اسلام خدا اور الحاد کے بارے میں کتاب لکھنے کا کیا مقصد؟ بہت سے فلسفی اور محققین،جن کا تعلق مختلف پس منظر سے تھا، اس موضوع پر بہت سی کتب لکھ چکے ہیں تو پھر ایسے ہی مضمون پر کتاب کیوں؟ اس کو وضاحت کا جامہ پہنانے کے لئے میں آپ کے سامنے اپنی زندگی کے اب تک کے سفر کی روداد رکھنا چاہوں گا۔
میں لندن میں ایک یونانی خاندان میں پیدا ہوا۔ میرے والدین ستر کی دہائی میں مختلف وجوہات کی بنا پر یہاں آئے تھے۔ میرے والد ایتھنز سے دور آنا چاہتے تھے۔ میری والدہ کے پاس زیادہ وسائل نہ تھے کیوں کہ وہ 1974 میں ترک مہاجر کیمپ سے قبرص کے قبضے کے بعد نکال دی گئی تھیں۔ میرے والدین نے بہت سے مصائب جھیلے، لیکن محبت، برداشت اور اولوالعزمی کی بنیاد پر وہ دنیا کے خوشحال ترین، محبت کرنے والے، قوت برداشت سے سرشار لوگ ہیں۔ میں ہمیشہ ان کا اپنی میں زندگی میں ہونے کے لیے مشکور رہوں گا۔
ان سب مصائب کے باوجود میرے والد نے وجود کے متعلقہ سوالات و مسائل کو حل کرنے کی کوشش کی۔ وہ اپنی زندگی میں در پیش اہم ترین سوالات کے جوابات کی کھوج میں تھے۔ ان کے اس سفر میں انھوں نے بہت سی کتب کا مطالعہ کیا۔ اسی وجہ سے مجھے گھر پر بہت ضخیم کتب کا ذخیرہ میسر تھا جس میں The Power of Positive Thinking سے لے کر The Science of the Mind شامل تھیں۔ میرے والد اکثر کتب بینی میں مصروف رہتے اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ میں ان کے تین میں سے درمیان والا بچہ ہوں اور اس وقت ہمارے دماغوں میں ان کی ایک بات پلے نہ پڑتی۔
اس پس منظر میں رہتے ہوئے، میرے ذہن میں بھی وہی وجود سے متعلقہ سوالات تھے، جو ایک زمانے میں میرے والد صاحب کے دل کو بے قرار کرتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ میں 11 سال کا تھا، جب میں بیت الخلاء میں ٹب میں بیٹھ کرروتا تھا۔ میں اپنے آپ کو بہت اکیلا محسوس کرتا تھا۔ مجھے لگتا تھا کہ صرف میں اپنے وجود کا ادراک رکھتا ہوں(دیکھیے باب 7)۔ صرف میں جانتا تھا کہ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں ،چاہے میں اپنا وقت ٹب میں بیٹھ کر روتے ہوئے صرف کر رہا ہوتا تھا یا اپنے ہم عمروں کے ہمراہ کھیل رہا ہوتا تھا۔ اس وجہ سے میں دوسرے لوگوں کے وجود کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو گیا تھا۔ کیا وہ واقعی ادراک و شور رکھتے ہیں؟ کیا وہ اصل دنیا میں موجود ہیں؟ ان کے احساسات کیا ہیں؟ ان کا احساس ادراک اس وقت کیا ہوتا ہے جب میں ان میں موجود نہیں ہوتا؟
زندگی کے کئی برس گزر جانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہ نظریہ ہمہ انانیت(solipsism) ہے جو مجھ میں سرایت کر رہا تھا۔ اس نظریے کے مطابق آپ صرف اپنے احساسات و کیفیات کے بارے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ وجود رکھتے ہیں۔ بہرحال، وہ یہی احساسات و نظریات سے متعلقہ سوالات تھے جنھوں نے مجھے زندگی میں ان کے جوابات کی تلاش کی جستجو میں گھیرے رکھا۔ ان تجربات نے میرے ضمیر میں اس احساس کو بڑھاوا دیا کہ سچ ہی سب کچھ ہے۔ میں اکثر اپنے دوستوں سے ان کے عقائد کے متعلق سوالات کرتا۔ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میرے تعلقات بہت سے قبائل و رسوم و رواج سے تعلق رکھنے والے افراد سے تھے۔
مجھے یہ محسوس ہوتا کہ حق و سچ کے جانے بغیر یہ دنیا کتنی بے معنی اور فریب سے بھر پور ہے۔ بہت سے ماہرین نفسیات اعتراف کرتے ہیں کہ انسان حق کی پیروی کرنا چاہتا ہے اور جب اس کو اشیا کا ادراک نہیں ہوتا تو وہ اپنے معاشرے اور رسوم و رواج سے سیکھتا ہے۔ اسی لیے حق کی تلاش کسی بھی شخص کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس وجہ سے ہی ہمیں ادراک ہو سکتا ہے کہ ہم کون ہیں اور ہم کیا بننا چاہتے ہیں۔
مجھے حق کی تلاش نہ کرنا کسی جھوٹ کے مترادف یا باطل کو قبول کرنے کے مترادف معلوم ہوتا تھا۔ اسی لئے حق کی تلاش میرے لئے میری خالص ترین کاوش تھی کہ میں اس زندگی کی حقیقت پرکھ سکوں اور اس زندگی میں اپنے مقام کی نشاندہی کر سکوں۔ میرے لیے ان لوگوں کا قول جو سچ کے بارے تشکیک کا شکار ہیں کہ سچ کی کوئی اہمیت نہیں، بالکل بے کار اور خود کو مات دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ یہ کہنا کہ کوئی سچ نہیں دراصل ایک دعوی ہے۔ تو میں یہ کیسے دعوی کر سکتا ہوں کہ یہ دعوی تشکیک تو درست ہے مگر اس کے علاوہ سب باطل؟ یہ تشکیک کے نظریات میں بے ربطگی کی مثال ہے۔ ایک مشکک تمام حقائق کے بارے میں تو مشکک ہو گا لیکن اپنے دعوی میں اپنے آپ کو حق پر گردانتا ہے۔ نتیجتا، میں جو بھی راہ اختیار کرتا، حق سے منہ موڑنا میرے لیے ممکن نہ تھا۔
جب میں نے اسلام کے بارے جانا تو اس کے دو پہلوؤں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ پہلی، وہ یقین کی حرارت جو میرے مسلمان دوستوں میں بات کرتے ہوئے ہوتی تھی۔ دوسری، روحانی اور معاشرتی اقدار؛ دونوں نے ہی مجھے اسلام کی قبولیت کی جانب راغب کیا۔ یہ وہ مقام نہیں ہے جہاں میں اپنے مذہب کی تبدیلی کی روداد سناؤں۔ ایک مقام تھا جب عقل و دانش کے معیارات کے مطابق میں نے اسلام کو سچا جان لیا تھا لیکن میں ابھی بھی مکمل طور پر اس کا قائل نہیں ہوا تھا۔ میں نے دو عادات اپنانا شروع کر دیں۔ میں نے قرآن کی چند صورتیں عربی میں ازبر یاد کرنا شروع کر دیں، اور مسلمانوں کی ساتھ پانچ میں سے کچھ نمازیں اور ان کی رسومات میں شامل ہونا شروع کر دیا۔ جب میں سجدہ ریز ہوتا تو میں اللہ سے کلام کرتا اور اس سے ہدایت طلب کرتا۔ یہ سب میں نے اپنے بھائی کے دوست کے مشورے کے بعد کرنا شروع کیا، اس کا نام عامر اصلاحی تھا۔ وہ ایک جامعہ میں طب کی تعلیم حاصل کر رہا تھا لیکن وہ اکثر ہمارے ہاں آتا اور ہمیں نصیحت کرتا۔ میں اس کو اللہ کی نبی ﷺ کی احادیث بیان کرتے ہوئے سنتا، عامر نے ایک دفعہ کہا، تم سب سے زیادہ اللہ کے نزدیک حالت سجدہ میں ہوتے ہو۔
میں اس لیے اس سے متاثر ہوا کہ ہمارے چہرے بتاتے ہیں کہ ہم کون ہیں، ۔ کئی بار ہماری انا اور تکبر ہمارے آڑے آتا ہے، لیکن مسلمان جب بھی نماز پڑھتے ہیں تو اقرار کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے آگے فقیر ہیں۔ اسی بندگی میں دراصل مسلمانوں کی اساس ہے؛ ایسے رب کے آگے بندگی کا اظہار کرنا جس نے ان کو پیدا کیا۔ حالت سجدہ میں انا و تکبر کی گھاٹی کو بہت پیچھے چھوڑ کر اللہ کے آگے اپنی بندگی ظاہر کرتے ہیں۔ پس میں نے بھی اللہ کے آگے جھکنا شروع کیا اور اس سے ہدایت طلب کرنا شروع کی۔ ڈاکٹر عامر میرے دوست ہیں لیکن وہ نہیں جانتے کہ 15 سال قبل ان کے الفاظ نے مجھ پر کتنا گہرا اثر مرتب کیا۔
دوسرا یہ کہ میں نے اپنے ایک بہت پرانے سکول کے دوست سے بات چیت کا آغاز کیا۔ معین الاحمد۔ وہ میرے گھر آتا اور مجھ سے اسلام کے موضوع پر بات کرتا، میں اس سے سوالات پوچھتا۔ اس سفر کے آغاز میں، میں دانش کے اعتبار سے اسلام کا قائل ہو چکا تھا لیکن میرا دل اب بھی مردہ تھا۔ اسلام کے بارے میں حقیقت جاننے کے باوجود میری اندرونی کیفیت میں فرق نہ آیا۔ اسی اثنا میں4 اکتوبر، 2002 کے دن میں معین سے ملنے باہر نکلا اور اس کی گاڑی میں جا بیٹھا۔ میں سچ بتاوں تو مجھے نہیں یاد اس نے مجھے کیا کہا تھا مگر یہ یاد ہے کہ میرے دل میں ایک سکون اتر آیا۔ اس نے انتہائی شیریں لہجے اور شاعرانہ انداز میں موت کی حقیقت کا نقشہ کھینچا، مجھے اس کے الفاظ یاد نہیں: ایسا کرنا بلی کو اندھیرے میں پکڑنے کے مترادف ہو گا۔ بہرحال اس کی بات سے میرے دل کا وہ دروازہ کھل گیا جو شاید کہ تالوں کے پیچھے بند ہو چکا تھا۔
انسان موت کے تذکرے کو سننے میں لطف حاصل نہیں کرتے۔ موت ہم میں یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ میرا جس چیز کے ساتھ بھی اس دنیا میں لگاؤ ہے آخر کار مجھ سے چھن جائے گی۔ دراصل یہ احساس ہمیں ایک کڑوی حقیقت سے متعارف کرواتی ہے جو آج کل اس زمین پر نایاب ہے۔ ہمیں لازما اس حقیقت پر اپنے ذہن کو تیار کرنا ہے۔ ہمارے ہاں فلسفے کی دنیا میں موت پر بہت سے نظریات قائم کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ فلسفیوں نے موت کو ابدی نیند سے تشبیہ دی۔ کچھ نے کہا، موت ہماری زندگی کا ایک حصہ ہے، ایسا حصہ جس سے ہر شخص کو سمجھوتہ کرنا ہے تاکہ انسان اپنی حد کو جان لے۔ کچھ نے کہا، موت دراصل ایک اور زندگی کی جانب ہجرت ہے، جس میں ابدی زندگی اور اللہ کی ابدی رحمت ہو گی یا اللہ کے پیغام کو جھٹلانے کے عوض عذاب ہو گا۔
موت کے بارے میں ہمارے جو بھی خیالات ہوں، ایک بات جس میں بحث کی گنجائش نہیں وہ یہ کہ ہم اس موضوع پر بہت کم سوچتے ہیں۔ یہ آپ کو بہت عجیب معلوم ہو گا، مگر، موت کی فکر بہت فائدہ مند ہے-اس سے یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ ہماری زندگی بہت قلیل ہے۔ موت پر فکر ہماری انانیت و تکبر کو مٹا دیتی ہے کہ ان چیزوں کا کیا معنی۔ ہمارا ان مادی اشیا سے لگاؤ ہمیں کیا فائدہ دے سکتا ہے جب کہ ہم نے ایک روز موت کی گھاٹ میں اترنا ہے۔ جیسا کہ 11ویں صدی کے عالم غزالی فرماتے ہیں: “۔ ۔ ۔ موت کے بعد دراصل انعام و اکرام ہے۔ “undefined موت پر غور کرنا ہمیں اپنے وجود کی حقیقت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔
بہرحال، موت پر تدبر نے میرے زندگی کی طرف دیکھنے کے رویے کو تبدیل کر دیا۔ میں نے سیکھا کہ مجھے ان مادی اشیا کو کس قدر اہمیت دینی چاہیئے۔ زندگی کو موت کے آئینے سے دیکھنے کی وجہ سے مجھ پر نئے اسرار کھلے، مجھے اس سیارے پر اپنی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ میں یہاں کیسے آیا؟ مجھے یہاں کیا کرنا چاہیئے تھا؟ میں کہاں جا رہا ہوں؟ میرے لیے موت ان سوالوں کا دراصل جواب لئے ہوئے تھی۔ میں جان گیا کہ زندگی قلیل ہے اور یہ کہ ایک دن میں آخری سانس لوں گا۔ اس احساس سے میرے نظریات میں تبدیلی آئی۔
اس چیز کو سمجھانے کے لیے کہ میں کن حالات سے گزرا ،میں چاہوں گا کہ آپ موت پر غور کریں: تصور کیجیے آپ زندگی کا آخری لمحہ گزار رہے ہیں اور اگلے ہی لمحے آپ اس دنیا سے کوچ کر جائیں گے۔ آپ کو کیا محسوس ہوا؟ کیا آپ کو تنہائی، اور خلا محسوس ہوئی؟ کیا ان مادی اشیا کے ساتھ آپ کے لگاؤ میں کمی آئی؟ اگر آپ کو اس لمحے موت کا سامنا کرنا پڑے، جیسا کہ ہر آدمی کو کرنا ہے، آپ کے لیے موت کے کیا معنی ہوں گے؟ آپ اپنی زندگی میں کیا کریں گے اگر آپ کو واپس زندگی میں آنے کا موقع مل جائے؟ آپ کن خیالات و امور کو سنجیدہ لیں گے؟ آپ کا کیا رد عمل ہو گا اگر آپ موت کو دیکھ کر اس دنیا میں واپس پلٹیں؟
لیکن موت کے بارے میں غم زدہ بات یہ ہے کہ موت کی گھاٹی سے واپسی نہیں۔ یہ احساس مجھ پر بوجھ بن گیا۔ موت پر غور کرنے کی وجہ سے میں اس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی بہت قلیل ہے، اور یہ کہ مجھے اس ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بہتر عمل کرنا ہے۔ اگلے ہی لمحے میں نے ٹیکسی لی اور جامع مسجد کا رخ کیا اور اسلام قبول کر لیا۔ یہ 5 اکتوبر، 2002 کا دن تھا۔
میری حق کی تلاش نے مجھے مجبور کیا کہ میں لوگوں کو حق کے بارے میں بتاؤں۔ اپنے بھول پن میں، میں ہر چیز کو جو بھی اسلام اور اس کی منطقی بنیادوں کے متعلق تھا، اس کو میں تھام لیتا۔ میں نے بہت سے عیسائی فلسفیوں کو پڑھا، اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں مسلمانوں کے لیے بہت قلیل مواد تھا کیوں کہ اسلام کے متعلق زیادہ تر کام عربی میں ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے میرا اسلام سیکھنے کا سفر مشکلات سے دوچار ہوا۔ عیسائی فلسفیوں کا اسلام کا نظریہ الہ کے بارے میں دلائل، اس کی اصل نہیں سمجھاتے، جو دراصل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دونوں مذاہب میں بہت سی مماثلتیں ہیں مگر ان میں بہت بنیادی فرق بھی ہیں۔
اب تک مسلمان کی حیثیت سے گزارے ہوئے ایام میں میں نے بہت مشکل سے علم سیکھا۔ میں نے بہت غلطیاں بھی کیں، اور یہ کتاب بہت سی ان چیزوں پر مشتمل ہے جو میں نے اب تک سیکھا۔ غلطیوں سے سیکھنے کے جہاں بہت سے فوائد ہیں، وہیں اس کے بہت سے نقصانات بھی ہیں۔ جو کوئی میری ان غلطیوں کو سننا چاہے تو وہ انٹرنیٹ پر ان سے استفادہ کر سکتا ہے۔ یہ منفی چیزیں،میری بھونڈی غلطیاں، ان چیزوں میں اس طرح سے غور و فکر نہ کرنا جیسے ان کا حق تھا، کی وجہ سے پیدا ہوئیں۔ بہرحال، آپ کو یہ کتاب پڑھ کر میری غلطیوں سے سیکھنے کا موقع ملے گا اور آپ کو مشکل طریقے سے علم کا حصول نہیں کرنا پڑے گا۔ آزمائش اور غلطیوں کی وجہ سے اس کتاب کے دلائل اور مضبوط ہوئے۔ اس سفر سے مجھے معلوم ہوا کہ اچھا اخلاق اور برداشت سب سے بڑی نیکی ہے۔ ان تجربات سے میرے اپنے عقیدے پر بہت سے سوالات اٹھے، اور وہ اسرار کھلے، جن سے میں اسلام میں اچھے اخلاق اور برداشت کو جان گیا۔ اللہ کے نبی ﷺ کے مطابق بھی اچھی سیرت ہی ہر شے میں خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔
میں نے اپنے دلائل کو بہت دفعہ ذہین ترین ملحدین سے مقابلے میں استعمال کیا ہے۔ میں نے بہت سے مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے ملحد دانشوروں سے مکالمے اور مباحث کیے ہیں۔ ان میں پروفیسر سائمن بلیکبرن، ڈاکٹر برینڈن، ڈاکٹر سٹیفن، ڈاکٹر لارنس کراوس شامل ہیں۔ میں نے ڈاکٹر رچرڈ ڈاکنز سے بھی مکالمہ کیا ہے، چونکہ وہ راہ چلتے تھا، اس لیے وہ مکمل نہ ہو سکا اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ جن موضوعات پر ہم نے بحث کیے، وہ ” کیا ہم مذہب کے بغیر بہتر زندگی گزار سکتے ہیں؟”، “کیا شعور کی وضاحت خدا کے وجود کے علاوہ ممکن ہے؟”، ” اسلام اور الحاد، منطقی طور پر کیا بہتر ہے؟”
لندن یونیورسٹی سے میری فلسفے کی تعلیم نے مجھے بہت نفع دیا۔ میری فلسفے کو رد یا قبول کرنے کی اہلیت میں بہت اضافہ ہوا۔ میں ابھی فلسفے میں ہی پوسٹ گریجویٹ کر رہا ہوں، اور میری تمنا ہے کہ اس سب سے میں اسلام کا روایتی تصور، خوبصورت اور دانشورانہ انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ ان اکادمیائی تجربات نے اس کتاب میں موجود دلائل کو چار چاند لگا دیئے۔ انھوں نے میرے اسلام کے متعلق عقائد اور فلسفے سے متعلق نظریات کو اور بھی مضبوط کیا جو دراصل اللہ کے نبی ﷺ کی تعلیمات اور قرآن سے ہی منظبق ہیں۔
انگریزی زبان میں کوئی ایسی کتاب نہ تھی، جو اسلام کی توحید کا قضیہ اور الحاد کے غیر منطقی نظریات کو اس خوبصورتی سے بیان کرتی۔ اس سے اس کتاب کی تعریف نہیں بلکہ یہ احساس اجاگر کرنا مقصد ہے کہ اس موضوع پر کس قدر قلیل کام ہوا ہے۔ میں نے دنیا کے مختلف حصوں میں لوگوں سے خطاب کیا جن میں مسلمان اور غیر مسلمان شامل ہیں۔ اس دوران میں نے لوگوں میں جہاں الحاد میں عروج دیکھا، وہیں لوگوں میں اسلامی نظریات، اللہ کے نبی ﷺ کے احکامات اور وحی کے پیچھے منطق و حکمت جاننے کی پیاس بھی دیکھی۔ اس کتاب کا مقصد اسی پیاس کو بجھانا ہے اور قاری کو یہ سمجھانا ہے کہ اللہ کا وجود، اس کی توحید، اور اللہ کا ہماری عبادت کا مستحق ہونا، ہماری دنیا سے ہر طرح ہم آہنگ ہے۔ اس میں ان دلائل کا بھی رد ہے جو اللہ کے انکار کے حق میں دیئے جا تے ہیں۔
اس کتاب میں اسلام اور اس کے علاوہ فلسفہ پر مبنی وہ دلائل بھی ہیں جو اللہ کے وجود اور محمد ﷺ کے اللہ کا نبی ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر دلائل ملحدین کے خلاف مباحثوں میں استعمال ہو چکے ہیں۔ اس کتاب میں ہر باب کے ساتھ اسلام کے حوالے بھی موجود ہیں، جو نہ صرف اسلامی اصولوں بلکہ فلسفے کی رو سے بھی ہم آہنگ ہیں۔ تقریباً پچاس فیصد حوالے اس کتاب میں اسلامی کتب اور روایات پر مبنی ہیں
حمزہ ایندریاس تزارتزس
undefined Edition. Al-Ghazali. (2015). The Remembrance of Death and the Afterlife. 2nd
Translated with an Introduction and Notes by T. J. Winter. Cambridge: Islamic Texts
Society, p. 8.