زندگی کی معنویت/ مقصدیت- مختصرمگرجامع

************

خدا کے وجود کا انکار کرنے کے بعد اس کائنات اور انسانی زندگی کو معنی دینے کا کوئی فکری نظام انسان، جی ہاں ذہین سے ذہین انسان بھی آج تک وضع نہیں کرسکا۔ خدا کے انکار کا لازمی و قطعی نتیجہ انسانی زندگی کی لایعنیت کے سواء کچھ نہیں۔ آج جو لوگ عقل کے نام پر سائنس کے سہارے خدا کا انکار کرتے ہیں ان میں سے بھی کسی کے پاس زندگی کی معنویت کا کوئی تصور موجود نہیں۔ فرق بس یہ ہے کہ اپنے نفس کو اس لامعنویت پر دھوکہ دے کر راضی رکھنے کے لئے ان لوگوں نے چند سائنسی مقدمات کو ڈھال بنالیا ہے، یعنی ان لوگوں کے مقدمے کا حاصل اس کے سواء کچھ نہیں کہ انسانی زندگی لامعنوی ہی ہے اور اس کے لئے میرے پاس فلاں دلیل ہے اور فلاں۔

ڈاکٹر زاہد مغل

**************

جب اہل مذھب کہتے ہیں کہ خدا کے سواء اس کائنات و انسانی زندگی کو معنی دینے کی کوئی بنیاد موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ عملا ایسا کرنا کسی شخص کے لئے ناممکن ہوگیا ہے۔ مثلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ دیکھو مارکس خدا کو نہیں مانتا لیکن وہ پھر بھی زندگی میں معنی و ربط بتاتا ہے۔ اس ضمن میں اصل سوال یہ نہیں ہے کہ آیا ایک شخص “امر واقعہ” میں کوئی معنی تلاش کررہا ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ زندگی کو اس کی اصل میں آپ کیا مانتے ہیں؟ اھل مذھب کا ماننا ہے کہ زندگی کی تخلیق اپنی اصل میں معنی خیز ہے جبکہ مارکس سمیت سب ملحدین کا ماننا ہے کہ زندگی اپنی اصل کے اعتبار سے ایک بے معنی اتفاق کا نتیجہ ہے۔ تو جو شخص زندگی کو اپنی اصل میں بے معنی مانتا ہے اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس بے معنی چیز میں معنی تلاش کرنے کی بے معنی جستجو کو معنی خیز کہے؟ ایسے شخص کا حال اس شخص جیسا ہے جو اپنے دوست کو کہتا ہے کہ فلاں عمل کلیتا لغو ہے، لیکن چلو آؤ اسے سنجیدگی سے کھیلتے ہیں! بھائی جو ہے ہی لغو اسے سنجیدہ ہوکر معنی خیز بنانے کا کیا مطلب اور کیوں؟ پھر اس بے معنی جستجو کی کسی ایک تعبیر کے درست ہونے پر اصرار، یہ ظلمات بعضھا فوق بعض کی کیفیت ہے۔

چنانچہ جس طرح ہر شخص کے لئے “عملا” بہت سے لغو و غیر معقول اعمال سرانجام دینا ممکن ہوتا ہے، ایسے ہی غیر معقول اعمال میں سے ایک عمل خدا کا انکار کرنے کے بعد زندگی کو معنی خیز سمجھنے اور اس معنی کو حاصل کرنے کی سعی کرنا ہے۔ ایسا کرنے والے اپنے عمل سے اپنے نظرئیے کو جھٹلا رہے ہوتے ہیں کہ “زندگی حقیقتا بے معنی ہے”۔

ڈاکٹر زاہد مغل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

“یار یہ مولویوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ اب انہیں نئے سال کی مبارک دینے پر بھی بخار ہونے لگا؟ کوئی نئے سال کا جشن منا لے گا تو اس میں مولیوں کا کیا جاتا ہے؟”

“بھئی مولویوں کا تو کچھ نہیں جاتا لیکن اسلام کے مطابق یہ سب لغو رسومات، اسراف اور کفار کی مشابہت اختیار کرنا ہے۔ مولوی یہ بتا کر صرف اپنے نظریات سے وفا کرتے ہوئے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔”

“اففف! کس قدر قدامت پسند فکر ہے ان مولویوں کی۔ شکر ہے کہ میں ان کے جیسا نہیں اور شکر ہے کہ میں لبرل ہوں جدیدیت کو مانتا ہوں۔”

“اچھا تو تم جدیدیت سے متاثر ہو۔ تو جدیدیت کے مطابق تو زندگی ویسے ہی بےمقصد و بےمعنی چیز ہے۔ جدیدیت سے جنم لینے والے میٹافزکل فلسفوں کا تو سارا زور ہی اس بات پر ہے کہ زندگی حادثاتی طور پر پیدا ہوئی ہے لہذا یہ حقیقتا بےمقصد ہے اور اسے دیا گیا ہر مقصد سبجیکٹو ہے۔”

“ہاں! تو؟”

“تو پھر یہ کہ سال ختم ہونے پر جشن کیسا؟ تمہیں تو ماتم کرنا چاہیے کہ حادثاتی طور پر جو حیات تمہیں ملی تھی اس میں ایک سال اور کم ہوگیا، مر کر فنا ہوجانے کے اور قریب ہو گئے اور اگر تم absurdist ہو اور زندگی کو مصیبت مانتے ہو تو اس صورت میں مزید زندہ رہ کر جشن منانا اور بھی مضحکہ خیز عمل ہے۔ مسلمان تو پھر بھی موت کے بعد دائمی جنت پر ایمان رکھتا ہے، اگر وہ موت کے قریب آنے کا جشن منائے تو پھر بھی کوئی تک بنتی ہے۔ تم نے تو، اپنے نظریے کے مطابق، کیڑوں کی غذا ہی بننا ہے۔ تم کس بات کا جشن مناتے ہو؟”

“اففف! دفع ہو جاو میرے سامنے سے۔ مولوی کہیں کے۔۔۔”

ابو ابراھیم