انسان-سائنس جسے دریافت نا کرپائی

نوبل انعام یافتہ سائنسدان الکسس کیرل لکھتا ہے:

”انسان ایک انتہائی پیچیدہ اور ناقابل تقسیم کل ہے۔ کوئی چیز بھی آسانی کے ساتھ اس کی نمائندگی نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسا طریقہ نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم بیک وقت اس کی پوری ذات کو اس کے اجزاء اور بیرونی دنیا کے ساتھ اس کے تعلقات کو بخوبی سمجھ سکیں۔ اپنی ذات کا تجزیہ کرنے کیلئے ہمیں مختلف فنی مہارتوں سے مدد لینی پڑتی ہے۔ اور اس طرح مختلف علوم سے کام لینا ہوتا ہے۔ فطری طور پر یہ تمام علوم اپنے کسی عام مقصد کے متعلق کسی ایک متحدہ تصور پر نہیں پہنچتے ۔ وہ انسان سے صرف انہیں چیزوں کی تجرید کرتے ہیں جو ان کے خاص طریقوں سے حاصل ہو سکتی ہے اور ان مجردات کو ایک دوسرے سے ملا بھی دیا جائے تو وہ ایک ٹھوس حقیقت سے بھی کم قیمتی ہوتے ہیں ۔ ان مجردات کے بعد بھی ایک ایسی ذات باقی رہتی ہے جو بہت ہی اہم ہوتی ہے اور اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ علم تشریح ، کیمیا ، فعلیات ، نفسیات، تعلیمات، تاریخ، سماجیات، سیاسی اقتصاد یات اپنے موضوع کو پورے طور پر ختم نہیں کرتے۔ وہ انسان جس سے خصوصی ماہرین آشنا ہیں ، حقیقی انسان سے بہت دور ہوتا ہے۔ وہ( انکی تحقیق) ایک مفروضہ کے سوا اور کچھ نہیں جو مختلف مفروضات پر مشتمل ہے۔ اور جن کو ہر ایک علم کی فنی مہارتوں نے پیدا کیا ہے۔

انسان بیک وقت ایک لاش ہے جس کو تشریح کا عالم چیرتا پھاڑتا ہے ،

وہ ایک شعور ہے جس کا ماہر ین نفسیات اور بڑے بڑے روحانی اساتذہ مشاہدہ کرتے ہیں۔

وہ ایک شخصیت ہے جس کے اندر دیکھنے سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اس کی ذات کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے،

وہ کیمیائی مادہ بھی ہے جس سے جسم کی نسیجیں اور خلطیں بنتی ہیں وہ خلیوں اور تغذیاتی رطوبتوں کا ایک حیرت انگیز گروہ ہے جن کے جسمانی قوانین کا مطالعہ ماہرین فعلیات کرتے ہیں،

وہ نسیجوں اور شعور سے مرکب ہے جس کو حفظان صحت اور تعلیمات کے ماہرین ، جب کہ وہ زمان کے اندر پھیل رہا ہو، امید افزا اترقی دینے کی کو شش کرتے ہیں ۔۔

وہ ایک گھریلو اقتصاد یات کا حامل ہے جس کا کام پیدا کی ہوئی چیزوں کو استعمال کرتے رہنا ہے تاکہ مشینیں جن کا وہ غلام بن گیا ہے برابر کام کرتی رہیں۔

لیکن

اسی کے ساتھ ساتھ وہ ایک شاعر ، سو رما اور ولی بھی ہے،

وہ نہ صرف ایک انتہائی پیچیدہ ہستی ہے جس کا تجزیہ سائنس کی فنی مہارتوں کے ذریعہ کیا جارہا ہے بلکہ وہ انسانیت کے رجحانات قیاسات اور آرزوؤں کا مرکز ہے۔

بلا شبہ انسانیت نے اپنی حقیقت کو معلوم کرنے کی بڑی زبردست کوشش کی ہے ، آج ہمارے پاس تمام زمانوں کے سائنس دانوں فلسفیوں ، شاعروں اور بڑے بڑے صوفیوں کے مشاہدات کا ایک انبار موجود ہے مگر ہم اپنی ذات کے صرف چند پہلوؤں کو دریافت کر سکے ہیں ، ہم انسان کو اس کی کلی حیثیت میں بخوبی سمجھ نہیں سکے ہیں۔ ہم اس کو الگ الگ حصوص سے مرکب جانتے ہیں اور یہ حصے بھی ہمارے اپنے طریقوں کے پیدا کردہ ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص ایک خیالی پیکر ہے جس کے اندر سے ایک نامعلوم حقیقت جھلک رہی ہے۔

حقیقت میں ہماری ناواقفیت بہت گہری ہے۔ وہ لوگ جو انسانی ہستیوں کا مطالعہ کرتے ہیں، اپنے آپ سے بہت سے ایسے سوالات کرتے ہیں جن کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ہماری اندرونی دنیا کے وسیع علاقے اب تک نا معلوم ہیں۔

خلیے کے پیچیدہ اور عارضی اعضاء کے بنانے کے لئے کس طرح کیمیائی مادوں کے سالمے باہم مل جاتے ہیں؟

تر و تازہ بیضہ کیے نیوکلیس کے اندر کے نسلی مادے کس طرح اس فرد کی خصوصیات کا فیصلہ کرتے ہیں جو اس بیضہ سے پیدا ہوتا ہے؟

کس طرح خلیے خود اپنی کوششوں سے نسیجوں اور اعضا کے جیسے گروہوں میں منظم ہو جاتے ہیں چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں کی طرح ان خلیوں کو پہلے ہی سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے گروہ کو زندہ رکھنے میں انہیں کیا کام کرنا ہے۔ ؟ اور چھپی ہوئی بناوٹوں کے ذریعہ وہ ایک ایسے نظام جسمانی کے بنانے کے قابل ہوتے ہیں جو سادہ اور پیچیدہ دونوں ہوتا ہے۔

ہماری مدت  (Duration)، فعلیاتی وقت(Physiological Time) اور نفسیاتی وقت(Psychological) کی نوعیت کیا ہے۔ ؟

ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم نسیجوں ، اعضاء رطوبتوں اور شعور سے مرکب ہیں۔ لیکن شعور اور دماغ کے درمیانی تعلقات اب تک ایک راز بنے ہوئے ہیں۔ہمیں اعصابی خلیوں کے فعلیات کا پورا پورا علم حاصل نہیں۔ ارادی قوت کس حد تک نظام جسمانی میں تبدیلیاں پیدا کرتی ہے، کس طرح دماغٖ اعضاء کے حالات سے متاثر ہوتا ہے، طرز زندگی غذا کے کیمیائی مادوں، آب و ہوا اور فعلیاتی اور اخلاقی تربتوں کے ذریعہ کس طرح جسمانی اور دماغی خصوصیات میں جو بطور ورثت ہر ایک فرد کو ملتی ہیں ،تبدیلیاں پیدا کی جاسکتی ہیں۔۔اس طرح بہت سے دوسرے سوالات کیے جاسکتے ہیں جنکا جواب نہیں دیا جاسکتا ہے، یہ صاف ظاہر ہے کہ ایک انسان کے متعلق تمام علوم کی مہارت بھی ناکافی ہے، اور یہ کہ اپنی ظاات کے متعلق ہمارا علم اب تک ابتدائی حالت میں ہے“۔(Man The Unkhown P.16,19)

یہ اقتباس یہ ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے کہ انسان کا مکمل علم ابھی تک انسان کو حاصل نہیں ہوسکا۔ انسانی وجود کے مادی حصہ کے بارے میں تو ہم بہت کچھ جانتے ہیں۔ مگر وہ انسان جو اس مادی وجود کو کنڑول کرتا ہے اس سے ہم قطعاً لا علم ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ زندگی اب تک ہمارے لئے ایک راز بنی ہوئی ہے اور جب تک یہ راز نہ کھلے زندگی کی صحیح تعمیر و تشکیل ممکن نہیں۔

انسان کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش – ایک مثال

فرض کیجئے ایک شخص اپنے ذمہ یہ کام لیتا ہے کہ وہ انسانیت کی حقیقت کو معلوم کرے گا، اور انسانوں کو بتائے گا کہ زندگی کا قانون کیا ہے۔؟ اس مقصد کے لئے و ہ انسانی آبادیوں سے اپنے مطالعہ کا آغاز کرتا ہے۔ لمبے عرصہ تک مختلف سماجوں کی چھان بین کرنے کے بعد اس کو محسوس ہوتا ہے کہ سماج تو انسانوں کے مجموعہ کا نام ہے۔ اس لئے جب تک ہم فرد کو سمجھ نہ لیں، جماعت کو کس طرح سمجھ سکتے ہیں ۔

اب وہ معاشرہ کو چھوڑ کر انسان کا مطالعہ شروع کر تا ہے ۔ اس سلسلہ میں وہ سب سے پہلے نفسیات کی طرف رخ کرتا ہے، یہاں وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کا کوئی ایک فکر نہیں بلکہ اس کی بہت سی شاخیں ہیں۔ اور سب کے نتائج تحقیق الگ الگ ہیں۔

نفسیات کی ایک شاخ کا دعویٰ ہے کہ انسان کے تمام اعمال کا مرکز اس کا احساس ہے۔

کسی کا کہنا ہے کہ انسان خارجی دنیا سے شعوری یا غیر شعوری طور پر جوتا ثر قبول کرتا ہے اس کا ہر کام اسی کا رد عمل ہے ،

کوئی جنسی خواہشات کو اس کے تمام اعمال کا محرک بتاتا ہے ،

کسی کا مطالعہ یہ ہےکہ اپنے آئیڈیل کو پالینے کا نامعلوم جذبہ انسان کو متحرک کئے ہوئے ہے۔

کوئی مکتب فکر شعور کو اصل قرار دیتا ہے اور اسی کی روشنی میں انسان کی پوری ہستی کی تشریح کرتا ہے ۔

اور کوئی اس بات کا قائل ہے کہ عقل اور ذہن کوئی چیز نہیں۔ انسان کے مختلف اعضا کی عنان کسی ایک مرکزی قوت کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ انسان جس حصہ جسم پر زیادہ توجہ دیتا ہے اس کی نشو نما بہتر طریقہ سے ہو جاتی ہے ۔ اس کے نتیجہ میں کوئی اچھا رقاص بن جاتا ہے ، کوئی اچھا مفکر ۔

اسی طرح ہزاروں نظریات ہیں، نفسیات کا یہ اختلاف اس حد تک بڑھا ہوا ہے کہ بعض سرے سے اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں کہ اس نام کا کوئی علم فی الواقع موجود ہے۔

خیالات کے اس جنگل کو دیکھ کر وہ سوچتا ہے کہ انسانی وجود کے دوسرے حصے حیاتیات کا مطالعہ کرے تا کہ دونوں کے نتائج کو ملا کر کوئی رائے قائم کی جا سکے جب انسان کو وہ اس حیثیت سے دیکھتا ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ انسانی نظاموں کی بنیاد چند کیمیاوی تبدیلیوں پر ہے جو کچھ کیمیاوی اشیاء اور ان کے آپس کے عمل اور رد عمل سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جسم کا سارا نظام کیمیائی تحلیل کا ہی ایک پیکر ہے۔

اب وہ غور کرتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ جب جسم انسانی کا وجود اور اس کا نشونما کیمیاوی رد و بدل کا مر ہون منت ہے تو پہلے کیمیاوی تبدلیوں کے اصولوں کو ہی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے ۔ اس کے بغیر انسان کے بارے میں حقیقی اور قابل اطمینان معلومات نہ مل سکیں گی۔ اس لئے اب وہ کیمیا اور طبیعیات کا مطالعہ کرنے لگتا ہے اور اس میں ایک عمر کھپا دیتا ہے۔

کیمیا ت اور طبعیات کا مطالعہ اسے مالیکیول اور ایٹم کے مطالعہ تک لے جاتا ہے اور پھر وہ ایٹم کے اجزائے تر کیبی الیکٹران اور پروٹان وغیرہ کا مطالعہ شروع کر دیتا ہے جس کے بعد اس کو معلوم ہوتا ہے ہے کہ ساری کائنات برقی لہروں کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح مطالعہ کرتے کرتے بالاخر وہ جدید سائنس کے آخری شعبے نیو کلیر سائنس میں داخل ہو جاتا ہے اس طرح معلومات کا عظیم دفتر جمع  کرنے کے باوجود وہ کسی نتیجہ پر نہیں پہنچتا ۔۔۔

یہ وہ ہے جو خالق کی حقیقت جاننے چلا تھا وہ مخلوق کی ایک جنس کی حقیقت معلوم کرنے کی کوشش میں ہی ایک ایسی دنیا میں گم ہو گیا جو نظر آنے کے باجود نظر نہیں آتی ۔۔

زندگی کے راز کو مادی علوم میں تلاشی کرنے کا یہ عبرت ناک انجام بتاتا ہے کہ زندگی کا راز زندگی کو پیدا کرنے والے کی  تفصیلات سے فائدہ اٹھائے بغیر انسان کے لئے نا قابل دریافت ہے۔ جس طرح ایک بیمار شخص کی یہ معذوری کہ وہ خود اپنا علاج نہیں کر سکتا، اس کو یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ ا س کو ایک ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے۔ اسی طرح نظام فطرت میں انسان کا ایک چیز کے لئے ضرورت مند ہو نا اور پھر اس ضرورت کی تکمیل کے لئے کافی صلاحیت نہ رکھنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اس کیلئے وہ اپنے اس خدا کا محتاج ہے جس نے اسے موجودہ شکل میں بنایا ۔ جس طرح خدا نے اسے آکسیجن کا محتاج بنایا ہے اور پھر آکسیجن بے حساب مقدار میں سارے کرہ ارض کے گرد پھیلا دی ۔ اسی طرح اس نے انسان کو زندگی کی حقیقت جاننے کا محتاج بنایا ۔ اور پھر اپنے نبیوں کے ذریعہ زندگی کی حقیقت واضح فرمائی۔

(مذہب اور سائنس)