کیااسلامی تاریخ کے تمام بڑےسائنسدان سیکولراورملحدتھے؟

سیکولر اور ملحد طبقے کا یہ دعوی ہے کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدان سیکولر اور ملحد تھے اور سائنس اور مذہب کبھی اکھٹے نہیں چل سکتے ۔ ہماری یہ تحریر اسی دعوی کی حقیقت واضح کرتی ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت سنی مسلمانوں پہ مشتمل تھی اور تمام نامور سائنسدان مذہب سے وابستہ تھے اور ان میں سے کوئی بھی سیکولر یا ملحد نہیں تھا بلکہ ان میں سے کچھ لوگ تو وہ تھے جو بیک وقت مولوی ،عالم ،فقیہ اور سائنسدان تھے۔

1۔ ابو بکر بن یحیی بن الصائغ الثجیبی”ابن باجہ” کے لقب سے مشہور ہوئے، وہ اندلس میں عرب کے سب سے پہلے مشہور فلسفی تھے، فلسفہ کے علاوہ وہ سیاست، طبیعات، علمِ فلک، ریاضی، موسیقی اور طب میں بھی مہارت رکھتے تھے، ابن باجہ نے عقلی روح (Rational soul ) کو انفرادی شناخت کا سربراہ قرار دیا جو ذہانت سے مل کر ان روشنیوں میں سے ایک ہو جاتی ہے جو خدا کی عظمت کی نشانی ہیں۔ابن باجہ کے مطابق آزادی عقلی طور پر سوچنے اور عمل کرنے کا نام ہے۔ابن باجہ کے مطابق زندگی کا مقصدروحانی علم کا حصول اور اللہ تعا لیٰ کے ساتھ اس کی دی گئی ذہانت کے ذریعے تعلق کی تعمیر ہونا چاہیے۔وہ فقہ شافعی کا مقلد اور سنی مسلمان تھے۔

2۔ابن طفیل سنی مسلمان اور فقہ مالکی سے تعلق رکھتے۔وہ ماہر فلسفہ ،عربی ادب ،علم الکلام، میڈیسن(طب)،تصنیف اورناول نگار تھے۔ابن طفیل نے تاریخ کا پہلا فلسفیانہ ناول لکھا جو صحرائی جزیروں ،ایک گم شدہ بچے اور گزرے ہوئے ادوار کے حوالے سے بھی پہلا ناول ہے۔انہوں نے مردوں کی چیر پھاڑ(ڈائی سیکشن)اور پوسٹ مارٹم(Autopsy) کا ابتدائی نظریہ بھی پیش کیا۔ان کی مشہور تصنیف حی ابن یقظان ہے جسے یورپ میں Philosophus autodidactus کہا جاتا ہے۔یہ ایک فلسفیانہ ناول ہے۔

3۔ ابو الولید محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن رشد القرطبی الاندلسی” ہے، 520 ہجری کو پیدا ہوئے، فلسفہ اور طبی علوم میں شہرت پائی، وہ نہ صرف فلسفی اور طبیب تھے بلکہ قاضی القضاہ اور کمال کے محدث بھی تھے۔ نحو اور لغت پر بھی دسترس رکھتے تھے ساتھ ہی متنبی اور حبیب کے شعر کے حافظ بھی تھے، انتہائی با ادب، زبان کے میٹھے، راسخ العقیدہ اور حجت کے قوی شخص تھے، جس مجلس میں بھی شرکت کرتے تھے ان کے ماتھے پر وضو کے پانی کے آثار ہوتے تھے۔ انکی بنیادی دلچسپیاں اسلامی علم الکلام، اسلامک الاء، اسلامی فلسفہ، جغرافیہ، میڈیسن (طب) ریاضی، طبیعیات (فزکس) ، اسلامی فقہ ، عربی موسیقاتی نطریہ، فلکیات، فلکیاتی مرکبات تھے ۔ان کے نمایاں تصورات وجود(existence) جوہر یاروح(essence) سے پہلے ہوتا ہے، جمود (inertia) ، دماغ کی جھلی arachnoid mater،، توجیہہ اور عقیدے کی تفہیم، فلسفے اور مذہب کی تفہیم اور ارسطو ازم اور اسلام کی تفہیم ہیں۔وہ فلسفے کی شاخ رشدازم(averroism) کا بانی ہیں اور یورپ کے روحانی بابوں میں سے ایک ہیں۔ابن رشد کی تصنیفات بیس ہزار سے زائد صفحات پر محیط ہیں لیکن ان کی اہم ترین تصنیفات اسلامی فلسفے، میڈیسن اور فقہ پر ہیں۔ان کی مذہب سے وابستگی کا اندازہ اس کی ان تصنیفات سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے فقہ مالکی پہ تصنیف کی ہیں ۔ پھر بھی ملحدین اور سیکولر طبقے کے مفکرین اسے ملحد قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ فقہ مالکی کا فقیہ ،عظیم مسلم سائنسدان اور فلسفی تھا۔(دیکھیے ہماری گزشتہ تحریر)ابن رشد کی اہم ترین فلسفیانہ تصنیف تہافتہ التہافہ ہے جسے انگریزی میں The incoherence of the incoherenceکہتے ہیں۔ ابن رشد کی دوسری تصنیف فصل الاعقال تھی جس نے اسلامی قانون کے تحت فلسفیانہ تحقیقات کے قابل عمل ہونے کی توجیہہ بیان کی ۔ابن رشد نے اسلامی فتاویٰ کے جو خلاصے تیار کیے وہ آج تک اسلامی علماء پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ابن رشد اسلامی معاشیاتی فقہ اور سود کے حرام ہونے پر بھی بحث کی۔انہوں نے شراب نوشی کی شرعی سزا پر بھی لکھا۔ ابن رشد فقہ مالکی کا انتہائی معزز عالم تھےاس میدان میں اس کی بہترین تصنیف بدایۃ المجتہد و النہایۃ ہے جو کہ مالکی فقہ کی نصابی کتاب ہے۔ ابن رشد کے مطابق مذہب اور فلسفہ ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ہی سچائی تک پہنچنے کے دو مختلف راستے ہیں۔ سچائی کے علم کی دو قسمیں ہیں۔پہلی قسم عقیدے پر مبنی مذہب کی سچائی کا علم ہے اور سچائی کی دوسری قسم فلسفہ ہے جو ان اعلیٰ دماغوں کے لیے ہے جن کے پاس اس کے سمجھنے کی دانشورانہ صلاحیت ہے۔

5۔عمر خیام کی بنیادی دل چسپی اور کارنامے فارسی ، فارسی شاعری، فارسی فلسفہ ، فلکیات طبیب (فزیشن) حرکیات(مکینک) ارضیات (جیولوجی گرافی) اور موسیقی الجبرا، لیپ سال۔ لیپ ائیر کا موجد ، ماہر موسمیات ہیں۔عمر خیام 10485 ء کو ایران کے شہر نیشاپور میں پیدا ہوئے۔ انہیں اسلامی (600-1600) کا بنیادی ماہرین ریاضی اور ماہرین فلکیات میں شمار کیا جاتا ہے اسے الجبرا ء پر اہم ترین مقالے کا مصنف سمجھا جاتا ہے۔

خیام کی شاعری میں شراب و شباب کے تذکرے کی وجہ سے بعض اوقات اسے ارتدادی اور خدا کا منکر سمجھا جاتا ہے ۔یہ خیالات رابرٹسن بیان کرتا ہے لیکن در حقیقت کچھ اشعار اس کی طرف غلط منسوب کیے گئے ہیں۔خیام نے اپنی شاعری میں یہ بھی کہا ہے کہ شراب سے لطف اندوش ہو لو کیونکہ خدا مہربان ہے۔یہ الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا منکر نہیں تھا۔مشہور سکالرسید حسین نصر کا بھی یہی کہنا ہے۔ خیام نے ایک مقالہ لکھا جس کا نام ،خطبۃ الغرہ تھا جو کہ اللہ تعالیٰ کی تعریف میں تھا۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خیام پختہ مذہبی عقائد رکھتا تھا اور وحدت خداوندی کا قائل تھا۔سید حسین نصر اس کی ایک مثال دیتے ہیں جس میں خیام اللہ کی ذات کوجانئے کے مختلف طریقوں پر تنقید کے بعد اپنے آُپ کو صوفی قرار دیتا ہے۔ سید نصر حسین خیام کے ایک اور فلسفیانہ مقالے کا بھی حوالہ دیتے ہیں جس کا نام ،رسالہ فی الوجود ہے۔یہ رسالہ قرآنی آیات سے شروع ہوتا ہے اور اس کے مطابق تمام چیزوں کا تعلق خدائے تعالیٰ سے ہے اور ان چیزوں میں ایک ربط ہے۔ ایک اور مقالے ،رسالہ جواب الثلاث المسائل میں وہ موت کے بعد روح کے بارے میں لکھتا ہے جو کہ اس بات کو رد کرتا ہے کہ خیام قیامت کا منکر تھا۔اس کی حقیقی شاعری بھی اسلام کے مطابق ہے مثلا

تو نے کہا ہے کہ تو مجھے عذاب دے گا

لیکن اے اللہ۔میں اس سے نہیں ڈروں گا

کیونکہ جہایں تو ہے وہاں عذاب نہیں

اور جہاں تو نہ ہو،وہ جگہ ہو نہیں سکتی

سید حسین نصر لکھتے ہیں:اگر خیام کی مستند رباعیات اور اس کے فلسفیانہ خیالات اور روحانی سوانح حیات ،سیر و سلوک کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان(خیام) نہ ایک ہندوستانی شراب خور ہے اور نہ ہی ایک دہریہ۔بلکہ وہ ایک دانشور اور سائنسدان ہے جس کی شخصیت مشکوک رباعیات سے بالاتر ہے۔

سی ایچ اے جیری گارڈ نے تو اس سے پہلے کہا تھا

خیام کی تصنیفات تصوف کے اچھے نمونے ہیں لیکن مغرب میں کوئی ان کو اہمیت نہیں دیتا کیو نکہ اہل مغرب بد قسمتی سے خیام کو جیرلڈ کے ترجموں سے جانتے ہیں اور یہ بد قسمتی ہے کہ جیرالڈ اپنے آقا خیام کا وفادار نہیں اور بعض اوقات وہ اس صوفی کی زبان پر نا شائستہ الفاظ ڈالتا ہے۔اس نے خیام کی رباعیات میں بے ہودہ زبان استعمال کی ہے ۔جیرالڈ دوہرا مجرم ہے کیونکہ خیام اس سے زیادہ صوفی تھا جتنا وہ اپنے بارے میں کہا کرتا تھا۔

6۔ا لفارابی بابا ئے اسلامی نیو افلاطونی نظریات(نیو پلاٹونزم)،میٹا فزکس(فلسفہ ماورء الطبیعیات)،سیاسی فلسفہ،منطق، فزکس،اخلاقیات،تصوف ،میڈیسن(طب)۔فارابی کا خیال تھا کہ میٹا فزکس کا نظریہ بذات خود موجود ہونے سے متعلق ہے اور اس کا تعلق خدا سے اتنا ہے کہ خدا مطلق وجود کا سربراہ ہے ۔فارابی کے مطابق مذہب سچائی کا علامتی اظہار ہے۔افلاطون کے برعکس فارابی کی مثالی ریاست کی سربراہی پیغمبر کے ہاتھ میں ہوتی ہے ۔ اس کے مطابق مثالی ریاست مدینہ منورہ تھی ۔ جس کے حکمران حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رہنما کسی فلسفی کی بجائے اللہ تعالی تھے۔ فارابی کے مطابق جمہوریت یا ڈیموکریسی مثالی ریاست کے قریب ترین ہے۔ وہ خلفائے راشدین کی طرح کے طرز حکومت کو حقیقی جمہوریت قرار دیتا ہے مکیلویا کوبو وچ کے مطابق:فارابی کا مذہب اور فلسفہ نیک اقدار رکھتے ہیں۔فارابی لوگوں کے اس خیال کی تردید کرتا ہے کہ مکمل اسلامی معاشرہ قائم نہیں کیا جا سکتا اور یہ انسانیت کے لیے موزوں نہیں ہے۔ فارابی نے اپنی کتاب مدینۃالفضیلۃ میں کہا کہ فلسفہ اور وحی ایک ہی سچائی تک پہنچنے کے دو راستے ہیں ۔اس کے یہ خیالات ظاہر کرتے ہیں کہ وہ پکا سنی مسلمان تھا۔ فارابی اور بوعلی سینا اپنے طور کے مسلم ماڈرنسٹ ہیں انہوں نے یونانی فلسفے اور اسلامی میں مطابقت کی کوششیں کیں لیکن انہوں نے خدا کا انکار کبھی نہیں کیا ۔

7۔ علی الحسین بن عبد اللہ بن الحسن بن علی بن سینا فلسفی، طبیب اور عالم تھے، اسلام کے عظیم تر مفکرین میں سے تھے، اور مشرق کے مشہور ترین فلاسفروں اور اطباء میں سے تھے، بو علی سیناکی بنیادی دلچسپیاں اسلامی طب (اسلامک میڈیسن ) ، الکیمی اور کیمیا، اسلامی فلکیا ت، اسلامی اخلاقیات، ابتدائی اسلامی فلسفہ ، اسلامی مطالعہ جات ، جغرافیہ، ریاضی، اسلامی علمِ نفسیات، فزکس (طبعیات)، فارسی شاعری، سائنس ، حجری علوم (Palaoentology) تھے۔وہ بانی جدید علم طب (مارڈرن میڈیسن) اور مومنٹم ،بانی سینائی منطق(ایوی سینن لاجک)، بانی نفسیاتی یا نفسیاتی تحلیلPsychoanalysis) ( اور علم اعصابی نفسیات(Neuropsychiatry) اور اہم شخصیت برائے علم جغرافیہ، انجینئرنگ تھے۔

ابن سینا کی فلسفیانہ کوششوں کا مقصد اللہ کے وجود اور اس کی کائنات کی تخلیق کو وجہ اور منطق سے سائنسی طور پر ثابت کرنا تھا۔ سینا نے اسلامی علم الکلام پر کئی مقالے لکھے۔ان میں پیغمبروں پر بھی مقالے ہیں جنہیں سینا پر جوش فلاسفرز سمجھتے تھے۔سینا نے مختلف سائنسی اور فلسفیانہ تشریحات بھی کیں مثلاکس طرح قرآنی علم کائنات فلسفیانہ نظام کے عین مطابق ہے اور فلسفہ قرآن سے الگ کوئی چیز نہیں۔سینا نے سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کر لیا تھا۔انہوں نے قرآنی سورتوں پر پانچ مقالے لکھےان میں سے ایک میں انہوں نے پیشین گوئیوں کو بھی ثابت کیا۔ابن سینا نے قرآن کریم کی چند فلسفیانہ تفسیریں لکھی تھیں اور آیت نور کی تفسیر پر خاص توجہ دی اور اس آیت مبارکہ پر پہلی حکیمانہ اور فلسفیانہ تفسیر سپرد قلم کی جس سے اس روایت کا آغاز ہوا جو ہمیں بعد میں غزالی، ملا صدرا اور بہت سے دوسرے مسلمان مفکرین میں جاری نظر آتی ہے۔ البتہ آیئہ مذکورہ کی جو تفسیر غزالی نے مشکوۃ الانوار میں کی ہے وہ اگرچہ ابن سینا کی اشارات میں بیان کردہ تفسیر سے بہت مختلف ہے مگر اس سے بے تعلق نہیں۔سینا کے مطابق اسلامی پیغمبر فلسفیوں سے کئی گنازیادہ اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں ۔بستر مرگ پر انہوں نے غرباء پر صدقے کیے ،غلاموں کو آزاد کیا اور اپنی موت تک ہر تیسرے دن قرآن پاک سنتےیہاں تک کہ وہ جون 1037ء کو انتقال کر گئے۔اس وقت اس کی عمر پچاسی سال تھی۔ انہیں ہمدان(ایران) میں دفن کیا گیا۔


8

۔محمد بن موسی 

الخوارزمی

 کی وجہ شہرت ریاضیاتی تحقیق ، فلکیات ، جغرافیہ اور علم نجوم ہے۔اس کی مشہور تصنیف:الجبرو المقابلہ (خطی یا لائینر اور مربعی Quadratic) ( مساواتوں کا پہلا منظم حل) یا لکتاب المختصر فی حساب الجبر والمقابلہ اس کا مشہور کارنامہ بنیاد الجبرا ہے(اس میں وہ دیو فینطس یا (Disphantus) کا شریک ہے۔ وہ پہلے سائنسدان تھے جنہوں نے علمِ حساب اور علمِ جبر کو الگ الگ کیا، اور جبر کو علمی اور منطقی انداز میں پیش کیا۔وہ نہ صرف عرب کے نمایاں سائنسدانوں میں شامل ہیں بلکہ دنیا میں سائنس کا ایک اہم نام ہیں، انہوں نے نہ صرف جدید الجبر اکی بنیاد رکھی، بلکہ علمِ فلک میں بھی اہم دریافتیں کیں، ان کا زیچ علمِ فلک کے طالبین کے لیے ایک طویل عرصہ تک ریفرنس رہا، ریاضیاتی علوم میں یورپ کبھی بھی ترقی نہ کرپاتا اگر اس کے ریاضی دان خوارزمی سے نقل نہ کرتے، ان کے بغیر آج کے زمانے کی تہذیب، تمدن اور ترقی بہت زیادہ تاخیر کا شکار ہو جاتی۔ ان کا الجبرا کا صوفیانہ پیش لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پکا مسلمان تھا۔

9

۔ ابو علی الحسن

 بن الہیثم” کی بنیادی دلچسپیاں فلکیات (آسٹرونومی) ، اناٹومی، انجینئرنگ، ریاضی، مکینکس یا حرکیات طب (میڈیسن)، بصریات بصریات (آیٹکس) ، آنکھ کی بیماریاں(Opthalmology) فلسفہ ، فزکس ، علمِ نفسیات (سائیکالوجی)، سائنس تھیں۔ ابن ابی اصیبعہ “عیون الانباء فی طبقات الاطباء” میں کہتے ہیں: “ابن الہیثم فاضل النفس، سمجھدار اور علوم کے فن کار تھے، ریاضی میں ان کے زمانے کا کوئی بھی سائنسدان ان کے قریب بھی نہیں پھٹک سکتا تھا، وہ ہمیشہ کام میں لگے رہتے تھے، وہ نہ صرف کثیر التصنیف تھے بلکہ زاہد بھی تھے”۔جیسا کہ ابن ابی اصیبعہ نے کہا وہ واقعی کثیر التصنیف تھے، سائنس کے مختلف شعبوں میں ان کی 237 تصنیفات شمار کی گئی ہیں۔ ضیاء الد ین سردا رکے مطابق وہ سنی مسلمان تھے ۔ ابن الہیشم نے اسلامی علم الکلام پر ایک مقالہ لکھا جس میں انہوں نے پیغمبری پر بحث کی ۔انہوں نے اپنے وقت کے پیغمبر ی کے جھوٹے عوے داروں کو سمجھے کے لیے فلسفیانہ اصولوں کا نظام وضع کیا ۔ابن الہیشم نے ایک مقالہ لکھا جسکانام اعد ادو شمار سے سمت قبلہ معلوم کرنا ہے۔ انہوں نے ریاضیاتی طر یقے سمتِ قبلہ معلوم کرنے کے طریقے بیان کیے۔الہیشم نے اپنے سائنسی طر یقہ اور سائنسی کا رنامو ں کی نسبت اسلام پر اپنے یقین کی طرف کی ۔ان کا یقین تھا کہ انسان بنیادی طور پر نامکمل ہے اور خدا کی ہستی ہی مکمل ہے ۔انہوں نے یہ توجیہہ بیان کی کہ فطرت کے متعلق سچایؤ ں کو دریافت کرنے کے لیے انسانی آراء اور غلطیوں کو ختم کر ناہوگا۔اپنے مقالے میں جسکاتر جمہ The winding motion کے نا م سے کیا گیا ہے الہیشم نے لکھا ہے کہ یقین صرف پیغمبر اسلام ﷺ پر ہوناچاہے اور نہ کہ کسی اور ہستی پر ۔الہیشم نے اپنی سچائی اور علم کی تلاش کو اللہتعالیٰ سے قریب ہونے کا ذریعہ قراردیا۔وہ لکھتے ہیں کہ میں نے مسلسل علم اور سچائی کی تلاش جاری رکھی اور یہ میرا ایمان بن گیاکہ ا للہتعالیٰ کی ذات کی قریب حاصل کر نے کے لیے علم اور سچائی سے اچھاذریعہ نہیں ہے ۔

10۔ احمد بن محمد ابی الریحان البیرونی خوارزم میں 362 ہجری کو پیدا ہوئے ۔ابو ریحان البیرونی کی بنیادی دلچسپیاں:آثار قدیمہ(Anthropology) ،” علم نجوم” علم فلکیات،کیمسٹری، سمات (سوشیالوجی)، علم جغرافیہ، علم الارضیات(جیولوجی) تاریخ ، ریاضی طب(میڈیسن)، فلسفہ، علم الادویہ( فارماکولو جی) ، فزکس، علم نفسیات(سائیکالوجی) ، سائنس، انسائیکلو پیڈیا۔فلکیات (آسٹرونومی )کی اور علم نجوم (آسٹرولوجی) میں پہلی واضح شناخت اور فرق البیرونی نے گیارہویں صدی عیسوی میں پیش کیا ۔ بعد کی ایک تصنیف میں انہوں نے علم نجوم کو مسترد کر دیا کیونکہ ماہرین نجوم کے طریقے تحقیق کی بجائے اندازوں پر مبنی تھے اور علم نجوم کے خیالات حقیقی اسلام سے متصادم تھے۔ البیرونی نے الجاحظ اور زرقان کے معتزلی نظریات پر اور محمد بن زکریا الرازی کیmanichaism کے لیے ہمدردی پر بھی تنقید لکھیں ۔البیرونی نے قرآن پاک کو ایک الگ اور خود گار سلطنت قرار دیا۔ انہوں نے اسلام کا اسلام سے پہلے والے مذاہب سے موازنہ بھی کیا اور اسلام سے پہلے کی چندان حکمتوں کو قبول کرنے کے آمادہ تھا جو اس کے اسلامی تصور کے مطابق تھیں۔ البیرونی کے مطابق اسلامی قانون او رفقہ میں بیرونی کے مطابق انسانوں کے درمیان تفریق صرف خدائی قانون سے ہی ختم کی جا سکتی ہے جسے پیغمبر اسلام ﷺ لائے تھے۔

11۔جابر ابن حیان کی بنیادی دلچسپیاں الکیمی ،کیمسٹری،آسٹرونومی ۔علم نجوم (آسٹرولوجی ) ،طب (میڈیسن) ،علم الادویہ (فارمیسی )،فلسفہ ،فزکس ،ارضیات،فلاحی سرگرمیاں ،انجینئرنگ اور فزکس تھے ۔ان کی نمایاں تصنیفات کتاب الکیمیا،کتاب السبین،Book of balances , Book of kingdom , Book of eastern Mercury

الکیمی میں دلچسپی غالبااس کے استاد حضرت جعفر صادق نے ابھاری ۔ابن حیان بہت مذہبی آدمی تھےاور اپنی تخلیقات میں باربار یہ لکھتے ہیں کہ الکیمی کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضاسے راضی رہنے میں ہے اور زمین پر اللہ تعالیٰ کا حقیقی اوزار بن جانے میں ہے ۔کتاب الحجر میں ایسی لمبی دعاؤں کا ذکر کیا گیاہے جو الکیمی کے تجربات سے پہلے تنہاصحرا میں پڑھنی چاہییں ۔

12۔یعقوب الکندی پہلا مسلمان مشائی فلسفی تھا جس نے عرب دنیا میں یونانی ادب اور سریانی فلسفہ متعارف کرایا۔ وہ کیمسٹری، میڈیسن، میوزک تھیوری، فزکس، علمِ نفسیات اور فلسفہ سائنس کی اولین شخصیات میں سے ایک تھا۔الکندی کا شمار یونانی فلسفے سے متاثر مسلم ماڈرنسٹ میں ہوتا ہے اس کی فلسفیانہ تصنیفات کا بنیادی مضمون فلسفے اور مذہب میں اہم اہنگی پیدا کرنا ہے ۔اسکی کئی تصنیفات ان مضامین پر ہیں جن کا تعلق مذہب سے ہے مثلا خدا کیا ہے ، روح کیا ہے ،پیغمبر انہ علم وغیرہ ۔اس نے فلسفے تک مسلم دانشوروں کی رسائی کو ممکن بنا دیا لیکن اس پر فارابی کی شہرت غالب آگئی ہے ۔اور اس کی بہت کم تصنیفات جدید قاری کے لیے میسر ہیں ۔لیکن اسے عرب دنیا کے عظیم ترین فلسفیوں میں شمار کیا جاتاہے اس لیے اسے ’’ عربی فلسفی‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔فلسفیانہ سوچ رکھنے کے باوجود اس کا یقین تھا کہ وحی عقل وتو جیہہ یعنی فلسفے سے بہتر ذریعہ ء علم ہے کیو نکہ یہ عقائد کے معاملات کی ضمانت دیتی ہے ۔وہ فقہ شافعی سے تعلق رکھنے والا سنی مسلمان تھا۔

13۔ابن خلدون ماہر اسلامی معاشیاتی فقہ ،معاشرتیات ،سوشیالوجی ،تاریخ ،ثقافتی تاریخ ،فلکیات دان،اسلامی قانون دان ،حافظ ریاضی دان nutrionist ( ماہر غذائیات) تھا۔اس کی بنیادی دلچسپیاں فلسفہ تاریخ ،ڈیموگرافی ،ڈپلومیسی ، معاشیات (اکنامکس) ،اسلامیات ،عسکری نظریے (ملٹری تھیوری )، فلسفہ ،سیاسیات(Politic) اور علم الکلام،Statecraf تھے۔وہ بانی عمرانیات تھا ۔ابن خلدون کو سائنسی کی کئی شاخوں مثلا ڈیموگرافی ،تاریخ ثقافت ،فلسفہ تاریخ ، سوشیالوجی اور تاریخ نویسی (Historiography) کا بانی سمجھا جاتا ہے ۔اس جدید اکنامکس (معاشیات) کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ہندوستانی عالم چناکیہ (Chanakya) کے ساتھ اسے سوشل سائنس کا بابا مانا جاتا ہے ۔اس نے مغرب سے صدیوں پہلے ان علوم کی بنیادیں فراہم کیں ۔وہ سب سے زیادہ مشہور اپنی کتاب مقدمہ ابن خلدون کی وجہ سے ہے جسے انگریزی میں Prolegomenon کہتے ہیں جواس کی دنیا کی تاریخ کی کتاب ’’ کتاب الابار‘‘(vitab al Ibar) کی پہلی جلد ہے ۔وہ پہلے عظیم ترین دانشمند تھا جس نے تاریخ نویسی میں مجتہدانہ نقطہ نظر پیش کیا ۔وہ پکا سنی مسلم سائنسدان تھا۔

14۔ابن طاہر البغدادی نے اپنی مشہور تصنیف التکمیلہ فی الحساب میں عددی نظرے (نمبر تھیوری) پر بحث کی ۔وہ فقہ شافعی سے تعلق رکھنے والا سنی مسلم سائنسدان تھا۔

15۔ابن یحییٰ المغربی السموأل وہ یہودی نسل سے تعلق رکھنے والا مسلمان ریاضی دان او ر فلکیات دان تھا ۔

16۔علی ابن سہل ربان الطبری ایک مسلمان حکیم ، عالم ،طبیب (فزیشن )اور ماہر نفسیات تھا۔قرآن پاک کے بارے میں اس نے کہا ’’ جب میں عیسائی تھا تو میں اپنے چچا کی طرح یہ کہاکرتاتھا کہ فصاحت وبلا غت پیغمبری کی علامت نہیں ہو سکتی کیو نکہ یہ تمام لوگوں کے لیے قدر مشترک ہے لیکن جب میں نے اس معاملے میں روایتی خیالات کو ترک کیااور قرآن پاک کے معانی پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے پیروکار صحیح دعویٰ کرتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ آج تک چاہے فارسی ہو یا ہندی ،یونانی ہو یا عربی ،مجھے کو ئی ایسی کتاب آغاز عالم سے آج تک معلوم نہیں ہوئی جو بیک وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف ،انبیاء پر ایمان ،امر بالمعروف ونہی عن المنکر ،جنت کی طلب اور جہنم سے بچنے کی دعوت دیتی ہو ۔لہٰذا جب کوئی شخص ہمارے پاس ایسی خصوصیات والی کتاب لاتا ہے جو ہمارے دلوں میں ٹھنڈک پیدا کرتی ہے ،حالانکہ وہ شخص (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بذات خودامی ہیں تویہ ان کے بلاشک وشبہ پیغمبر ہونے کی دلیل ہے ۔‘‘

17۔ابو زید البلخی کی وجہ شہرت جغرافیہ ،ریاضی ،طب، نیوروسائنس ،نفسیات ہیں۔ وہ بانی ارضی نقشہ جات ( بلخی مکتب فکر ، بغداد) نفسات اور نیوروسائنس میں نفسیاتی صحت (mentas health) اور نفسیاتی پا کیزگی (mentel hygione) تھا۔اس نے مزید کہاکہ اگرجسم بیمار ہوجاتاہے تونفس(انسانی نفسیات) اپنی سوچنے (cognitive) اور سمجھنے (comprehensive) کی صلاحیت کھوبیٹھتاہے جس کا نتیجہ نفسیاتی بیماری کی صورت میں نکلتاہے ۔البلخی نے اس دعوے کی تصدیق قرآن وحدیث سے کی ۔مثلا قرآن پاک میں ہے ۔’’ ان کے دلوں میں مرض ہے ‘‘ (سورۃ البقرہ ،آیت نمبر10پارہ اول )۔وہ پکا مسلمان تھا۔

18۔الجاحظ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ فرقہ معتزلہ سے تعلق رکھتا تھا لیکن الجاحظ کے ابتدا ئی حالات بہت کم معلوم ہیں ۔

19۔حنیان بن اسحاق وہ مشہور نسطوری عیسائی عالم تھا جس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔۔ وہ ایک طبیب اور سائنسدان بھی تھا جو یونانی سائنسی کتابوں کو عربی اور شامی میں ترجمہ کرنے کی وجہ سے مشہور ہے۔

20۔خالد بن یزید اموی بادشاہ معاویہ ثانی کا بھائی اور شہزادہ تھا مگر اس نے بادشاہت کی بجائے الکیمی میں دلچسپی لی۔مصر میں اس نے اس وقت کے موجودہ ادب کو جو الکیمی پر تھا،عربی میں ترجمہ کیا۔یہ بھی سنی مسلمان اور اسلامی دنیا کا پہلا کیمیا دان تھا۔

21۔ابو الحسن علی بن ابی سعید عبد الرحمن بن احمد بن یونس المصری، البتانی اور ابی الوفاء البوزجانی کے بعد سب سے زیادہ شہرت پانے والے ریاضی اور فلکیات دان ہیں، مستشرق سارٹن انہیں چوتھی صدی ہجری کے سب سے بڑے سائنسدانوں میں شمار کرتے ہیں، وہ شاید مصر کے سب سے بڑے فلکیات دان تھے، مصر میں پیدا ہوئے اور وہیں پر شوال 399 ہجری کو وفات پائی۔ابن یونس مسلم مصری فلکیات دان اور ریاضی دان تھے۔انہوں نے وہ کارنامے انجام دیے جو اس کے وقت سے بہت پہلے تھے اور جن کی بنیاد جدید دور جیسے اعداد اور تفا صیل پر رکھی گئی۔ وہ مثلثات کے ماہر تھے اور کروی مثلثات کے بہت مشکل مسائل حل کیے اور اقواس کا حساب دریافت کیا، یہ بھی بتاتے چلیں کہ انہوں نے ہی گھڑی کا pendulum ایجاد کیا تھا نا کہ گیلیلیو نے جیسا کہ عام طور پر سمجھا جاتا ہے۔چاند کے ایک گڑھے کا نام اس کے نام پر ابن یونس کریٹررکھا گیا ۔

22۔نصیر الدین طوسی شیعہ اثناء عشری تھے۔ انکی بنیادی دلچسپیاں علم الکلام،فلسفہ،فلکیات ،ریاضی، کیمسٹری، بیالوجی(حیاتیات)،میڈیسن(طب)،فزکس(طبیعیات) میں تھی۔ انہوں نے بہت ساری تصنیفات چھوڑیں جن میں سب سے اہم کتاب “شکل القطاع” ہے، یہ پہلی کتاب تھی جس نے مثلثات کے حساب کو علمِ فلک سے الگ کیا، انہوں نے جغرافیہ، حکمت، موسیقی، فلکی کیلینڈر، منطق، اخلاق اور ریاضی پر بیش قیمت کتابیں لکھیں جو ان کی علمی مصروفیت کی دلیل ہیں، انہوں نے بعض کتبِ یونان کا بھی ترجمہ کیا اور ان کی تشریح وتنقید کی، اپنی رصد گاہ میں انہوں نے فلکیاتی ٹیبل (زیچ) بنائے جن سے یورپ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے بہت سارے فلکیاتی مسائل حل کیے اور بطلیموس سے زیادہ آسان کائناتی ماڈل پیش کیا، ان کے تجربات نے بعد میں “کوپرنیک” کو زمین کو کائنات کے مرکز کی بجائے سورج کو نظامِ شمسی کا مرکز قرار دینے میں مدد دی، اس سے پہلے زمین کو کائنات کا مرکز سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے آج کے جدید علمِ فلک کی ترقی کی راہ ہموار کی، اس کے علاوہ انہوں نے جبر اور ہندسہ کے بہت سارے نظریات میں نئے انداز کے طریقے شامل کیے ساتھ ہی ریاضی کے بہت سارے مسائل کو نئے براہین سے حل کیا، سارٹن ان کے بارے میں کہتے ہیں: “طوسی اسلام کے سب سے عظیم سائنسدان اور ان کے سب سے بڑے ریاضی دان تھے”، “ریگومونٹینوس” نے اپنی کتاب “المثلثات” کی تصنیف میں طوسی کی کتب سے استفادہ کیا۔

23۔قطب الدین شیرزی کی بنیادی دلچسپیاں ریاضی،فلکیات(آسٹرونومی)،میڈیسن(طب)،فلسفہ،فارسی شاعری،فزکس،موسیقاتی نظریہ(میوزک تھیوری) اور تصوف تھے ۔شیرازی تصوف سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں شیراز(ایران) میں پیدا ہوا۔اس کا والد ضیائالدین ایک فزیشن اور اہم صوفی تھا۔قطب الدین کو والد نے دس سال کی عمر میں خرقۂ تصوف عنایت کیا۔بعد میں قطب الدین نے اپنی خرقہ نجیب الدین شیرازی سے بھی حاصل کی جو مشہور صوفی تھے۔وہ صوفی،سائنسدان اور پکا سنی مسلمان تھا۔اس کی تصنیف شرح حکمت الاشراق تھیجو عربی میں شاب الدین سہروردی کے فلسفے اور صوفیانہ پن پر لکھی گئی۔زمخشری کی قرآن پاک کی شرح کشف پر ایک کتاب،فتح المنان فی تفسیرالقر آن(عربی میں چالیس جلدوں میں)،حاشہ بر حکمت البیان،مفتاح المفتاح،مالکی فقہ کے قانون پر ایک کتاب تاج العلوم اور نسل اور غربت پر ایک کتاب جو شیراز کے گورنر معزالدین کے لیے لکھی گئی۔

24۔ موفق الدین ابو محمد عبد اللطیف البغدادی بغداد میں 557 ہجری کو پیدا ہوا۔ عبداللطیف ( البغدادی)مشہور فزیشن ،مورخ ،مصری تاریخ کا ماہر اور سیاح تھا وہ اپنے وقت میں مشرق قریب (Near East) کا ضخیم ترین لکھاری تھا۔عبداللطیف کی دلچسپ خورنوشت کو اس کے ہم عصر ابن ابواسیبہ نے اضافوں کے ساتھ محفوظ کیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں اس نے گرائمر ، قرآن پاک ، فلسفہ ،فقہ اور عربی شاعری کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے اہل علم کا ایک حلقہ قائم کیا جسے سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس میں اپنے گرد جمع کرلیا ۔وہ قاہرہ اور دمشق میں میڈیسن اور فلسفہ پڑھا یا کرتاتھا۔وہ سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کے قریب تھا اور پکا سنی مسلمان تھا۔اس کی کتاب الطب من الکتاب والسنتہ میں طب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد کی اسلامی طب کو بیان کیا گیا ہے ۔

25۔ابن بطوطہ نے تیس سالوں میں تقریباً ساری اسلامی دنیا (شمالی دنیا (شمالی و مغربی افریقہ، جنوری یورپ، مشرقی یورپ ، مشرق وسطیٰ، برصغیر، وسطِ ایشیاء ، جنوب مشرقی ایشیا، چین) کا سفر کیا۔ یہ فاصلہ اس کے قریبی ہم عصر مار کو پو لو اس سے پہلے کسی نے طے نہیں کیا تھا۔ اسے ہمیشہ کے عظیم ترین سیاحوں میں شمار کیا جاتا ہے۔سالوں میں طے کردہ یہ فاصلہ 75ہزار کلو میٹر بنتا ہے۔ ابن بطوطہ 24فروری 1304 ؁ء کو اسلامی قانون کے علماء کے ایک گھرانے میں پیداہو ا۔جوانی میں اس نے فقہ مالکی کی تعلیم حاصل کی جو اس وقت شمالی افریقہ میں بہت مقبول تھی ۔ابن بطوطہ سنی مسلمان تھا ۔

26۔ الحسن بن علی بن ابراہیم بن محمد بن المطعم ،ابن الشاطر کے لقب سے جانے جاتے ہیں، آٹھویں صدی ہجری کے ریاضی دان تھے، دمشق میں 704 ہجری کو پیدا ہوئے اور وہیں پر 777 ہجری کو انتقال کیا، آلاتِ رصد اور علمِ فلک کے سائنسدان تھے۔ابن الشاطر فلکیات دان (آسٹرونومر) ریاضی دان ،انجنیئر اور موجدتھا۔ دمشق شام میں جامع مسجد اموی کے موقت (وقت کا حساب رکھنے والے ) کے طور پر کام کیا ۔وہ عرب نسل سے تعلق رکھنے والا سنی مسلمان تھا۔

27۔تقی الدین محمد ابن معروف سائنسدان ،فلکیات ،ماہر علم نجوم ،انجینئر، موحد گھڑی ساز ،ماہر فزکس ،ریاضی ، علم نباتات (باٹنی )علم حیوانیات (زوالوجی ) ، علم الادویہ ، فزیشن ، اسلامی جج ،موقت ،فلسفی ، ماہر علم المذاہب اور مدارس تھا۔ اس کی تصنیفات کی تعدادنوے ہے جو فلکیات ، علم نجوم ، گھڑیاں ، انجینئرنگ ،ریاضی مکینکس ، آٹیکس ،ینحیرل فلاسفی پہ ہیں۔

28۔سلطان فتح علی ٹیپو(ٹیپو سلطان) کی1790ء سے 1794ء کے دوران ٹیپو کی تعمیر کردہ flint lock blunderbuss gun آج تک اپنے وقت کی جدید ترین ٹیکنالوجی شمار کی جاتی ہے۔ٹیپو سلطان اور حیدر علی کو عسکری مقاصد کے لیے ٹھوس ایندھن راکٹ(سالڈفیول راکٹ)ٹیکنالوجی اور میزائلوں کے استعمال کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ایک عسکری حکمت عملی جو انہوں نے وضع کی ،وہ دشمن کی کی فوج پر راکٹ بریگیڈ کے ذریعے وسیع حملے تھے۔ٹیپو پکا سنی مسلمان تھا۔

29۔ہبۃاللہ ابوابرکات البغدادی وہ ایک مسلمان فلسفی ،ماہر فزکس ، ماہرنفسیات اور فزیش تھا جو نسلا عرب اور مذہبا یہودی تھا ۔بعد ازاں اس نے اسلام قبول کر لیا ۔

30۔ ابو القاسم خلف بن عباس الزہراوی بانی جدیدسرجری اور قرونِ وسطیٰ کا عظیم ترین سرجن تھے۔ انکے کارنامے ایجاد آلاتِ سرجری، پیشاب کی نالی (یوریتھرا) کے اندرونی حصے، گلے میں پھنسی بیرونی چیزوں کو نکالنے اور کان کےء معانئے کے آلات کی ایجاد ہیں۔ان کی سب سے اچھی تصنیفات میں ان کی کتاب “الزہراوی” ہے جبکہ ان کی سب سے بڑی تصنیف “التصریف لمن عجز عن التالیف” ہے جو کہ کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر کئی بار شائع ہو چکی ہے۔الزہراوی صرف ماہر جراح ہی نہیں تھے بلکہ تجربہ کار طبیب بھی تھے، ان کی کتاب میں آنکھوں کے امراض، کان، حلق، دانت، مسوڑھے، زبان، عورتوں کے امراض، فنِ تولید، جبڑہ اور ہڈیوں کے ٹوٹنے پر تفصیلی ابواب موجود ہیں۔الزہراوی نے ناسور کے علاج کے لیے ایک آلہ دریافت کیا اور بہت سارے امراض کا استری سے علاج کیا، زہراوی وہ پہلے طبیب تھے جنہوں نے “ہیموفیلیا” نہ صرف دریافت کیا بلکہ اس کی تفصیل بھی لکھی۔زہراوی کا یورپ میں بڑا عظیم اثر رہا، ان کی کتب کا یورپ کی بہت ساری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور یورپ کی طبی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں، یورپ کے جراحوں نے ان سے خوب استفادہ کیا اور ان سے اقتباس بھی کیا، حتی کہ بعض اوقات بغیر حوالہ دیے ان کی دریافتیں اپنے نام منسوب کر لیں، ان کی کتاب “الزہراوی” پندرہویں صدی عیسوی کے شروع سے لے کر اٹھارویں صدی عیسوی کے اواخر تک یورپ کے اطباء کا واحد ریفرنس رہی۔ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگوں کی وجہ سے الزہرا کی تباہی کی وجہ سے اس کی زندگی کے متعلق زیادہ تفصیلات میسر نہیں ہیں ۔لیکن اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ ملحد نہیں تھے۔

31۔ ابن زہر خاندان طب و ادب، شعر و سیاست میں اندلس کے نابغۂ روزگار خاندانوں میں سے ایک ہے، یہ خاندان ابتدا میں جفن شاطبہ کے جنوب مشرقی علاقے میں رہا اور وہاں سے مختلف علاقوں میں پھیل گیا، اس خاندان کے لوگ مختلف ادوار میں طب، فقہ، شعر، ادب، ادارت اور وزارت کے اعلی مراتب پر فائز رہے، یہ سنی مسلمان اور مقلدفقہ مالکی تھے۔ان کی بنیا دی دلچسپیاں طب (میڈیسن)، فارمیسی، سرجری، علم طفیلیات (پیرا سائٹالوجی)تھے۔

32۔الحسن علاء الدین علی بن ابی الحزم” یا ابن النفیس یا کبھی کبھی قرش جو ماورائے نہر کا ایک شہر ہے کی نسبت سے قرشی کے نام سے جانے جاتے تھے، طبیب اور فلسفی تھے، دمشق میں 607 ہجری کو پیدا ہوئے، اور قاہرہ میں 687 ہجری کو وفات پائی۔ابن النفیس فزیشن (طبیب) ، اناٹومی، ماہر فزیالوجی، سرجری، ماہرامراض چشم، حافظ عالم الحدیث ، فقیہہ فقہ شافعی ، قانون دان، ماہر سنی علم الکلام ، اسلامی فلسفہ، منطق، عربی ناول نگاری، سائنس فکشن مصنف، سائنسدان، ماہراسلامی علم نفسیات، سوشیالوجی، آسٹرونومی (فلکیات) علم کائنات ،futurology ، ماہر ارضیات (جیولوجی) اور عربی گرائمرتھے۔ابن النفیس وہ پہلا فزیشن ہے جس نے پھیپھڑوں میں خون کے بہاؤ (پلمونری سرکولیشن) کو بیان کیا۔ انکی وجہ شہرت یہی دریافت تھی ۔ ابن النفیس کی شہرت صرف طب تک محدود نہ تھی، بلکہ وہ لغت، فلسفہ، فقہ اور حدیث کے اپنے زمانے کے بڑے علماء میں شمار کیے جاتے تھے، ان کی تصنیفات میں غیر طبی موضوعات پر بھی بہت ساری کتب ہیں جن میں کچھ قابلِ ذکر یہ ہیں: الرسالہ الکاملیہ فی السیرہ النبویہ اور فاضل بن ناطق۔انہوں نے اسلامی ماخذ مثلا حدیث پر ایک کتاب لکھی جو حدیث کے علم کی تقسیم بندی کا ایک بہتر اور مننظم نظام پیش کرتی ہے۔وہ فقہ شافعی کا مقلد تھے۔ ابن النفیس شراب کے استعمال سے سخت نفرت کرتا تھے اور انہوں نے اس کی مذہبی اور طبی وجوہات بیان کیں ۔تقویٰ رکھنے،سنت کی پیروی،ذہین فلسفے اور زبردست میڈیکل مہارتوں سے نفیس نے روایت پسندوں (Tradionalists) اور عقلیت پسندوں(Rationalists) سب کو متاثر کیا۔مشہور امام اابو حیان الغرناطی ابن النفیس کے شاگرد تھے۔

33۔امام غزالی کسی تعارف کا محتاج نہیں ، ماہر اسلامی علم المذاہب ، فلسفہ، علم کائنات (کاسمالوجی)، نفسیات تھا۔غزالی نے سائنس ، فلسفے ، نفسیات، خلا اور صوفی ازم پر 705 سے زیادہ کتابیں لکھیں۔ گیارہویں صدی عیسوی کی اس کی کتاب The incoherence of philosophers میں غزالی نے Skepticism کا اصول دریافت کیا۔ جس سے مغرب والے رینی ڈیکارٹ، جارج برکلے اور ہیوم تک متعارف نہ ہو سکے ۔

34۔ا لمسعودی کی بنیادی دلچسپیاں:تاریخ اور جغرافیہ(جیوگرافی) تھے۔اس کی مشہورتصنیفات مروج الذہب ومعدن الجواہر(The meadows of gold and mines of gems)،التنبیہہ والاشراف(Notification and review) ہیں۔مسعودی کو عربوں کا ہیرودوٹس اور پلینی کہا جاتا ہے ۔المسعودی پہلا انسان تھا جس نے تاریخ اور سائنسی جغرافیہ کو ایک بلند پایہ تصنیف میں مشترک کیاجس کا نام’’مروج الذہب و معدن الجواہر‘‘ ہے اور جسے آج Meadows of gold and mines of gemsکہا جاتا ہے۔تین سو جلدوں پر مشتمل اس کتاب میں مسعودی نے دنیا کی تاریخ اور اپنے ہندوستان سے یورپ تک کے سفروں کا حال بیان کیا۔۔سنی حضرات مسعودی پر اس کے شیعہ اور معتزلی اثرات کی وجہ سے یقین نہیں رکھتے۔ابن حجر اور الذہبی جیسے کئی سنی علماء نے اسے شیعہ اور معتزلی قرار دیا ۔ لیکن وہ ملحد یا سیکولر بالکل نہیں تھا۔

35۔ الرازی کے بنیادی کارنامے تیزاب مثلا گندھک کا تیزاب(سلفیورک ایسڈ ایجاد )کرنے ،چیچک(Smallpox) اور کالا کاکڑا(Chickenpox)پر تحقیقی کالم ہیں۔وہ بچوں کے امراض یا امراض اطفال(Pediatics)پر پہلی کتاب لکھنے والا (لہٰذا بانی علم امراض اطفال،آنکھوں کے امراض(Ophthalmology)کے بانیوں میں سے ایک،اس نامیاتی (آرگینک) اور غیر نامیاتی کیمیا(Inorganic chemistry) میں نمایاں کارنامے انجام دینے اور کئی فلسفیانہ کتب تصنیف کیںں۔ انسان,چیچک(Smallpox) کو خسرہ(Measles) سے الگ بیماری قرار دیا اور کئی کیمیکل مثلا الکحل اور مٹی کا تیل(کیروسین)دریافت کرنے والا پہلا آدمی تھا۔رازی کے مطابق ڈاکٹر کا مقصد یہ ہے کہ وہ دشمنوں اور دوستوں سب کے ساتھ بھلائی کا مظاہرہ کرےاس کا شعبہ اسے اس بات سے روکتا ہے کہ وہ کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچائے۔اللہ تعالیٰ نے ماہرین طب پر یہ فرض عائد کیا ہے کہ وہ باعثِ اذیت علاج نہ تجویز کریں۔

یہ تفصیل ظاہر کرتی ہے کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں میں سے کوئی بھی سیکولر یا ملحد نہیں تھا۔ مسعودی اور نصیرالدین طوسی شیعہ تھے اور کچھ لوگ جدت پسند تھے لیکن یہ سب وہ لوگ تھے جن کی تربیت اسلامی دنیا اور اس کی عظیم سائنسی ثقافت کے زیر اثر ہوئی اور یہ لوگ اسلامی دنیا میں مقیم اور اس کے براہ راست زیر اثر تھے ، اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدانوں کی اکثریت سنی مسلمانوں پہ مشتمل تھی اور تمام نامور سائنسدان مذہب سے وابستہ تھے اور ان میں سے کوئی بھی سیکولر یا ملحد نہیں تھا۔ سیکولر اور ملحد طبقے کا یہ اعتراض کہ اسلامی دنیا کے عظیم سائنسدان سیکولر اور ملحد تھے اور سائنس اور مذہب پرستی کا کوئی جوڑ نہیں، سفید جھوٹ ہے۔

استفادہ تحریر ڈاکٹر سید حسین نصر ، ترتیب و تدوین ڈاکٹر احید حسن