مغرب اور امریکا جیسے معاشرے جہاں ہمہ وقت مسلمانوں کے خلاف کسی نہ کسی شکل میں منفی پروپیگنڈا کیا جاتا ہے اورکوئی ایسا موقع نہیں گنوایا جاتا کہ جس میں مسلمانوں اور اسلام کو دہشت گردی سے نہ جوڑا گیا ہو تو ایسے میں مسلمانوں کے خلاف انتہا پسند مسیحیوں، یہودیوں ، آزاد خیالوں اورملحدوں کے ذہن میں دہشت پسندانہ جذبات کا مشتعل ہونا لازمی امر ہے۔
پروپیگنڈا خواہ پاکستان کے کسی محلے کی مسجد میں مختلف فرقوں کے درمیان ہو یا ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشروں میں جدید تنکیک سے لیس ذرایع ابلاغ کے ذریعے سے،ایک ہی جیسا مہلک ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ذرایع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو پھیلانے میں فرقہ پرست مساجد کا نعم البدل بن چکے ہیں،دونوں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ایک ہی جیسا طریقہ کار اختیار کرتے ہیں۔دونوں ہی اپنے مخالفین کے خلاف نفرت پھیلانے اور انھیں نیست و نابود کرنے میں مصروف ہیں، دونوں ہی خود کو درست اور اپنے مخالفین کو غلط سمجھتے ہیں۔اگر مذہبی جنونی مذہب کے نام پر جان لیتے ہیں تو آزاد اور روشن خیال ’’آزادی، انصاف اور جمہوریت‘‘ کے نام پر دہشت برپا کرتے ہیں۔ ایسے میں لوگوں کے اذہان میں تعصبات کا گہرائی میں راسخ ہوجانا ہرگز حیرت کی بات نہیں ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ مغربی و امریکی معاشروں میں ذرایع ابلاغ کے وسیلے سے پھیلائی جانے والی نفرت کو محض اس لیے نظر انداز کردیا جائے کہ یہ ’’ترقی یافتہ‘‘ معاشرے میں پروان چڑھی ہے اور ملائیت رجعت اور قدامت پسندی کی علامت ہے اس لیے اس کا انہدام ضروری ہے۔
ترقی یافتہ معاشرے جب روشن خیال آئیڈیالوجی کی بنیاد پر مظلوم اقوام کے لوگوں یا اپنے ہی ملک میں بسنے والی اقلیتوں کا قتال کراتی ہیں تو وہ بھی قابل مذمت ہیں ۔ معصوم لوگوں کا محض خود سے مخالف نظریات رکھنے کی پاداش میں قتلِ عام خواہ کسی مذہبی رجعت پسند کے ہاتھوں سے ہو یا آزاد اورروشن خیالی کے مبلغ کی دہشت پسند طبع کا نتیجہ ہو، ایک ہی جیسے قابلِ مذمت ہیں۔
امریکا ، برطانیہ اور مغرب میں لاتعداد ملحد صرف ملاؤں، پادریوں اور راہبوں کے ردِ عمل میں پیدا ہوئے ہیں۔ انھیں سرمایہ داری نظام کے بطن میں تضادات کی نوعیت اور شدت سے کوئی غرض نہیں ہے، نہ ہی انھیں اس نظام کی انسانوں پر برپا کی جانیوالی دہشت و بربریت سے ہی کچھ لینا دینا ہے۔ سماج کو طبقاتی یعنی سائنسی بنیادوں پر بھی وہ سمجھنا نہیں چاہتے ہیں۔ وہ عہد حاضر میں برپا کی گئی ہر قسم کی دہشت پسندی کو قومی سطح پر طبقاتی تقسیم اور قومی اور بین الاقوامی کے مابین تضاد کی بنیاد پر سمجھنے کی بجائے صرف مذہب کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔
ٹی وی چینلوں پر بیٹھ کر مذاہب کی تاریخ کو کریدتے ہیں، مذہبی کتابوں سے حوالے تلاش کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ شاید مذہب کے ’خاتمے‘ سے ساری دنیا کے تمام مسائل حل ہو جائینگے لیکن ایسے آزاد خیال اور ملحد اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ دہشت و بربریت کا منبع و مآخذ محض نظریات نہیں ہوتے، وہ نظام ہوتا ہے جو نظریات کو اپنی امیج پر خلق کرتا ہے، نظریاتی شناخت ایسی مستحکم شے نہیں ہے جس میں تبدیلی کا گزر نہ ہوتا ہو، معاشی، سماجی اور سیاسی ہیئتوں کی تبدیلی ہر قسم کی آئیڈیالوجیکل تبدیلیوں کا باعث بنتی ہے۔ اگر انسانی شعور کو بالائی طبقات اپنے نظریاتی مفادات کے تحت بگاڑنے کی کوشش نہ کریں تو وہ ان تبدیلیوں سے ہم آہنگ ہونا سیکھ لیتا ہے۔
تبدیلی سے متصادم یا غیرہم آہنگ ہونے کا رجحان اتنا مذاہب کی اپنی سرشت میں پیوست نہیں ہوتا جتنا کہ بالائی طبقات کے مفادات کے تحفظ اور غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے ان کی خواہش سے جڑا ہوتا ہے۔مغرب اور امریکا میں مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس کی کیفیات انھی ممالک کے سامراجی مفادات کی تشکیل اور ان کو دوام عطا کرنے کے رجحان سے جڑی ہوئی ہیں۔ جتنا کسی خاص کمیونٹی کو ہراساں کیا جاتا ہے اتنا ہی اس کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے، طبقاتی تقسیم کے احساس کو گزند پہنچتی ہے،اور اتنا ہی زیادہ لوگ اپنی اس شناخت کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جس شناخت کی بنیاد پر انھیں نشانہ بنایا جارہا ہوتا ہے۔
مسلمانوں کو ہراساں کرنا عہد حاضر کے سامراجی نظام کی باطنی ضرورت بن چکا ہے۔ اس طرح اپنے ہی ممالک میں پسے اور استحصال زدہ طبقات پر غلبے اور عالمی سطح پر سامراجی غلبے و اقتدار کو تسلسل اور دوام عطا کرنے کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک لوگوں میں حقیقی تقسیم یعنی طبقاتی تقسیم کا خیال بیدار نہ ہوجائے ، یہی خیال انھیں طبقاتی شعور سے ہم آہنگ کرکے باقی ہر طرح کی مصنوعی تقسیم سے نجات دلا سکتا ہے۔
عمران شاہد بھنڈر