین مطابق ہے اس کے برعکس مخالف مذہب فلسفہ کے تحت جو نقشہ بنتا ہے وہ انسانی ذہن سے بالکل غیر متعلق ہے ۔یہاں میں بر ٹرینڈر سل کا ایک اقتباس نقل کروں گا
”انسان ایسے اسباب کی پیداوار ہے جن کا پہلے سے سوچا سمجھا کوئی مقصد نہیں اس کا آغاز اس کی نشوو نما اس کی تمنائیں اور اس کے اندیشے اس کی محبت اور اس کے عقائد سب محض ایٹموں کی اتفاقی ترتیب کا نتیجہ ہیں اس کی زنفی کی انتہا قبر ہے اور اس کے بعد کوئی چیز بھی اسے زندگی عطا نہیں کر سکتی قرن ہا قرن کی جدوجہد تمام قربانیاں بہترین احساسات اور عبقریت کے روش کارنامے سب نظام شمسی کے خاتمہ کے ساتھ فنا ہو جانے والی چیزیں ہیں، انسانی کامراینوں کا پورا محل ناگزیر طور پر کائنات کے ملبے کے نیچے دب کر دہ جائے گا ۔یہ باتیں اگر بالکل قطعی نہیں تو وہ حقیقت سے اتنی قریب ہیں کہ جو فلسفہ بھی اس کا انکار کرے گا وہ باقی نہیں رہ سکتا“۔
Limitations of Science p.133
یہ اقتباس گویا غیر مذہبی مادی فکر کا خلاصہ ہے اس کے مطابق ساری زندگی نہ صرف یہ کہ بالکل تیرہ تار نظر اتی ہے بلکہ اگر زندگی کی مادی تعبیر کو لیا جائے تو پھر خیر و شرکا کوئی قطعی معیار باقی نہیں رہتا ، اس کی رو سے انسانوں پر بم گرانا کوئی ظالمانہ فعل نہیں کیونکہ انسانوں کو بہرحال ایک دن مرنا ہے اس کے برعکس مذہبی فکر میں امید کی روشنی ہے اس میں زندی اور موت دونوں بامعنی نظر آنے لگتے ہیں اس میں ہمارے نفسیات کے تمام تقاضے اپنی جگہ پالیتے ہیں ایک تصور کا انسانی ذہن میں پوری طرح بیٹھ جانا یقینی طور پر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہی وہ حقیقت ہے جس کو انسان کی فطرت تلاش کر رہی تھی اس کے بعد ہمارے پاس اس کے انکار کیلئے کوئی واقعی بنیاد باقی نہیں رہتی۔ یہاں ایک امریکی ریاضی دان Earl Chester Rex کے الفاظ نقل کرتا ہوں۔
”میں سائنس کے اس تسلیم شدہ اصول کو استعمال کرتا ہوں جو دو یا زیادہ مختلف نظریوں میں سے کسی ایک کو انتخاب کرنے کیلئے کام میں لایا جاتا ہے اس اصول کے مطابق اس نظریے کو اختیار کر لیا جاتا ہے جو مقابلہ نہایت سادگی کے ساتھ تمام متنازعہ فیہ مسائل کی تشریح کر دے ۔بہت عرصہ
ہوا جب یہی اصول ٹولوی کے نظریہ اور کو پرنکیس کے نظریے کے درمیان فیصلہ کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور اول الذکر کا دعوی تھا کہ زمین نظام شمسی کا مرکز ہے اس کے برعکس ثانی الذکر کہتا تھا کہ سورج نظام شمسی کا مرکز ہے ٹولوی کا نظریہ اس قدر پیچیدہ اور الجھا ہوا تھا کہ زمین کی مرکزیت کا نظریہ رد کر دیا گیا“۔ (The Evidence of God p.179 )
یہ استدلال بہت سے لوگوں کے لئے کافی نہیں ہو گا ان کے مادی ذہن کے چھوکھڑے میں کسی طرح خدا اور مذہب کی بات نہیں بیٹھے گی، کیونکہ ان حضرات کا یہ عدم اطمینان حقیقتامذہب کے حق میں استدلال کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ ان کا وہ متعصبانہ ذہن ہے جو مذہبی استدلال کو قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہوتا ۔جیمز جنیز نے اپنی اکتاب ”پراسرار کائنات “ کے آخر میں نہایت صحیح لکھا ہے کہ :۔
”ہمارے جدید ذہن واقعات کی مادی توجیہہ کے حق میں ایک طرح کا تعصب رکھتے ہیں“۔ (Mysterious Universe p.189 )
مذہب متعلق جدید نظریات اور پسند نا پسند کا اثر:
دھٹکر چیمبرز نے اپنی کتاب شہادت میں اپنے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے جو بلا شبہ اس کی زندگی کے لئے ایک نقطہ انقلاب بن سکتا تھا وہ اپنی چھوٹی بچی کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر بچی کے کام پر جا پڑی اور غیر شعوری طور پر وہ اس کی ساخت کی طرف متوجہ ہو گیا اس نے اپنے جی میں سوچا یہ کتنی غیر ممکن بات ہے کہ ایسی پیچیدہ اور نازک چیز محض اتفاق سے وجود میں آجائے یقیناً یہ پہلے سے سوچئ سمجھے نقشے کے تحت ہی ممکن ہوئی ہو گی مگر اس نے جلد ہی اس خیال کو اپنے ذہن سے نکال دیا کیونکہ اسے احساس ہوا کہ اگر وہ اس کو ایک منصوبہ مان لے تو اس کا منطقی نتیجہ یہ ہو گا کہ اسے منصوبہ سا ز (خدا) کو بھی ماننا ہو گا اور یہ ایک ایسا تصور تھا جسے قبول کرنے کیلئے اس کا ذہن آمادہ نہیں تھا۔
اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ٹامس ڈیوڈ پارکس لکھتا ہے۔
” میں اپنے پروفیسروں اور ریسرچ کے سلسلے میں اپنے رفقاء کار میں بہت سے سائنسدانوں کے بارے میں جانتا ہوں کہ علم کیمیا اور طبعیات کے مطالعہ و تجربہ کے دوران میں انہیں بھی متعد و مرتبہ اس طرح کے احساسات سے دو چار ہونا پڑا“۔
)The evidence of God in an expanding Universe Edited by john clover monsma p.73-74 (
کس قدر حیرت انگیز بات ہے کہ ایک ایسا موڈ جو خدا کی رہنمائی کی طرف اشارہ کرتا ہے وہیں سےآدمی الٹی سمت میں مڑجاتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی وجہ کوئی علمی دریافت نہیں بلکہ محض ذاتی پسند کو فوقیت دینا ہے.
نظریہ ارتقا کی مثال ہمارے سامنے ہے ، اس کا تصور یک طرفہ تمام علمی شعبوں پر چھاپا جارہا ہے ہر وہ مسئلہ جس کو سمجھنے کے لئے خدا کی ضرورت تھی اس کی جگہ بے تکلف ارتقا کا ایک خو بصورت بت بنا کر رکھ دیا گیا ہے مگر دوسری طرف عضویاتی ارتقا کا نظریہ جس سے تمام ارتقائی تصورات اخذ کئے گئے ہیں اب تک بے مشاہد اور بے دلیل ہے حتی کہ بعض ریسرچرز نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ اس تصور کو ہم صرف اس لئے مانتے ہیں کہ اس کا کوئی بدل ہمارے پاس موجود نہیں ہے ، سر آرتھ کیتھ نے ۱۹۵۳ء میں کہا تھا۔
“Evolution is unproved and unprovable We believe it only because the only alternative is special creation and that is unthinkable”
Islamic Thought, dec 1961)
یعنی ارتقاء ایک غیر ثابت شدہ نظریہ ہے اور وہ ثابت بھی نہیں کیا جاسکتا ہم اس پر صرف اس لئے یقین کرتے ہیں کہ اس کا واحد بدل تخلیق کا عقیدہ ہے جو سائنسی طور پر ناقابل فہم ہے۔ گویا سائنسداں ارتقاء کے نظریے کی صداقت پر صرف اس لئے متفق ہو گئے ہیں کہ اگر وہ اسے چھوڑ دیں تو لازمی طور پر انہیں خدا کے تصور پر ایمان لانا پڑے گا۔
ظاہر ہے کہ جو لوگ مادی طرز تعبیر کے حق میں اس قسم کے تعصبات رکھتے ہوں وہ انتہائی کھلے ہوئے واقعات سے بھی کوئی سبق نہیں لے سکتے تھے اور ہمیں اعتراف ہے کہ ایسے لوگوں کو مطمئن کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔
اس تعصب کی بھی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے بقول ایک امریکی عالم طبعیات :
”خدا پرستی کی معقولیت اور انکا ر خدا کا پھسپھا پن بجائے خود ایک آدمی کے لئے عملاً خدا پر ستی اختیار کرنے کا سبب نہیں بن سکتا لوگوں کے دل میں یہ شبہ چھپا ہوا ہے کہ خدا کو ماننے کے بعد آزادی کا خاتمہ ہو جائے گا وہ علماء جو ذہنی آزادی کو دل و جان سے پسند کرتے ہیں آزدی کی محدودیت کا کوئی بھی تصور ان کے لئے وحشتناک ہے “۔
The Evidence Of God p.130
چنانچہ جو لین ہکسلے نے نبوت کے تصور کو نا قابل برداشت اظہار برتری قرار دیا ہے کیونکہ کسی کو نبی ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اس کویہ حیثیت دی جائے کہ اس کی بات خدا کی بات ہے اور اس کو حق ہے کہ وہ جو کچھ کہے تمام لوگ اس کو قبول کر لیں۔ لیکن جب انسان کی حیثیت یہی ہے کہ وہ خالق نہیں مخلوق ہے وہ خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہے تو اس صورت واقعہ کو کسی خود ساختہ تصور کی بنا پر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم حقیقت کو بدل نہیں سکتے ہم صرف اس کا اعتراف کر سکتے ہیں۔ ۔اگر تو انسان بالکل کسی کی اظہار برتری کو خاطر میں نا لاتا ہو پھر تو اس معاملے میں یہ کہا جاسکتا تھا کہ ہم صرف انکی برتری کو قبول کیوں کریں، جب قوانین کو قبول کرنا ہی پڑتا ہے تو بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جو حقیقت ہے اور سچ ہے اسے مان لیں، نہ کہ چند حیلوں سے اس کا انکار کر دیں۔ حقیقت کا انکار کرکے آدمی صرف اپنا نقصان کرتا ہے وہ حقیقت کا کچھ نہیں بگاڑتا۔
یہ امر واقعہ ہے کہ سائنس کا آخری حقیقت کے پتہ لگانے میں بے بسی کے واضح ہوجائے کے باوجود ، عملی طور پر منکرین خدا کے ذہن میں کوئی نمایاں فرق پیدا نہیں ہوا.بلکہ اس کے برعکس انکارخدا کے وکیل نئے نئے ڈھنگ سے اپنے دلائل کو ترتیب دینے میں لگے ہوئے ہیں . تاریخ بے شمار مثالوں سے بھری ہوئی ہےکہ حقیقت ظاہر ہوجانے کے باوجود انسان نے محض اس لئے اس کو قبول نہیں کیا کہ تعصب اس کی اجازت نہیں دیتا تھا. یہی تعصب تھا جب انیسویں صدی کے آخر میں برلن کے پروفیسر ماکس پلانگ نے روشنی کے متعلق بعض ایسی تشریحات پیش کیں جو کائنات کے نیوٹنی تصور کو غلط ثابت کر رہی تھیں تو وقت کے ماہرین نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور عرصہ تک اس کا مذاق اڑاتے رہے.حالانکہ آج وہ کو انٹم تھیوری کی صورت میں علم طبیعات کے اہم اصولوں میں شمار کیا جاتا ہے. اگر کسی کا یہ خیال ہے کہ تعصب دوسرے لوگوں میں تو ہوسکتا ہے مگر سائنس دانوں میں نہیں ہوتا،تو اس میں ایک سائنس دان کا قول یاد دلاؤں گا ۔ڈاکٹر ہلز (A.V. Hills) لکھتے ہیں
I should be the last claim that we scienctific men, are less liableto prejudice than other educated men. Quoted by A.N Gilkes, Faith for modren man,p.109
یہ میں آخری شخص ہوں جو اس بات کا دعوی کرتا ہوں گا کہ ہم سائنس دان دوسرے تعلیم یافتہ لوگوں کے مقابلہ کم تعصب رکھنے والے ہوتے ہیں . اب ایک ایسی دنیا کی کار فرمائی ہو،یہ امید کیسی کی جاسکتی ہے کہ کوئی تصور محض اس لیے قبول کرلیا جائے کہ وہ علمی طور پر ثابت ہوگیا ہے .
تاریخ کا طویل تجربہ ہے کہ انسان کے رہنما اس کے جذبات رہے ہیں ، نہ کہ اس کی عقل . اگرچہ علمی اور منطقی طور پر عقل ہی کو بلند مقام حاصل ہے .مگر زیادہ تر ایسا ہوا ہے کہ عقل خود جذبات کی آلہ کار ررہی ہو. بہت کم ایسا ہوا کہ وہ جذبات کو اپنے قابو میں کر سکی ہو. عقل نے ہمیشہ جذبات کے حقائق میں دلائل تراشے ہیں . اور اسی طرح اپنے جذباتی رویہ کو عقلی رویہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ،خواہ حقیقت واقعہ انسان کا ساتھ نہ دے مگر جذبات سے لپٹا رہنا وہ اپنے لئے ضروری سمجھتا ہے . ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا معاملہ کسی مشین سے نہیں جو بٹن دبانے کے بعد لازما اس کے مطابق عمل ظاہر کرتی ہے ، بلکہ ہمارا مخاطب انسان ہے اور اس وقت کسی بات کو مانتا ہے جب وہ خود بھی ماننا چاہے. اگر وہ خود ماننا نہ چاہتا ہو تو کوئی دلیل محض دلیل ہونے کی حیثیت سے اسے قائل نہیں کرسکتی . دلیل کو برقی بٹن (electric switch ) کا قائم مقام نہیں بنایا جا سکتا . اور بلا شبہ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ٹریجڈی ہے.
استفادہ: مذہب اور جدید چیلنج، وحید الدین خان