قرآن نے اگرچہ یہاں تور دیگر مقامات میں چند خاص دعوتوں اور قوموں کا ہی ذکر کیا ہے لیکن اس کا دعوی عام ہے اور اسی پر استدلال مبنی ہے۔اس نے جا بجا یہ بات واضح کر دی ہے کہ ہدایت وحی کا ظہور جمیعت بشری کا عالمگیر واقعہ ہے ،اور کوئی قوم نہیں جس میں اللہ کے رسول کا ظہور نا ہوا ہو۔ نیز یہ کہ بے شمار قومیں دنیا میں گزر چکی ہیں جن کا حال اللہ کو معلوم ہے چنانچہ سورہ یونس کی آیت ٤٧ میں گزر چکا ہے۔
اور ہر ایک امت کی طرف پیغمبر بھیجا گیا جب انکا پیغمبر آتا ہے تو ان میں انصاف کے ساتھ فیصلہ کردیا جاتا ہے اور ان پر کچھ ظلم نہیں کیا جاتا۔ ( سورہ یونس 47)۔
اور دوسرے مقامات میں فرمایا
اور کافر کہتے ہیں کہ ان پر (فلاں) معجزہ ان کے پروردگار کی طرف سے کیوں نہیں اترا بیشک آپ تو بس ایک ڈرانے والے ہیں۔ اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی ہوتا ہے۔ ( رعد ٧)۔
اور البتہ تحقیق ہم نے ہر امت میں یہ پیغام دے کر رسول بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو اور شیطان سے بچو (النخل ٣٦)۔
ہم نے تم کو حق کے ساتھ خوشخبری سنانے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں مگر اس میں ہدایت کرنے والا گزر چکا ہے (فاطر ٢٤)۔
لیکن ساتھ ہی اس نے یہ تصریح بھی کردی ہے کہ قران میں تمام رسولوں کا ذکر نہیں کیا گیا _
اور ہم نے تم سے پہلے (بہت سے) پیغمبر بھیجے ان میں کچھ تو ایسے ہیں جن کے حالات تم سے بیان کر دئیے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کیے ( غافر ٧٨)۔
یہ ظاہر ہے کہ قومیں بے شمار گزر چکی ہی ہیں اور اسکی بھی قرآن میں تصریح موجود ہے کہ ہر قوم میں دعوت حق کا ظہور ہوا ہے ، جن میں سے چند ہی کا قرآن نے ذکر کیا ہے _ باقی کا نہیں کیا۔
قرآن نے ایسا کیوں کیا ؟
اس کا سبب بالکل واضح ہے۔ قران کا مقصود ان سرگزشتوں کے بیان سے یہ نہیں تھا کہ تاریخ کی طرح تمام واقعات کا استقصاء کیا جائے بلکہ صرف تذکیر و موعظت تھا اور تذکیر و موعظت کیلئے اس قدر کافی تھا کہ چند اہم دعوتوں اور قوموں کی سرگزشتیں بیان کردی جاتیں اور باقی کا جہاں ضروری ہوتااشاروں سے بتادیا جاتا ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس بارے میں قرآن کا اسلوب بیان ہر جگہ عام ہے ،جا بجا اسکی تعبیرات پائی جاتی ہے کہ پچھلے قرنوں میں ایسا ہوا ۔ پچھلی قوموں میں ایسا ہوا ۔پچھلی آبادیوں میں ایسا ہوا۔ پچھلے رسولوں کے ساتھ اس طرح کے معاملات پیش آئے ۔البتہ جہاں کہیں تخصیص کیساتھ ذکر کیا ہے وہاں صرف چند قوموں ہی کی سرگزشتیں بیان کی ہیں جس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ چند سرگزشتیں پچھلی قوموں کے ایام وو قائع کا نمونہ سمجھا جائیں ۔ اور ان سے یہ اندازہ کر لیا جائے کہ اس بارے میں تمام اقوام عالم کی رودادیں کیسی رہ چکی ہیں ؟
اگلا سوال یہ کیا جاسکتا ہے کہ قرآن میں کیوں خصوصیت کے ساتھ ان چند قوموں ہی کا ذکر کیا گیا ہے جو ایک خاص خطہ ارضی میں گزر چکی تھیں دوسرے خطوں کے اقوام میں سے کسی کا ذکر کیوں نہیں کیا ؟
اس کی وجوہ بھی واضح ہیں اگر تھوڑی سی دقت نظر کام میں لائی جائے _ یہ ظاہر ہے کہ ایام ووقائع کے ذکر سے مقصود بعض مقاصد کیلئے استشہاد تھا اور یہ استشہاد جب ہی موثر ہو سکتا تھا کہ جن ایام ووقائع کا ذکر کیا جائے ان کے وقوع سے مخاطب بےخبر نا ہوں۔ کم از کم انکی بھنک کانوں میں پڑ چکی ہو۔ یا نا پڑ ی ہوتو اپنے پاس کے آدمیوں سے حال پوچھ لے سکتے ہوں ۔ ورنہ ظاہر ہے لوگ کہہ دیتے کہ پہلے ان وقائع کا وقع ثابت کردو ۔ پھر ان سے ہمیں عبرت دلانا۔۔!اور اس طرح عبرت و تذکیر کا سارا مطلب ہی فوت ہوجاتا ۔
اب دیکھیں قرآن نے جن ایام ووقائع کا ذکر کیا ہے وہ زیادہ تر کن خطوں میں واقع ہوئے تھے ؟ یعنی ان کی جغرافیائی حدود کیا ہیں ؟ یہ تمام وقاع یا تو خود عرب میں ہوئے یا سر زمین دجلہ و فرات میں یا پھر مصر و فلسطین اور یہ تمام خطے ایک دوسرے سے متصل تھے ۔تجارتی قافلوں کی شاہراہوں سے باہمدگر پیوستہ تھے، آمدورفت کے علائق کا قدیم سلسلہ رکھتے تھے اور نسلی ولسانی تعلقات کے لحاظ سے بھی ایک ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہوئے تھے _
چنانچہ قران نے انہی خطوں کا ذکر کیا جو فی الحقیقت تاریخ اقوام کا ایک ہی وسیع خطہ رہ چکا ہے ۔ دوسرے خطوں سے تعرض نہیں کیا کیونکہ اول مخاطبین کیلئے ان خطوں کا ذکر ان کی شب وروز کی باتوں کا ذکر تھا اور وہ جھٹلانے کی جرات نہیں کر سکتے تھے عرب خود ان کا ملک تھا ۔ عراق کیساتھ ان کے تعلقات تھے ۔ فلسطین کے کھنڈروں پر ہر سال گزرتے رہتے، مصر ان کی تجارتی قافلوں کی منڈی تھی ۔ ان ملکوں کا نام سننا گویا اپنی چاروں طرف نظر اٹھا کر دیکھ لینا تھا پھر جن قوموں کا ذکر کیا گیا ان کے ناموں سے بھی وہ ناآشنا نہ تھے قوم تبغ اور اصحاب احدود یمن سے تعلق رکھتے تھے اور یمن عرب میں ہے ۔ عاد اور ثمود کی بستیاں بھی عرب ہی کے حدود میں تھیں ۔ قبیلہ مدین بلکل عرب کے پڑوس میں تھا ۔ قون لوط کے کھنڈر ان میں سے سینکڑوں اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ۔ سرزمین دجلہ وفرات کی قوموں اور ان کی روائتوں سے بھی نا آشنا نہیں ہو سکتے تھے ۔ مصر میں گو مصر کے فرعون اب نہیں رہے تھے لیکن مصر میں برابر آتے جاتے رہتے تھے فراعنہ کے نام سے ان کے لئے اجنبی نام نہیں ہو سکتے تھے۔ علاوہ بریں یہودی اور عیسائی خود ان کے اندر بسے ہوئے تھے۔ انبیائے بنی اسرائیل کے نام انکی زبانوں پر تھے ‘ تفصیلات ربیوں اور راہبوں کو معلوم تھیں ۔ یہ ان سے پوچھ سکتے تھے ۔اور پوچھا کرتے تھے ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قران نے ایام ووقائع کے بیان و استدلال میں جابجا اس طرح کا اسلوب اختیار کیا ہے ۔ جیسے ایک جانی سوجھی ہوئی بات کی طرف اشارہ کیا جائے ۔ مثلا جابجا فرمایا __!
اَلَمْ يَاْتِكُمْ نَبَاُ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ( ابراھیم ٩)
جو قومیں تم سے پہلے گزر چکی ہے کیا تم تک ان کی خبریں نہیں پہنچ چکی ہیں ؟
یا مثلا جابجا اس طرح کی تعبیرات پاؤ گے ۔
أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ (( فاطر 4)
کیا یہ لوگ ملک میں چلے پھرے نہیں کہ دیکھے پچھلی قوموں کا کیا انجام ہو چکا ہے ؟
کیونکہ واقعہ یہ تھا کہ وہ برابر چلتے پھرتے رہتے تھے ۔ یعنی ہر موسم میں تجارت کیلئے نکلتے تھے ۔ اور اسنائے سفر میں کتنی اجڑی ہوئی بستیاں مٹتے ہوئے نشان اور سنسان کھنڈر ان کی نظر سے گزرتے تھے ۔ بلکہ بعض اوقات انہی میں منزل کرتے اور انہی کے سایوں میں دوپہر کاٹتے تھے ۔ اور پھر جابجا اس طرح کی تصریحات ہیں کہ یہ مقامات تم دور سے نہیں کہ بعد کی وجہ سے بالکل بے خبر رہو ہو ۔ اور یہ بھی کہا کہ کیا علماء بنی اسرائیل سے یہ سرگزشتیں نہیں سنیں ؟ اور اگر بےخبر ہو تو علم والوں سے یعنی علمائے اہل کتاب سے دریافت کرلو جو تم ہی میں بسے ہوئے ہیں اور پھر بعض مقامات میں عرب کے حوالی و اطراف کی بھی تصریح کر دی ہے ۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیان و وقائع میں قصدا یہ بات ملخوط رکھی گئی ہے کہ سر زمین عرب و اطراف جو انب ہی کے وقائع ہوں مثلا سورہ احقاف کی آیت ٢٧ میں قوم عاد کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا
(وَلَقَدْ أَهْلَكْنَا مَا حَوْلَكُم مِّنَ الْقُرَىٰ وَصَرَّفْنَا الْآيَاتِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ ( 27 , احقاف
اور تمہارے اردگرد کی بستیوں کو ہم نے ہلاک کر دیا۔ اور بار بار (اپنی) نشانیاں ظاہر کردیں تاکہ وہ رجوع کریں ۔
یہ ظاہر ومعلوم ہے کہ ان واقعات کی مکمل تفصیلات سے لوگ نا آشنا تھے۔ اور بعض وقائع ایسے تھے جن کی صرف کانوں میں بھنک پڑ چکی تھی کوئی نہیں جانتا کہ معاملہ کس طرح واقعہ پیش آیا ہے اور صحیح سرگزشت کیا ہے ؟ نہ صرف عرب میں بلکہ ان خطوں میں جہاں وہ پیش آئے ۔ جن وقائع کا ذکر تورات میں موجود تھا ان کی بھی بعض حقیقتیں مخرف ہوگئیں تھیں ۔اور خود اہل کتاب کو بھی خبر نہ تھی کہ اصلیت کیا رہ چکی ہے پس قران نے انکی حقیقت ٹھیک ٹھیک واضح کردی ہر معاملہ اپنی اصلی صورت میں نمایا ں ہوگیا ۔ بعض وقائع کی نسبت تصریح کردی کہ اس سے باشندگان عرب بلکل ناآشنا تھے یعنی نام تو سن لیا تھا لیکن اسکی یہ تفصیلات اور جزئیات کسی کو بھی معلوم نہ تھیں ۔ مثلا اسی سورت میں حضرت نوح علیہ السلام کی سرگزشت بیان کرکے آیت ٤٩ میں تصریح کردی کہ یہ باتیں نہ تو تجھے معلوم تھیں نہ تیری قوم کو ۔