الرازی کے مبینہ خلاف مذہب، قرآن اور پیغمبر تصورات اور ان کی حقیقت:
ملحدین و مستشرقین کے نزدیک قدیم اسلامی دور کا عظیم سائنسدان، ماہرِ طبیعیات، ہیئت دان اور فلسفی ابوبکر محمد بن زکریا الرازی(پیدائش: 854ء– وفات: 925ء) وحی اور مذہب مخالف خیال رکھتا تھا اور وہ ایک ملحد سائنسدان ی تھا۔ یہ لوگ اپنے اس دعوے کی تائید میں الرازی کے درج ذیل مبینہ قول نقل کرتے ہیں:
1۔”آپ لوگ کس بنیاد پہ یہ لازمی سمجھتے ہیں کہ خدا کچھ لوگوں کو باقی لوگوں سے افضل بنا کر انہیں انسانوں کی رہنمائی کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجے اور لوگوں کو ان پہ منحصر رکھے۔”
2۔ “(مذاہبِ کی وجہ سے) ایک عالمگیر تباہی ہوتی ہے اور آپس کی جنگوں میں کئی لوگ مارے جاتے ہیں جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں۔اگر لوگوں سے ان کے مذہب کے ثبوت کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ آگ بگولہ ہو جاتے ہیں اور ہر اس شخص کا قتل کر ڈالتے ہیں جو یہ سوال کرے۔وہ عقلی تصورات کو مسترد کرتے ہیں اور اپنے مخالفین کو قتل کر ڈالتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ سچائی خاموش اور خفیہ رہتی ہے۔کیاخدا لوگوں سے کہتا ہے کہ میرے لیے قربانی کرو؟ یہ الفاظ تو ( نعوذ باللہ) کسی حاجتمند کے لگتے ہیں۔”
3۔ “تم لوگ دعوی کرتے ہو کہ قرآن ایک معجزے کی صورت میں موجود ہے۔تم لوگ کہتے ہو کہ قرآن کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔ہم اس قرآن کے مقابلے میں تم کو ملحدین، فصیح و بلیغ مصنفین اور شاعروں کے کلام سے ہزاروں کلام بنا کر دکھا دیں گے جو اس قرآن سے زیادہ عمدہ انداز میں مسائل پہ بات کریں گے اور اپنا معنی زیادہ عمدہ انداز میں پیش کریں گے۔ خدا کی قسم ! تم جو کہتے ہو وہ ہمیں بہت حیران کرتا ہے۔تم ایک ایسی کتاب قرآن کو پیش کرتے ہو جو ( نعوذ باللہ) ماضی کے قصے کہانیاں بیان کرتا ہے اور جس میں بہت سے تضادات ہیں۔”
یہ وہ اقوال جن کے بارے میں معترضین دعوی کرتے ہیں کہ یہ الرازی نے خدا، مذہب ، قرآن اور پیغمبرانہ تعلیمات کے خلاف کہے۔ان کے بقول الرازی نے مذہب کے خلاف تین کتابیں لکھیں : مخارق الانبیاء (The Prophets’ Fraudulent Tricks) ، حیل المتنبیین (The Stratagems of Those Who Claim to Be Prophets)، آسمانی مذاہب کی تردید پر (On the Refutation of Revealed Religions) ان کے بقول الرازی کے مبینہ مذہب مخالف تصورات انہی کتابوں سے لیے گئے ہیں۔
جائزہ :
تاریخ میں الرازی کی تحقیقات کی سب سے پہلے جس شخص نے فہرست مرتب کی ہے وہ اسی کے زمانے کا فرد مشہور مسلمان سائنسدان البیرونی ہے ۔ اس کی مرتب کردہ الرازی کی کتابوں کی فہرست ” رسالہ فی الفہرست کتب الرازی “کے مطابق الرازی نے مذہب کے خلاف دو کتابیں لکھیں جو کہ “فی النبوت ( پیغمبروں پر) “اور “فی حیل المتنبیین ( جھوٹے پیغمبروں کے دھوکے)” ہیں۔البیرونی کے مطابق پہلی کتاب ‘ ‘فی النبوت ‘کے بارے میں دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب مذہب کے خلاف تھی اور دوسری کتاب ‘فی حیل المتنبیین ‘ کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ کتاب پیغمبروں کی ضرورت کے خلاف تھی(البیرونی کو اس بات کی تصدیق نہیں )۔ البیرونی الرازی کی اور تصانیف کا ذکر بھی کرتے ہیں جو مذہب کے بارے میں ہیں جیسا کہ’ فی وجوب دعوۃ النبی علی من نکارۃ بالنبوات'( یعنی پیغمبروں کو جھٹلانے والوں کے خلاف ان لوگوں کی زمہ داری جو پیغمبروں کی تعلیم عام کرتے ہیں) اور ” إن للعبد خالقا ( یعنی انسان کا ایک خالق ہے)
)Deuraseh, Nurdeng (2008). “Risalat Al-Biruni Fi Fihrist Kutub Al-Razi: A Comprehensive Bibliography of the Works of Abu Bakr Al-Rāzī (d. 313 A.h/925) and Al-Birūni (d. 443/1051)”. Journal of Aqidah and Islamic Thought. 9: 51–100.(
البیرونی اور الرازی کے زمانے میں 48 سال کا فرق ہے۔ الرازی 854ء میں موجودہ ایران کے شہر رے میں پیدا ہوا اور 925 ء یا 932ء میں رے میں ہی فوت ہوا جب کہ البیرونی 4 ستمبر 973ء کو خوارزم یعنی موجودہ ازبکستان میں پیدا ہوا اور 9 دسمبر 1048ء کو موجودہ افغانستان کے شہر غزنی میں فوت ہوا۔ کچھ مورخین جیسا کہ پال کراس (Paul Kraus) اور سارہ سٹرومسا (Sarah Stroumsa)کے بقول الرازی کے مذہب مخالف خیالات متعصب اسماعیلی( آغا خانی ) مبلغ ابو حاتم کی کتاب میں موجود ہیں اور یہ خیالات الرازی نے اپنی ابو حاتم سے اپنی ہونے والی بحث میں پیش کیے یا الرازی کی ایک ایسی تصنیف میں موجود تھے جو اب معدوم ہوچکی ہے ان کے بقول یہ معدوم کتاب” العلم الالہی” یا” مخارق الانبیاء “ہے ۔
)Sarah Stroumsa (1999). Freethinkers of Medieval Islam: Ibn Al-Rawandi, Abu Bakr Al-Razi and Their Impact on Islamic Thought. Brill(
)Kraus, P; Pines, S (1913–1938). “Al-Razi”. Encyclopedia of Islam. p. 1136.(
یہاں نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ البیرونی جنہوں نے الرازی کی تحقیقات کی پہلی فہرست مرتب کی اور وہ اسکے زمانے کے ہی آدمی ہیں انہوں نے ان کتابوں کا اپنی فہرست میں نام تک نہیں لیا بلکہ ان کتابوں جن کے متعلق یہ دعوی کیا جاتا تھا کہ یہ الرازی نے مذہب کے خلاف لکھیں ہیں میں ‘ فی النبوت ‘کا نام لیا ۔ بالفرض اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ الرازی کی تصنیف ‘مخارق الانبیاء ‘بھی تھی تو اس سے بھی وہ ثابت نہیں ہوتا جو معترض ثابت کرنا چاہتے ہیں ۔ عربی لفظ مخارق کا معنی اردو اور انگلش دونوں میں معجزہ اور خلاف عادت بنتا ہے نہ کہ دھوکہ۔ بعض معترضین کے بقول اسماعیلی فرقے کے شدت پسند مبلغ ابو حاتم کے شاگرد حامد الدین کرمانی( وفات 1020ء) نے اقوال الظاہبیہ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے الرازی کے ان تصورات کی تردید کی تھی۔
ابو حاتم اور اسکے شاگرد حامد کرمانی کے متعلق محققین کی رائے :
قاہرہ یونیورسٹی مصر میں اسلامی فلسفے کے پروفیسر عبدالطیف العبد کے مطابق ابو حاتم اور اس کا شاگرد حامد الدین کرمانی دونوں شدت پسند اسماعیلی فرقے کے مبلغ تھے جنہوں نے اپنی تصنیفات میں الرازی کے خیالات کو غلط انداز میں پیش کیا ۔عبدالطیف العبد کے بقول الرازی کے بارے میں ابو حاتم کے بیان کردہ خیالات خود الرازی کے ان مذہبی تصورات کے خلاف ہیں جن کو الرازی نے اپنی تصانیف جیسا کہ فی الطب الروحانی( روحانی علاج) میں پیش کیا ہے۔( عبد اللطيف محمد العبد، تحقيقه لکتاب، أخلاق الطبيب للرازاي، مکتبة دار التراث، القاهرة، 1977،ص 5)
اس نظریے کی تائید قدیم مورخ علامہ الشہرستانی نے بھی کی ہے کہ یہ الزامات مشکوک ہیں کیونکہ یہ اسماعیلیوں کی طرف سے لگائے گئے ہیں جنکو الرازی نے متعدد بار آڑھے ہاتھوں اور انکے عقائد کا علمی رد لکھا۔
)Seyyed Hossein Nasr, and Mehdi Amin Razavi, An Anthology of Philosophy in Persia, vol. 1, (New York: Oxford University Press, 1999), p. 353(
مغربی مفکر پیٹر ایڈمسن کے مطابق ابو حاتم نے شاید جان بوجھ کر الرازی کے خیالات کو غلط انداز میں پیش کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ الرازی مذہب اور اسلام دشمن تھا۔حقیقت یہ ہے کہ مذہب کے بارے میں الرازی کی کوئی تصنیف محفوظ نہیں اور یہ بالکل نہیں کہا جا سکتا کہ الرازی مذہب دشمن تھا۔ایڈمسن فخر الدین الرازی کی ایک تصنیف کا بھی حوالہ دیتا ہے جس میں الرازی قرآن و حدیث کے حوالے پیش کرتا ہے۔
)Marenbon, John (14 June 2012). The Oxford Handbook of Medieval Philosophy. Oxford University Press. pp. 69–70. ISBN 9780195379488.(
کچھ کے نزدیک کہ الرازی کے مبینہ خلاف مذہب ، پیغمبر اور قرآن خیالات کتاب اعلام النبوۃ سے لیے گئے ہیں جسکے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اسی اسماعیلی فرقے کے شدت پسند مبلغ ابو حاتم کی تصنیف ہے ۔ اس میں ابو حاتم ایک ملحد کی کتاب سے اقتباس پیش کرکے اس ملحد کی تردید کرتا ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ ملحد الرازی تھا جب کہ یہ بات تصدیق شدہ نہیں ہے کہ یہ ملحدانہ خیالات جن کی تردید ابو حاتم کرتا ہے وہ الرازی کے تھے یا ابو حاتم کی کتاب میں موجود لفظ ملحد سے مراد الرازی ہی ہے۔ کیونکہ اس کتاب میں ابو حاتم نے الرازی کا نام نہیں لکھا اور اس کتاب کا پہلا صفحہ بھی موجود نہیں ہے۔ چنانچہ آج تک اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے کہ یہ کتاب الرازی کے خلاف لکھی گئی تھی اور اس کتاب میں مذکور ملحدانہ خیالات الرازی کے تھے یا کسی اور شخص کے ۔ لہذا ابو حاتم کی اس کتاب سے کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ یہ ملحدانہ خیالات الرازی کے تھے اور ابو حاتم الرازی کی تردید کر رہا تھا۔
معترضین کی طرف سے پیش کردہ الرازی کی ایک اور مذہب مخالف کتاب تصنیف” فی تردید المذاہب ( مذہب کی تردید) کا بھی کوئی بھی غیر جانبدار اور مستند ثبوت موجود نہیں ہے اور نہ ہی اس کا البیرونی نے اپنی الرازی کی تصانیف کی فہرست میں تذکرہ کیا ہے۔
اسی طرح ایک اور کتاب جس کے متعلق یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ الرازی نے پیغمبر کے خلاف لکھی یعنی ‘ فی حیل المتنبیین یعنی جھوٹے پیغمبروں کے حیلے” اسکا بھی کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اگر اسکو الرازی کی کتاب مان بھی لیا جائے تو اس سے بھی یہ کسی صورت ثابت نہیں ہوتا کہ الرازی پیغمبروں کی تردید کر رہا تھا بلکہ کتاب کے نام سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے پیغمبری کے جھوٹے دعویداروں کے خلاف بول رہا تھا نہ کہ ابراہیمی مذاہب کے حقیقی پیغمبروں کے خلاف۔ البیرونی نے بھی الرازی کی ان دو مبینہ کتابوں کے متعلق بات کرتے ہوئے یہی لکھا کہ ‘انکے متعلق یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ مذہب کے خلاف لکھی گئیں ‘اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے خود البیرونی کو بھی اس بات کا ثبوت نہیں ملا کہ واقعی میں یہ کتابیں پیغمبر اور مذہب کے خلاف تھیں اس لیے وہ ” دعوی کیا جاتا ہے” کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔ راغب السرجانی کے مطابق بھی کتاب مخارق الانبیاء اور حیل المتنبیین جن کی نسبت الرازی کی طرف کی جاتی ہے ان سے منسوب کی گئی فرضی تصانیف ہیں اور ان کا نام کسی مسلم مصنف کی تصنیف میں موجود نہیں ہے۔ (قصة الإسلام، جديد، الاستشارات : الاستشارات لدکتور راغب السرجاني،سير أعلام النبلاء : الطبقة السابعة عشر: محمد بن زکريا: مسألة: الجزء الرابع عشر، ، 14/354) الرازی اور سینا نے اپنی ایک خط و کتابت کی بناء پر الرازی کو المانوی ( Manichaeism) خیالات سے متاثر قرار دیا گیاہے، اس طرح خود البیرونی اور ابن رشد نے بھی الرازی کے مذہبی اور فلسفیانہ خیالات پر تنقید کی ہے لیکن ان کی حیثیت کلامی ہے انکی بنیاد پر اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا جاسکتا نا کسی نے لگایا ۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ الرازی کے کئی مخالفین تھے جن سے اس کی بحثیں ہوتی تھیں۔ مثلا شہید ابن الحسین البلخی کے الرازی کے ساتھ کئی تنازعات تھے جن میں سے ایک مسرت اور خوشی کے نظریے پہ تھا ۔ابن التمر ایک طبیب تھا جس نے الرازی کی الطب الروحانی یعنی روحانی علاج کی تردید کی اور الرازی نے اس کی اس تردید کا جواب لکھا۔جریر نام کے ایک طبیب سے الرازی کا اختلاف تھا۔ الرازی کے مخالفین میں الکیال تھا جس کے امامت کے تصور کے خلاف الرازی نے ایک رسالہ لکھا۔اس طرح ایک شخص منصور بن طلحہ تھا جس نے وجود پہ ایک کتاب لکھی جس کی الرازی نے تردید کی تھی۔ محمد ابن الیث الرسائلی کی کیمیا دانوں کے خلاف ایک تصنیف کا الرازی نے جواب دیا۔ اس طرح الرازی کے مخالفین اور حریفوں میں احمد بن الطیب السرکشی اور کئی دیگر لوگ بھی موجود تھے۔۔مختصر یہ کہ الرازی کی ہر مکتبہ فکر معتزلہ، اسماعیلیوں، طبیبوں، متکلمین سے بحثیں رہتی تھی ان میں کئی متکلمین راسخ العقیدہ سنی مسلمان بھی تھے لیکن متعصب اسماعیلی مبلغ ابو حاتم کے سوا کسی نے یہ الزام نہیں لگایا کہ الرازی ملحد، بے دین یا مذہب دشمن ہے۔ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو اس وقت عراق و بغداد جو فقہ اور حدیث کے مرکز تھے،وہاں کے سنی علماء کسی صورت الرازی کے بارے میں خاموش نہ رہتے ۔ انکی کتابوں میں بھی کہیں نا کہیں اسکا رد ضرور ملتا۔
خلاصہ یہ کہ اس دعوی کہ الرازی نے خلاف پیغمبر اور خلاف مذہب مذکورہ کتابیں لکھیں ‘ محض ایک بہتان ہے اور اسکاایک بھی ایسا آزاد ثبوت نہیں ہے جس سے ثابت ہو کہ واقعی میں الرازی نے یہ کتابیں تصنیف کیں۔انکے برعکس الرازی نے “ان للعبدخالقا ( بیشک انسان کا ایک خالق موجود ہے)” اور “اسرار التنزیل فی التوحید ” ” فی وجوب دعوۃ النبوت”، ” الطب الروحانی ” کے نام سے کتابیں لکھیں جنکے نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ مذہب اور اسلام کے حق میں لکھی گئی ہیں۔ (سير أعلام النبلاء للذهبي – <ص: 354-355>undefined الناشر مؤسسة الرسالة سنة النشر: 1422هـ / 2001)
تحریر ڈاکٹر احید حسن