خدا، انسانی نَشوونما، بڑھاپا اور سائنس

اگر ہم اطراف پر نظر ڈالیں تو یہی نظرآتا ہے کہ انسان نے مجموعی طور پر خدا کو بھُلا کر اپنی اجتماعی زندگی سے ایسے خارج کردیا ہے کہ جیسے خدا ہے ہی نہیں۔ ملکوں کے نظام سے لے کر بین الاقوامی سطح پر اہم سیاسی عہد نامے جیسے انسانی حقوق کاچارٹر اور مختلف نظام ہائے حکومت وغیرہ میں خدا کا تذکرہ بھی نہیں ملتا۔ جدید فلاسفر اور سائنسدان بھی ہر مظہر کی تشریح خدا کے بغیر کرنے پر مصر ہیں۔ گویا یہ دور خدا کے حامی اور مخالفین کے درمیان غلبے کی حتمی رسّہ کشی کا ہے۔ ہمارے اطراف موجود ہر ہر فطری مظہر natural-phenomenon کا اپنی موجودگی کا کوئی نہ کوئی مضبوط جواز رکھنا ایک منطقی بات ہے۔ اس کی وضاحت کے دو ہی طریقے ہیں، یا تو خدا کے حوالے سے اس کی تشریح کی جائے گی یا پھر منکر خدا اس کی وضاحت کرے گا کیونکہ تیسرا کوئی راستہ نہیں۔ ان فطری مظاہر کی ساخت میں بہت سی باتیں اہم ہوتی ہیں لیکن پے درپے بدلتے حالات اور روزمرّہ کے معاملات کا جبر عام انسان کو اس طرف سوچنے کا موقع نہیں دیتا اور انہیں فطرت کی عطا سمجھ کر for-grantedقبول کیا جاتا ہے۔ اب یہی دیکھیں کہ ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ :


انسان بڑا کیوں ہوتا جاتا ہے؟

آخر کیوں بچپن کے بعد جوانی اور پھر بڑھاپا آتا ہے؟


آخر کیوں انسان ایک خاص عمر سے آگے نہیں بڑھ پاتا؟


کیوں انسان کا قد ایک خاص مقام پر ٹھیر جاتا ہے؟


انسان ہمیشہ زندہ کیوں نہیں رہتا؟

انسان بوڑھا کیوں ہوتا ہے اور مرتا کیوں ہے؟

اتنے ضروری سوال ہم اس لیے نظرانداز کیے رہتے ہیں کیونکہ ہر نو مولود کا بڑھنا ایک طبعی حقیقت ہے جو قدرتی تسلسل رکھتا ہے اور ہم نے اسے بھی دن اور رات کی آمد کی طرح ایک لازمی فطری مظہر سمجھ کر قبول کیا ہوا ہوتا ہے۔ صدیوں کے تجربات کے بموجب ہمارے لاشعور میں یہ تاثر سختی سے ثبت ہوچکا ہے کہ بڑھنا انسان کا مقدّر ہے جو کہ ہو کر رہنا ہے۔ لیکن دوسری طرف ان سوالات پر غور ہی ہم پر انسان کی ایک مخلوق کے حوالے سے حقیقی پوزیشن کو آشکارہ کرتا ہے۔ وہ کیسے؟


پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ انسان میں بالیدگی کیوں ہوتی ہے۔ یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ انسان ایٹم اور خلیات سے بنا ہے۔ لیکن انسان کے بڑھنے کے باب میں زیادہ حیران کر نے والی یہ سائنسی تحقیق ہے کہ انسانی خلیات ہر دم مرتے یا معدوم ہوتے اور ان کی جگہ نئے زندہ خلیات لیتے رہتے ہیں۔ اس عمل کو میٹوسس mitosis کہا جاتا ہے جس میں سیل اپنی کاپی بناکر یا خود کو replicate کر کے دو سیل میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ یہی عمل شکم ِمادر سے لیکریک نومولود بچّے میں جاری رہتا ہے کہ وہ بچپن، لڑکپن اور جوانی کے ادوار سے گزرتا بڑا ہوتا جاتا ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ کے مسلسل عمل میں ایک اندازے کے مطابق انسانی جسم کے تمام سیل، سوائے دماغ اور کچھ حواس کے، سات سے دس سال میں بدل چکے ہوتے ہیں، گویا زیادہ سے زیادہ دس سال میں ہمارا ہڈّیوں کا ڈھانچا بمعہ ہر عضو اور ریشے کے پورا تبدیل ہو جاتا ہے، یعنی ایک نیا جسم! اگرچہ وہ بالکل نیا ہی ہوتا ہے، اس کے باوجود انسان کے اپنے عمر رسیدہ یا پرانے ہونے کا تسلسل جاری رہتا ہے۔گویا اس تناظر میں انسان کا بوڑھا ہوتے جانا ایک معمّہ ہے۔ عمر رسیدہ کر دینے والایہ زبردست نظام ہر ذی حیات پر یکساں طور پر لاگو ہے خواہ انسان ہو یا حیوان و نباتات۔ عمر کے تعیّن میں ہمارے اطراف روشن اور تاریک ہوتا ماحول ہمارا پیمانہ ہے جو عمر بڑھنے کا ادراک دیتا ہے۔


اس ضمن میں اب ہم سائنس کی طرف دیکھتے ہیں کیونکہ جدید علوم یا سائنس کائنات اور حیات کے بارے میں اپنے اخذ کردہ طبعی نظریات پر ہی بھروسہ کیے ہوئے ہیں لہذا ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ علوم عمر رسیدہ ہونے یا وقت کےگزرنے کے جسم پر اثرات کی کیا تشریح کرتے ہیں۔ مختصراً دیکھیے کہ جدید سائنس اس سلسلے میں کیا کہتی ہے۔

( 1۔The National Institutes of Health say aging is actually one of nature’s least understood processes.

امریکہ کا نیشنل انسٹیوٹ آف ہیلتھ کہتا ہے کہ بوڑھا ہونا فطرت کا سب سے کم سمجھاجانے والا عمل ہے۔


http://longevity.about.com/od/whyweage/a/Understanding-The-Aging-Process.htm)

(2۔Many types of cells in the body eventually stop proliferation as their ability to divide decreases. This is called cellular senescence and is considered to be an important factor related to the aging process and life span. Although there are various etiologies of cellular senescence, the mechanism is still not well understood.

جسم میں موجود بہت سی طرح کے سیل آخر کار بڑھنا بند ہوجاتے ہیں جسکی وجہ انکی تقسیم ہونے کی صلاحیت میں کمی ہوتی ہے۔ یہ سیلولر بڑھاپا کہلاتا ہے اور انسان کے بڑھاپے اور عمر کی حد کے حوالے سے اسے اہم فیکٹر سمجھا جاتا ہے۔ اگر چہ کہ بڑھاپے کی توجیہہ کے کئی زاویئے ہیں لیکن یہ میکینزم ابھی تک پوری طرح سمجھا نہیں جا سکا ہے۔


https://www.sciencedaily.com/releases/2017/03/170308092443.htm

(3۔The scientists discovered that certain proteins, called extremely long-lived proteins (ELLPs), which are found on the surface of the nucleus of neurons, have a remarkably long lifespan. While the lifespan of most proteins totals two days or less, the Salk Institute researchers identified ELLPs in the rat brain that were as old as the organism.

سائنسدانوں نے کچھ ایسے پروٹین دریافت کیے ہیں جو طویل عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ یہ نیورون نیو کلائی(Neuron-Neucllii) کی سطح پر پائے جاتے ہیں۔ ان کی زندگی دوسرے پروٹین، جوکہ زیادہ سے زیادہ 2دن زندہ رہتے ہیں، کے مقابلے میں بہت طویل ہوتی ہے۔ SALK انسٹی ٹیوٹ میں سائنسدانوں نے چوہوں کے دماغ میں ایسے پروٹین دیکھے جن کی زندگی اتنی ہی تھی جتنے وہ خود تھے۔

؎(http://www.sciencedaily.com/releases/2012/02/120203180905.htm)

لیکن ٹھہریے کہ انسان خالق ِکائنات کا نائب ہے، ہر مظہر کی کھوج لگانا اس کی جبلّت میں شامل ہے۔ حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا کہ سیل کے اندر موجود کروموزوم جس میں DNA کا ریکارڈ ہوتا ہے، اس کے کنارے پرایک عنصر ہوتا ہے جسے Telomeres ٹیلومیرس کہتے ہیں۔ یہ حفاظتی ٹرمنل ہوتے ہیں۔ اس میں DNA کی معلومات نہیں ہوتیں بلکہ یہ ایک طرح کا حفاظتی حصار ہوتا ہے جیسے کہ کسی کتاب کے صفحے پر لکھائی کے چاروں طرف خالی جگہ۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ اس میں محفوظ معلومات برابر کی معلومات سے فاصلے پر رہیں۔ قدرتی ٹوٹنے اور بننے کے عمل کے دوران یہ حصار بار بار معلومات کے کاپی ہونے سے کسی نامعلوم وجہ یا غالباً الائنمنٹ کے کسی پوشیدہ وصف سے سکڑتا رہتا ہے جس کی وجہ سے DNA کی معلومات کی کاپی یا منتقلی میں خرابی آتی جاتی ہے۔ اسے یوں سمجھیں کہ اگر کسی صفحے کی بہت سی کاپیاں کرنی ہیں مگر فوٹو اسٹیٹ کا کاغذ رفتہ رفتہ چھوٹا ہوتا جائے تو اس عمل کے دوران آگے جا کر کسی صفحے پر درج معلومات کٹنا شروع ہوجائیں گی۔ اسی طرح سیل کی تقسیم میں رفتہ رفتہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حیاتی معلومات کی منتقلی مکمل نہیں ہوتی بلکہ کچھ معلومات آگے منتقل ہونے سے رہ جاتی ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انسان بوڑھا ہونا شروع ہوتا ہے کہ فنا ہونے سے پہلے سیل اپنی مکمل معلومات نئے خلیے میں نہیں پہنچا پاتا۔ اب سائنسدان پرامید ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسا طریقہ ڈھونڈ نکالیں کہ جس سے ٹیلومیرس ٹوٹ پھوٹ کے دوران سکڑے نہیں بلکہ اپنی قدرتی پیمائش برقرار رکھے تو انسان بوڑھا نہیں ہوگا! اس بارے میں بھی امّید افزا مثبت پیش رفت جاری ہے اور کچھ انزائم enzymes کی دریافت بھی ہوئی ہے جو مطلوبہ مقاصد میں معاون ثابت ہوں گے۔ مستقبل میں اسی بنیاد پر جوانی قائم رکھنے والی ٹیبلیٹ اور کاسمیٹک کریم بعید از قیاس نہیں۔


یہ تو ہوا بڑھاپے کا ایک مبیّنہ سبب! لیکن ٹوٹتے پھوٹتے اور جنم لیتے سیل کے ساتھ انسان کا بچپن سے جوانی تک ایک انتہائی نپی تُلی رفتار سے سفر کا کیا جواز ہے؟ منکرین سے جواب یہی ملے گا کہ یہ بلٹ اِن built-in سسٹم ہے۔ تو جناب یہ سسٹم کیا خود بن گیا؟ مزید یہ کہ ہمارے جسم میں موجود مختلف سیل کی عمروں میں یکسانیت کے بجائے نشیب و فراز کا جواز کیا ہے؟ ایک جسم میں سیل کے حوالے سے مختلف سسٹم کسی پلاننگ کے بغیر کیسے ہوسکتے ہیں۔؟ منکرین کے پاس اس کا ناقابل یقین جواب یہ ہے کہ سسٹم پلاننگ کے بغیربھی بن سکتے ہیں! یہ بات کتنی عقلی ہے خود فیصلہ کرلیں۔


آپ نے ملاحظہ کیا کہ عمر رسیدگی کے حوالے سے جدید سائنسداں انسان کے اندر کسی انتہائی پیچیدہ سسٹم کو سمجھنے میں مصروف ہیں۔ اس سے یہ بھی تو ثابت ہوتا ہے کہ اس قدر ترقی یافتہ ہوکر بھی انسان اس امر میں اسی لیے بے بس ہے کہ کوئی برتر علم یہاں پر حاوی ہے۔ قرائن یہی بتاتے ہیں کہ یقیناً انسان کے حاصل کردہ علم سے بڑا کوئی علم ہے، تبھی انسان اس کی چھان بین میں گم اور غلطاں ہے۔ اگر انسانی علم ایک پھیلتا دائرہ ہے تو یہ کسی وسیع تر اورغالب علم کے دائرے کے اندر ہی پھیل رہا ہے۔ وہ مغلوب کر دینے والی قوّت اور علم کیا ہو سکتا ہے؟ اب اس کی طرف بڑھتے ہیں۔


انسان کے بڑھنے اور عمر رسیدہ ہونے کی حقیقت جاننے میں سائنس کی محدود پیش رفت کے بعد دیکھتے ہیں کہ کائنات اور انسان کا خالق اس ضمن میں کیا پیغام دے رہا ہے۔


وہی تو ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر خون کے لوتھڑے سے پھر وہ تمہیں بچّے کی شکل میں نکالتا ہے۔ پھر تمہیں بڑھاتا ہے کہ تم اپنی پوری طاقت کو پہنچ جاؤ، پھر اور بڑھاتا ہے کہ تم بڑھاپے کو پہنچو ہیں۔ اور تم میں سے کوئی پہلے ہی واپس بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا جاتا ہے کہ تم اپنے مقررہ وقت تک پہنچ جاؤ۔ اور اس لیے کہ تم حقیقت کو سمجھو، وہی ہے زندگی دینے والا اور وہی ہے موت دینے والا۔“ (غافر، 67)


قرآن انتہائی مختصراً لیکن بہت بلاغت سے انسان کو حقیقتِ زندگی سمجھاتا ہے کہ کس طرح ایک انسان وجود میں آتا ہے، پھر پیدائش کے بعد رفتہ رفتہ وہ طاقت پکڑتا ہے اور بڑا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ قوّت والا جوان ہو جاتا ہے، پھر وہ اور عمر رسیدہ ہوجاتا ہے، یہاں تک کہ بڑھاپا آجاتا ہے اور انسان کا خاتمہ ہو جاتا ہے یعنی موت آجاتی ہے۔ یہ انسان کے لیے مقرّر کردہ نظام system کی تشریح ہے جو تبدیل نہیں کی جاسکتی، اور یہی سسٹم کسی برتر نظام کا آئینہ دار ہے جسے انسان سمجھ نہیں پا رہا۔ گویا ہر جاندار کو پہلے قوّت، پھر ضعف اور بڑھاپے کی طرف جبراً دھکیلنے والا کوئی غیر مرئی سسٹم اپنی موجودگی کا برملا اظہار کر رہا ہے۔ وہ سسٹم انسان کے لیے ایک پہیلی ہے۔ درحقیقت یہ قرآن کی طرف سے انسان کو یاد دہانی ہے کہ تم اپنی گزرتی عمر اور آنے والے خاتمے کو روک نہیں سکتے۔ تم ایک عظیم قوّت اور زبردست علم کی گرفت کے آگے بے بس ہو! قرآن کی اس آیت میں درج انسانی ساخت اور پیدائش کے مراحل سے متعلق حقائق (کہ انسانی جسم میں زمینی عناصر کی موجودگی، انسانی پیدائش کے مرحلے) کی تصدیق جدید معلومات کی روشنی میں ہو چکی ہے۔


ایک نکتے کی وضاحت ضروری ہے۔ یہاں ہمارا مقصد سائنس اور قرآن کا موازنہ ہے نہ تقابل، بلکہ یہ کہنا ہے کہ:یہ مظہرقرآن میں اس لیے مذکور ہے کہ جس نے یہ نظام تخلیق کیا ہے، وہ بتا رہا ہے کہ چڑھتی عمر کے اس مظہر phenomenon کو میں نے بنایا، اور سائنس اس کا تذکرہ کر رہی ہے توگویا انسان کہہ رہا ہے کہ اس مظہر کی ساخت کے اسرار یا اس کا میکینزم ہم دریافت کر رہے ہیں۔


بس یہی فرق ہے خالق اور خالق کے نائب میں!


خالق تخلیق کردیتا ہے جبکہ خلیفہ یا نائب اس کی تشریح کرتا ہے۔


درحقیقت ارتقاء کا نظریہ natural-selection زندگی کے سسٹم کی تشریح ہے کہ جیسے جیسے انسان اس کو سمجھ رہا ہے ویسے ویسے اس کی تشریح اور توجیہ کر رہا ہے، لیکن پھر بھی ایک منکر خدا انسان اس ضمن میں یہ بتانے سے قاصر ہے کہ:


ایک ویران اور زندگی سے خالی کائنات میں ایسا کیا ہوا کہ حیات ایک ہمہ گیر عروج و زوال کے نظم کے ساتھ وارد ہوگئی؟


ہر جاندار کیوں ابتدا سے آخر تک عمر کے مراحل بچپن، جوانی اور بڑھاپے سے گزرتا ہے؟


منکرین کا یہ نظریہ کہ ہر چیز فطرت یا نیچر کی دین ہے بذات خود غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ فطرت nature کی بہ حیثیت ایک برتر مظہر greater-phenomenon قبولیت ہی سائنسداں کا حقائق سے فرار ہے۔گویا nature انسان کی کم علمی کی پناہ گاہ ہے۔ قابل غور یہ نکتہ ہے کہ انسان سے زیادہ قابل کوئی مخلوق نہیں، لیکن کیا انسان ایسی کوئی تخلیق کر سکا یا ایسا سسٹم بنا سکا جو خود پیدا ہو اور رفتہ رفتہ پیچیدہ تر ہوکر اپنی معراج پر پہنچ کر پھر رفتہ رفتہ فنا کی طرف گامزن ہوجائے؟


یہاں یہ سوال منطقی ہے کہ اگر خدا نہیں تو کیا فطرت انسان سے زیادہ عاقل ہے؟ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر،


فطرت کے علوم کا وئیر ہائوس کہاں ہے؟


اس کا کنٹرول روم کہاں ہے؟


منکرین کا یہ طرز عمل بڑا غیر منصفانہ ہے کہ خدا کی بنائی سائنس کی تشریح کر کے ایسا منظرنامہ تخلیق کرتے ہیں کہ جیسے خدا اور مذہب کو شکست دیدی! حالانکہ یہ اصحاب جب تک خدا کا متبادل نہیں بتاتے ان کا موقف بودا ہی رہے گا۔ خدا کا متبادل انسانی علم ہرگز نہیں ہے کیونکہ اس علم کے منبع کے حوالے سے بھی تو سوالات ہیں. بہرحال ناقابلِ تشریح عقائد اور غیر ثابت شدہ نظریات کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہر انسان کو ہے، مگرمنکرین ِخدا سائنسدانوں سے چند سوالات ہیں کہ:


1۔ وہ کیاہے جو انسانی جسم کوزندہ رکھتا ہے لیکن خلیوں کو مارتا اور پیدا بھی کرتا رہتا ہے؟


2۔ فطرت nature ایسی زندگی کیوں نہ بنا سکی جسے فنا نہ ہو؟

3۔ عمر رسیدگی کا عمل زندگی کو ایک مقام سے آگے کیوں نہیں جانے دیتا؟


4۔ انسانی دماغ کے سیلز cells کیوں جدا سرشت رکھتے ہیں اور مرتے نہیں؟

5۔ دماغ کے غیر معمولی عمر والے زندہ cells کو کون فنا نہیں ہونے دیتا ؟

آج کا انسان اس تحقیق میں مصروف ہے کہ انسان کی عمر ٹھہر جائے یعنی وہ بوڑھا نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ انسان ایسا کچھ ڈھونڈ بھی نکالے جو اس کی عمر کو کچھ دوام دے دے لیکن یاد رکھنے کی بات یہی ہے کہ انسان صرف پوشیدہ اصول و قوانین دریافت کرتا ہے جس کے بَل پر نئی دریافتیں ہوتی ہیں لیکن:


یہ اصول اور قانون پہلے سے موجود ہوتے ہیں تو کیوں ہوتے ہیں؟

یہی وہ نکتہ ہے جو کسی عظیم تر علم اور عظیم تر گرفت کی نشاندہی کرتا ہے۔

تحریر مجیب الحق حقی