مبین قریشی
میں کون ہوں، کہاں سے آیا ہوں، مجھ میں خود شعوری کہاں سے آگئ جو خود ہی سے یہ سوالات پوچھ رہی ہے، میں کیوں ہوں، کب سے ہوں، اس زمین پر اس جسم کے مادی پیرھن میں مجھے کس نے ڈال دیا، میں زمان و مکان کے جس جز میں خود شعور ہوا ہوں اسکا انتخاب کس نے کیا، اپنے جیسے جن انسانوں کے توسل سے میں آج ہوں میرے واسطے انکا انتخاب کس نے کیا اور انکے واسطے میرا انتخاب کس نے کیا؟ میری پیدائش کے ساتھ ہی دودھ کیونکر پیدا ہوگیا تھا جو عین میرے منہ اور معدے کے موافق تھا۔ اس خاتون میں وہ جزبات کیسے پیدا ہوگئے جو میرے دکھ دور کرنے میں سکھ محسوس کرنے لگی، پہلے میں اس خاتون کے پیٹ میں تھا اور اب اس مرد و عورت کے دل و دماغ پر چھا کر انھیں اپنا خدمتگار بنا بیٹھا ہوں ۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا ، واللہ مجھے کچھ معلوم نہیں یہ کون کررہا تھا۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان میں وہ ضرورت ہی کیوں ابھری جسکی وجہ سے میں آج ہوں، میری خود شعوری سے بھی پہلے میرے اندر کم از کم وہ علم کہاں سے آگیا جو میرے ماحول کے مطابق میری طرف سے خوشی غم محبت غصہ اور حیرت وغیرہ کے رد عمل پیدا کرتا تھا؟۔
اس طرح کے جانے کتنے سوال ہیں جو میری روح ( خود شعوری) جو کہ اصل میں میں خود ہوں کو انکی تلاش ہے۔ میری خود شعوری مجھ پر واضح کرتی ہے کہ ان سب چیزوں جنھوں نے سوال پیدا کئے میں میرا اختیار و ارادہ موجود نہیں ہے۔ مجھے انکے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں، ماسواے اسکے کہ جب میری خود شعوری میں یہ سوالات اٹھنے شروع ہوے تو میں انکے اندر خود کو ایسے محسوس کررہا تھا جیسے ایک بے ہوش انسان ہوش میں آرہا ہو مگر وہ کہاں پر کس کے کہنے پر لایا گیا ہے اسکے متعلق کچھ بھی نہیں جانتا۔ مجھے کسی نے مادے کے اس بحر بے کنار سے پہلے اسی کے ایک جزو یعنی جنین نما قبر میں ڈال دیا گیا تھا۔ وہاں جانے مجھے زمان و مکان یعنی ماضی حال مستقبل اور لمبائ چوڑائ گہرائ احساس تھا بھی یا نہیں؟ مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں کون تھا اور بے ہوشی سے پہلے کہاں تھا۔ اگر جنین میں زمان و مکان کا یہ احساس مجھ میں تھا تو تو کیڑوں کی طرح زمین میں بل بنا کر رہنا میری فطرت کے موافق کیوں نہیں ؟ مجھے جیل سے ڈر کیوں محسوس ہوتا ہے؟ تنہائ کیوں مجھے ایک سزا محسوس ہوتی ہے؟ اگر زمان و مکان کا یہ شعور ہی موجود ناں تھا تو وہ زندگی کیسی تھی جس میں خوش و خرم ایک عرصہ میں نے گزار لیا؟ کچھ بھی یاد نہیں اور کچھ بھی معلوم نہیں کہ مجھ میں اس پیٹ نما دنیا میں رہتے ہوے اس سے موافقت اور وہاں سے اب اس دنیا میں آنے کے بعد اس سے موافقت کس نے پیدا کردی؟ کم از کم میرا اپنا اس میں کوئ کردار نہیں۔ کیا میں گمشدہ لاوارث ہوں ؟ مگر میں لاوارث نہیں ہوں کیونکہ مجھے واپسی کے سفر سے خوف آتا ہے۔ جب کچھ یاد ہی نہیں تو پھر خوف کیوں آتا ہے؟ کچھ نہیں پتہ ۔
اگرچہ میں آج تک خود کو دیکھ ناں سکا مگر میں اپنے لئے مادی پیرھن کے اندر خود کو محسوس کرتا ہوں۔ مجھے آج اتنا معلوم ہے ہوگیا ہے کہ یہ مادی پیرھن جیسا آج ہے یہ بھی میرے ڈی این اے پر لکھا ہوا موجود تھا۔ جانے یہ واردات کس نے ڈالی۔ میرا پیرھن اپنے اندر بہت سے داعیات رکھتا ہے اسلئے نامکمل ہے۔ مگر میرا ماحول اسے مکمل کردیتا ہے۔ مثلا میرے ساتھ کان لگے ہوے ہیں۔ ویسے تو انکی پوزیشن بھی کسی نے کیا سوچ کر رکھی ہے لیکن اگر خارج میں آواز پیدا ہوسکنے اور ان تک ٹکرا سکنے کا سامان ناں ہوتا تو یہ ہرگز کسی کام کے ناں تھے۔ میں جس کرے یا کمرے میں ہوں اسے اپنی کائنات میں دیکھوں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے بنتے ہوے مکان میں پہلے ایک کمرہ تیار کرکے مجھے اس میں منتقل کردیا ہے۔ باقی مکان ابھی زیر تعمیر ہے۔ لیکن اس نے مجھ مہمان کو کنسٹریکشن کے اس شور سے کیسا محفوظ رکھا کہ میرا کان میری ضرورت سے ذیادہ کچھ سننے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا، ورنہ میں اس کنسٹریکشن کے شور سے ہی پاگل ہوجاتا۔ آنکھیں کیسے دلچسپ مقام پر ہیں جو لمبائ چوڑائ اور گہرائ کے احساس کے لئے مناسب ترین مقام ہے۔ شکر ہے مجھے اپنے کمرے سے باہر کے کام کرتے مزدور نظر نہیں آتے ورنہ انکی موجودگی میری زاتی زندگی کو کیسا متاثر کرتی ۔ اور شکر ہے میں ضرورت سے ذیادہ کچھ نہیں دیکھ سکتا ورنہ میری آذادی سلب ہوکر رہ جاتی۔ مگر مجھے آذادی ایسی عزیز کیونکر ہوگئ ، اب تک تو سب کچھ میری آذادی اور مرضی کے بغیر ہی ہوتا چلا گیا۔ جیسا کچھ کان اور آنکھ کے متعلق ہے ویسا سب کچھ ہی میرے بدن کے باقی اعضاء کے متعلق بھی ہے۔ ہر ہر عضو اپنی زات میں ایک داعیہ رکھتے ہوے نامکمل ہے لیکن خارج میں اس داعیے کی تکمیل کا سامان موجود ہے۔ گویا صنوبر باغ میں آذاد بھی ہے اور پابہ گل بھی۔ زرا اپنے آپ سے باہر نکل کر اپنے کمرے کا جائزہ لوں تو کیسے ایک خودکار نظام کیساتھ یہ مزین نظر آتا ہے۔ اسکے جس جس جز پر نظر پڑتی ہے اس جز پر تحقیق کرو تو معلوم پڑتا ہے اسے کسی المصور ( ڈیزائنر) نے ایسا ڈیزائن کیا ہے کہ کوئ ایک ویری ایبل یا کونسٹنٹ بھی اپنے ڈیزائن سے حل جاے تو میں باقی ناں بچ سکوں۔ مثلا مجھے زندہ رہنے کے لئے پانی کی ضرورت تھی جو میرے میٹابولزم کی وجہ سے پیدا ہورہی تھی تو اسکا بندوبست کیسا شاندار ہے۔ گویا کسی سبیل پر گویا کوئ مگ بھر بھر کر اسے برتن میں میری آنکھوں کے سامنے انڈھیل رہا ہو۔ کہیں برف جما کر محفوظ کر رکھا ہے تو کہیں زمین کے سمندر جتنا بڑا سمندر میرے سر پر کھڑا کر رکھا ہے۔ سمندروں میں نمک ڈال کر آبی بخارات سے خود کار واٹر سائیکل چلا دیا ہے۔ میری فوڈ ویب ہی کیسی شاندار ہے جو میرے ڈائنگ ٹیبل سے ہوکر گزرتی ہے۔ میرے ماحول میں زرا سا بگاڑ بھی میری جان لے لے گا۔ کوئ ہے جو اسے تھامے ہوے ہے یا میں نے موت کے آغوش میں شعور کی آنکھ کھول دی ہے۔ ماضی پر نظر ڈالوں تو یہ ماحول خوف کی بجاے شکر پیدا کرتا ہے، حال پر نظر ڈالوں تو بھی خوف کی بجاے شکر کے جزبات ہی پیدا ہوتے ہیں۔کیونکہ خوف بھی خود سے کچھ نہیں ، یہ بھی کسی پہلے سے موجود عطیے کے چھن جانے کا احساس ہے۔
مگر اس سب کے بعد میں جب پھر سے اپنی جانب لوٹتا ہوں تو پھر وہی سوال کھڑا ہوجاتا ہے کہ کون ہے جسے مجھ میں ایسی دلچسپی ہے؟ مجھے آکر ان جوابات میں مت الجھاؤ کہ میرا کمرہ کتنا بڑا ہے یا دو دیواروں کے درمیان فاصلہ کتنا ہے؟ یہ انفارمیشن میرے سوالات کا جواب نہیں ۔ بلکہ یہ میرے سوالات کو مزید محکم کررہی ہے۔ مجھے اپنے مزکورہ بالا سارے سوالوں کا جواب چاہئے۔ سوالات ابھی اور بھی بہت سے ہیں جو مزید ان سوالوں سے پھوٹ رہے ہیں ۔ مگر کوئ انکا تو جواب دے۔
یہ وہ چند ایک سوالات تھے جو شعور کی ایک عمر گزارنے کے بعد مجھ میں پیدا ہورہے تھے۔ یہ وہ مقام تھا جہاں قرآن نے مجھے مطمئن کردیا۔ میرا ہر ہر کیوں اسکے بتاے ہوے مقدمے میں فٹ بیٹھتا چلا گیا۔ اب میری پیاس بجھ چکی ۔ میں کسی بھی ملحد کی طرح اب پیاسا نہیں رہا۔ جس چیز نے میری پیاس بجھائ وہی چیز اسکی پیاس بھی بجھا سکتی ہے۔ لیکن وہ ایک ایسے اسٹیٹ آف مائنڈ میں ہے جو کچھ سننا نہیں چاہتا۔ اسے جواب سے دلچسپی ہی نہیں ۔ اسے محض سوالات سے دلچسپی ہے۔ شائد اسے جواب پر مطمئن ہونے کے بعد کی اطاعت بوجھل لگتی ہے یا پھر سوالات کی بھرمار کی پوٹلی اٹھاے سفر کرنے سے وہ خود کو دانشور محسوس کرکے جھوٹی تسکین پاتا ہے۔ کسی نے بتایا تھا کہ وہ تشکیک کے بہت سے فضائل جانتا ہے جسکی وجہ سے جواب کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا۔ مگر جستجو اور تجسس تو میرے اندر بھی پہلے سے بہت ذیادہ ہے۔ ہم دونوں ہی بظاہر مسافر ہیں۔ فرق صرف جستجو اور تجسس کے ساتھ آوارہ گردی اور جستجو اور تجسس ہی کے ساتھ منزل کی جانب بڑھنے ہی کا ہے۔