رسل اپنے دور کا سب سے بڑا ملحد تھا ،اپنے زمانہ کے فلسفیوں میں رسل کا مطالعہ سب سے ذیادہ وسیع تھا، کہا جاتا ہے کہ اگر کوئی استثناء ممکن ہے تو وہ صرف وہائٹ ہڈ کو۔ رسل کی زندگی تقریبا ایک صدی پر پھیلی ہوئی ہے ۔ اپنے بیان کے مطابق وہ ساری عمر دو چیزوں کی تحقیق میں مصروف رہا ” ہم کتنی چیزوں کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں اور یہ کہ ہمارے علم کا کتنا حصہ یقینی ہے اور کتنا حصہ مشتبہ ہے”۔
رسل کے نزدیک علم کی دو قسمیں ہیں۔چیزوں کا علم (knowledge of things) اور صداقتوں کا علم (knowledge of truths) چیزوں کا علم دوسرے الفاظ میں حسی واقعات (sensible facts) کا علم ہے۔مگر حسی واقعات ہی سب کچھ نہیں ہیں بلکہ ان کے پیچھے بھی کچھ صداقتیں چھپی ہوئی ہیں جو بذاتِ خود ہمارے حواس میں نہیں آتیں۔ان صداقتوں کا معلموم کرنے کا ذریعہ استنباط (inference) ہے جو حسی واقعات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔رسل کے نزدیک استنباط صحیح (valid) ہوسکتا ہے۔البتہ اس کو سائنسی استنباط (Scientific inference) ہونا چاہئے۔
رسل کے نزدیک سائنس حقیقی دنیا (real world) اور اعتقادی دنیا (believed world) دونوں پر مشتمل ہے۔اور سائنس میں جتنی زیادہ ترقی ہوتی ہے ، اس میں اعتقادات کا جز بڑھتا جاتا ہے۔سائنس میں کچھ چیزیں تو مشہور حقائق (observed facts) ہیں اور اس سے اوپر کی تمام چیزیں سائنسی مجردات (Scientific abstractions) ہیں جو مشاہدہ کی بنیاد پر مستنبط کئے گئے ہیں۔کلی تشکیک (universal skepticism) کا انکار نہیں۔مگر کلی تشکیک کو اختیار کرنا بھی مشکل ہے۔وہ لکھتا ہے:
“میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حسی حقائق (facts of sense) کو،اور اس کے ساتھ عمومی طور پر سائنس کی سچائی کو ایک ایسی چیز کی حیثیت سے قبول کرلوں جو فلسفی کے لئے ابتدائی مواد کا کام دے سکے۔اگرچہ ان کا سچ ہونا قطعی یقینی (quite certain) نہیں ہے۔یہ کسی اور چیز کے مقابلہ میں صرف ایک اونچا امکانی درجہ (higher degree if possibility) ہے،جو فلسیفانہ قیاس کے لئے حاصل کی جاسکتی ہے۔”
اب ہم رسل کا ایک اقتباس نقل کریں گے جس سے رسل کے خیالات کی وہ تصویر مکمل ہوجاتی ہے جو ہم یہاں بنانا چاہتے ہیں:
“اس کو ہمیشہ سمجھا نہیں گیا ہے کہ نظری طبیعیات جو معلومات دیتی ہے،وہ کس قدر زیادہ مجرد (exceedingly abstact) ہیں۔وہ چند خاص بنیادی مساوات (equations) مقرر کرتی ہے جو اس کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ واقعات کے منطقی ڈھانچہ کو بیان کرسکے،جب کہ واقعات کی باطنی حالت (intrinsic character) بالکل نامعلوم (completely unknown) ہو۔نظری طبیعیات میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمیں اس قابل بنائے کہ ہم واقعات کی باطنی حالت کے بارے میں بول سکیں۔طبیعیات جو کچھ ہمیں دیتی ہے وہ تمام تر صرف کچھ مخصوص مساواتیں (equations) ہیں جو ان کی تبدیلیوں کی مجرد خاصیتیں (abstract properties) بتاتی ہیں۔مگر یہ کہ وہ کیا چیز ہے جو تبدیل ہوتی ہے اور کہاں سے تبدیل ہوتی ہے،اس کے بارے میں طبیعیات خاموش ہے۔”
رسل اپنی کتاب “میرا فلسفیانہ ارتقاء” کے باب(non-demonstrable inference) کو حسب ذیل الفاظ پر ختم کرتا ہے:
…there is no such claim to certainty as has to often and too uselessly, been made by rash philosophers. (1,p.207)
یعنی اس قسم کا دعویٰ کرنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ہم کو صداقت کا یقینی ذریعہ معلوم ہوگیا ہے جیسا کہ اکثر بے فائدہ طور پر جلد باز فلسفی کرتے ہیں۔
اس مطالعہ کے مطابق رسل کے لئے صرف دو راستے باقی رہ جاتے ہیں۔یا تو وہ تشکیک کی پناہ گاہ میں چلا جائے یا پھر مذہب کی صداقت کا اعتراف کرلے۔کیونکہ جب صورتحال یہ ہے کہ ہم حقیقت کا صرف ظاہری ڈھانچہ سیکھ سکتے ہیں،اس کی اندرونی صداقت سے براہ راست طور پرو اقف ہونا ہمارے لئے ناممکن ہے تو دو ہی صورتیں آدمی کے لئے باقی رہ جاتی ہیں۔یا تو وہ اصرار کرے کہ وہ اسی وقت کسی بات کو مانے گا جب وہ آخری اور براہ راست طور پر اس کے ذاتی علم میں آجائے۔چونکہ اب تک کی تحقیقات کے مطابق اس قسم کا علم ناممکن ہے،اس لئے اسے یہ کہہ کر بیٹھ جانا چاہئے کہ”میں کچھ نہیں جانتا”۔مگر رسل اس پوزیشن کو قبول نہیں کرتا۔وہ کہتا ہے کہ ظاہری ڈھانچہ کی بنیاد پر اندرونی حقیقت کے بارے میں جو استنباط کیا جائے وہ بھی جائز علم کا ایک ذریعہ ہے،یہ کہہ کر وہ مذہب کی عین سرحد کے قریب پہنچ جاتا ہے۔کیونکہ مذہب کا کہنا بھی یہی ہے کہ انسان اپنے محدود حواس سے حقیقت کا آخری ادراک نہیں کرسکتا۔البتہ ظاہر کائنات میں وہ جن چیزوں کا مشاہدہ کرتا ہے،ان سے یہ قیاس کرسکتا ہے کہ وہ کون سی حقیقت ہے جو اس کے پیچھے مستور ہے۔مگر عجیب بات ہے رسل جیسا ذہین شخص تشکیک کا بھی انکار کرتا ہے اور مذہب کا بھی اور اسے یاد نہیں رہتا کہ اس طرح وہ خود اپنے مسلمات کے مطابق ایک کھلے ہوئے تضاد کا مظاہرہ کررہا ہے۔
رسل واضح طور پر تسلیم کرتا ہے کہ ایسے عقیدے (belief) بھی صحیح (valid) ہوسکتے ہیں جن کا تجربہ (experience) نہ کیا گیا ہو۔رسل خود بھی ایسے “عقائد” کو مانتا ہے۔مثال کر طور پر زمین کا قدیم ماظی،کائنات کے بعید ترین علاقے جن کا فلکیات میں مطالعہ کیا جاتا ہے،وغیرہ۔یہاں میں اس کے چند فقرے اس کے اپنے الفاظ میں نقل کروں گا:
I commit myself to the view that there are valid processes of inference from events to other events….more particularly, from events of which I am aware without inference to events of which I have no such awareness.(p.10)
یعنی میں اس نقطہ نظر کا حامی ہونے کا اعتراف کرتا ہوں کہ استنباط کے ایسے معقول طریقے ہیں جن میں بعض واقعات سے کچھ دوسرے واقعات پر استنباط کیا جاتا ہے۔زیادہ متعین طور پر،ایسے واقعات سے جن سے میں کسی استنباط کے بغیر باخبر ہوں،ایسے واقعات پر جن کے بارے میں میں اس قسم کی واقفیت نہیں رکھتا۔
رسل نے اسی بات کو دوسری جگہ ان الفاظ میں کہا ہے:
I do think that there are forms of probable inference which must be accepted although they cannot proved by experience.(p.132)
میں خیال کرتا ہوں کہ ایسے قریب بہ صحت استنباط کے طریقے کو تسلیم کیا جاتا چاہئے،اگرچہ وہ تجربہ سے ثابت نہیں کئے جاسکتے۔
اس صریح اعتراف کے مطابق ،کم ازکم رسل کے نزدیک،مذہب ایک ایسی چیز کی حیثیت نہیں رکھتا جس کو دلیل سے ثابت نہ کیا جاسکتا ہو۔کیونکہ یہاں وہ جس معیار استدلال کے جواز (validity) کو تسلیم کررہا ہے،یہ عین وہی معیار استدلال ہے جس کے مطابق مذہب کے صداقتوں کو ثابت کیا جاتا ہے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رسل نے بالواسطہ طور پر یہاں تک تسلیم کیا ہے کہ مذہب کے حق میں اس نوعیت کے استنباطی دلائل بھی موجود ہیں جن کو وہ سائنٹیفک استنباط کہتا ہے،مگر اس کے باوجود وہ نہایت سرسری وجود کا نام لےکر ان دلائل کو رد کردیتا ہے۔
یہاں میں برٹرینڈ رسل کا ایک اقتباس نقل کروں گا جو اس کی کتاب”میں عیسائی کیوں نہیں” سے لیا گیا ہے:
دنیا کےتمام بڑے مذاہب-بدھ ازم،ہندومت،عیسائیت،اسلام اور کمیونزم- سب کو غلط (untrue) بھی سمجھتا ہوں اور مضر (harmful) بھی۔یہ صحیح ہے کہ متکلمین نے کچھ ایسی دلیلیں ایجاد کی ہیں جن کے متعلق دعویٰ کیا جاتا ہے کہ منطقی دلائل (logical arguments) ہیں اور ان سے خدا کا وجود ثابت ہوتا ہے۔مگر وہ منطق جس پر ان روایتی استدلالات کی بنیاد قائم ہے،وہ ارسطو کی قدیم منطق ہے جس کو عملاً اب تمام علمائے منطق رد کرچکے ہیں سوائے مذہبی لوگوں کے۔”
اس کے بعد رسل لکھتا ہے :
“ان دلائل میں ایک دلیل ایسی ضرور ہے جو خالص منطقی (purely logical) نہیں ہے۔میری مراد نظم کائنات کی دلیل (argument from design) مگر ڈارون اس دلیل کو بالکل ختم کرچکا ہے۔
Why I am not a Christian. (P.IX)
اس اقتباس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ نظم کائنات کی دلیل رسل نے منطقی طور پر ایک جائز دلیل (valid argument) تسلیم کیا ہے۔مگر اصولی طور پر اس کی منطقی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے رسل کا کہنا ہے کہ ڈارونزم نے اس کی استدلالی حیثیت کو برباد کردیا ہے یا کم از کم اس کی اہمیت بہت گھٹا دی ہے۔
رسل کے اس بیان پر ہم کسی قدر وضاحت سے روشنی ڈالنا چاہتے ہیں۔
رسل کے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ مذہب کا دعویٰ ہے کہ کائنات میں ایک نظم (design) پایا جاتا ہے اور یہ نظم اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پیچھے کوئی شعور ہو جس نے اس کو “نظم”کی صورت دی ہو۔اگر ایسا نہ ہوتا تو کائنات بے ترتیب انبار کی شکل میں نظر آتی۔
رسل کے نزدیک یہ استدلال اصولی طور پر صحیح ہے۔مگر پھر وہ کہتا ہےکہ”ڈارون نے حیاتیاتی مظاہر کے مطالعہ سے ثابت کیا ہے کہ زندگی کی مختلف اقسام جو منظم اور بامعنی شکل میں زمین پر نظر آتی ہیں وہ دراصل کروڑوں برس میں مادی حالات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔مثلاً زرافہ کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ بکری جیسے جانور نے طویل فطری عمل کے بعد بخوبی لمبی گردن والے زرافہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔
یہاں مجھے ڈارونزم پر کوئی تفصیلی گفتگو نہیں کرنی ہے۔البتہ میں یہ کہوں گا کہ رسل نے استدلال کی اصولی معقولیت تسلیم کرتے ہوئے جس بنیاد پر اس کو رد کیا ہے وہ نہایت کمزور ہے۔
پہلی بات یہ کہ ڈارونزم سے کچھ ثابت ہوا ہے تو صرف یہ کہ زندگی کی مختلف اقسام بیک وقت وجود میں نہیں آئیں بلکہ مختلف اقسام مختلف وقتوں میں پائی گئی ہیں۔نیز یہ ایک خاص طرح کی زمانی ترتیب ہے۔یعنی زندگی کی سادہ اقسام پہلے اور پیچیدہ اقسام اس کے بعد۔مگر یہ بات آج بھی قطعی طور پر غیر ثابت شدہ ہے کہ زیادہ پیچیدہ اور بامعنی اقسام دراصل پچھلے زمانہ کی سادہ اقسام حیات ہی کی ترقی یافتہ صورتیں ہیں جو مادی عمل کے نتیجہ میں ان کے اندر سے خود بخود وجود میں آگئیں۔پہلی بات تو بلاشبہ مشاہدہ سے اخذ کی گئی ہیں۔مگر یہ دوسری بات قطعی طور پر علماء ارتقاء کا اپنا مفروضہ ہے جس کی بنیاد نہ حقیقۃً کسی مشاہدہ پر ہے اور نہ کسی بھی درجہ میں اس کو (demonstrate) کیا جاسکتا ہے۔جب کہ رسل کے استدلال کا جواز اسی دوسرے پہلو کے ثبوت پر موقوف ہے۔
نظریہ ارتقاء کی یہ کمزوری خود ارتقاء پسند علماء تسلیم کرتے ہیں۔مثال کے طور پر سر آرتھر کیتھ نے کہا ہے:
Evolution is unproved and unprovable. We believe it only because the only alternative is special creation, and that is unthinkable.
اسی لئے ارتقاء کے مسئلہ کو دو اجزاء میں تقسیم کیا گیا ہے۔ایک نظریہ ارتقاء اور دوسرے سبب ارتقاء۔کہا جاتا ہے کہ نظریہ ارتقاء تو یقینی ہے۔البتہ سبب ارتقاء ابھی تک لامعلوم ہے۔اس تقسیم کو ہم زیادہ بہتر طور پر نظریہ ارتقاء ،دلیل ارتقاء کے الفاظ میں بیان کرسکتے ہیں۔کیونکہ جب تک اسباب معلوم نہ ہوں۔ایک نظریہ یقینی کیسے ہوجائے گا۔گویا نظریہ ارتقاء ایک ایسا نظریہ ہے جس کی دلیل تو ابھی دریافت نہیں ہوئی مگر اس کے باوجود ارتقاء پسند علماء کے نزدیک ثابت شدہ نظریہ کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔۔۔ایسا کمزور نظریہ کے حوالہ سے یہ کہنا کہ اس نے مذہب کے استدلال کو برباد کردیا ہے کس قدر بےبنیاد بات ہے۔
دوسرے یہ کہ بالفرض انواع حیات ارتقاء کے عمل ہی کے تحت وجود میں آئی ہوں،جب بھی اس سے رسل کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ رسل کے دعویٰ کو صحیح ماننے کے لئے مفروضہ کو ماننا بھی ضروری ہے کہ خدا کوئی ایسا ہی وجود ہوسکتا ہے جو یکا یک پھونک مار کر پیدا کردیا کرے۔اس کا طریق تخلیق یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ لمبی مدت کے اندر کسی چیز کو وجود بخشے۔حالانکہ نہ صرف یہ کہ اس مفروضہ کے لئے کوئی بنیاد موجود نہیں ہے،بلکہ اس سے خود خدا کی قدرت مطلقہ کی نفی بھی نہیں ہوتی۔
انسان ہمیشہ سے یہ مانتا رہا ہے کہ درخت اور انسان کو پیدا کرنے والا قادر مطلق خدا ہے۔مگر یہ مشاہدہ اس کے اس عقیدہ کو متزلزل کرنے والا ثابت نہ ہوسکا کہ بچہ چالیس برس میں پورا انسان بنتا ہے اور درخت آدھی صدی اور ایک صدی میں مکمل ہوتا ہے۔خدا کی قدرت کاملہ پر ایمان لانے کے لئے اس نے کبھی ضروری نہیں سمجھا کہ درخت اور انسان یکا یک پورے درخت اور پورے انسان کی شکل میں ظاہر ہوجایا کریں۔اسی طرح اگر آئندہ کوئی تحقیق یہ ثابت کرے کہ زندگی کے مظاہر اچانک دنیا میں وجود نہیں ہوگئے ہیں بلکہ لمبے ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد وجود میں آئے ہیں تو ا س میں مذہب پر نظر ثانی یا اس کی تردید کا سوال آخر کس لئے پیدا ہوجائے گا۔
آخری بات
برٹرینڈ رسل کا مذکورہ بالا بیان ایک ملحد کی زبان سے مذہب کی اصولی صداقت کا اعتراف ہے۔وہ تسلیم کرتا ہے کہ کائنات میں ڈیزائن ہے۔اسے یہ بھی تسلیم ہے کہ ڈیزائن سے ڈیزائنر کا وجود ثابت کیا جاسکتا ہے۔ مگر جب وہ اس کو نہ ماننے کے لئے ڈارونزم کا حوالہ دیتا ہے تو گویا وہ نہایت کمزور بنیاد پر خود اپنے تسلیم شدہ مقدمہ کو رد کررہا ہے،کیونکہ ڈیزائن کا وجود تو متفقہ طور پر ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔مگر ڈارونزم کوئی ثابت شدہ حقیقت نہیں۔اس کا یہ پہلو یقینی طور پر اب بھی مفروضہ ہے کہ مادی عوامل سے انواع حیات میں بامعنی “ڈیزائن” پیدا ہوجاتا ہے۔اس لئے ڈیزائن کے واقعہ کی بنیاد پر ڈیزائنر کے حق میں استدلال تو خود رسل کے اعتراف کے مطابق صحیح ہے۔مگر ڈارونزم ابھی اس قابل نہیں ہوسکا ہے کہ اس کی بنیاد پر کوئی رسل اس دلیل کو رد کردے۔
(مذہب اور سائنس)