آپ مجھ سے سوال پوچھیں کہ سامنے کھڑی گاڑی کس نے بنائی؟ اور میں آپ کو جواب دوں کہ دراصل پہلے انجن بنا پھر اس پر گاڑی کی باڈی سجای گئی اور پھر اس میں پہیئے شیشے لگا کر اسکی تزئین کی گئی.
اس جواب پر ممکن ہے آپ مجھیں ناگواری سے گھوریں ضرور، کہ بھائی سیدھا سا سوال تھا کہ گاڑی کس نے بنائی ، جواب دے دینا تھا کہ ٹویوٹا نے .. بات سمجھ آجاتی. یہ اتنی لمبی اور غیر متعلق تفصیل بتانے کی کیا ضرورت تھی ؟ کہ گاڑی ‘کیسے’ بنی ؟ یا اس میں کیا کیا اجزاء استمعال ہوئے؟ یہ تو سوال ہی نہ تھا. لہٰذا پوچھنے والا جواب سے محروم ہی رہے گا.
آپ مجھ سے دریافت کریں کہ تاج محل کس نے تعمیر کیا؟ اور میں پروفیسر انداز میں یہ جواب دینے لگوں کہ اسکی تعمیر میں پہلے اینٹیں لگائی گئیں، پھر کھڑکیاں دروازے بنے، پھر رنگ و روغن ہوا اور آخر میں باہر کا چبوترا بنایا گیا.
یقیناً آپ کو میرے اس احمقانہ جواب پر شدید کوفت ہوگی. آپ نے تو آسان سا سوال پوچھا تھا کہ تاج محل کس نے بنوایا یا بنایا؟ میرا جواب ہونا چاہیئے تھا کہ مغل بادشاہ شاہ جہاں نے اپنے کاریگروں سے اسے تعمیر کروایا تھا. بات مکمل ہوجاتی. اس تقریر کی قطعی کوئی حاجت نہ تھی کہ اسکی تعمیر میں کون سا کام پہلے اور کون سا بعد میں ہوا؟ اس نامناسب تفصیل سے یہی ہوا کہ سوال جوں کا توں باقی رہا.
ملحدین کا حال بھی کچھ اس سے زیادہ بہتر نہیں ہے. آپ ان سے پوچھیں کہ اس باشعور انسان کو کس نے تخلیق کیا؟ یہ فوراً ارتقاء سمیت دس نظریات پیش کردیں گے کہ تخلیق کا عمل کن مراحل سے گزرا. انہیں کوئی عقل دلائے کہ عقلمندوں ! انسان کی تخلیق کے مراحل جو بھی رہے ہوں ، سوال یہ نہیں ہے. سوال یہ ہے کہ تخلیق ‘کس’ نے کی؟
آپ ان سے دریافت کریں کہ اس عظیم کائنات کو ایسے بہترین نظم کے ساتھ کس نے پیدا کیا ؟ اور یہ جواب میں آپ کو بگ بینگ سمیت پچاس سائنسی تھیوریاں پیش کرنے لگیں گے کہ کائنات کی تخلیق میں کون کون سے مراحل گزرے ہیں؟ انہیں کوئی سمجھائے کہ زہین فلسفیوں سوال یہ نہیں ہے. تخلیق کائنات میں کتنا ہی وقت لگا ہو یا کتنے ہے مراحل گزرے ہوں. سوال یہ ہے کہ کون ہے جس نے بے جان بے شعور مادہ سے اس پر ہیبت کائنات کو تخلیق کردیا. اسمیں بے مثال نظم اور بے نظیر توازن پیدا کردیا؟
ہم پوچھ رہے ہیں کہ ‘کس’ نے بنایا ؟؟ ..
آپ فرما رہے ہیں کہ ‘کیسے’ بنا ؟؟ ..
سوال ہمارا گندم ہے ..
جواب آپ کا چنا ہے ..
حضرت اس نشہ سے نکلو ، یہ جان لو کہ سائنسدانوں اور دیگر ہر شعبہ کے ماہر کی عزت اپنی جگہ ضروری ہے مگر ہر فن اور علم کی اپنی حدود متعین ہیں. کوئی انسانی علم اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرسکتا. سائنس مادی علوم سے آگے نہیں دیکھ سکتی.
مادہ کہاں سے وجود میں آیا ؟
یا توانائی کون تخلیق کر گیا ؟
یا ایک بے جان مادہ کے ڈھیر سے جیتا جاگتا باشعور انسان کون نکال لایا ؟
یہ اور ایسے بیشمار سوالوں کے سامنے مادی علوم کے پر جلنے لگتے ہیں. سائنس کا کام ہے یہ بتانا کہ کوئی مخلوق ‘کیسے’ تخلیق ہوئی ؟ مگر ‘کیوں’ ہوئی اور ‘کس نے’ اسے تخلیق کیا ؟ یہ سوالات اس کی حدود سے باہر ہیں. اس کے لئے لامحالہ وحی کی جانب ہی دیکھنا ہوگا.
اپنی اور اپنے علم کی حدود کو پہچانو، یہ کیسی حماقت ہے کہ ایک چمچہ خود کو پلیٹ کہے، ایک بکری .. خود کو اونٹ سمجھنے لگے ، ایک اونٹ خود کو انسان گردانے اور ایک انسان خدائی کا دعویٰ کرنے لگے. اپنے آپ کو پہچاننے میں عافیت ہے. خود کو پہچان کر نکھارنے کی کوشش عقلمندی ہے.
تحریر :عظیم الرحمان عثمانی