چلو پھر عشق کرتے ہیں

انسان اپنے ہونے پر صرف حیاتیاتی اور جبلی سطح پر قانع نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے وجود، اور اس سے متعلق دوسرے افراد اور کائنات کے متعلق کچھ نہ کچھ رائے ضرور رکھتا ہے۔بعض اوقات یہ رائے خام صورت میں اس کے ذہن میں ہی کلبلاتی رہتی ہے ، وہ اسے اظہار کے سانچے میں منتقل نہیں کر سکتا۔ کچھ لوگ اپنی اس بنی ہوئی رائے کو علم اور دلائل سے بھی مزین کر لیتے ہیں اور یہ رائے بہرحال کچھ تعصبات بھی پیدا کرتی ہے ورنہ اس کی معنویت اور نتیجہ خیزی برقرار نہیں رہ سکتی۔

دو چار کتابیں دیکھنے اور اساتذہ کی نشستوں سے خوشہ چینی کے بعد اگر اسے ایسے غیر رسمی اساتذہ مل جائیں جو نہ صرف عالم، علم اور معلوم کے فرق کو جانتے ہوں بلکہ علوم کے مختلف شعبوں (Disciplines) کی علمیات سے بھی صاحب سلامت رکھتے ہوں تو بندہ ادھر ادھر کی آوارہ گردی کی بجائے جلد ہی ایک ایسے راستے پر چل نکلتا ہے جو بہرحال ایک ایسی سرگرمی پر منتج ہوتا ہے جسے ہم ”سوال اٹھانا”کہتے ہیں۔ یہاں تک پہنچنے کے لیے ریاضت اور لگن پہلی سیڑھی ہیں۔ مگر جیسے ہی وہ سوال اٹھانے کا ”اہل” ہو جاتا ہے تو بس سمجھیں اب اس کے کھیلنے کودنے کے دن تمام ہوئے۔اب اضطراب کی چلچلاتی دھوپ اس کے سر پر آ کھڑی ہوتی ہے اور اس کے قلب و دماغ کی دنیا اسے ایسے اَن دیکھے جزیروں کی طرف لے جاتی ہے جس کی بنیاد میں نارسائی پہلا پتھر ہے۔

بنی بنائی چیزیں قصہ پارینہ ہوتی ہیں اور اس کی جگہ تاریخِ فکر کے بڑے اذہان کے اٹھائے گئے سوالات اور جوابات اس کا مرکزِ نگاہ ٹھہرتے ہیں۔ بات یہیں تک رہے تو پھر مناسب ہے کہ علم کی تاریخ کو دہرایا جاتا رہے اور ژولیدہ خیالی کے ڈھول پر اضطراب کا رقص مسلسل رہے۔مگر نہ دنیا سادہ ہے اور نہ ہی حضرت انسان۔

اب بات آگے بڑھے گی اور سوالوں کی صلیبیں اٹھائے بہرحال اسے ایسی جگہ پہنچنا ہے جہاں مصلوب ہونا اس کا مقدر ٹھہرا دیا گیا ہے۔

کبھی اسے بتایا جائے گا کہ ”وہ تو صرف کلچر کی پیداوار ہے” اور پہلے سے چلے آتے اقداری نظام میں طے شدہ اچھا کردار مطلوب ہے اور تمام اقدار اضافی ہوتی ہیں۔ ابھی اس کو بندہ الٹ پلٹ ہی رہا ہوتا ہے کہ نیچے سے ایک اور چٹان سر اٹھاتی ہے کہ صاحب دنیا میں تو کوئی ”خالص علم” اور علمِ محض موجود ہی نہیں ، بس یہ تو ایسے ہی کہیں کانٹ صاحب کو غلطی لگ گئی۔ کوئی علم اور متن طاقت اور سیاست سے باہر نہیں ہوتا بلکہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔

چلیں اب مکمل کباڑا ہو گیا۔ یعنی دنیا میں کوئی بھی شخص متن نہیں لکھتا بلکہ” لکھت لکھتی ہے، لکھاری نہیں”۔

کردار و اخلاق نامی چڑیا سوشیالوجی والوں نے اپنے پھندے میں ڈال کر اس پر اضافت کی چادر ڈال دی اور علمِ محض نامی شے عنقا قرار پائی اور یہ فیصلہ ہوا کہ ہر علم طاقت اور سرمائے کا زائیدہ ہوتا ہے۔

سماج کی ساخت انسانی شے ہے تو لامحالہ انسان ایک آلے کے طور پر استعمال میں لائی جانے والی چیز ہے جس سے سرمائے میں بڑھوتری ہو سکتی ہے۔ تو صاحب اب مینجمنٹ کی تھیوریاں آپ کو ”ذرائع”(Resources) بنا دیں گی اور آپ کچھ عرصے میں ہی سمجھ جائیں گے کہ ”حصولِ لذت” ایک نادیدہ دیو ہے جس پر آپ ہوا میں تلوار بازی کر رہے ہیں اور تھکن سے چور چور کہیں فیضؔ صاحب کی ”لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجئے” گنگنانے لگتے ہیں۔

اب پیچھے کچھ باقی نہیں بچتا تو نفس کو سنوارنے والے آپ کی توجہ کو کھینچے ہیں ایک ایسی دنیا کی قیمت پر جو تجربے کی دنیا سے ماورا ہوتی ہے۔جی ٹھہرتا تو ہے مگر اس دیے پر کہ آندھیاں جس پر امڈی چلی آتی ہیں اور یہ دیا اپنی ہی بقاء کی جنگ میں اگلے بندے کو ایسے ہتھیار اور آلات فراہم کرنے سے قاصر رہتا ہے جو صرف فاتحین سے دستیاب ہوتے ہیں۔

جناب من!

سوال تو یہ ہے کہ کلچر کی پیداوار، اقدار کی اضافیت اور مینجمنٹ کا بندوبست؛ اب زندہ کیوں رہا جائے؟ زندگی کی معنویت کیا ہے؟ میرا وجود کیوں ہے؟

دھت تیرے کی !بات پھر وہیں کی وہیں ہے۔چلو دوبارہ سے عشق شروع کرتے ہیں!

زاہد سرفراز