نیند، خدا اور دہریت

کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ سوتے میں آپ کہاں ہوتے ہیں؟کیا نیند میں ہم معدوم نہیں ہوجاتے کہ ہمیں خود پتہ نہیں ہوتا کہ ہم کہاں ہیں؟


دنیا میں ہر چیز اپنے حوالے سے ایک جواز رکھتی ہے، مگر کچھ مظاہر تو انسانی وجود میں اس کی پیدائش کے ساتھ پیوست ہو کر اس کی ذات کا حصّہ بن چکے ہوتے ہیں کہ انسان ان کے جواز کے بارے میں بھی نہیں سوچتا۔ بے شمار ایسے مظاہر ہیں جو اتنے تواتر اور تسلسل سے ہوتے ہیں کہ انسان انہیں لاشعوری طور پرکارگاہ ِحیات کا لازم جزو سمجھ کر قبول کرتا ہے۔ ان میں ایک نیند ہے۔ نیند ایک مسٹری ہے۔


الحادی سائنس کے غلبے کے اس دور میں کسی بھی مظہر phenomenon کے جواز کا استدلال دو زاویوں سے ہوگا، ایک خدا کے حوالے سے اور دوسرا بغیر خدا کے۔ لہٰذا مندرجہ ذیل سوالات کے جواب بھی پہلے سائنس کے حوالے سے تلاش کرتے ہیں، پھر خدا کے حوالے سے جانیں گے کہ: نیند کیا ہے؟ ہمیں نیند کیوں آتی ہے؟


سائنس کے مطابق نیند ایک فطری فینامینن یا مظہر ہے، ایسی فطری خاصیت جو شعور کو وقتی طور پر معطّل کر دیتی ہے۔ اس کے مطابق نیند شعور کے بدلتے ہوئے فطری مرحلے ہیں جس میں تمام حواس اور جسم کے عضلات اطراف کے ماحول سے لاتعلّق ہوجاتے ہیں۔ درحقیقت یہ نیند کی سائنسی توجیہ کے بجائے اس کی طبعی اور علمی وضاحت ہے۔ ریسرچ کے مطابق جاگنے کے دوران اور کام کی تھکان سے جسم میں کیمیکل جمع ہوجانے سے غنودگی کا پریشر بنتا ہے، جس سے نیند کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جدید ریسرچ یہ بھی بتاتی ہے کہ نیند کے دوران جسمانی توانائی کی بحالی کے علاوہ مرمّت کے کام بھی ہوتے ہیں۔ بی بی سی کی رپورٹ سے مختصر اقتباس:

So why do we sleep? This is a question that has baffled scientists for centuries and the answer is, no one is really sure. Some believe that sleep gives the body a chance to recuperate from the day’s activities but in reality, the amount of energy saved by sleeping for even eight hours is miniscule – about 50 kCal, the same amount of energy in a piece of toast.

http://www.bbc.co.uk/science/humanbody/sleep/articles/whatissleep.shtml

تو ہم کیوں سوتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس نے سائنسدانوں کو صدیوں سے چکرایا ہوا ہے اور جواب یہ ہے کہ کسی کو بھی یقینی پتہ نہیں۔ نیند کے کردار کو سمجھنے کے لیے یہ اچھا طریقہ ہوگا کہ دیکھا جائے کہ اگر نہ سوئیں تو کیا ہوگا، نیند کے فقدان سے دماغ کی کارکردگی پر سنگین اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔

یہ وضاحت اس بارے میں خاموش ہے کہ آخر حیات کی ارتقاء میں نیند کی ضرورت کیوں پڑی؟ اور انسان اس کا محتاج کیوں ہوا؟ انسان کی زندگی کے تقریباً ایک تہائی وقت کو استعمال کر جانے والے اس اہم معاملے میں سائنس گو مگو کا شکار ہے اور غالباً اسے بھی ارتقائی مراحل میں کوئی اتفاق ہی سمجھا جا رہا ہو۔ جدید سائنس حیات کی تشریح کے اپنے ہی نظریے یعنی ارتقاء میں نیند کا جواز نہیں دے پائی! نیچرل سلیکشن کا نظریہ وہ جادوئی چھڑی ہے جسے سائنسدانوں نے ہر مصیبت کے وقت اپنے بچاؤ کے لیے تخلیق کیا ہے۔ حیات کی ارتقاء کے ہر ناقابل تشریح موڑ پر یہ ایک آٹو اسٹیرنگ auto-stearing ہے جو خود ہی گھوم جاتا ہے۔ اس کا لبّ لباب یہ ہے کہ انسان نیچرل سلیکشن کی جادوئی کرامت سے اپنی بقا کے لیے حالات کے مطابق خود کو ڈھالتا رہا ہے، اور نیند بھی نیچرل سلیکشن کی کرامت ہے کہ بقا کا لازمی جز بنی!


لیکن کائناتی نظم میں نیند کو اتفاق قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ نظام ِحیات میں نیند کی موجودگی کو اتّفاق سمجھنے پر غور اسی صورت میں منطقی ہوتا جب نیند صرف انسان پر طاری ہوتی لیکن نیند عمومی طور پر ہر زندگی کے ساتھ منسلک ہے کہ خواہ انسان ہو یا چرند، پرند، درند سب ہی اس کے اسیر ہیں۔ تو سوال یہی اُٹھتا ہے کہ ایک آفاقی مظہر phenomenon بغیر کنٹرول اور نظم کے مختلف طرح کی زندگیوں کا ایک یکساں پیرائے میں لازم جزو کیسے بن سکتا ہے؟


اور ان سوالات کا جواب تو سوچتا ذہن مانگے گا نا کہ:


ارتقاء کے سارے پراسس میں نیند کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟


فطرت نے انسانی ارتقاء میں نیند پر انحصار ہی کیوں کیا؟

کیا ہم آج بھی اپنی حیات کی بقاء اور ارتقائی مرحلے خود تجویز کرتے ہیں؟


ہم سب کا تجربہ ہے اور سائنس کی تحقیق بھی کہ نیند میں توانائی کا نظام کھوئی طاقت دوبارہ حاصل کر کے بحال ہوتا ہے، مگر نکتہ غور کرنے کا یہ ہے کہ نیند کے دوران توانائی کی بحالی کا عمل کسی پس پردہ نظم کو بھی تو ظاہر کرتا ہے! گویا جب انسان کا شعور معطّل ہوجاتا ہے، اور انسان بظاہر نیم مردہ ہوجاتا ہے تو اس دوران بھی اندر کوئی تعمیری نظام چل رہا ہوتا ہے۔ یہ تعمیری نظام کس کے اشارے پر چل رہا ہوتا ہے؟ اس سسٹم کے کنٹرولنگ پیرامیٹرز کیا ہیں؟ کیا سائنسدان کسی پس پردہ سسٹم کو محض خودکار یا فطرت کا عطیہ کہہ کر جان چھڑا سکتے ہیں؟ نیند کا ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ انسان کا جسم سوتا ہے لیکن دماغ نہیں سوتا۔ نیند میں صرف دماغی توانائی کا فضلہ مرمّت کے عمل میں تحلیل ہوتا ہے۔

ثابت یہی ہوتا ہے کہ نیند ایک ذہین تخلیق intelligent-creation کے سوا اور کچھ نہیں۔ گویا کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو حیات کی بقا survival اور اس کے ارتقائی پیرامیٹرز کے بارے میں ایک فیصلہ کرنا تھا کہ نیند اس میں شامل ہو یا نہ ہو۔ جو کیا گیا! تو وہ فیصلہ کرنے والا کون تھا یا کون ہوسکتا ہے؟

دوستو! سائنس اور سائنسدان کے علم سے مرعوب نہ ہوں یہ علوم صرف ایک عظیم تر اُلوہی سائنس کی انسانی تشریح ہے اور بس!

اب دیکھیں کہ نیند کا تذکرہ قرآن کیسے کرتا ہے۔


“اور نیند کو باعث راحت بنایا۔” قرآن: (سورۃ ۷۸ آیت۹)


اور وہ اللہ ہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے لباس، نیند کو سکون اور دن کو جی اٹھنے کا وقت بنایا۔” قرآن: (سورۃ ۲۵ آیت۴۷)


قرآن تین چیزوں کا حاکمانہ انداز میں تذکرہ کر رہا ہے۔ رات، نیند اور دن، نیند کو انسان کی راحت اور سکون کے لیے بنایا گیا! رات آرام کے لیے اور دن کام کے لیے۔ یہ واضح ہو کہ اسلام کی رو سے اس نہایت مربوط نظام کائنات میں انسان محض ایک کَل پُرزہ نہیں بلکہ اس نظام کا محو ر ہے، اسے ایک مقصد کے تحت یعنی ایک امتحان کے لیے یہاں اُتارا گیا ہے، اسی انسان کو فعّال اور مصروف رکھنے لیے دن بنائے گئے جبکہ رات کو مخلوق کے آرام کا وقت بنایاگیا۔ رات طاری ہوتی ہے تو لباس کی طرح ماحول کو ڈھک لیتی ہے جس سے مخلوق پر نیند طاری ہوتی ہے۔ انسان بھی نیند میں سکون کی کیفیّت میں چلا جاتا ہے جس میں توانائی بحال اور انسان چاق و چوبند ہو کر کارزار حیات میں مشغول ہونے کو تیّار ہو جاتا ہے۔ پھر روشن دن آجاتا ہے اور انسان کا عملی امتحان شروع۔ دن اور رات کا آنا اور جانا پھر رات میں سونا انسان کے لیے ایک فطری جبر ہے جس سے اسے مفر نہیں۔ نیند تخلیق ِحیات میں اہم عنصر ہے جو ہر ذی حیات کو تازہ دم کر دیتا ہے۔


اب ایک دوسرے مگر کشادہ تر پیرائے میں نیند اور انسان کا جائزہ لیں تو ایک پیچیدہ تر نظم سامنے آتا ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ قرآن دن رات اور نیند کا حوالہ دے رہا ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ایک طرف انسان ہے تو دوسری طرف نظام شمسی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نیند کے حوالے سے ان دونوں میں ایک گہرا تعلّق اور بھی ہے جو کہ انسانی جسم میں موجود ایک حیاتی و کیمیائی یعنی بائیو کیمیکل گھڑی کی شکل میں موجود ہے۔ سائنسدان اس کو سرَکیڈیَن کلاک circadian-clock یعنی شبانہ روز گھڑی کا نام دیتے ہیں۔ یہ جسمانی گھڑی بائیو کیمیکل سرکٹ کے تئیں اندرونی حیاتی نظام کے پیرایوں کو باہر کے دن اور رات کے نظام اور ماحول کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنا ممکن بناتی ہے۔ ہمارے اندر موجود circadian-rhythm یعنی روز و شب کی تال ہی ہمارے جسم کو سونے، جاگنے اور کھانے پینے کے اوقات بتاتی ہے۔ یہ گھڑی بھی چوبیس گھنٹے کا دورانیہ رکھتی ہے، یعنی ایک دن اور رات کے برابر۔ اسی اندرونی نظام کے بموجب ہمارا سونا جاگنا عموماً باہر کے روشن و تاریک ماحول سے ہم آہنگ رہتا ہے۔ اس کی عام مثال امریکہ سے آنے والے مسافر کے نیند کے اوقات کا ڈسٹرب ہونا بھی ہے، جسے جیٹ لیگ jet-leg کہا جاتا ہے، جس کا چند دن میں درست ہوجانا تو ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ مسلسل روشنی یا اندھیرا رکھ کر انسان کی جسمانی گھڑی کو آگے پیچھے کیا جاسکتا ہے۔ کچھ جاندار رات کو جاگتے اور دن میں سوتے ہیں بلکہ پھول، پودے درخت بھی دن رات کے حوالے سے ایک نظم رکھتے ہیں۔ غور طلب یہی نکتہ ہے کہ نظام شمسی اور جانداروں کی اجسامی گھڑیوں کا تعلّق بغیر کسی پلاننگ کے کیسے ہوسکتا ہے؟


یہاں منکرین سے سوال ہے کہ:


یہ گھڑی جسم میں کیوں بنی؟


ہمارے جسم کی گھڑی کو کیسے معلوم ہوا کہ زمین چوبیس گھنٹے میں سورج کے گرد گھومتی ہے؟


لیکن نیند کے اس معمّے کے اندر ایک اور معمہ بھی ہوتا ہے اور وہ ہے خواب؟


کیا سائنس بتا پائی کہ ارتقاء میں نیند اور پھر اس کے اندر خواب کا کیا جواز ہے؟


ذرا سوچیں!


تحریر مجیب الحق حقی